حدیث معراج

آیت ﷲ ناصر مکارم شیرازی 14/04/2018 8275

بعثت کے آٹهویں سال یعنی ہجرت سے 5 سال قبل 27 رجب (یا 17 رمضان کہ مختلف تواریخ نقل ہوئی ہیں) کو مکہ میں ام‌هانی بنت ابيطالب کے گهر کہ جہاں سرور دو عالم قیام پذیر ہیں، جبرائیل آتے ہیں اور کہتے ہیں "اے محمدؐ، اٹھ جائیے"۔ آپؐ فرماتے ہیں، میں اٹها ااور دروازے پر گیا، کہ وہاں جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کو موجود پایا۔ جبرائیل ایک سواری بنام "براق" میرے سامنے لائے اور کہا کہ سوار ہو جائیے۔ ہم یہاں سے چلے اور بیت المقدس پہنچے۔ یہ معراج کا پہلا مرحلہ ہے جسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائیل ۔ 1)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی، جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً وہ خوب سننے دیکھنے واﻻ ہے

اس مقدس سفر کے پہلے زمینی مرحلے کا نقطہ آغاز مسجد الحرام اور انتہاء مسجد اقصی تهی۔ راستے میں مدینہ، مسجد کوفہ، طور سیناء (جہاں ﷲ نے حضرت موسی سے کلام کیا) اور بیت اللحم (حضرت عیسیؑ کی پیدائش گاہ) اترے اور نماز ادا کی۔ بیت المقدس میں نماز کے وقت حضرت ابراهیمؑ، حضرت موسی اور حضرت عیسیؑ بهی آپ کے ساتھ تهے۔

معراج کا دوسرا مرحلہ:

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ - عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ - عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ - إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ - مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ - لَقَدْ رَأَىٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىٰ – (النجم: 18- 13)
ترجمہ: اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔ سدرةالمنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنہ الماویٰ ہے۔ جب کہ سدره کو چھپائے لیتی تھی وه چیز جو اس پر چھا رہی تھی۔ نہ تو نگاه بہکی نہ حد سے بڑھی۔ یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں
(جبرائیل کو نبی اکرمؐ نے دو مرتبہ اپنی اصلی شکل میں دیکها ہے۔ پہلی مرتبہ آغاز وحی کے موقع پراور دوسری مرتبہ شب معراج، سدرةالمنتہی کے پاس)

سفر کا یہ مرحلہ جو قبة الصخرة سے پہلے آسمان کی طرف جہاں ابولبشر حضرت آدمؑ سے ملاقات ہوئی سے شروع ہوا اور ساتویں آسمان پر سدرة المنتهی اور جنةالمأوی (خلد بریں) کے بعد تک جا کے اختتام پذیر ہوا۔ ہر آسمان پر انبیاء، فرشتوں اور دیگر ساکنان عرش سے ملاقات ہوئ جنہوں نے آپؐ کو مبارکباد دی اور آپؐ نے ان کے احوال دریافت کئے۔ بعض آسمانوں پر دوزخ اور دوزخیوں کے حالات سے آگاہی حاصل کی اور بعض آسمانوں پر جنت اور جنتیوں کی کیفیات کا مشاہدہ کیا اور یوں خدا کے مراکز رحمت و عذاب کا جائزہ لیا۔ آخر کار سدرة المنتهی تک پہنچے کہ جہاں آپ کے اس سفر کے ساتهی جبرائیل آپ کا ساتھ دینے سے عاجز ہو گئے، اور یہاں سے آپ کو اکیلے آگے بڑهنا تها کہ اس کے بعد کے مرحلہ میں پروردگار عالم کی عظیم نشانیوں اور پرشکوه آثار کو صرف آپؐ کی ذات اقدس ہی تحمل کر سکتی تهی۔

حدیث معراج

رسول اکرمؐ فرماتے ہیں، جبرائیل سے علیحدگی کے بعد میں دریائے نور میں داخل ہو گیا، کہ جہاں کی لہریں مجهے نور سے ظلمات اور ظلمات سے نور کی طرف لئے چلی جا رہی تهیں وہاں تک کہ جہاں خداوند عالم نے چاہا اور مجهے ٹهہرا دیا گیا۔ یہ اوج شہود باطنی اور قرب الیﷲ کا مقام تها کہ جہاں خدا وند قدوس نے اپنے حبیب سے کلام کیا اور بہت ساری اہم باتیں اور احکامات ان سے بیان فرمائے کہ جن کا مجموعہ آج "حدیث قدسی" کی شکل میں ہمارے پاس یادگار ہے۔ یہ مکالمہ رحمت اللعالمین کی زبان مبارک سے یوں بیان ہوتا ہے۔

میں نے سوال کیا: پروردگار! سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ فرمایا:
کوئی چیز میرے نزدیک مجھ پر توکل اور جو میں نے مقدر کیا ہے اس پر راضی ہونے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اے محمدؐ وہ جو میری وجہ سے ایک دوسرے کو دوست رکهتے ہیں میری محبت ان کے شامل حال ہوتی ہے، اور جو کوئی میری خاطر مہربان ہیں اور میری وجہ سے دوستی کرتے ہیں انہیں میں دوست رکهتا ہوں۔
ایک اور جگہ یوں ذکر ہے، اے احمدؐ بچوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو سبز، پیلے اور زرق و برق کو دوست رکهتے ہیں، اور جب بہترین خوراک انہیں دی جائے تو مغرور ہو جاتے ہیں، اور ہر چیز کو فراموش کر دیتے ہیں۔

میں نے عرض کیا: پروردگار، مجهے اس کام کی ہدائت کریں کہ جو آپکی بارگاہ میں قرب کا باعث ہو

فرمایا: رات کو دن اور دن کو رات قرار دو

عرض کی: کس طرح؟

فرمایا:

ایسا کرو کہ تمہاری نیند تمہاری نماز ہو، اور اپنے شکم کو مکمل پر نہ کرو
ایک اور جگہ یوں ذکر ہے، اے احمدؐ فقیروں اور محروموں سے محبت مجه سے محبت ہے، ان کے نزدیک ہو جاؤ اور ان کے پاس بیٹهو تاکہ تم اور میں نزدیک ہو جائیں۔ دنیا پرست ثروتمندان سے دور ہو جاؤ اور ان کی محفل میں بیٹهنے سے گریز کرو۔ ایک اور جگہ یوں ذکر ہے، اے احمدؐ دنیا کی رنگینیوں اور دنیا پرستوں کو مبغوض شمار کرو اور آخرت اور اہل آخرت کو محبوب رکهو۔

عرض کیا: پروردگار دنیا و اہل دنیا کون ہیں؟

فرمایا:

اہل دنیا وہ ہیں جو زیادہ کهاتے ہیں، زیادہ ہنستے اور سوتے ہیں، غصہ کرتے ہیں اور کم خوش ہوتے ہیں، نہ ہی برائیوں کی وجہ سے کسی سے معذرت خواہی کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کے کہنے پر اظہار معذرت کرتے ہیں، اطاعت خدا کے معاملے میں سست اور گناہوں کے معاملہ میں دلیر ہیں۔ لمبی دور کی آرزؤئیں رکهتے ہیں، حالانکہ انکی موت نزدیک آ چکی ہے، لیکن کبهی اپنا محاسبه نہیں کریں گے، لوگ ان سے کم فائدہ اٹها پاتے ہیں، زیادہ بولنے والے، احساس مسئولیت سے عاری اور خورد و نوش کے رسیا۔
اہل دنیا نہ نعمت کے وقت خدا کا شکر کرتے ہیں اور نہ مصائب پرصابر ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ عنایات بهی ان کی نظر میں کم ہوتی ہیں، ان کاموں کے نتائج پر جو انہوں نے انجام نہیں دئیے ہوتے اپنی تعریف کرتے ہیں، اور اس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو ان کا حق نہیں۔ ہمیشہ اپنی خواہشات کے بارے میں بات کرتے ہیں، لوگوں کے عیوب کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کی نیکیوں کو چهپاتے ہیں۔

عرض کیا: پروردگار، آیا دنیا پرست اس کے علاوہ بهی عیب رکهتے ہیں۔

فرمایا:

اے احمدؐ، ان کا عیب یہ ہے کہ جہالت و حماقت ان میں فراواں ہے۔ جس استاد سے علم سیکهتے ہیں اس کے سامنے متواضع نہیں ہوتے۔ خود کو عقلمند سجهتے ہیں لیکن آگاہ لوگوں کے نزدیک نادان اور بیوقوف ہیں۔ پس (پروردگار نے) جنتیوں کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے بات کو آگے بڑهایا: وہ آدم باحیا ہیں، ان کی جہالت کم ہے اور ان کا فائدہ زیادہ۔ لوگ ان کی وجہ سے راحت پاتے ہیں اور وہ خود اپنے آپ کومشقت میں ڈالتے ہیں اور ان کی گفتگو سنجیدہ ہے۔ مسلسل اپنے اعمال کے نگران ہیں اور اسی وجہ سے اپنے آپ کو زحمت میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کی آنکهیں نیند میں چلی جاتی ہیں لیکن ان کے دل بیدار ہوتے ہیں۔ ان کی آنکهیں نم ہوتی ہیں اور دل ہمیشہ یاد خدا میں مشغول۔ جب لوگوں کو غافلوں میں لکها جاتا ہے، تو ان کو ذاکریں میں شمار کیا جاتا ہے۔ آغاز نعمت پر حمد بجا لاتے ہیں اور آخر میں شکر ادا کرتے ہیں۔ ان کی دعا خدا کی بارگاہ میں مستجاب اور ان کی حاجات سنی جاتی ہیں اور فرشتے ان کے وجود سے خوش ہیں۔ لوگ ان کے نزدیک "مردہ" اور خداوند ان کے نزدیک حی، قیوم اور کریم ہے۔ لوگ اپنی زندگی میں ایک بار مرتے ہیں، البتہ یہ جہاد بالنفس اور خواہشات کی مخالفت کی وجہ سے روزانہ 70 مرتبہ مرتے ہیں۔ جب عبادت کے لئے میرے سامنے کهڑے ہوتے ہیں تو ایسے ہیں جیسے بنیان مرصوص اور فولادی دیوار اور ان کے دلوں میں مخلوقات کا خیال نہیں۔
مجهے اپنی عزت و جلالت کی قسم، میں انہیں پاکیزہ زندگی عطا کرتا ہوں اور آخر عمر پر خود ان کی قبض روح کرتا ہوں، اور آسمان کے دروازوں کو ان کے پرواز روح کے لئے کهولتا ہوں، ان کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا لیتا ہوں اور حکم دیتا ہوں کہ ان کی بہشت ان کے لئے لائی جائے۔
اے احمد، عبادت 10 حصے ہے کہ اس میں سے 9 حصے طلب حلال ہیں۔ جب آپکی خوراک حلال ہو تو آپ میری پناہ میں ہیں۔

ایک اور جگہ یوں ذکر ہے، اے احمد، کیا آپ جانتے ہیں کہ کونسی زندگی خوشگوار تر اور پائیدار تر ہے؟

عرض کیا: خداوندا، نہیں۔

فرمایا:

خوشگوار زندگی اس کی ہے جو ایک لمحہ کے لئے بهی میری یاد سے غافل نہ ہو، میرے نعمت کو نہ بهلائے، میرے حق سے بے خبر نہ ہو اور صبح شام میری رضا کا طالب ہو۔
جبکہ باقی زندگی یہ ہو کہ اپنی نجات کے لئے عمل کرے، دنیا اسکی نظر میں چهوٹی ہو اور آخرت بڑی، میری رضا کو اپنی رضا پر مقدم جانے، مسلسل میری خوشنودی کا طالب ہو، میرے حق کو بڑا سمجهے، میری معرفت کی طرف اپنی توجہ مبذول کئے رکهے۔ ہر گناہ اور معصیت کے مقابل میری یاد کا سہارا لے، اور اپنے قلب کو اس چیز سے کہ جو مجهے ناپسند ہے پاک کرے، شیطان اور اس کے وسوسوں کو مبغوض جانے، اور ابلیس کو اپنے دل پر مسلط نہ ہونے دے اور اسے راستہ نہ دے۔ جب ایسا کرے گا تو میں اس کے دل میں خاص محبت ڈالوں گا، کیوںکہ اسکا پورا دل میرے اختیار میں ہو گا۔ اور فراغت، مشغولیت، دکھ، تکلیف، تعلق و گفتگو ان عطایا میں سے ہیں جو میں اہل محبت کو عطا کرتا ہوں۔
اس کے دل کی آنکهوں اور کانوں کو کهولتا ہوں تاکہ دل کے کانوں سے غیب کی حقیقتوں کو سنے اور اپنے دل سے میری عظمت و جلال کو دیکهے۔
اے احمدؐ: اگر بندہ تمام اہل آسمان و زمین کے برابر نماز بجا لائے، اور تمام اہل آسمان و زمین کے برابر روزے رکهے، فرشتوں کی طرح غذا نہ کهائے، اور جسم پر لباس نہ پہنے، لیکن اس کے دل میں ذرہ بهی دنیا پرستی، جاہ طلبی، یا دنیا کی رنگینیوں سے محبت ہو میری اخروی سرائے میں میرے جوار میں نہیں ہو گا اور میں اپنی محبت اس کے دل سے اچک لیتا ہوں۔

میرا سلام اور میری رحمت ہو تم پر!

اس مکالمے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں حضرت رسول خداؐ  کو ان کے آسمانی نام سے پکارا گیا ہے۔ واضح ہو کہ رسول اکرمؐ کا آسمانی نام احمدؐ اور زمینی نام محمدؐ ہے۔

ہدف معراج

امام جعفر صادقؑ ارشاد فرماتے ہیں:

خدا ہرگز کسی جگہ میں نہیں سما سکتا اور نہ ہی زمانہ اس پر اثر پذیر ہوتا ہے۔ البتہ اس نے چاہا کہ اپنے رسول کی ملائکہ اور ساکنان عرش کے درمیان تشریف آوری سے عزت افزائی کرے، اور انہیں اپنی عظمت کے عجائبات دکهائے تاکہ وہ واپسی پر لوگوں کو مطلع کر سکیں۔

معراج جسمانی تها یا روحانی:

مسلمانوں میں یہ مسئلہ اختلافی رہا ہے کہ معراج جسمانی تها یا روحانی۔ معراج کو اگر روحانی مان لیا جائے تو یہ کوئی خاص فضیلت نہیں ٹهہرتی۔ دوسرے قرآن میں لفظ "عبد" آیا ہے جو جسم و روح دونوں کے ملاپ پر صادق آتا ہے۔ تیسرے اگر معراج روحانی ہوتا تو کفار کے انکار کی کوئی وجہ بهی نہیں تهی۔ کفار قریش انکار کر ہی اسی وجہ سے رہے تهے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رات میں ایک شخص جسمانی طور پر بیت المقدس اور پهر وہاں سے آسمانوں پر جا کے واپس بهی آ جائے۔ اگر بات روح کے جانے کی ہوتی تو انہیں شائد کوئی اعتراض نہ ہوتا۔

معراج کو روحانی ماننے والے راوی دو ہیں، حضرت عائشہ اور معاویہ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ معراج کی رات جسم بستر پر تھا، حالانکہ معراج کا واقعہ ہجرت سے 5 سال پہلے کا ہے اور یہ بی بی آئی ہیں ہجرت کے 2 برس بعد۔ دوسرا راوی معاویہ بن ابی سفیان کہ جو 8 ہجری جنگ خیبر کے بعد فتح مکہ میں مسلمان ہوا، 14 سال پہلے کی بات پر کیسے کہ سکتا ہے کہ جسم بستر پر تھا۔

ام ہانیؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ میرے گھر میں آرام کر رہے تھے۔ میرے بھائی علیؑ اور جعفرؓ بھی آرام کر رہے تھے۔ عشاء کی نماز تعقیبات میں مصروف ہوئی تو بستر محمدؐ پر جسم نہیں رہا۔ میں نے گھبرا کے اپنے بھائیوں کو اٹھایا اور میرے بھائی دوڑے ہوئے ابو طالبؑ کے پاس گئے۔

یہ ابو طالبؑ تھے کہ تلوار ہاتھ میں لئے مکہ کی گلیوں میں پکار پکار کے کہ رہے تھے کہ خبردار اگر محمدؐ کو کسی نے ذرہ برابر نقصان پہنچانے کی کوشش کی، تو مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہ جائیں گی۔ سب اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے تھے کہ سامنے کون جائے، یہاں تک کہ نماز صبح کا وقت آیا تو ام ہانیؓ نے کہا کہ جا کے ابو طالبؑ سے کہو کہ رسولؐ آ گئے۔ ابو طالبؑ کو شک نہیں ہوا کہ کیسے گئے اور کیسے آئے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا خدا نے مجھے بلایا تو ابو طالبؑ نے تصدیق کی۔ اب پتہ نہیں اسلام اور کیا ہوتا ہے؟

یہ تمام ماجرا ایک رات کی مدت میں انجام پایا اور نبی اکرمؐ نے نماز عشاء اور نماز صبح دونوں مکہ میں ادا کیں۔

آپؐ نے کفار مکہ کی طرف سے کئے جانے والے مشکوک سوالات کا جواب دیا- مثال کے طور پر انھوں نے آنحضرتؐ سے شہر بیت المقدس کی خصوصیات کے بارے میں سوال کیا اور اس کے علاوہ اس راہ پرروانہ قریش کے ایک تجارتی قافلے کے بارے میں پوچھا کہ جس سے آنحضرتؐ کی ملاقات مسجد اقصی سے مسجدالحرام کی طرف واپسی کے سفر میں ہوئی تهی، تو آنحضرت ؐ نے ان سوالات کے مناسب جوابات دئیے-

متعلقہ تحاریر