مردار، خون، اور خنزیر اور ہر وہ چیز کہ جس کے ذبح کے وقت خداوند عالم کا نام نہ لیا ہو کا گوشت کھانے کے کبیرہ ہونے کی صراحت کی گئی ہے اور قرآن مجید میں سورہ بقرہ آیت 173 اور سورہ انعام آیت 145 اور سورہ نحل آیت 115 میں اس کی حرمت کی تصریح کی گئی ہے اور سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلْمُنْخَنِقَةُ وَٱلْمَوْقُوذَةُ وَٱلْمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا۟ بِٱلْأَزْلَـٰمِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ (مائدہ ۔ 3)
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو کسی ضرب سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو لیکن اسے تم ذبح کر ڈالو تو حرام نہیں اور جو مخصوص پتھروں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی کہ قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو یہ سب بدترین گناه ہیں
دین اسلام نے عمومی طور پر گوشت خور جانوروں کو حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ گوشت خور جانوروں کے معدے میں گندگی اور ان کا گوشت گندہ اور بد بودار ہوتا ہے اس لئے ان کے گوشت کھانے سے انسان بیمار ہوتا ہے اس کے برعکس زیادہ تر گھاس والے جانوروں کو حلال جانتا ہے۔ وہ تمام جانور جو ناخن رکھتے ہیں وہ حرام ہیں اور جو حیوانات کھر رکھتے ہیں وہ حلال کئے گئے ہیں اور ان میں سے کچھ کو مکروہ کہا گیا ہے, مثلاً گھوڑا، خچر وغیرہ۔ اگر جانور حلال گوشت ہو تو تزکیہ (شرعی طہارت) کے بعد اس کا کھانا حلال ہے۔ وہ حیوانات کہ جو خون جہندہ رکھتے ہوں، شرعاً ان کا تزکیہ دو چیزوں سے ہوتا ہے
حیوانات کی تین قسمیں ہیں: زمینی، آبی، ہوائی۔
زمینی جانور دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پالتو، یعنی وہ جانور جو انسانوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور وحشی جو جنگل و بیابان میں رہتے ہیں۔ پالتو جانوروں میں صرف بھیڑ، بکری، گائے، بھینس،اونٹ حلال گوشت ہیں اور گھوڑے، گدھے اور خچر کا گوشت کھانا مکروہ ہے۔ ان چھ کے علاوہ دوسرے پالتو جانوروں میں مثلاً بلی حرام گوشت ہے۔
جنگلی جانوروں میں سے ہرن کی مختلف قسمیں, پاڑا, سانبھر, پہاڑی بکرا, بارہ سنگھا, جنگلی گائے، جنگلی گدھا, زیبرا اور نیل گائے حلال ہے۔ تمام درندہ جانوروں کا گوشت یعنی ایسے گوشت خور جانور کہ جو نوکیلی چونچ اور پنجہ رکھتے ہوں چاہئے قوی ہوں مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا, تیندوا وغیرہ اور چاہے ضعیف ہوں مثلاً لومڑی، گیدڑ, لکڑبگھا وغیرہ اور اسی طرح خرگوش کا گوشت اگرچہ درندوں میں سے نہیں لیکن حرام ہے۔
حشرات (رینگنے اور کاٹنے والے جانور اور پتنگے) کی تمام اقسام کا کھانا حرام ہے مثلاً سانپ، چوہا پالتو ہوں یا جنگلی, پتنگا, چھچھوندر، کیڑا مکوڑا, سیئ (ایک جنگلی خاردار چوہا) سیاہ بھونرا، جوں کھٹمل وغیرہ۔
ہوائی جانوروں یعنی پرندوں میں سے کبوتر کی تمام اقسام حلال ہیں، مثلاً قمری (کبوتر کی طرح کا ایک خوش آواز پرندہ) چکور، بٹیر، تیتر، سنگ خوار، مرغابی اور مرغوں کی اقسام, اور چڑیوں کی قسمیں مثلاً بلبل، قبرہ, صرد (موٹے سر اور چونچ والاآدھا سفید اور آدھا سیاہ پرندہ جو چڑیا کا شکار کرتا ہے), اور صوام (مٹیالے رنگ لمبی گردن والا پرندہ جو غالباً کھجور کے درختوں پر رہتا ہے) اور شقراق (سبز رنگ کا خوبصورت پرندہ کبوتر کے برابر اور اس کے سیاہ پروں پر سرخ اور سبز دھاریاں ہوتی ہیں)
چمگادڑ مور اور وہ گوشت خور پرندہ جو پنجہ رکھتا ہو خواہ قوی ہو کہ جو جانور کو چیز پھاڑ سکتا ہو، مثلاً شکاری باز، چرخ, عقاب, شاہین، باشق یا ضعیف ہو مثلا گدھ۔ بنا بر احتیاط کووں کی تمام قسموں سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ احتمال یہ ہے یہ گوشت خور پرندوں میں سے ہوں۔جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس بارے میں روایات میں خاص حکم موجود ہے۔ وہ پرندے جن کے بارے میں کوئی خاص حکم وارد نہیں ہوا تو بطور کلی حرام گوشت کو حلال سے جدا کرنے اور اس کی پہچان کیلئے شرع میں دو علامات کا ذکر کیا گیا ہے۔
اور ہر حیوان کا انڈا اسی حیوان کے حکم میں ہے یعنی حلال گوشت حیوان کا انڈا حلال اور حرام گوشت حیوان کا انڈا حرام ہے۔ اور کسی ایسے جانور کا انڈا کہ جس کہ بارے میں معلوم نہ ہو کہ حلال گوشت ہے یا حرام گوشت تو اگر اس کا اگلا سرا اور نچلا حصہ برابر نہ ہو (جیسے مرغی اور کبوتر کا انڈا) تو حلال ہے اور اگر دونوں طرف برابر ہے توحرام ہے۔
ضمناً یاد رکھئے کہ حلال گوشت جانور دو چیزوں کی وجہ سے حرام گوشت ہو سکتا ہے اور ان دونوں کے احکامات کا رسالہ عملیہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
اور پانی کے جانوروں میں صرف چھلکے والی مچھلی حلال ہے خواہ اس کے چھلکے بعد میں کسی وجہ سے گر چکے ہو, مثلاً کنعت (قبا مچھلی)۔ کہتے ہیں کہ یہ انتہائی شریر ہوتی ہے اور تمام چیزوں پر اپنے آپ کو مارتی اور ملتی ہے، جس کی وجہ سے اس کے چھلکے گر جاتے ہیں اور غالباً اسکی چھلکوں والی دم باقی رہ جاتی ہے۔
شکار میں حلال کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک اس سدھائے کتے کے ذریعہ کہ جو حکم مانتا ہو، یعنی جب اس سے کہیں جاؤ تو چلا جائے اور جب کہیں آؤ تو آجائے اور اپنا شکار کھانے کا عادی نہ ہو اور کتے کو شکار پر چھوڑنے والامسلمان ہو اور چھوڑتے ہوئے اس نے اللہ کا نام لیا ہو اور کتا شکاری کی نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔
شکار کے حلال ہونے کے دوسرے اسباب تلوار و نیزہ اورلوہے کے نوکدار ہتھیار کارتوس وغیرہ ہیں۔ اس طرح کہ جانور کا جسم پھاڑ دے خواہ یہ ہتھیار آہنی ہو یا کسی اور دھات کا بنا ہو شکار کے حلال ہونے کا باعث ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ تیرانداز مسلمان ہو اور تیر چلاتے ہوئے بسم اللہ کہے اور اگر ان شرائط کے ساتھ کتے یا تیروتفنگ سے شکار کا کام تمام ہو جائے تو اس کا کھانا جائز ہے، لیکن اگر شکاری اپنے شکار کو زندہ پا لے تو اسے ان شرائط کے ساتھ کہ جن کا ذکر ہو گا ذبح کرے۔ علاوہ ازیں دوسرے مسائل مثلاً چیتے، جال، کمند وغیرہ سے کیا ہوا شکار ناجائز ہے مگر یہ کہ جس وقت شکاری پہنچے تو شکار زندہ ہو اور وہ اسے ذبح کر دے تو جائز ہو گا۔
اس کے علاوہ جنگلی حلال گوشت جانور شکار کرنے سے صرف اس وقت پاک وحلال ہو گا کہ جب وہ فرار ہوسکتا ہو یا پرواز کر سکتا ہو۔ اس بنا پر ہرن کا وہ بچہ جو فرار نہ ہو سکتا ہو یا چکور کا بچہ جو پرواز نہ کر سکتا ہو تو یہ کتے یا اسلحہ سے شکار کرنے سے حلال و پاک نہیں ہوں گے۔
اسلام نے شکار کو آزاد قرار دیا ہے لیکن اسے صرف اس وقت جائز قرار دیا ہے کہ جب (شکاری) اپنے گھر والوں کو فائدہ پہنچانے یا اپنی روزی حاصل کرنے کے لئے شکار کرے اور ایسا شکار کہ جس سے مراد صرف لہو ولعب اور حیوانات کو مارنا ہو تو یہ جائز نہیں۔ اور سفر میں اس (شکاری) کی نماز قصر نہیں ہو گی اور روزے بھی رکھے کیونکہ اس کا سفر غیر شرعی اور حرام ہے۔
تزکیہ کے اسباب میں دوسرا ذبح شرعی ہے یعنی (جانور کی) گردن کی چار بڑی رگوں کو پورے طور پر گلے کے ابھرے ہوئے ہوئے حصے سے نیچے کی طرف سے کاٹ دیا جائے (ان چار رگوں سے مراد ایک سانس کی نالی،دوسری کھانے کی نالی اور گردن کی دوموٹی رگین جو سانس کی نالی کے پاس ہوتی ہیں) اور اس کے لئے بھی پانچ شرطیں ہیں۔
اونٹ کو ذبح کرتے ہوئے ان پانچ مذکورہ شرطوں کے علاوہ ضروری ہے کہ چھری یا کوئی دوسری لوہے کی چیز جو کانٹے والی ہو اس کی گردن اور سینے کے درمیان اس جگہ پر جہاں گڈھا سا ہوتاہے بھونک دیں۔
اور اگر حیوان سر کش ہو اور اسے شرعی طریقے سے ذبح کرنا ممکن نہ وہ مثلاً کنویں میں گر جائے اور یہ احتمال ہو کہ وہیں مر جائے گا تو اس کے جسم پر جہاں بھی ایسا زخم لگا دیں کہ جس کی وجہ سے اس کا دم نکل جائے تو حلال ہو جاتا ہے اور اس کا قبلہ رو ہونا بھی ضروری نہیں لیکن دوسری شرطوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
مچھلی کا تزکیہ یہ ہے کہ اسے پانی سے زندہ پکڑا جائے پس اگر چھلکے والی مچھلی کو پانی سے زندہ پکڑا جائے اور وہ باہر آکر جان دے تو پاک ہے اور اس کا کھانا جائز ہے۔ اور اگرپانی میں مرجائے تو بھی پاک ہے کیونکہ وہ خون جہندہ نہیں رکھتی لیکن اس کا کھانا حرام ہو گا اور ضروری نہیں کہ مچھلی کا شکار کرنے والا مسلمان ہو پس اگر کافر بھی مچھلی کا شکار کرے تو اس کا کھانا حلال ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ یہ جانتے ہوں کہ مچھلی پانی سے باہر آکر مری ہے۔
ٹڈی کا تزکیہ اسے زندہ پکڑنا ہے اور جب ٹڈی کو ہاتھ یا کسی دوسرے طریقے سے زندہ پکڑا جائے تو اس کی جان نکلنے کے بعد اس کا کھانا حلال ہے اور ضروری نہیں کہ اسے پکڑنے والا مسلمان ہو اور پکڑتے ہوئے اللہ کا نام لے۔ ایسی ٹڈی کا کھانا کہ جس کے پرنہ پھوٹے ہوں اور اڑنہ سکتی ہو، حرام ہے۔
شکار یا ذبح کرنے کے بعد اگر جانور کے پیٹ سے مرا ہوا بچہ نکلے تو اگر اس بچے کے اعضاء پورے ہو چکے ہوں اور جسم پر اون یا بال اگ چکے ہوں تو بچہ پاک ہے۔ چونکہ اس کی ماں حلال گوشت ہے اس لئے اس (بچے) کا کھانا جائز ہے۔
بطور عموم یہ حکم دیا گیا ہے کہ مہر ومحبت کو پیش نظر رکھا جائے یعنی جانور کو سختی سے اور اذیت دے کر ذبح نہیں کرنا چاہئے اور ذبح کئے ہوئے جانور کی روح جدا ہونے سے قبل اس کے اعضاء کاٹنا اور کھال اتارنا جائز نہیں ہے۔ ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے جب کہ وہ دیکھ رہا ہو، ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسلام نے جانور کو ذبح سے پہلے پانی پلانے کا حکم بھی دیا ہے۔
سوائے کتے اور خنزیر کے ہر حرام گوشت جانور تزکیہ شرعی سے چھونے کے لئے پاک ہو جاتا ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے, اور اگر تزکیہ نہ ہو تو اس کا مردہ نجس بھی ہو گا۔ ہاں اگر خون جہندہ (اچھلنے والا خون) نہ رکھتا ہو اور تزکیہ کے بغیر مر جائے تو اس کا کھانا حرام ہے, لیکن وہ نجس نہیں ہے, مثلاً سانپ اور کیڑے وغیرہ۔ اور ہر حلال گوشت جانور کہ جس کا شرعی تزکیہ ہو چکا ہو تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر بغیر تزکیہ کے مرجائے تو وہ نجس ہے اور اس کا کھانا حرام ہوگا اور اگر خون جہندہ نہ رکھتا ہو تو اس کا کھانا حرام ہے لیکن نجس نہیں ہو گا مثلاً مچھلی کہ جو پانی میں مر گئی ہو۔
ہروہ جانور جو طہارت شرعی کے بغیر مر جائے وہ مردار ہے اور اس کا کھانا حرام ہے, خواہ مرض کی وجہ سے یا طبعی موت ہو, یا بیرونی اسباب میں سے کسی سبب کی بناء پر, اچانک یا آہستہ آہستہ اسکی موت واقع ہوئی ہو۔ اور اگر خون جہندہ (اچھلتا ہوا خون) رکھتا ہو تو نجس بھی ہو گا, لیکن اگر تزکیہ ہو گیا ہو تو پاک ہے (سوائے کتے اور سور کے جو ہمیشہ نجس اور قابل تطہیر نہیں ہیں)۔ آیہ شریفہ میں اس قسم کا بھی خاص طور پر ان پانچ چیزوں میں ذکر کیا گیا ہے اور ان سب کو مردار قرار دیا گیا ہے۔
اس آیہ شریفہ میں مٰا ذُبحَ عَلَی النُّصُب سے مراد زمانہ جاہلیت کے طریقے سے منع ہے۔ چونکہ اسلام سے پہلے مشرکین کعبہ کے اطراف میں پتھروں کو نصب کر دیتے تھے اور انہیں مقدس اور پرستش کے قابل سمجھتے تھے اور ان کے اوپر جانوروں کو ذبح کرتے تھے۔
اور وَاَنْ تَسْتَقْسمُوا بالْاَزَلْاٰم سے مراد قربانی کی بھیڑ یا دوسرے چارپائے کو حصے کرنے کے لئے لینے سے منع کیا گیا ہے, اور اس وقت اس بات کی تشخیص کے لئے کہ کون حصہ رکھتا ہے اور کون نہیں رکھتا اور دو یا مختلف حصوں کی تشخص کیلئے ہر ایک مخصوص تیر استعمال کرے یہ بھی ایک قسم کا جوا ہے۔
مفضل بن عمرو سے روایت کی گئی ہے کہ اس نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ خداوند عالم نے مردار،خون اور خنزیر کے گوشت کو کیوں حرام قرار دیا ہے؟امام نے فرمایا:
ایسا نہیں ہے کہ خداوند عام نے کچھ چیزوں کو اپنے بندوں کے لئے حرام اور کچھ حلال قرار دیا تا کہ جو حرام ہے (نعوذباللہ) اس سے وہ اپنی خواہش پوری کرے اور حلال چیز سے جب کہ وہ رغبت نہیں رکھتا, اس لئے بندوں کا حصہ قرار دیا, بلکہ خدا نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سی شئے انسانی جسم کے لئے مفید وضروری ہے لہذا اسے اپنے فضل سے مباح و حلال قرار دیا اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے شئے انسانی جسم کے لئے ضرر رساں ہے لہذا اسے منع کیا اور حرام قرار دیا۔ البتہ انہی حرام چیزوں کو اس شخص کے لئے جو مجبور ہو اور اس کے پاس جان بچانے کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو, مباح و حلال قرار دیا۔ لیکن صرف اسی قدر اجازت دی کہ جس سے اس کی جان بچ جائے۔ اس کے بعد آپؑ نے فرمایا, مردار کھانے سے جسم کمزور ولاغر ہو جاتا ہے اور قوت ختم ہو جاتی ہے اور نسل منقطع ہو جاتی ہے اور مردار کھانے والے کی موت ا چانک واقع ہوتی ہے۔ (امالی۔ وسائل)
جب زندیق نے امام ع سے پوچھا کہ خداوند عالم نے مردار کو کیوں حرام کیا ہے تو آپ ع نے فرمایا:
مردار حرام کیا گیا تا کہ اس جانور میں اور جس پرخدا کا نام نہ لیا گیا ہوفرق ہو۔ اس کے علاوہ چونکہ مردار کا خون بدن سے خارج نہیں ہوتا بلکہ اس کے بدن میں پلٹ جاتا ہے اور منجمد ہو جاتا ہے جس سے اس کا گوشت ثقیل اور ناگوار ہو جاتا ہے اور اس کا گوشت خون کے ساتھ کھایا جاتا ہے تو اس زندیق نے کہا کہ پھر تو مچھلی کا گوشت بھی مردار اور حرام ہونا چاہئے۔ کیونکہ اسکے جسم سے بھی خون خارج نہیں ہوتا۔امام ع نے فرمایا مچھلی کا تزکیہ یہی ہے کہ اسے پانی سے نکال کر باہر چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ خود مر جائے اور اسے ذبح کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس میں خون نہیں ہوتا اور اسی طرح ٹڈی بھی۔ (بحار الانوار ۔ احتجاج امام صادق ع)
مزید یہ کہ اگر خدا کا نام لیا جائے تو دنیوی و اخروی، صوری و معنوی برکتیں انسان کے روح و بدن کا مقدر ہوتی ہیں اور اگر ترک کرے تو ان برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔
خون کی دو قسمیں ہیں، نجس اور پاک۔ انسان اور ہر اس جانور کا خون نجس ہے کہ جو خون جہندہ رکھتا ہو، یعنی اگر اس کی شہ رگ کاٹیں تو خون اچھل کر نکلے, خواہ کم ہو یا زیادہ۔ اس بناء پر وہ خون جو دودھ دوہتے ہوئے دودھ میں نظر آئے وہ نجس ہے اور دودھ کو بھی نجس کر دیتا ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور بنا پر احتیاط وہ معمولی سا خون جو انڈے میں نظر آئے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے۔
لیکن دو طرح کا خون پاک ہے۔ ایک ہر اس جاندار کا خون جو خون جہندہ نہیں رکھتا ہو مثلاً مچھلی و مچھر وغیرہ۔ دوسرے حلال گوشت جانور کو ذبح کرنے کے بعد جو باقی ماندہ خون رہ جائے وہ حلال ہے۔ پس اگر جانورو ں کو حکم شرعی کے مطا بق ذبح کیا جائے اورمعمول کے مطابق خون بہہ جائے تو جسم میں بچا ہوا خون پاک ہے۔ لیکن اگر (جانور) کے سانس لینے یا جانور کا سربلندی پر ہونے کی وجہ سے خارج شدہ خون دوبارہ بدن میں پلٹ جائے تو اسکا بقیہ خون پاک نہیں ہو گا۔
اس کے علاوہ بطور کلی خون چاہے پاک ہو یا نجس اس کا کھانا حرام ہے۔ لیکن وہ پاک خون جو مچھلی اورذبح شدہ جانور کے بدن کا جزو ہو, یعنی اگر اس طرح ہو کہ گوشت کا جزو شمار کیا جائے تواس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ اگر اسے خون کہاجائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔
امام جعفر صادق ع سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
خون (پینا) مرض کلب (شدید پیاس اور جنون) سنگدلی اور بے رحمی کا سبب بنتا ہے اور خون پینے والے سے عین ممکن ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنے والدین یا کسی رشتہ دار یا کسی دوست کو قتل کردے۔ (تفسیر عیاشی)
آپ ع نے فرمایا:
خون کا پینا جسم میں زرد پانی کی تولید کا سبب بنتا ہے۔ انسانی بدن کو بد بو دار اور انسان کو بد اخلاق بناتا ہے اور اس کی نسل میں ایک طرح کا جنون ہوتا ہے اور دل کو بے رحم بناتا ہے۔ ( کافی, وسائل)
زندیق نے حضرت امام جعفر صادق ع سے پوچھا بہائے ہوئے خون کو حرام قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟ امام ع نے فرمایا:
خون پینے سے قساوت قلبی اور بے رحمی پیدا ہوتی ہے بدن کو بد بودار کرتا ہے اور رنگ کو متغیر کرتا ہے اور خون پینے سے انسان کو جذام کا مرض ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ ( احتجاج جلد 4, بحار الانوار)
حضرت امام علی رضا ع فرماتے ہیں:
خون پینے سے انسان کے جسم میں طاعون، زخم اور پھوڑے پیدا ہوتے ہیں جو اکثر انسان کی موت کا سبب بنتے ہیں
خنزیر (سور) اور کتا دو نجس العین جانور ہیں جن کے بدن کے تمام اجزاء حتیٰ بال اور ناخن کہ جن میں جان نہیں ہوتی، وہ بھی نجس ہیں اور ان کو ذبح کرنا بیہودہ عمل ہے۔ یعنی یہ (جانور) کسی بھی طریقے سے پاک نہیں ہو سکتے اور ان کا (گوشت) کھانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ امام علی رضا ع خنزیر کا گوشت کھانے کی حرمت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خداوند عالم نے خنزیر کا گوشت کھانا حرام فرمایا ہے، چونکہ یہ ایک ہیبت ناک اور بد صورت جانور ہے اور خداوند عالم نے اسے اس لئے پید اکیا ہے کہ لوگ نصیحت وعبرت حاصل کریں (یعنی اسے دیکھ کر سمجھ لیں کہ خدا ہر چیز سے زیادہ قوی ہے اور اپنی انسانی شکل کی خوبصورتی پر خدا کا شکر ادا کریں) اور شہوت پرستی و بے ہودہ باتیں جو اس چیز کا سبب بنتی ہیں سے پرہیز کریں کہ خداوندعالم ان کی خوبصورتی کو خنزیر کی صورت میں بدل دے اور وہ مسخ ہوجائیں, نیز خنیزیر کو انسانو ں میں رکھا تا کہ ان گزشتہ امتوں کی دلیل ہو جو اس صورت میں مسخ ہو گئے تھے اور خنزیر کے گوشت کی حرمت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس کی خوراک انتہائی نجس اور گندی چیزیں ہوتی ہیں اور اس کے خون میں بے شمار مفاسد اور نقصانات ہیں (عیون الخبار الرضا ع ۔ کتاب الاطعمہ وسائل الشیعہ باب 1)
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
خداوند عالم نے کئی قوموں کو مختلف جانوروں کی صورت میں مسخ کر دیا تھا، انہی میں سے خنزیر و بندر اور ریچھ وغیرہ اور کچھ دوسرے جانور بھی مسخ کئے گئے ہیں۔ پھر ان جانوروں کے کھانے سے منع کیا گیا ہے تا کہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں اور اس کے عذاب کو حقیر نہ سمجھیں۔ (تفسیر عیاشی اورکتاب الَطعمہ و الاشربہ وسائل باب اول)
خداوند عالم نے خنزیر کا گوشت کھانے سے قوم یہود کو منع کیا اور مسلمانوں پر حرام قرار دیا ہے۔ عیسائی آج بھی خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں اور تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ آج جب کہ وہ خنزیر کے گوشت کی حرمت کا سبب سمجھ گئے ہیں, لیکن پھر بھی اس کے کھانے سے باز نہیں آتے۔ ماہرین علم طبیعت آج واضح طور پر سمجھ گئے ہیں کہ خنزیر کے گوشت میں کیا کیا نقصانات ہیں اس دنیا میں اس کے نقصان سے بچنے کا واحد حل یہی تھا کہ اسے حرام قرار دیا جائے۔
وہ ممالک کہ جہاں خنزیر کا گوشت زیادہ کھایا جاتا ہے وہاں لادرری (پیچش) کی بیماری عام ہے اور اس کے برعکس اسلامی ممالک میں جہاں خنزیر کا گوشت بالکل نہیں کھایا جاتا وہاں یہ مرض بالکل نہیں ہے۔
علم طبیعت کے لحاظ سے یہ بات مسلم ہے کہ انسان جس بھی جانور کا گوشت زیادہ استعمال کرے تو وہ اسی جانور کے اخلاق سے متصف ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر انسان ہمیشہ گائے کا گوشت کھائے تو گائے کی صفت اور طاقت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اگر بھیڑ کا دودھ اور گوشت کھاے تو رحم دلی اور بھیڑ کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔
اسی طرح خنزیر کا گوشت کھانے سے انسان میں خنزیر کی طرح صفات پیدا ہو جاتی ہے۔ خنزیر بے حیائی اور بے غیرتی میں مشہور ہے۔ اس میں عصبیت جنسی نہیں پائی جاتی۔ یہ وہ بے غیرت جانور ہے جو دوسرے خنزیر کو اپنے مادہ کی طرف دعوت دیتا ہے اور پھر خوش ہوتاہے۔ غرض کہ جتنی بھی جنسی بے غیرتی ہے اور بے شرمی کی باتیں ہیں وہ سب اس کے اندر جمع ہیں۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ یورپی بھی اس جانور کی برائی کو سمجھتے ہیں اور جب بھی کسی کو بے حیائی و بے غیرتی کا طعنہ دینا ہو تو اسے خنزیر کے نام سے پکارتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی گالی اورخنزیر کا دوسرا معنوی نقصان یہ ہے کہ یہ غلاظت خور ہے۔ جب بھی پاخانہ کرتا ہے اسے کھا لیتا ہے اور کسی چیز کا خیال نہیں رکھتا نتیجتاً اس کا وجود سراپا گندگی ہے۔
انجیل برنایا میں ان حقائق کی وضاحت ان کی تحریر سے ہوسکتی ہے۔ انہوں نے خنزیر کو مظہر شیطان کہا ہے اور کہتے ہیں کہ اس حیوان کے بدن میں شیطان کی روح ہے۔ انجیل کہ جو فعلاً عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے, اس میں بھی اس بات کی تائید کی گئی ہے۔ چنانچہ متی (8: 23), مرقس (5: 1-20) اور لوقا 8: 26-39) میں حضرت عیسیٰ کا شیطان کو خنزیر کے گلے میں داخل کرنا اور اس گلے کو ندی کی طرف بھیجنے کی تشریح کی گئی ہے۔ اس بناء پر معنوی لحاظ سے عیسائی بھی خنزیر کا گوشت کھانے کی برائی جانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس کا گوشت کھانے سے اجتناب نہیں کرتے۔
جسمانی لحاظ سے خنزیر کے بہت زیادہ نقصانات ہیں لیکن اس میں سے دو بہت زیادہ اہم ہیں۔ ایک ٹریکین (Trichine) اور دوسرے کرم کدو (کینچوے) کہ جس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے۔
ٹریکین ایک چھوٹا جاندار ہے جو خنزیر کے گوشت میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ٹریکین ایک کیڑا ہے کہ جس میں نر ایک سے ڈیڑھ ملی میٹر تک ہو تا ہے اور مادہ تین ملی میٹر قطر رکھتی ہے جو ایک ماہ کے عرصے میں دس سے پندرہ ہزار تک انڈے دیتی ہے۔ صرف خنزیر کا گوشت کھانے سے تریکین انسان کے بدن میں داخل ہوجاتے ہیں اور شروع میں خون کے سرخ جرثومے زیادہ ہو جاتے ہیں اور بعد میں ختم ہو جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ سرخ جرثومے انتہائی کم ہو جاتے ہیں اور انسان خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ممکن ہے کہ یہی حالت اسے موت کی طرف دھکیل دے۔ اس کا سب سے پہلا اثر سر چکرانا اور مخصوص قسم کا بخار ہے۔ یہ بخار نظام ہاضمہ سے مربوط ہو جاتا ہے اور اسہال (دست یا Diarrhea) شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ بخار شروع میں کم ہوتا ہے لیکن آہستہ آہستہ زیادہ اور پرانا ہو جاتا ہے۔ اور دوسرے مختلف امراض مثلاً اعصاب میں کھنچاو بدن میں خارش, تمام بدن میں سخت سستی و تھکاوٹ کا ہونا, بدن میں انتہائی کمزوری کی بناء پر دردوں کا رہنا وغیرہ اور چار پانچ روز ہی میں موت سر پر منڈلانے لگتی ہے۔ اور مرض کے دوسرے آثار بھی مریض کے چبانے، نگلنے اور سانس لینے کے عمل سے ظاہر ہوتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ موت دوسرے عوامل کی بناء پر واقع ہو۔ کیونکہ یہ کیڑے اپنے قیام کے تیسرے ہفتے میں معدے کے عضلات پر حملہ شروع کر دیتے ہیں اور ساتویں ہفتے میں پھیپھڑوں میں اکٹھے ہو کرمریض کے اعضائے رئیسہ کی کمزوری کا باعث بن جاتے ہیں۔
ٹریکین کیڑوں سے جو مرض پیدا ہو تا ہے وہ ٹریکنوز(Trichinoes) کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مرض ان ممالک میں بہت زیادہ ہے جہاں خنزیر کا گوشت کثرت سے استعمال ہوتاہے اور اسلامی ملکوں میں کہ جہاں خنزیر (کا گوشت) حرام ہے، یہ مرض بالکل نہیں۔ جب ٹریکین معدے میں داخل ہو جائیں تو پھر کیڑے مار کوئی بھی دوائی ان کو دور کرنے پر قادر نہیں ہے۔ جب بھی نو مولود ٹریکین عضلات میں نفوذ کر جائیں تو اسکا کوئی علاج نہیں اور ہر صورت میں مریض کو موت سے ہمکنار کر دیتے ہیں۔ اس مرض کے خطرناک ہونے اور سرایت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ خنزیر کے ایک کلو گوشت میں ممکن ہے کہ 400 ملین نومولود ٹریکین ہوں۔
خنزیر کا گوشت کھانے سے انسان پر جو دوسری خطرناک ترین بیماری عارض ہوتی ہے وہ لادرری (پیچش) کا مرض ہے کہ جس کا باعث کرم کدو (کینچوے) ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ خنزیر کے گوشت میں نومولود کینچوے نہ ہوں۔ اگر خنزیر کے گوشت کو انسان کھائے تو وہ کیڑے جیسے ہی انسان کی آنتوں میں داخل ہوتے ہیں، نمو پاتے ہیں اور مکمل کینچوے بن جاتے ہیں۔ ماہرین کے کہنے کے مطابق اس سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ خنزیر کا گوشت نہ کھایا جائے۔ پیچش کا مرض ان ممالک میں بہت زیادہ ہے جہاں پر خنزیر کا گوشت کثرت سے استعمال ہو تا ہے جیسے جرمنی میں۔
خنزیر کے گوشت کے نقصانات صرف ان ہی چیزوں پر منحصر نہیں بلکہ خنزیر کا گوشت ثقیل الہضم اور معدے کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ خنزیر کا گوشت کھانے سے غالباً انسان میں زہر پیدا ہوتا ہے کہ جسے اصطلاح علمی میں بوٹولزم (Botulism) کہتے ہیں۔ دین اسلام کی عظمت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ جس نے آج سے ایک ہزار چار سو سال پہلے کہ جب دنیا ان مسائل سے بہت دور تھی خنزیر کے گوشت کے نقصانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے حرام قراردیا۔
اور اسی طرح کتے کے بارے میں کہ جسے دین اسلام نے نجس العین قرار دیا اور اسے گھر میں رکھنے سے منع فرمایا ہے, بالآخر یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ کتے سے بہت سی بیماریاں انسان میں منتقل ہوتی ہیں مثلاً خارش، گنجا پن اور دوسرے جلدی امراض جو کھمبیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور سب سے بڑا مرض کرم کدو سگ ہے اور کتے سے مختلف قسم کی جوئیں انسان میں منتقل ہوتی ہیں اور سل کا مرض وغیرہ۔ اور کتے کے برتن چاٹنے سے جو جراثیم برتن پر لگ جاتے ہیں وہ مٹی کے علاوہ کسی چیز سے دور نہیں ہوتے چنانچہ اسلام میں بھی اس کے پاک ہونے کا انحصار صرف مٹی سے مانجھنے پر موقوف ہے۔