فتنہ سے مراد ہے ہنگامہ کھڑا کرنا اور کسی ایک شخص یا جماعت کا آرام، آزادی اور امن غارت کرنا، دو یا دو سے زیادہ انسانوں کو لڑانا، دھڑے بنوانا اور عوام کو تکلیف اور مصیبت میں پھنسانا اور اسی طرح کے دیگر کام۔ خدا فرماتا ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ فَتَنُوا۟ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا۟ فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ ٱلْحَرِيقِ (البروج - 10)
جو لوگ ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اور اس گناہ سے توبہ بھی نہیں کرتے ان پر دوزخ اور اس کی دہکتی بھڑکتی آگ کا عذاب ہو گا۔
فتنہ دینی کاموں میں بھی ہوتا ہے اور دنیا کے کاموں میں بھی۔ پھر دینی فتنے کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ کبھی ایک شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں دین حق قبول کرنے نہیں دیتا اور اس راستے میں اپنی زبان اور قلم سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی ان لوگوں کو ایذا پہنچا کر اور تنگ کر کے جنہوں نے دین قبول کر لیا ہے دوسروں کو دین قبول کرنے سے روکتا ہے۔ مثلاً آغاز اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ مکے کے مشرکوں کا طرز عمل اور معاویہ کا حضرت امیرالمومنین ع کے شیعوں کے ساتھ برتاؤ۔
فتنہ کو قرآن مجید میں صاف طور پر قتل سے بھی شدید اور بڑا مانا گیا ہے:
وَٱلْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ ٱلْقَتْلِ (البقرة ۔ 191)
فتنہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے۔
اور:
وَٱلْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ ٱلْقَتْلِ (البقرة ۔ 217)
فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے
چونکہ انسان کو ناحق قتل کرنا مانا ہوا گناہ کبیرہ ہے اس لیے فتنے کا کبیرہ ہونا بھی مسلم ہوا جو قتل سے بھی بُرا ہے۔ کسی انسان کا قتل تو ایک عارضی اور مستعار دنیوی زندگی کا ختم کرنا ہے, لیکن دینی فتنے سے ابدی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور انسان دائمی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور جس قدر عالم آخرت دنیا سے بڑا اور اہم ہے بلکہ ناقابل قیاس ہے, دینی فتنہ بھی قتل انسانی سے اتنا ہی بڑا اور اہم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دینی فتنے غالب طور پر قتل اور خونریزیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
دنیوی فتنہ بھی قتل سے بدتر ہوتا ہے کیونکہ جو کوئی پہلے فتنے کی آگ بھڑکاتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس آگ میں جلاتا ہے, ان کو اس قدر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کرتا ہے کہ جیسے وہ روزانہ قتل ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ اگر انہیں ایک ہی بار قتل کیا جاتا تو وہ کچھ آرام سے رہتے۔ دوسرے یہ کہ فتنے اکثر قتل وغیرہ یعنی زخمی کرنے اور اعضائے جسمانی کے ناکارہ اور ناقص بنا دینے کی طرف لے جاتے ہیں۔ شہید فرماتے ہیں کہ قتل ناحق گناہ کبیرہ ہے اور بدن کے اعضاء (ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ) کو نقصان پہنچانا قتل کے برابر ہے۔ (قواعد)
معلوم ہونا چاہیئے کہ جس فتنے کا نقصان اور خرابی جتنی زیادہ ہو گی اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔ فتنے کے سخت قابل نفرت اور قابل غیظ وغضب ہونے کے لیے یہی کافی ہے ہے خدا نے قرآن مجید میں اسے دور کرنے کے لیے جہاد کا حکم فرمایا ہے اور کہا ہے:
وَقَـٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌۭ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ (البقرة - 193)
ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب آجائے
امام محمد باقر ع نے اس آیت کی تفسیر میں فتنے کے معنی شرک بتائے ہیں, اور یہ معنی فتنے کے ان ظاہر معنوں سے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے کوئی تضاد نہیں رکھتے, کیونکہ حقیقی مومن سے کوئی دینی یا دنیوی فتنہ صادر نہیں ہوتا۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
فتنے کی کوشش کرنے والا خدا کا منکر ہو جاتا ہے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب 48 حدیث 14)
حضرت امیرالمومنین ع متقین کی صفات میں فرماتے ہیں:
ان کی خوبی سے امید اور بدی سے امان اور بے خوفی ہے۔ (نہج البلاغہ, خطبہ ہمام)
یعنی جس کے دل میں ایمان کی روشنی داخل ہو چکی ہے لوگوں کو اس کے شر سے امان ہے۔ سو فتنہ بھڑکانے والا یا تو باطنی اور ظاہری کافر و مشرک ہے, اور یا اگر مسلمان ہے بھی تو ابھی کفر کی تاریکی اور شرک کی منزلوں سے نجات نہیں پا سکا ہے اور اس کا دل ابھی ایمان کی روشنی سے نہیں جگمگایا ہے۔
خدا کا ارادہ یہ ہے کہ اسلام جو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اور عام لوگوں کے لیے بھلائی اور نیکی لایا ہے وہ سب تک پہنچے, اور ان ہر قسم کے اسباب کو جو انسانوں اور ان نیکیوں اور بھلائیوں کے درمیان حائل ہوں کو دُور کر دے۔ اس لحاظ سے جو کوئی انسانوں کی اس عمومی بھلائی کے حاصل ہونے میں راستے کا پتھر بنے اور اپنی قوت سے لوگوں کے اور اس بھلائی کے درمیان حائل ہو وہ شخص خدا کا دشمن ہے اور کلمہ خدا اور ارادہ خدا پر دست درازی کرتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے اور انصاف سے دُور ہو جائے مسلمانوں کولازم ہے کہ کلمہ توحید کو بلند کرنے کے لیے اس سے لڑیں چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اسلام کو طاقت سے منوائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان کو سوچنے کی آزادی اور وسیع معلومات فراہم کی جائیں جن کی بدولت ہدایت اور عمومی بھلائی حاصل ہوتی ہے تاکہ اس سے انہیں بھی ہدایت حاصل ہو, ورنہ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ اس کے سامنے سر جھکائے اور مجبوراً اسے مانے۔ جیسے ارشاد ہوا:
لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ (البقرة ۔ 256)
دین میں زبردستی نہیں ہے
بلکہ یہ چاہتا ہے کہ ان لوگوں کو جو راستے کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں اور دیگر لوگوں کو حق کے راستے سے بھٹکاتے ہیں, راستے کے کانٹوں کی طرح چن کر الگ کر دیں۔ جیسا کہ مذکورہ بالا "وَقَـٰتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌۭ" والی آیت سے ظاہر ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ آغاز اسلام سے آج تک کہ چودہ صدیاں گذر چکی ہیں ہر صدی میں دنیائے اسلام میں فتنے اٹھتے رہے ہیں اور ان فتنوں کی پیدائش اس لیے ہوتی رہی ہے کہ دنیا کو آزمایا جائے۔ اسلام کا دعویٰ کرنے والوں کا سچ ظاہر ہو جائے، پاک سے ناپاک الگ ہو جائے، خوش قسمتوں میں نیکی اور بدقسمتوں اور منحوسوں میں سنگدلی پیدا ہو جائے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس موضوع کا ذکر آیا ہے, جیسے:
أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتْرَكُوٓا۟ أَن يَقُولُوٓا۟ ءَامَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت - 2)
کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟
حضرت امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
یاد رکھو میری نگاہ میں سب سے خوفناک فتنہ بنی امیہ کا ہے جو خود بھی اندھا ہوگا اوردوسروں کو بھی اندھیرے میں رکھے گا۔ اس کے خطوط عام ہوں گے لیکن اس کی بلاخاص لوگوں کے لئے ہوگی جو اس فتنہ میں آنکھ کھولے ہوں گے ورنہ اندھوں کے پاس سے بآسانی گذر جائے گا۔ خدا کی قسم! تم بنی امیہ کو میرے بعد بد ترین صاحبان اقتدار پائو گے جن کی مثال اس کاٹنے والی اونٹنی کی ہوگی جومنہ سے کاٹے گی اور ہاتھ مارے گی یا پائوں چلائے اور دودھ نہ دوہنے دے گی اور یہ سلسلہ یوں ہی بر قرار رہے گا جس سے صرف وہ افراد بچیں گے جوان کے حق میں مفید ہوں یا کم سے کم نقصان دہ نہ ہوں۔ (نہج البلاغہ, خطبہ 102)
فتنہ کے اندھا ہونے سے مراد یہ ہے جس طرح اندھا اپنے ہی راستے پر چلتا ہے, اس کی ہدایت بھی شریعت کے راستے پر نہیں, اپنے ہی راستے پر تھی۔ خطوط عام ہونا یعنی اس کے شر کا سب تک پہنچنا ہے۔
پچھلی صدی میں جو فتنے اٹھے ان میں سب سے شدید فتنہ پارٹی بازی کا فتنہ, اور مادیت اور عیاشی کے طرفداروں, اور ایمان داری اور روحانیت سے انکار کا فتنہ ہے, جس نے سیلاب کی طرح یورپ اور امریکہ کی طرف سے اسلامی ممالک کا رُخ کیا۔ آفرینش اور آخرت کے عقیدے کی جڑ دلوں سے اکھاڑ ڈالی اور اس کی جگہ مادیت، عیاشی، خود غرضی اور دنیا پرستی کا منحوس پودا لگا دیا۔ مسلمانون نے اس عہد کو اس آیت کا حقیقی مصداق قرار دیا:
فَخَلَفَ مِنۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَٱتَّبَعُوا۟ ٱلشَّهَوَٰتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (مریم - 59)
پھر ان کے بعد ایسے ان کے جانشیں ہوئے جنہوں نے نماز ضائع کردی اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔ یہ لوگ بہت جلد اپنی گمراہی کے نتائج اور ہلاکت دیکھ لیں گے۔
غرض ان لوگوں نے انسانی سماج سے شرافت اور روحانیت کا خاتمہ کر دیا۔ سب کو خدا اور آخرت کی یاد سے غافل بنا دیا اور طرح طرح کی خواہشات اور بدکاریوں میں اس طرح مشغول کر دیا کہ اسلام کا صرف نام ہی رہ گیا, جیسا کہ پیغمبر اکرم نے آگاہ کیا تھا اور آج کے سماجی حالات کو جانچنے کے بعد بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی عمدہ صفات اُٹھ گئی ہیں۔ ان کی جگہ حیوانی اور شیطانی عادتوں نے لے لی ہے۔ مثلاً حیا جو انسان کی ایک عمدہ صفت ہے اور جو ہزاروں خرابیوں کو روکتی اور عام عصمت اور پاکدامنی کی حفاظت کرتی ہے ان کے درمیان سے اٹھ گئی ہے اور اس کی جگہ بے غیرتی اور فحاشی نے لے لی ہے۔ اسی طرح حقوق کی ادائیگی خصوصاً والدین کے حق کی ادائیگی جو انسانی سماج کے لوازمات میں شامل ہے, اور غیر معمولی ایمانداری کی مستحق ہے جاتی رہی ہے اور اس کی جگہ حق ضائع کرنے، ناشکرے پن، احسان فراموشی اور دوسرے کی خدمت کو نظر انداز کرنے نے لے لی ہے۔
اشتراک عمل، امداد باہمی، تنظیم، مہربانی، رحم، ہمدردی، خیرخواہی اور درگذر وغیرہ جن سے دنیاوی زندگی کا نظام اور آخرت کی نیکی اچھی طرح وابستہ ہے ختم ہو چکی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں خود غرضی، غرور, کٹھورپن بے مروّتی اپنے آرام اور دوسرے کی تکلیف وغیرہ نے جگہ لے لی ہے۔ اسی طرح تمام طبقوں سے گفتار وکردار کی سچائی اُٹھ گئی ہے۔ اس کی جگہ دھوکا، ملاوٹ، فریب کاری اور اچکا پن پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہر جنس کے لوگ اپنی اپنی جنس میں کیسی کیسی تبدیلیاں کرتے ہیں اور انہیں صحیح بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مال حاصل کرنے اور اپنے مادی تکلفات کے وسائل کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی بے ایمانی اور جرم سے دریغ نہیں کرتے۔ چنانچہ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے زہریلی خوراک بیچی ہے اور اپنی نوع کی جانوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حیوانات کی طرح ہو گئے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہیں اور آپس میں نفرت، غصہ اور زور آوری سے ملتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ مادیت کی خرابی کا نمونہ ہے۔ واضح رہے کہ اس فتنے کا آغاز کرنے اور اسے رواج دینے والے لوگوں کی چال سماج کو کمزور بنانا اور اس کی روحانیت کو ختم کرنا ہے اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ سماج خصوصاً جوان نسل میں ایمانداری کو بُرا سمجھنے اور اس کا مذاق اُڑانے کا جذبہ پیدا کرنا اور ان کے اور سماج کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے, تاکہ وہ ایمانداری کے بلند درجات، انسانیت کی اعلیٰ صفات اور آدمیت اور شرافت کی علامات اور آثار کے بارے میں کچھ نہ سن پائیں۔ اور پھر انہیں اندھا بہرا بنا کر اور خرابی کے گٹر میں گرا کر طرح طرح کے گندے جذبات میں مشغول بنا دیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کی خاطر ان کا سب سے بڑا ہتھیار اتہام ہے۔ کبھی انہیں (سیدھے راستے پر چلنے والوں کو) دنیا کی حالتوں اور تمدن سے بے خبر کہتے ہیں اور کبھی انہیں سماجی ترقی کے مخالف بتاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ دنیا پرست اور جاہ طلب ہیں۔ چونکہ سماجی ترقی ان کی سرداری میں روڑے اٹکاتی ہے اس لیے یہ اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور اسی طرح کے مختلف الزام لگاتے ہیں۔
دینی فتنوں میں بدعت کا بھی شمار ہے۔ جن لوگوں نے اسلام میں نئے نئے طریقے ایجاد کیے اور مسلمانوں کو الگ الگ کیا اور عالم اسلام میں فسادات پیدا کیے وہ بدترین فتنہ انگیز لوگ ہیں۔ ایک دینی فتنہ کافروں کے لیے ان باتوں کی جاسوسی کرنا بھی ہے جن کو مسلمانوں میں ہی پوشیدہ رکھنا چاہیئے, جیسا کہ خداوندعالم منافقین کے متعلق فرماتا ہے:
وَإِذَا جَآءَهُمْ أَمْرٌۭ مِّنَ ٱلْأَمْنِ أَوِ ٱلْخَوْفِ أَذَاعُوا۟ بِهِۦ (النساء - 83)
اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں
علامہ مجلسی رح نے بیضاوی سے اس آیت کا مطلب نقل کیا ہے کہ کچھ کمزور طبیعت کے مسلمانوں کا قاعدہ یہ تھا جب رسول خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے لشکر کی کوئی خبر ملتی تھی یا پیغمبر اکرم فتح یا شکست کے بارے میں خدا کی وحی کی اطلاع دیتے تھے تو اسے فاش کر دیتے تھے, اور خود اس بات سے بھی پریشانی اور گڑبڑ پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ یہ آیت اس بات کے آشکارا کرنے کی مذمت کرتی ہے جس کے کھول دینے سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔
یہی صورت مومنین کے ایسے بھیدوں کے کھول دینے کی ہے جو ائمہ اہلبیت ع نے مخالفوں کے بارے میں انہیں بتائیں, کیونکہ اس سے مومنوں کو نقصان اور تکلیف پہنچتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تقیہ واجب ہو وہاں تقیہ نہ کرنا نقصان کا موجب ہوتا ہے۔ علّامہ مجلسی رح کہتے ہیں, شاید علوم کی بعض مشکل باتیں ان لوگوں کو بتانا جو انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں بھید کھولنے ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب الاذاعہ حدیث 12) امام جعفر صادق ع نے اس آیت "يَقْتُلُونَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ" یعنی نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے (بقرة ۔ 61) کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
خدا کی قسم ان لوگوں نے پیغمبروں کو اپنی تلواروں سے نہیں قتل نہیں کیا بلکہ ان کے راز فاش کیے اور انہیں شہرت دی جس سے وہ قتل ہو گئے۔ (کافی)
جو لوگ متحد اور متفق ہو کر خدا سے لو لگاتے اور اپنے پیغمبر اور امام کا ذکر کرتے ہیں ان میں زور زبردستی سے جماعت کے امام اور دینی پیشوا کے خلاف پیروکاروں میں یا پیروکاروں میں ایک دوسرے کے خلاف شک اور بدگمانی پیدا کر کے ان میں جدائی ڈالنا اور انہیں الگ الگ کر دینا یعنی ان کے دلوں کا اتحاد ختم کر دینا جو ہر بُرائی کی جڑ ہے اور خدا کو سخت ناپسند ہے ایک دینی فتنہ ہے۔
فتنے کے مانے ہوئے معاملات میں حاکم اور ظالموں کے لیے جاسوسی کرنا بھی شامل ہے اور اس کا بڑا خطرہ اور خرابی اور اس کا قتل سے بھی برا ہونا ظاہر ہے اس لیے کہ جاسوسی اور فتنہ انگیزی, قتلوں اور جرائم کا سبب ہو سکتی ہے۔ مثلاً ابن زیاد ملعون کے جاسوس معقل کی جاسوسی سے حضرت مسلم اور ہانی بن عروہ گرفتار اور قتل ہوئے بلکہ کربلا کے حادثات اور اس کے بعد کے واقعات بھی اس ملعون جاسوس کے فتنے کی بدولت رونما ہوئے۔
کافروں کی فتح یا غلبہ کے حصول کے لیے معلومات حاصل کرنا اور جاسوسی کرنے کی طرح, کافروں اور مسلمانوں کی لڑائی کے زمانے میں کافروں کو لڑائی کے ہتھیار بیچنا بھی گناہ کبیرہ ہے اور ان دونوں گناہوں کا کبیرہ ہونا اس سے واضح ہوتا ہے کہ کافروں کے خلاف لڑائی سے فرار کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ تو جہاں میدان جنگ سے بھاگ جانا گناہ کبیرہ ہے, کیونکہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے, تو پھر کافروں کو لڑائی کے ہتھیار بیچنے اور ان کے لیے جاسوسی کرنے کا کہنا ہی کیا, کیونکہ ان دونوں اقدامات سے تو مسلمانوں کو نقصان پہنچنا یقینی ہے۔ اسی لیے یہ دونوں گناہ لڑائی سے فرار کرنے سے بھی بڑے ہیں۔ پیغمبر اکرم نے اس امت کے دس گروہوں کو کافر کہا ہے جن میں سے ایک گروہ ان کافروں کو ہتھیار بیچنے والا ہے جو مسلمانوں سے لڑائی لڑ رہے ہوں۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب 48 حدیث 14) امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:
جو کوئی مسلمانوں کے دشمنوں کو لڑائی کے ہتھیار فراہم کرتا ہے جس سے وہ جیت جائیں وہ مشرک ہے۔ (مکاسب)
واضح رہے کہ رہزنوں اور ان لوگوں کو اسلحہ بیچنا بھی جو مسلمانوں کے امن عامہ میں خلل ڈالتے ہیں کافروں کو ہتھیار بیچنے ہی کے برابر ہے۔