جہاد شرعی کے اس معرکے سے فرار اختیار کرنا جہاں پر دشمن دوگنا سے زیادہ نہ ہو گناہ کبیرہ ہے۔ وہ احادیث جو گناہان کبیرہ کے سلسلے میں رسول خدا, امیر المومنین, امام صادق, امام محمد تقی اور امام رضا علیہماالسلام سے نقل کی گئی ہیں اس میں انہوں نے جہاد سے فرار اختیار کرنے کو اس آیہ کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے گناہ کبیرہ شمار کیا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ زَحْفًۭا فَلَا تُوَلُّوهُمُ ٱلْأَدْبَارَ ١٥ وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍۢ دُبُرَهُۥٓ إِلَّا مُتَحَرِّفًۭا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍۢ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَمَأْوَىٰهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ (الانفال: 15, 16)
اے اہل ایمان جب میدان جنگ میں کفار سے تمہار مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔ اور جو شخص جنگ کے روز جنگی حکمت عملی یا اپنی فوج سے ملنے کے علاوہ ان سے پیٹھ پھیرے گا تو یقیناً وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہوگیا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے
امیر المومنین حضرت علی ع فرماتے ہیں:
میدان جہاد سے فرار کرنے والے کو جان لینا چاہئے کہ اس نے اپنے خدا کو غضب ناک کیا اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اس لئے کہ جہاد سے بھاگناخدا کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اور فرار کرنے والے کو یقینی طور پر پر یشانی اور ابدی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کا فرار کرنا اس کے اور اس کی موت کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اس کی عمر زیادہ نہیں ہوسکتی۔ اور اگر اس کی موت کا وقت نہیں آیا ہو توجہاد میں شرکت کرنے سے بھی اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا پس غضب خدا ذلت و رسوائی کے ساتھ زندگی گزارنے سے یہ بہتر ہے کہ انسان حق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جان جان آفیرین کے سپر دکردے۔
مناسب ہے کہ حضرت امیر المومنین ع کی جنگوں میں ثابت قدمی کا بھی ذکر کیا جائے, جو کہ آپ کے فضائل ومناقب میں سے ہے۔ تاریخ شیعہ وسنی میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ حضرت علی نے کسی بھی میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کی ہو خاص طور پر غزوہ احد میں۔ حضرت علی ع وہ واحد شخصیت ہیں جن کو حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جنگ خندق کے موقع پر "کرار غیر فرار" کا لقب دیا۔ یعنی وہ شخص جو ہمیشہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے اور کسی بھی وقت فرار اختیار نہیں کرتا۔