اہل تسنن اور تشیع میں بنیادی فرق نظریہ امامت کا ہے۔ اہلسنت نے بعد رسولؐ, خلفاء کی پیروی کو حق جانا جبکہ اہل تشیع آل رسولؐ میں سے پے در پے آنے والے 12 اماموں کو حجت خدا جانتے ہیں۔ امام علیؑ کے بعد جب ایک طرف مسند خلافت پر یزید جیسا ملعون متمکن ہو گیا اور دوسری جانب مسلمانوں کے باہمی جهگڑوں کی وجہ سے سلطنت اسلامی کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی اور حکمرانوں کے بارے میں کوئی واضح پوزیشن لینا مشکل ہو گیا تو خود اہلسنت کی طرف سے خلافت کی پیروی کے نظرئیے کو ترک کر دیا گیا۔ پس یوں نظریہ خلافت انہدام پذیر ہو گیا۔
تقریباً ایک صدی کا عرصہ گذرنے کے بعد امام جعفر صادقؑ کے بعض شاگردوں کو امام مان لینے کے ساتھ خلافت کے پیروکاروں نے جزوی طور پر نظریہ امامت کو قبول کر لیا۔ البتہ اب فرق یہ رہ گیا تها کہ شیعہ نظریہ امامت کے بارے میں کچھ امتیازات کے قائل تهے جو کسی طور پر ائمہ اہلسنت میں نہ تو موجود تهے اور نہ ہی وہ ان کا دعوی کرنے کی پوزیشن میں تهے۔ شیعوں کے نزدیک امام درجذیل امتیازات کی حامل شخصیت کا نام ہے:
اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل ایک ہندوستانی عالم دین سے چند ای میلوں کا تبادلہ ہوا۔ میری آخری میل کا جواب باوجود یاد دہانی کے تا ہنوز موصول نہیں ہوا۔ اس ای میل سے ایک اقتباس کچھ یوں ہے۔
جہاں تک مسئلہ امامت کا تعلق ہے تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آپ (اہلسنت) اس کے پہلے سے قائل ہیں۔ ۔ ۔ ہے ناں عجیب ۔ ۔ ۔ ؟
مجھے ان ساری باتوں کا علم ہے کہ آپ نظریہ امامت کو اسی طرح سے مانتے ہیں کہ جیسے شیعہ، اس لئے آپکو پکا اور سچا مسلمان کہتا ہوں اور آپ سے کوئی تفریق نہیں برتتا۔
گویا رسول اکرمؐ کی طرح امام مہدیؑ بهی مسلمانوں کے درمیان ایک نقطہ وحدت ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امام مہدیؑ کے بارے میں آگاہی و بیداری پیدا کی جائے اور اپنے باہمی اختلافات کو اس کے ذریعے سے حل کیا جائے اور امام مہدیؑ کی عالمی حکومت کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ کیوں کہ خدا کے نمائندے عوامی حمایت اور عوامی طاقت کو استعمال کر کے اپنے الہی مشن کو پورا کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں اپنے اتحاد کو اپنی طاقت بنانا چاہئے اور پوری دنیا پر اسلام کی بالادستی کے لئے مل کر جدوجہدکرنی چاہئے۔