راوی کا بیان ہے کہ میں نے حسن و حسین ع کو دیکھا کہ آپ حج کے لئے پیدل تشریف لے جا رہے ہیں, جو سواران کے پاس سے نکلتا ہے اپنی سواری سے اتر جاتا ہے اور ان کے ساتھ پیدل چلتے لگتا ہے- ان میں سے بعض کے لئے پیدل چلنا مشکل تھا- انھوں نے سعد ابن ابی وقاص سے کہا ہمارے لئے پیدل چلنا مشکل ہے لیکن اچھا نہیں لگتا کہ یہ دونوں بزرگ سید پیدل چلیں اور ہم سوار ہو کر چلیں- سعد نے یہ بات امام حسن ع تک پہونچا دی اور عرض کیا کہ کاش آپ لوگ ایسے لوگوں کی حالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سواری پر سوار ہو جاتے- امام حسین ع نے جواب دیا کہ ہم سوار نہیں ہو سکتے اس لئے کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے پیدل حج کریں گے لیکن دوسرے مسافروں کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس راستہ سے الگ ہو جائیں گے-
وہ شخص کہ جو سعادت اور تقویٰ کے بلند مقام کا طالب ہے اُسے چاہیئے کہ تقویٰ کے دوسرے مرتبے کو جو حرام چیزوں اور گناہوں سے پرہیز کرنا ہے زیادہ اہمیت دے۔ کیونکہ بعض گناہان کبیرہ اعمال صالح کو نابود کر دیتے ہیں۔
پیغمبر اکرم ص نے فرمایا کہ معراج کی رات خدا نے مجھ پر ایک یہ وحی بھی نازل فرمائی, کہ جو کوئی میرے کسی دوست کو ذلیل و پریشان کرتا ہے اس نے بلا شبہ مجھ پر لڑائی میں گھات لگائی ہے اور جو کوئی مجھ سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا۔ میں نے کہا اے پروردگار! یہ تیرا دوست کون ہے؟
ضربت کے بعد اپنے بیٹوں امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام اور تمام انسانیت کے نام حضرت علی علیہ السلامؑ کی وصیت
اس کے کئی چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور مال دُنیا میں سے اس کے پاس صرف چھ غلام تھے۔ مرتے وقت اس نے سب کو آزاد کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا, اس کے ساتھ کیا کیا گیا؟ لوگوں نے کہا ہم نے اسے دفن کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اسے مسلمانوں کے قریب دفن نہ ہونے دیتا, کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ گیا۔
یاد رکھو میری نگاہ میں سب سے خوفناک فتنہ بنی امیہ کا ہے جو خود بھی اندھا ہوگا اوردوسروں کو بھی اندھیرے میں رکھے گا۔ اس کے خطوط عام ہوں گے لیکن اس کی بلا خاص لوگوں کے لئے ہوگی جو اس فتنہ میں آنکھ کھولے ہوں گے
اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے