لوگوں کی غذا مثلاً گیہوں، جو، چاول اور گھی وغیرہ اکٹھا کر کے اس کے مہنگے ہو جانے کے انتظار میں روکے رکھنا ذخیرہ اندوزی ہے تاکہ لوگوں کو ضرورت پڑے اور پھر نہ مل سکے کہ ان کی ضرورت رفع ہو۔ یہ حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے جس کے لیے آتش جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کچھ روایتوں میں ذخیرہ اندوزوں کو ملعون بھی کہا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
گناہگار شخص ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ جو شخص لوگوں کی غذا خرید کر چالیس دن تک اس لیے روکے رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں مہنگائی ہو جائے تو اتنا سخت گناہ کرتا ہے کہ تمام غلہ بیچ کر اس کی رقم خیرات بھی کر دے تب بھی اس کے کیے ہوئے گناہ کا کفارہ ادا نہیں ہو سکتا۔ (وسائل الشیعہ کتاب تجارت باب 27)
ایک رات بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں پر عذاب نازل ہوا تو صبح تک ان کے چار طبقے ہلاک ہو چکے تھے۔ ڈھول بجانے والے، گویے، ذخیرہ اندوز اور سود کھانے والے مہاجن۔ جو شخص مہنگائی کے انتظار میں چالیس دن تک لوگوں کی غذا روکے رکھے گا وہ خدا سے کٹ جائے گا اور خدا اس سے بیزار اور بے تعلق ہو جائے گا۔ جو شخص چالیس دن سے زیادہ تک ذخیرہ رکھے گا وہ بہشت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا (واضح رہے کہ بہشت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت تک پہنچتی ہے) (مستدرک الوسائل کتاب تجارت باب 21)
جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ انہوں نے جہنم میں ایک گھاٹی دیکھی جس میں آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ انہوں نے مالک جہنم سے پوچھا: یہ کن لوگوں کی جگہ ہے؟ اس نے کہا: تین گروہوں کی۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والے، شرابی، اور دلالی (حرام کاری سے کمائی) کرنے والے۔
جاننا چاہیئے کہ اگر کوئی لوگوں کی غذا ایسی صورت میں روک لیتا ہے جب لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی یا اگر ضرورت پڑتی بھی ہے تو پھر مل جاتی ہے کہ وہ انہیں بیچ دیتا ہے اور ان کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے یا وہ مہنگی بیچنے کے لیے نہیں اپنے کنبے کے خرچ کے لیے روک لیتا ہے تو ان تینوں صورتوں میں سے کسی صورت میں ذخیرہ اندوزی حرام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ حاکم شرع کو چاہیئے کہ وہ اسے اس قیمت پر بیچنے کے لیے مجبور کرے جس پر وہ خود راضی ہو جائے اور اگر وہ زیادہ قیمت وصول کرنا چاہے تو حاکم شرع منصفانہ نرخ سے اس کی قیمت ادا کر کے اس کے گیہوں حاجت مندوں کو فروخت کرے۔