منجی عالم اور کائنات کی عظیم ترین ہستی جناب رسول اکرمؐ کے بارے میں گستاخانہ فلم کے بعد آزادی اظہار کو مہار دینے کی بات ہونا شروع ہوئی جو کہ ایک مثبت اور خوش آئند بات ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلہ کو ایک منطقی نتیجہ تک پہنچائے بغیر نہ چھوڑا جائے۔
سمجھنے کی بات یہ ہےکہ انسان کس حد تک خود مختار ہے۔ آیا انسان آزاد ہے کہ جو دل میں آئے کرے یا پھر کسی قاعدے و قانون ک پابند ہے۔ دنیا کے انسانوں کی بھاری اکثریت جو کسی نہ کسی مذھب کی پیروکار ہے وہ اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اسے اپنے خالق کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت زندگی گذارنی ہے۔ یہ قوانین نہ صرف انسانوں پر بلکہ پوری کائنات کے ذرے ذرے پر حاکم ہیں اور انہیں کی پیروی میں نجات ہے۔
بدقسمتی سے مغرب نے اپنی عاقبت نا اندیشی اور مذھب (کسی بھی مذھب) سے دوری کی بناء پر گذشتہ عرصہ میں آزادیوں کی نت نئی جہتیں دریافت کر کے دنیا کو خیرہ کر دیا ہے اور باقی دنیا بغیر سوچے سمجھے عمومی طور پر ان آزادیوں پر رشک کرتی نظر آتی ہے۔ آئیں ذیل میں چند ایک آزادیوں کا جائزہ لے کے صورتحال کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
ان تمام آزادیوں کے منطقی نتائج کیا ہوں گے۔ یہ محض چند ایک آزادیاں ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا اور ایک لمبی قطار ہے ان رویوں کی کہ جو انسان کے لاابالی پن اور بے صبری اور دیگر بے چینی والی کیفیات سے جنم لیتے ہیں اور شخصی آزادی کے نام پر محترم قرار پاتے ہیں۔ حالانکہ بہت ساری کیفیات انسان کی ذہنی، قلبی، نفسیاتی بیماریوں اور ہیجانات کے پرتو ہوتی ہیں اور انہیں درست کرنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ یہ کہ آزادی کے نام پر ایک بیمار کو اس کی بیماری میں مبتلا چھوڑ دینا تمدن کی معراج سمجھ لیا جائے۔
دوسری طرف مغرب اسلامی تعلیمات کے تئیں اتنا ہی متشدد ہے اور مسلمانوں کو انکی مذھبی آزادی دینے کے لئے کسی طور تیار نہیں ہوتا۔ کچھ آزادیاں قابل غور ہیں کہ جن پر نہ جانے کیوں مغرب قدغن لگا کے اپنے دوہرے معیارات کو عیاں کرتا ہے۔