شان علیؑ بزبان امام حسینؑ

کتاب سلیم بن قیس ہلالی 21/11/2017 8470

معاویہ کے انتقال سے ایک سال قبل امام حسینؑ نے حج کا ارادہ کیا، اور وہاں 700 سے زیادہ نیک اصحاب اور تابعین کو اپنے گھر مدعو کیا۔ امام حسینؑ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ایھاالناس، میں تمہارے سے سوال کرتا ہوں، اگر سچ کہوں تو اس کی تصدیق کرو۔

  • میں تم سے قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ علی ابن ابی طالبؑ رسولؐ کے بھائی ہیں؟ اس لئے کہ جب آپ نے مسلمانوں میں اخوت قائم کی تو انہیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا۔ 
    سب نے جواب دیا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، میں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسولﷲؐ نے اپنی مسجد اور گھروں کے لئے زمین خرید فرمائی۔ پھر مسجد تعمیر کی اور 10 مکانات بنائے۔ 9 مکان اپنے لئے اور دسواں مکان جو ان تمام کے درمیان تھا میرے والد کے لئے مخصوص فرمایا۔ پھر صحن مسجد سے ہر دروازہ بند کر دیا سوائے علیؑ کے دروازہ کے۔ بعض لوگوں نے شکائت کی تو فرمایا کہ تمہارے دروازے میں نے بند نہیں کئے بلکہ خدا نے مجھے تمہارے دروازے بند کرنے اور علیؑ کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا ہے۔ آپؐ نے لوگوں کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا سوائے علیؑ اور ان کی اولاد کے۔ وہ جنب کی حالت میں مسجد میں آ سکتے تھے اور ان کی منزل رسول خداؐ کے گھر میں تھی۔ پس اس گھر میں ان کے اور رسول خداؐ کے بچے پیدا ہوئے۔ 
    سب نے کہا بے شک درست ہے۔
  • پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہےکہ عمر ابن خطاب نے مسجد کی جانب آنکھ کے برابر سوراخ کی اجازت چاہی تھی، اس سے بھی آپ نے انکار کر دیا۔ اور خطبہ میں اعلان کیا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں پاک مسجد بناؤں۔ اس میں میرے اور میرے بھائی اور ان کی اولاد کے سوا کوئی نہ رہے۔ 
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسولﷲؐ نے غدیر خم کے دن انہیں ولی مقرر کیا اور ان کی ولایت کا اعلان کر کے فرمایا کہ جو موجود ہیں وہ باقی سب تک پہنچائیں۔ 
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، خدا کی قسم دیتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسولﷲؐ نے تبوک کے دن فرمایا کہ اے علیؑ تم مجھے سے اس طرح ہو جیسے ہارون موسیؑ سے تھے اور تم میرے بعد ہر مومن مرد اور عورت کے ولی ہو۔ 
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، خدا کی قسم دیتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسولﷲؐ نے جب نصاری نجران کو بلایا تو مباہلہ کے لئے میرے والد، والدہ ان کی اولاد کے علاوہ کسی کو نہیں لے کر گئے۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، خدا کی قسم دیتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسولﷲؐ نے خیبر میں میرے باپ کو علم دینے سے پہلے فرمایا تھا کہ میں لشکر کا علم اس مرد کو دوں گا جو خدا اور رسولؐ کو دوست رکھتا ہے اور خدا و رسولؐ اسے دوست رکھتے ہیں، اور کرار غیر فرار ہے، خدا اس کے ہاتھوں پر فتح دے گا۔ 
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، خدا کی قسم دیتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرتؐ نے سورہ برات میرے باپ کے حوالہ کر کے روانہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اسے میں پہنچا سکتا ہوں اور یا وہ جو مجھ سے ہو۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، خدا کی قسم دیتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرتؐ پر جب بھی کوئی مصیبت آئی تو انہوں نے علیؑ کو پیش کیا۔ اس لئے کہ انہیں پر اعتماد تھا اور کبھی نام لےکر نہیں پکارا، بلکہ ہمیشہ اے میرے بھائی، یا بلاؤ میرے بھائی کو کہ کر بلایا۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • آپؑ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ جب آنحضرتؐ نے میرے باپ، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ کیا تو فرمایا تھا اے علیؑ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں، اور تم میرے بعد ہر مومن کے ولی ہو۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • آپؑ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ میرے باپ ہر روز آنحضرتؐ سے خلوت میں ملتے تھے، اور رات کو گھر میں تنہا ملاقات کرتے تھے۔ جب وہ سوال کرتے تھے تو آنحضرتؐ جواب دیتے تھے، اور جب وہ خاموش ہو جاتے تھے تو آنحضرتؐ خود بیان فرماتے تھے۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرتؐ نے انہیں جعفرؑاور حمزہؑ پر فضیلت دی تھی۔ جب خاتون جنت سے فرمایا تھا کہ میں نے تمہارا عقد اس سے کیا ہے جو اہلبیتؑ میں صلح میں مقدم، حلم میں سب سے بزرگ اور علم میں سب سے زیادہ ہے۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • آپؑ نے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور علیؑ عرب کے سردار ہیں۔ اور فاطمہ زہراؑ نساء جنت کی سردار ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسنؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرتؐ نے انہی کو حکم دیا تھا کہ وہ انہیں غسل دیں اور یہ خبر دی تھی کہ جبرائیل ان کی مدد کریں گے۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ آنحضرتؐ نے سب کے آخر میں یہ خطبہ پڑھا تھا کہ میں نے تم میں دو وزنی چیزیں چھوڑی ہیں۔ ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میرے عترت یعنی اہلبیت، ان دونوں سے تمسک رکھنا، گمراہ نہ ہو گے۔
    سب نے کہا بے شک ایسا ہی ہے۔
  • پھر آپ نے قسم دے کر پوچھا کہ کیا انہوں نے آنحضرتؐ سے سنا ہے کہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ جسے یہ گمان ہو کہ وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے حالانکہ وہ علیؑ کا دشمن ہے، تو وہ جھوٹا ہے۔ وہ میرا دوست ہو ہی نہیں سکتا جو علیؑ کا دشمن ہو۔ پس آپ سے کسی نے سوال کیا یا رسولﷲؐ یہ کس طرح ہے؟ فرمایا اس لئے کہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی۔ اور جس نے علیؑ سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کے اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے ﷲ سے دشمنی کی۔
    سب نے کہا بے شک ہم نے یہ سنا۔

پس جو آیات و احکام خدا نے علی مرتضیؑ کی شان میں نازل کئے تھے یا اہل بیتؑ کے بارے میں فرمائے تھے، قرآن سے یا رسول اسلامؐ کی زبان سے، آپؑ نے خدا کی قسم دے کر بیان فرمائے اور صحابہ کہتے رہے کہ بے شک ایسا ہی ہے۔ ہم نے آنحضرتؐ سے سنا ہے اور تابعین کہتے رہے کہ ہم نے فلاں صحابی سے سنا جو موثق اور معتبر ہے۔ سب کو آپؑ نے قسم دے کر پوچھا اور سب نے تصدیق کی۔ اس کے بعد یہ مجلس برخواست ہو گئی۔

از کتاب سلیم بن قیس ہلالی

متعلقہ تحاریر