مومن کی آبروریزی کرنا

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 06/10/2022 723

مومن کی آبروریزی چاہے وہ جس طرح بھی ہو، چاہے ہنسی آڑانے سے یا گالی دینے سے اور بُرا بھلا کہنے سے یا عیب بیان کرنے سے یا ڈانٹ پھٹکار اور ملامت سے یا ذلیل کرنے سے، بے قدری کرنے سے، توہین کرنے سے یا ہجو کرنے سے اور اس کو آزار پہنچانے سے ہو ایسا گناہ کبیرہ ہے جس کے لیے خداوندعالم نے عذاب کا وعدہ کیا ہے۔ امام جعفر صادق ع سے روایت ہے:

کوئی شخص کسی مومن کے خلاف ایک مطلب نقل کرے جس سے مراد اس کے عیوب ظاہر کرنے ہوں یا لوگوں کے درمیان اس کی آبرو ریزی کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی سرپرستی اور یاری سے محروم کر دیتا ہے اور شیطان کی سرپرستی پر چھوڑ دیتا ہے۔ (اصول کافی)

مومن باعزت ہوتا ہے

مومن کی شان میں جو آیتیں اور روایتیں ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی شان اور شرافت میں خدا نے غیر معمولی اہتمام کیا ہے کہ اسے تمام محترم چیزوں سے زیادہ محترم اور اس کی آبروریزی کو بہت بڑا گناہ اور اس کا خون بہانے کے مانند شمار کیا ہے اور اسے اپنے آپ سے وابستہ سمجھ کر فرمایا ہے:

  • اللہ ان لوگوں کا ولی ہے جو ایمان لائے ہیں۔ [ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟] (البقرة ۔ 257)
  • اور اپنے آپ کو ان کا دوست اور مددگار بنایا ہے۔ [ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ مَوْلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟] (محمد ۔ 11)
  • اور مومنوں کی مدد اپنے اوپر واجب کر لی ہے۔ [وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ] (روم ۔ 48)
  • اسے حقیقی عزت دے کر اپنے اور اپنے پیغمبر کے پیچھے رکھا۔ [وَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِۦ وَلِلْمُؤْمِنِينَ] (منافقون - 8)
  • اسے بہترین اور سب سے اونچا انسان سمجھتا ہے۔ [إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أُو۟لَـٰٓئِكَ هُمْ خَيْرُ ٱلْبَرِيَّةِ] (بیّنہ - 7)
  • اور اپنے اشرف المخلوقات یعنی حضرت خاتم الانبیاء کو ان کے ساتھ عاجزی اور نرمی سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ [وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ ٱتَّبَعَكَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ] (الشعراء - 215)
  • اپنی رحمت ان کے لیے واجب کر دی ہے۔ [وَإِذَا جَآءَكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِـَٔايَـٰتِنَا فَقُلْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَ] (انعام – 56) [وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۔ ۔ ۔ أُو۟لَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُ] (توبہ - 71)
  • اپنے آپ کو ان کی جان اور مال کا خریدار کہا ہے۔ [إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ] (توبہ - 111)
  • انہیں پسند کرتا ہے اور وہ بھی خدا کو سب سے زیادہ دوست رکھتے ہیں۔ [يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِۦ فَسَوْفَ يَأْتِى ٱللَّهُ بِقَوْمٍۢ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُۥ] (مائدہ – 54) [وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّۭا لِّلَّهِ] (بقرہ - 165)

غرض خدا سے مومن کی نسبت اور وابستگی ظاہر ہے۔ آنحضرت ص کی روایت میں اس پر طعنہ زنی اور اس کی بات کی کاٹ خدا کی بات کی کاٹ بتائی گئی ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب 159) امام موسیٰ کاظم ع نے فرمایا:

خدا کی قسم مومن کا حق کعبے کے حق سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ (سفینة البحار جلد 1)

1. مذاق اُڑانا

کسی شخص کی گفتگو یا عمل یا خصوصیت یا عادت اس طرح بیان کرنا جس سے دوسروں کو ہنسی آ جائے۔ اب یہ چاہے گفتگو سے ہو یا عمل سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے اس کے گناہ کبیرہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے, کیونکہ قرآن مجید اور روایتوں میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

ٱلَّذِينَ يَلْمِزُونَ ٱلْمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَـٰتِ وَٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ ٱللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (توبہ ۔ 79)
جولوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے  انہی کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اس آیت کی شان نزول میں بہت سی روایتیں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ تبوک کی لڑائی میں رسول خدا نے اسلام کی فوج کے اخراجات کے لیے حکم دیا کہ جو کوئی جتنا دے سکتا ہو دے۔ بعض مالدار بہت سا مال لائے اور بعض مفلسوں نے جن کے پاس کم تھا, کم دیا۔ چنانچہ ابوعقیل انصاری تقریباً پونے دو سیر کھجوریں لائے اور بولے, میں نے گذشتہ رات کو صبح تک کام کیا جس کی مزدوری مجھے ساڑھے تین سیر کھجوریں ملی تھیں۔ آدھی میں نے اپنے بچوں کے لیے چھوڑ دیں اور آدھی خدا کی راہ میں دے دیں۔ منافقوں نے دونوں باتوں کی ہنسی اُڑائی اور دونوں میں عیب نکالا۔ جنہوں نے زیادہ مال دیا ان کے لیے کہتے تھے کہ دھوکا اور ریا ہے اور اتنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے دیا ہے, اور جنہوں نے کم دیا تھا ان کے لیے کہتے تھے کہ انہوں نے کچھ صدقہ اس لیے دے دیا ہے کہ خیرات کرنے والوں میں شامل ہو جائیں اور لوگوں کو اپنی یاد دلائیں۔
مومنوں کی ہنسی اُڑانے والوں کی سزا ایک تو ان کے ساتھ خدا کا مذاق ہے اور دوسرے جہنم ہے جو ان کی جائے قرار ہے۔ اللہ کے مذاق سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں کچھ باتیں کہی گئی ہیں مثلاً خدا ہنسی اُڑانے والوں کو دُنیا میں مہلت دیتا ہے اور نازونعمت میں مشغول رکھتا ہے جب ان کی سرکشی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو انہیں ہلاک کر دیتا ہے اور یہ بات اس لیے مذاق بن جاتی ہے کہ یہ مہلت اور نازو نعمت ہوتی ہے لیکن حقیقت میں ہلاکت ہوتی ہے اور یہ آخرت کا مذاق اس لیے ہے کہ جب مومنین بہشت میں اپنے اپنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور کافر دوزخ میں پڑے ہوں گے اس وقت خدا کے حکم سے بہشت کی طرف دوزخ کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ جب منافق بہشت کو دیکھیں گے تو بہت پھرتی سے اس کے دروازے تک پہنچیں گے اور بہشتیوں کو عالی شان مقامات پر بیٹھا پائیں گے, لیکن جیسے ہی بہشت میں داخل ہونا چاہیں گے فوراً دروازہ بند ہو جائے گا, اور مومنین ان پر ہنس پڑیں گے۔ دُنیا میں ان کے ہنسی اُڑانے کا یہ جواب ہو گا۔

آج مومنین کافروں پر ہنسیں گے

خدا فرماتا ہے:

إِنَّ ٱلَّذِينَ أَجْرَمُوا۟ كَانُوا۟ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يَضْحَكُونَ ٢٩ وَإِذَا مَرُّوا۟ بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ ٣٠ وَإِذَا ٱنقَلَبُوٓا۟ إِلَىٰٓ أَهْلِهِمُ ٱنقَلَبُوا۟ فَكِهِينَ (مطففین, 29-31)
گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے. اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کرتے اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے.

پھر فرماتا ہے:

فَٱلْيَوْمَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنَ ٱلْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ ٣٤ عَلَى ٱلْأَرَآئِكِ يَنظُرُونَ ٣٥ هَلْ ثُوِّبَ ٱلْكُفَّارُ مَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ (مطففین, 34-36)
پس آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے. تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے. کہ اب ان کافروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پالیا.

شاید وہ لوگ بہتر ہوں

خدا سورة حجرات میں فرماتا ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌۭ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُونُوا۟ خَيْرًۭا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌۭ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُنَّ خَيْرًۭا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا۟ بِٱلْأَلْقَـٰبِ ۖ بِئْسَ ٱلِٱسْمُ ٱلْفُسُوقُ بَعْدَ ٱلْإِيمَـٰنِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ (حجرات – 11)
اے ایمان والو! تمہارا ایک گروہ دوسرے گروہ کی ہنسی نہ اُڑائے ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے یہ ان سے بہتر ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ  اور نہ کسی کو برے لقب دو, ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں

تفسیر مجمع البیان میں بیان کیا گیا ہے کہ ثابت بن قیس جب پیغمبر کی مجلس میں آتے تھے تو اصحاب ان کے اونچا سننے کی وجہ سے انہیں رسول خدا کے قریب ہی جگہ دے دیتے تھے تاکہ آنحضرتؐ کی باتیں سُن لیں۔ ایک دن صبح کی نماز کے لیے وہ آخری صف میں جا کھڑے ہوئے۔ نماز کے بعد اٹھے اور لوگوں پر پاؤں رکھتے ہوئے جا رہے تھے کہ ان کے اور پیغمبر کے درمیان صرف ایک آدمی کا فاصلہ رہ گیا۔ انہوں نے اس شخص سے کہا کہ ہٹ جاؤ تاکہ میں رسول خدا کے قریب بیٹھ سکوں۔ اس شخص نے کہا: وہیں بیٹھ جاؤ۔ ثابت خفا ہو کر وہیں بیٹھ گئے۔ جب اجالا ہوا تو ثابت نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا: تُو کون ہے؟ اُس نے کہا میں میں فلاں ہوں۔ ثابت نے کہا فلاں ولد فلانی۔ اور اس کی ماں کا نام لیا جو اسلام سے پہلے زنا اور عیاشی کے لیے بدنام تھی۔ وہ شخص اس ملامت سے شرمندہ ہو گیا اس نے سر جھکا لیا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی۔
ولانساء من نساء کے بارے میں لکھا ہے, انس کہتے ہیں کہ ایک دن ام سلمہ نے کمر سے سفید ازار باندھ رکھی تھی اور اس کا سر پیٹھ کے پیچھے چھوڑ رکھا تھا جو زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔ عائشہ کو مذاق سوجھا تو حفصہ سے کہا: ازارکا جو سرا ام سلمہ اپنے پیچھے گھسیٹ رہی ہیں وہ ایسے لگتا ہے جیسے کتے کی زبان منہ سے باہر نکلی ہوئی ہو۔
نیز پیغمبرؐ کی بیوی، حی بن اخطب کی بیٹی صفیہ کو بھی ملامت کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ, اے یہودی کی اولاد۔

2. گالی اور طعنا

فقہاء کی بول چال میں زنا اور حرام زادگی کی نسبت کو قذف کہتے ہیں اور دوسری بُری نسبتوں کو گالی کہتے ہیں۔ مثلاً اے سود کھانے والے، شرابی، ملعون، بے ایمان، کنجر، کتے، اے سور، گناہگار، بدکار وغیرہ جن سے مخاطب کو ذلیل وخوار کرنا مراد ہوتا ہے۔ محقق بزرگوار مرحوم میرزا محمد تقی شیرازی مکاسب کے حاشیے میں لکھتے ہیں: روایتوں کے مطابق فحش (گالی) حرام ہے چاہے جس کسی کو دی جائے چاہے وہ مسلمان اور مومن ہو یا کافر اور گناہگار (فاسق)، چھوٹا ہو یا بڑا بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ چاہے بچّہ اور بے شعور ہو بلکہ بعض روایتوں میں تو جانوروں کو بھی بُرا بھلا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

مومن کو گالی دینا فسق (گناہ) ہے، اس سے لڑنا کفر اور اس کا گوشت کھانا (غیبت کرنا) گناہ ہے، اور اس کا مال اس کے خون کی طرح حرام رکھا گیا ہے۔ (کافی)

علّامہ مجلسی رح اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں, یہاں فسق کے معنی گناہ کبیرہ کے ہیں جو کفر کے قریب ہوتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گالی دینے کا گناہ غیبت سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ مومن کو غیبت کے مقابلے میں گالی سے زیادہ تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ گالی میں تکلیف منہ پر اور غیبت میں تکلیف پیٹھ پیچھے ہوتی ہے۔ امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

جو شخص مومن کے منہ پر اسے طعنہ دے گا وہ بدترین موت پائے گا اور اس بات کا مستحق ہو گا کہ پھر نیکی کی طرف نہ پلٹے۔ (کافی)

مجلسی علیہ الرحمہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہیں کہ بدترین موت یا دُنیا کے لحاظ سے مثلاً ڈوبنا یا جلنا یا عمارت کے تلے دب جانا یا جانور کی خوراک بن جانا وغیرہ یا آخرت کے لحاظ سے ہے مثلاً یہ کہ کافر مرے یا توبہ کیے بغیر اس دُنیا سے رخصت ہو جائے اور نیکی سے مراد توبہ اور نیک عمل یا ایمان ہے۔

بدزبان پر بہشت حرام ہے

رسول خداؐ فرماتے ہیں:

واقعی خدا نے ہر ایسے بے آبرو گالی دینے والے اور بے شرم پر بہشت حرام کر دی ہے جسے اس بات میں کوئی جھجھک ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کہتا ہے اور اس سے کیا کہا جائے گا کیونکہ درحقیقت اگر اس کی تحقیق کی جائے تو یا تو یہ زنا سے ہے یا اس میں شیطان شریک ہے۔ عرض کیا گیا: اے رسول خدا ! آدمیوں کے بیچ میں شیطان بھی شریک ہوتا ہے؟  آپ نے فرمایا: کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں پڑھا کہ, ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ ۔ [وَشَارِكْهُمْ فِى ٱلْأَمْوَٰلِ وَٱلْأَوْلَـٰدِ ۞ الاسراء ۔ 64] (کافی۔ باب البذاء)

سماعہ کہتا ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق ع کے پاس گیا۔ آپ نے مجھ سے بات شروع کی: اے سماعہ! یہ کیا جھگڑا تھا جو تیرے اور تیرے اونٹ والے کے درمیان کھڑا ہو گیا ایسا نہ ہو کہ تُو گالی بکنے والا، بدزبان اور لعنت بھیجنے والا بن جائے۔ مَیں نے جواب میں کہا: خدا کی قسم ایسا ہی ہوا کیونکہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: اگر اس نے تجھ پر ظلم کیا تھا تو تُو بھی اس کے سر پڑ گیا اور تُو نے زیادہ ظلم کیا۔ واقعی یہ ہمارا عمل نہیں ہے۔ مَیں اپنے شیعوں کو ایسا حکم نہیں دوں گا۔ اپنے پروردگار سے معافی مانگ اور پھر ایسا نہ کرنا۔ (کافی)
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:

جو کوئی کسی مومن کو ایک لفظ سے بھی طعنہ دے گا، بُرا کہے گا خدا اس پر بہشت کی خوشبو حرام کر دے گا حالانکہ بہشت کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلے سے آتی ہے۔ (مستدرک کتاب حج باب 139)

یہاں دو باتیں کہنا ضروری ہیں ایک یہ کہ جب کسی مومن کو گالی دی گئی تو چونکہ اس کو دکھ پہنچایا گیا اس لیے آخرت کے عذاب اور سزا کے علاوہ اس مومن کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ حاکم شرع سے گالی دینے والے کی شکایت کرے تاکہ وہ جس طرح مناسب سمجھے اسے سزا دے۔ اب اگر گالی دینے والا جس کو گالی دیتا ہے اگر اس سے معافی مانگ لیتا ہے اور اسے منا لیتا ہے تو سزا ساقط ہو جاتی ہے دوسرے یہ کہ اگر اس گناہ پر شرمندہ ہو جائے اور خدا سے بھی معافی مانگ لے تو اس سے عذاب آخرت بھی اُٹھ جائے گا۔ امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

گالی گلوچ اور بدزبانی ظلم ہے اور ظالم جہنم کا مستحق ہے۔ (کافی)

کبھی کبھی مظلوم بھی ظالم ہو جاتا ہے

امام موسیٰ کاظم ع نے ایسے دو آدمیوں کے بارے میں جو ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں فرمایا ہے:

جو شروع میں گالی دیتا ہے وہ زیادہ ظالم ہے اور اپنا اور دوسرے کا گناہ اسی کی گردن پر ہے, جب تک مظلوم یعنی دوسرا فریق حد سے نہ گذر جائے (کافی)

اس حدیث کی تشریح میں علّامہ مجلسی علیہ الرحمہ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں شخصوں کی گالیوں کا گناہ اس شخص کے ذمّے ہے جس نے ابتداء میں گالی دہے کیونکہ حرام فعل پہلے اسی سے سرزد ہوا ہے اور دوسرے فریق کے ارتکاب گناہ کا باعث بھی یہی بنا ہے۔ اگر وہ گالی نہ دیتا تو دوسرا فریق بھی خاموش رہتا۔ جواب میں دوسرے فریق کی گالی اگرچہ گناہ کی تلافی ہے لیکن خدا نے وہ گناہ ابتداء کرنے والے کے ذمّے ہی رکھا ہے بشرطیکہ فریق ثانی حد سے تجاوز نہ کرے اور اگر وہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو اپنی زیادتی کی وجہ سے وہ خود گالی کی ابتداء کرنے والا بن جاتا ہے۔

دوسروں کے مقدسات کے توہین

دنیا کی کسی قوم کے دینی مقدسات کو گالی دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس قوم کا گالی سُننے والا کوئی فرد پلٹ کر دین الہٰی کے مقدسات کو گالی دے سکتا ہے اس وقت گناہ گالی کی ابتداء کرنے والے کے ذمّے ہو گا یہی وجہ ہے کہ سورة انعام میں اس بات سے صاف صاف منع فرمایا گیا ہے:

وَلَا تَسُبُّوا۟ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّوا۟ ٱللَّهَ عَدْوًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍۢ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ (انعام ۔ 108)
اور گالی مت دو ان کو جن کی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہیں کیونکہ پھر وه بے سمجھے حد سے گزر کر اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں گے  ہم نے اسی طرح ہر طریقہ والوں کو ان کا عمل مرغوب بنا رکھا ہے۔ پھر اپنے رب ہی کے پاس ان کو جانا ہے سو وه ان کو بتلا دے گا جو کچھ بھی وه کیا کرتے تھے

3. مومن کو ذلیل اور بے وقار کرنا

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

جو کوئی حاجت مند یا غیر حاجت مند مومن کو ذلیل سمجھے گا خدا اسے اس وقت تک ذلیل اور دشمن سمجھے گا جب تک کہ وہ اس مومن کو ذلیل سمجھنے سے باز نہیں آ جاتا۔
جب قیامت کا دن آئے گا تو منادی آواز دے گا کہ میرے دوستوں سے منہ پھیرنے والے کہاں ہیں؟ اس پر کچھ ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے جن کے چہروں پر گوشت نہیں ہو گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مومنوں کو ستایا، ان کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے، ان سے دشمنی برتی اور ان کے دین کے باعث ان پر سختی کی۔ اس کے بعد حکم دیا جائے گا کہ انہیں دوزخ میں ڈال دو۔ (کافی)

ابوہارون کہتا ہے کہ میں امام جعفر صادق ع کی مجلس میں حاضر تھا جب حضرت نے حاضرین سے فرمایا: تم ہمیں کیوں ذلیل کرتے ہوں؟ اس پر ایک خراسانی شخص کھڑا ہوا اور بولا: خدا ہمیں اس بات سے پناہ میں رکھے کہ ہم آپ کو یا آپ سے متعلق کسی چیز کو بھی ذلیل کریں۔ آپ نے فرمایا: ہاں ہاں واقعی تو خود مجھے ذلیل کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ اس نے کہا: خدا کی پناہ جو میں نے کبھی آپ کو ذلیل کیا ہو۔ آپ نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے کیا ایسا نہیں ہوا کہ جب ہم لوگ جعفہ کے نزدیک تھے تو ایک شخص نے تجھ سے درخواست کی تھی کہ اسے میل بھر کے لیے سوار کر لے اور کہا تھا کہ خدا کی قسم میں پیدل چلتے چلتے تھک گیا ہوں اور عاجز آ چکا ہوں لیکن تو نے سر اُٹھا کر نہیں دیکھا اور اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ تُو نے اسے بے شک حقیر جانا اور مومن کو حقیر جاننے والے نے مجھے ذلیل کیا اور خدا کی عزت کھو دی۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب 18)

4. مومن کو بُرا بھلا کہنا اور رسوا کرنا

پیغمبر اکرم ص نے فرمایا:

اے وہ لوگو! جو زبان سے تو اسلام لائے ہو لیکن تمہارے دلوں میں ابھی ایمان نے جڑ نہیں پکڑی ہے مسلمانوں کو جھڑکیاں نہ دو اور ان کی عیب جوئی نہ کرو کیونکہ جو کوئی ان کی عیب جوئی کرے گا خدا اس کی عیب جوئی کرے گا اور جس کی خدا عیب جوئی کرے گا اسے رسوا بھی کر دے گا چاہے وہ اپنے گھر میں ہی رہتا ہو۔ (کافی باب الایمان والکفر)
جو کوئی اپنے بھائی کی عیب جوئی اور اس کے چھپے ہوئے عیب کو ظاہر کرنے کی خاطر سفر کرے گا وہ اس راہ میں جو اپنا پہلا قدم اٹھائے گا وہ دوزخ میں رکھے گا اور خدا اسے قیامت میں سب لوگوں کے سامنے رسوا کرے گا اور اس کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دے گا۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب 152)
جو کوئی کسی بُرے کام کا پردہ کھولتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے وہ کام کیا ہے اور جو کوئی کسی مومن کو کسی بات پر بُرابھلا کہے گا وہ اپنے مرنے سے پہلے خود بھی اس بات کا مرتکب ہو گا۔ (کافی)

امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہماالسلام فرماتے ہیں:

وہ طریقہ جو انسان کو کفر کے نزدیک پہنچا دیتا ہے یہ ہے کہ اپنے کسی دینی بھائی کے ساتھ ساتھ رہے اور اس کی غلطیاں اور خطائیں جمع کرتا جائے اور پھر ایک دن ان کی وجہ سے اسے سخت سست کہے۔ (کافی کتاب الایمان والکفر)

واضح رہے کہ ملامت کرنے کا حرام ہونا نہی از منکر کے خلاف نہیں کیونکہ دراصل نہی از منکر نصیحت اور ہمدردی ہے۔ امام جعفر صادق ع نے فرمایا:

جو شخص کسی مومن کو برا بھلا کہے گا خدا اسے دنیا اور آخرت میں ملامت کرے گا۔ (کافی)
جو کوئی کسی مومن کے خلاف کوئی حکایت بیان کرے گا تاکہ اسے گندہ کرے اور اس کی آبرریزی کرے خدا اسے ایسی جگہ رکھے گا جہاں جہنم کا خون، پیپ ہو گا۔
جس کسی کو کسی مومن کا کوئی گناہ معلوم ہو اور وہ اسے چھپانے کے بجائے ظاہر کر دے اور اس مومن کی بخشش کے لیے دعا نہ کرے وہ شخص خدا کے نزدیک اسی کے برابر گناہگار ہوتا ہے اور اس کے گناہ کی ذمہ داری بھی اسی کے سر آ جاتی ہے اور گناہ کرنے والا بخشا جاتا ہے کیونکہ دنیا میں اس کا بدنام اور رسوا ہونا ہی اس کا کفارہ بن جاتا ہے پھر آخرت میں اس کی رسوائی نہیں ہوتی چونکہ خدا کریم ہے وہ ایک گناہ پر بندے کو دو مرتبہ سزا نہیں دے سکتا اور نہ دو مرتبہ رسوا کر سکتا ہے۔ (مستدرک کتاب حج باب 137)
جو کوئی ایسی حکایت بیان کرتا ہے جو کسی مومن کو نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے گندہ کرے اور آبروریزی کرے جس سے وہ لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل ہو جائے خدا اسے اپنے آپ سے بے تعلق کر کے شیطان کی طرف دھکیل دے گا لیکن شیطان بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔ (کافی باب الروایہ علی المومن)

یہاں شاید شیطان کا اس کو قبول نہ کرنا یہ ہو کہ شیطان کی غرض انسان کی گمراہی اور ہلاکت اور خدا سے اس کا جدا ہونا ہے اور چونکہ اس کا یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے اس لیے اب اس سے کوئی غرض باقی نہیں رہی اور وہ اس سے دُور رہنا چاہے۔

محمد بن فضیل نے حضرت امام موسیٰ کاظم ع سے عرض کیا: قربان جاؤں! میں اپنے دینی بھائی کی کوئی ایسی بات سنتا ہوں جو بُری ہے اور لوگوں کو ناگوار گذرتی ہے اس کے بعد میں اپنے بھائی سے پوچھتا ہوں کہ میں نے تیری بات سُنی ہے کیا یہ سچ ہے؟ تو وہ انکار کر دیتا ہے حالانکہ مجھے جن لوگوں نے اطلاع دی تھی وہ معتبر اور ثقہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: اے محمد! اپنے بھائی کے بارے میں اپنے آنکھ اور کان کو جھوٹا سمجھ یعنی یہ کہہ کہ میری آنکھ اور میرے کان نے غلط دیکھا اور غلط سنا۔ اگر پچاس اشخاص بھی تیرے بھائی کے بارے میں کوئی بات کہیں اور وہ انکار کرے تو اپنے بھائی کو ہی سچا سمجھ اور انہیں جھٹلا یعنی یہ کہہ کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور وہ بات ظاہر نہ کر جس کی وجہ سے تو اسے برا، داغدار اور بے آبرو کر سکتا ہے کیونکہ اگر تو ایسا کرے گا تو تیرا شمار ان لوگوں میں ہو گا جن کے بارے میں خدا نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو مومنوں میں سے کسی مومن کے بُرے کام کو ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب 157)

5. مومن کی ہجو شعر یا نثر میں

شیخ انصاری علیہ الرحمة فرماتے ہیں, قرآن، سنت، اجماع اور عقل کی رو سے مومن کی ہجو کرنا حرام ہے کیونکہ مومن کی ہجو میں عیب جوئی، طعنہ زنی، غیبت کرنا، ملامت کرنا اور بھید کھولنا شامل ہے اور ان میں سے ہر ایک ہلاک کرنے والا گناہ کبیرہ ہے اس لیے وہ تمام چیزیں جو ان مذکورہ باتوں میں بیان کی گئیں اس میں بھی داخل ہیں اور اگر کسی ایسی بات کی ہجو کی جائے جو اس شخص میں موجود نہ ہو تو پھر یہ بہتان بھی ہے۔

گناہگار مومن اور بے گناہ مومن کی ہجو میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کی ہجو یکساں ہے اور جو روایت اس معاملے میں فاسقوں کی مذمت کے متعلق ملتی ہے اس سے بے ایمان لوگ یا وہ لوگ مراد ہیں جو ظاہر میں گناہ کرتے ہیں لیکن غیر مومن کی ہجو حرام نہیں ہے کیونکہ اس کا کوئی احترام نہیں ہے۔ ہر صاحب بدعت کی اس بات کی ہجو جو اس میں موجود ہے اس نیت سے جائز ہے کہ اسے پہچنوایا جائے اور کوئی اس کے جال میں نہ پھنسے۔

6. مومن کو دُ کھ د ینا

ﷲ تعالی سورة احزاب میں فرماتا ہے:

وَٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ بِغَيْرِ مَا ٱكْتَسَبُوا۟ فَقَدِ ٱحْتَمَلُوا۟ بُهْتَـٰنًۭا وَإِثْمًۭا مُّبِينًۭا (احزاب ۔ 58)
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو  ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو, تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

رسول خدا ص فرماتے ہیں:

جو کوئی کسی مومن کو ستاتا ہے وہ مجھے دُکھ دیتا ہے اور جو مجھے دکھ دے گا وہ خدا کو دیکھ پہنچائے گا اور جو خدا کو دکھ دے گا وہ تورات، انجیل، زبور اور قرآن کی رو سے ملعون ہو گا۔ ایک اور حدیث میں ہے, اس شخص پر خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو گی۔ (مستدرک کتاب حج باب 125)
جو شخص کسی مومن کو رنجیدہ کرے گا پھر چاہے تمام دُنیا بھی اسے دے دے گا اس کی دل شکنی کے گناہ کی تلافی نہیں ہو سکے گی اور دینے والے کو بھی اس کا اجر نہیں مل سکے گا۔
جس نے کسی مومن کو ناحق ستایا اس نے گویا دس بارمکہ معظمہ کو اجاڑا، اور ایک ہزار خدا کے مقرب فرشتوں کو قتل کیا۔ (حج۔ مستدرک باب ۱۳۵)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی عزّت مکّہ اور بیت المعمور سے 10 گنا اور ملائکہ سے 100 گنا زیادہ ہے۔ امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

خدا فرماتا ہے کہ جو کوئی میرے مومن بندے کو ستاتا ہے وہ میرے خلاف لڑائی کا اعلان کرتا ہے اور جو شخص میرے مومن بندے کا احترام کرتا ہے وہ میرے غصے اور ناخوشی سے آسودہ اور بے خوف رہتا ہے۔ (کافی)

پڑوسی کو ستانے کی سزا بہت سخت ہوتی ہے

خدا نے کئی مقامات پر جن دوسرے لوگوں کا ستایا بہت زور دے کر حرام بتایا ہے اور اس ستانے کے باعث دنیا اور آخرت کی سخت سزائیں تجویز کی ہیں ان میں پڑوسی بھی شامل ہے۔ انصار میں سے ایک شخص رسول خدا کے پاس آیا، اس نے عرض کیا کہ میں نے فلاں محلے میں ایک گھر مول لیا ہے اور میرا سب سے قریبی پڑوسی ایک ایسا شخص ہے جس سے مجھے بھلائی کی امید نہیں ہے اور میں اس کے شر سے محفوظ اور بے خوف نہیں ہوں۔ رسول خدا نے علیؑ، سلیمانؓ، ابوذرؓ اور مقدادؓ سے فرمایا کہ مسجد میں جا کر اونچی آواز سے اعلان کر دیں کہ جس کا پڑوسی اس کے شر اور آزار سے محفوظ اور مطمئن نہیں ہے وہ ایمان نہیں رکھتا یعنی بے ایمان ہے۔ ان لوگوں نے تین بار یہ اعلان کیا۔ اس کے بعد آنحضرت نے اپنے ہاتھ سے چالیس گھروں کے چالیس دروازوں کی دائیں اور بائیں طرف جو آپ کے سامنے تھے اشارہ فرمایا (یعنی چاروں طرف کے چالیس گھروں تک جو پڑوس میں ہیں اور جنہیں اس کا خیال رکھنا چاہیئے۔) (کافی کتاب العشرہ۔ باب حسن الجوار)

ایک دن اصحاب نے آنحضرت سے عرض کیا کہ: فلاں عورت دن بھر روزہ رکھتی اور رات بھر عبادت کرتی ہے اور صدقہ خیرات بھی دیتی ہے لیکن اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے دُکھ پہنچاتی ہے۔ رسول خدا نے فرمایا: اس عورت میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ وہ اہل جہنم سے ہے۔ لوگوں نے کہا: فلاں عورت صرف واجب نماز پڑھتی اور ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہے اور اپنے پڑوسی کو نہیں ستاتی۔ آپ نے فرمایا: وہ بہشت میں جائے گی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں، پہلا وہ پڑوسی جو تین حق رکھتا ہے اور وہ ایسا پڑوسی ہوتا ہے جو مسلمان اور رشتے دار ہے۔ دوسرا وہ جو دو حق رکھتا ہے اور وہ پڑوسی مسلمان ہے۔ تیسرا پڑوسی کافر جو صرف پڑوسی کاحق رکھتا ہے۔ (حج۔ مستدرک باب 72)

حضرت زہرا س کے مصحف میں ہے, جو کوئی خدا ور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو نہیں ستاتا، مہمان کی عزت کرتا اور سچ بولتا یا چپ رہتا ہے۔ پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے:

جو کوئی اپنے پڑوسی کو دُکھ دے گا خدا اسے بہشت کی خوشبو سونگھنے سے محروم رکھے گا اور اس کی جگہ دوزخ ہو گی اور دوزخ بُرا ٹھکانا ہے اور جو کوئی اپنے پڑوسی کا حق ادا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے جبرائیل ہمیشہ پڑوسی کی اس قدر سفارش کرتے رہتے تھے کہ مجھے گمان ہوا پڑوسی کو بھی ترکے میں سے حصہ ملے گا۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب 86)
جو اپنے پڑوسی کو ستائے گا اور جس کا پڑوسی اس کے آزار سے مطمئن اور امان میں نہیں رہے گا وہ بہشت میں نہیں جا سکے گا۔ (وسائل المستدرک کتاب حج باب 72)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

جو شخص اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو اپنے پڑوسی کو ستاتا ہے وہ ملعون ہے۔  (کافی)

جب بنیامین حضرت یعقوب کے پاس سے چلے گئے تو انہوں نے فریاد کی: اے خدا! تو مجھ پر رحم نہیں فرماتا جو تُو نے میرا بیٹا لے لیا اور میری آنکھیں بے نُور کر دیں۔ خدا نے ان پر وحی نازل کی: اگر میں نے اسے مار ڈالا ہو گا تو اسے زندہ کر دوں گا تاکہ اسے تجھ تک پہنچا دوں، لیکن تو اس بھیڑ کو یاد کر جس کا سر تو نے کاٹ ڈالا تھا۔ اسے بھونا اور کھایا اور فلاں فلاں تیرے پڑوس میں بستے تھے اور روزہ رکھتے تھے لیکن تو نے اس میں سے کچھ بھی تو انہیں نہیں دیا۔  (حج۔ مستدرک باب 72) ایک اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد یعقوب کا یہ دستور ہو گیا تھا کہ ہر روز صبح کے وقت منادی ان کے گھر سے ایک فرسخ کے فاصلے تک اعلان کرتا تھا کہ جس کسی کو ناشتے کی ضرورت ہو وہ یعقوب کے گھر آ جائے اور شام کے وقت بھی ندا کرتا تھا کہ جو کوئی شام کا کھانا چاہتا ہے وہ یعقوب کے گھر آ جائے۔

پڑوسی کے حقوق

پڑوسی سے مہربانی کا سلوک کرو اور اس سے بھلائی کرنے میں تامل نہ کرو، اسے جس چیز کی ضرورت ہو دے دو، اسے اپنے مال میں شریک سا سمجھو، اسے سلام کرو، جو باتیں وہ چھپائے رکھنی چاہتا ہے انہیں مت کریدو، بیماری میں اس کی مزاج پرسی، مصیبت میں ہمدردی اور اس کے غم میں شرکت کرو اور شادی میں اسے مبارکباد دو، اگر اس کا کوئی عیب معلوم ہو جائے تو اسے چھپاؤ، اگر اس سے کوئی خطا ہو جائے تو معاف کر دو۔ اگر درمیانی دیوار پر وہ کچھ کرنا چاہے تو منع نہ کرو، اگر وہ اپنے پڑوسی کے میدان سے کوئی پائپ یا گٹر گذارنا چاہتا ہے تو نہ روکو، گھر کے سامان میں جو چیز اس کے لیے ضروری ہو اس کے دینے سے دریغ نہ کرو، اپنی آنکھیں پڑوسی کے اہل وعیال سے بند رکھو، جب وہ گھر میں نہ ہو تو اس کے گھر سے غافل نہ رہو، اس کی اولاد پر مہربانی کرو اور انہیں دین اور دُنیا کی اچھی اچھی باتیں بتاؤ، اگر مدد چاہے تو اس کی مدد کرو، اگر قرض مانگے تو ادھار دے دو۔ اس کی اجازت کے بغیر اپنے گھر کو اونچا نہ اٹھاؤ۔ جس سے اس کے گھر کی ہوا رُک جائے، جو مزیدار کھانا گھر میں لایا جاتا ہے پڑوسی کو بھی اس میں سے بھجواؤ یا ایسا ممکن نہ ہو تو چھپا کر رکھو تاکہ پڑوسی کے بچّوں تک اس کی خوشبو نہ پہنچے اور انہیں بے چین نہ کرے۔ ممکن ہے پڑوسی بچّوں کے لیے ایسی غذا مہیا نہ کر سکے۔

شوہر/ بیوی کو ستا نا

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: جو بیوی اپنے شوہر کو ستاتی ہے خدا اس کی نمازیں اور نیک کام اس وقت تک قبول نہیں کرے گا جب تک وہ اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کر دیتی اور اسے اپنے آپ سے راضی نہیں کر لیتی، چاہے وہ برابر دن میں روزہ رکھے، غلام آزاد کرتی رہے اور بہت سا مال خیرات کرتی رہے، وہ سب سے پہلے جہنم میں داخل ہو گی۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا: جو شوہر اپنی بیوی کو ستاتا ہے اس کے بھی وہی ہو گا جو بیوی کے بارے میں کہا گیا۔ جو کوئی اپنی بیوی کے بُرے برتاؤ کو برداشت کرے گا اور خدا سے اپنے صبر کا صلہ چاہے گا تو اسے بھی ہر بار صبر کرنے پر وہی صلہ ملے گا جو حضرت ایوب کو صبر کرنے پر ملا تھا اور اس کی بیوی کے لیے ہر چوبیس گھنٹے میں ریگستان کی ریت کے ذروں کے برابر گناہ ہوں گے اور اگر اپنے شوہر کو اپنے آپ سے رضامند کرنے سے پہلے مر جائے گی تو منافقوں کے ساتھ اوندھے منہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں جائے گی۔ جو بیوی اپنے شوہر سے نباہ نہیں کرتی، شوہر جو خرچ دیتا ہے اس پر صبر نہیں کرتی، شوہر پر دباؤ ڈالتی ہے اور جس بات کی شوہر میں سکت اور طاقت نہیں ہوتی اس پر مجبور کرت یہے تو خدا اس کا ایسا نیک کام بھی قبول نہیں کرے گا جو آتش جہنم کو دُور کرتا ہے اور اس وقت تک اس پر غصہ کرتا رہے گا جب تک کہ اس کا یہی طریقہ رہتا ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب 82)

مفلس کو ستا نا

خدا سورة البقرة میں فرماتا ہے:

ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَآ أَنفَقُوا۟ مَنًّۭا وَلَآ أَذًۭى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ٢٦٢ قَوْلٌۭ مَّعْرُوفٌۭ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌۭ مِّن صَدَقَةٍۢ يَتْبَعُهَآ أَذًۭى ۗ وَٱللَّهُ غَنِىٌّ حَلِيمٌۭ (بقرة ۔ 262, 263)
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وه اداس ہوں گے۔ نرم بات کہنا اور معاف کردینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالیٰ بےنیاز اور بردبار ہے۔

روایت ہے کہ جو کوئی نیک کام کر کے احسان جتاتا ہے وہ بہشت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ (لئالی الاخبار) یہ بھی فرمایا ہے کہ غریبوں پر احسان دھرنے والا دُنیا اور آخرت میں ملعون ہے اور والدین اور بہن بھائیوں پر احسان جتانے والا خدا کی رحمت اور اس کے فرشتوں کی مہربانی سے دُور ہے، دوزخ کے قریب ہے، اس کی دعا قبول نہیں ہوگی، اس کی حاجت پوری نہیں ہو گی اور خدا دُنیا اور آخرت میں اسے رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا۔

متعلقہ تحاریر