ہمزة طعنہ دینے والے کو کہتے ہیں, اور لمزہ وہ ہے جو کسی کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے۔ ویل بھی جہنم کا ایک درجہ ہے یا اس کا ایک کنواں ہے, اور سخت عذاب کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ حتی اگر مذمت اور توہین کی نیّت نہیں ہے اور مجبوراً مذمت ہو جاتی ہے, مثلاً کسی شخص کی ماں بدکردار تھی تو یہ تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔
وہ شخص کہ جو سعادت اور تقویٰ کے بلند مقام کا طالب ہے اُسے چاہیئے کہ تقویٰ کے دوسرے مرتبے کو جو حرام چیزوں اور گناہوں سے پرہیز کرنا ہے زیادہ اہمیت دے۔ کیونکہ بعض گناہان کبیرہ اعمال صالح کو نابود کر دیتے ہیں۔
اعرابی ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان جہل و بے خبری کے صحرا میں معارف الھیہ اور کمالات انسانی اور سعادت ابدی سے محروم رہے اور اس فانی دنیا کی چارہ روزہ زندگی اور خواہشات جنسی کے حصول ہی کو سب کچھ سمجھے۔ اور اسے سعادت ومعرفت کے حصول کی کوئی پرواہ نہ ہو اور ہر قسم کے گناہ اور برے کام, جو کہ آخرت کے عذاب کا سبب بنیں ان سے پرہیز نہ کرے, اور ہر عمل خیر جو کہ ہمیشہ کے ثواب کا موجب ہو اس کی طرف توجہ نہ دے, وہی اعرابی ہے۔ اور ہجرت اس کی برعکس کیفیت کا نام ہے۔ اور ہجرت کے بعد اعرابی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنے, متنبہ ہونے اور یاد دہانی کے یعنی ہجرت کے بعد انسان دوبارہ اعرابی بن جائے۔
ضربت کے بعد اپنے بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام اور تمام انسانیت کے نام حضرت علی علیہ السلامؑ کی وصیت
بے شک خدائے تعالیٰ نے ہر مخلوق کی روزی حلال ہی تقسیم کی ہے اور کسی کی قسمت میں حرام روزی نہیں لکھی ہے۔ پس جو شخص خدا سے ڈرے گا اور صبر سے کام لے گا تو خدا حلال طریقہ سے اسے رزق فراہم کر دے گا۔ لیکن جو شخص اپنی پاکیزگی کا دامن چاک کرے گا اور جلدی میں ناجائز طریقے اپنا لے گا تو اس کے حلال رزق میں سے اتنا رزق کاٹ لیا جائے گا۔ قیامت کے دن اس حرام کمائی کا اس سے حساب لیا جائے گا۔ خداوند تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس سے منع فرمادیا ہے کہ پاکیزہ چیز کے بدلے خبیث اور بری چیز نہ لے لو
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے