جس سے گناہ کبیرہ سر زد ہو اور توبہ نہ کرے تو وہ فاسق ہے۔ اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور اس کی گواہی قابل قبول نہیں اور مرنے کے بعد عذاب الٰہی کا مستحق ہوتا ہے۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اس کے شامل حال ہو جائے اوراسے شافعین کی شفاعت حاصل ہو جائے۔ فضل الہٰی میں سے ایک حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) و آل محمد (علیہم السلام) کی شفاعت ہے۔ چنانچہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا ارشاد ہے:
میری شفاعت میری اُمّت کے گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کے لیے ذخیرہ کی گئی ہے لیکن گناہان کبیرہ کے ترک کرنے والوں، یعنی نیکوکاروں کے لیے کوئی موأخذہ نہیں۔
شیعوں کے مقام اور اہل بیت (علیہم السلام) کے دوستداروں کی نجات کے بارے میں جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کو جہنم کی آگ نہیں جلا سکتی۔ لیکن موضوع شفاعت معصیّت پر جرأت اور توبہ سے غفلت کا سبب نہیں بننا چاہیئے بلکہ گناہ گار کے لیے شفاعت مایوسی کے عالم میں اُمید کو تقویّت دیتی ہے اور بندے کو توبہ و انابہ کی طرف شوق اور رغبت پیدا کراتی ہے تاکہ وہ بلند مراتب پر فائز ہو جائے اور ربُّ العالمین کے قرب و جوار کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائے۔ شفاعت کی امید کے ساتھ دل میں خوف خدا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر ممکن ہے لمبی مدت تک عالم برزخ کے عذاب میں گرفتار رہنے کے بعد اُسے شفاعت نصیب ہو
عمر بن یزید کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر سے دریافت کیا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے ہوے سنا تھا کہ ہمارے تمام شیعہ خواہ کتنے بھی گنہگار ہوں بہشتی ہوں گے۔
فرمایا : اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے سچ کہا ہے! وہ سب کے سب بہشتی ہوں گے۔
پھر میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں؛ بے شک گناہ زیادہ اور بڑا ہو ؟
فرمایا، قیامت کے دن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا ان کے کسی بھی وصی کی شفاعت سے تم سب بہشت میں داخل ہو گے۔ لیکن خداوندعالم کی قسم تمھارے بارے میں برزخ سے ڈرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا؛ مولا برزخ کیا چیز ہے؟جواباً فرمایا؛ برزخ قبر ہےاس کی مدت مرنے کے وقت سے لیکر قیامت کے دن تک ہوتی ہے۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ابن مسعود کو مخاطب کر کے کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا:
ہر گز کسی گناہ کو چھوٹا اور حقیر تصوّر نہ کرو اور بڑے گناہوں سے پرہیز کرو کیونکہ قیامت کے دن جب بندہ اپنے گناہ پر نظر کرے گا تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے خون اور پیپ کے آنسو بہیں گے، اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ قیامت وہ دن ہے کہ ہر ایک اپنے نیک و بد اعمال اپنے سامنے پائے گا اور آ رزو کرے گا کہ خود اس کے اور گناہوں کے درمیان بہت دور کا فاصلہ ہو جائے۔
اور آنحصرتؐ نے ہی فرمایا:
بے شک بندے کے ہر ایک گناہ کی سزا میں اسے ایک سو سال جہنم میں قید رکھا جائے گا۔
حضرت امیرالمومنین ع سے کسی نے موت کی تعریف پوچھی تو آپ نے فرمایا:
تم عالم اور باخبرہستی کے پاس آئے ہو، (اب سنو): تین میں سے ایک حالت میں انسان کی موت واقع ہو تی ہے۔ ابدی نعمت کی خوشخبری دی جاتی ہے، یا ابدی عذاب کی وعید سناتی ہے، یا وہ ہمیشہ کے لئے وحشت اورخوف میں مبتلا رہتا ہے اور اس کا کام غیر یقینی اور تردد کی حالت میں رہتا ہے اور پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس قسم کی موت سے دو چار ہوتا ہے۔
پس جاننا چاہیئے کہ ہمارا دوست ہمارا فرمانبردار ہوتا ہے۔ وہ معصیت کار نہیں ہوتا۔ اسے ابدی نعمتوں کی خوشخبری دی جاتی ہے لیکن ہمارا بد خواہ جو ہماری مخالفت کرتا رہا ہے ہمیشہ کے عذاب میں گرفتار رہے گا۔
لیکن وہ شخص جو غیر یقینی حالت میں ہے اور معلوم نہیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا وہ ایسا مومن ہے کہ جس نے اپنے نفس پر ظلم اور اسراف کیا ہے۔ اس کی موت ڈراور خوف وہراس اور مبہم حالت میں آتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اس کو اور ہمارے دشمن کو مساوی نہیں دیکھتا بلکہ ہماری شفاعت کی وجہ سے وہ جہنم سے نکالا جائیگا۔
پس عمل کرو۔ اور احکامات الہٰی کی اطاعت کرو۔ خداوند کے عذاب کو چھوٹا اور حقیر شمار نہ کرو۔ اور بے شک کچھ ایسے گناہ گار بھی ہیں جن کو ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوتی مگر تین لاکھ سال گزر جانے کے بعد۔
حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہیں ملتی جنہوں نے نماز کو حقیر سمجھا ۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
جو کوئی نماز کو حقیر شمار کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں۔ اللہ کی قسم وہ مجھ سے نہیں، اللہ کی قسم وہ حوض کوثر پر میرے نزدیک نہیں پہنچ سکتا۔
جو کچھ شفاعت کے بارے میں ذکر کیا گیا اس وقت کام آتا ہے جب کہ کوئی شخص ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گناہوں سے آلودہ شخص اس حات میں موت سے ہمکنار ہوتا ہے کہ شفاعت کرنے والے کی سفارش اسے فائدہ نہیں دیتی۔
فَمَاتَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافعیْن (مدثر ۔ 48)
پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی۔
حضرت امام محمد باقر ع نے شیعوں کے صفات بیا ن کرنے کے بعد فرمایا:
اے جابر! آیا کسی شخص کا اتنا کہنا کافی ہے کہ میں علی ع کو دوست رکھتا ہوں اور مجھے ان کی ولایت حاصل ہے۔ اس دعوے کے باوجود عملی طور پر اہلبیت (علیہم السلام) کی پیروی نہیں کرتا۔ اگر کسی نے کہا بے شک میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو دوست رکھتا ہوں کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) علی ع سے بہتر ہیں اور میں شیعہ محمد ہوں، ’تعجب ہے‘ کہ باوجود دعوائے محبت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) اُن کی سیرت طیّبہ کی متابعت نہیں کرتے اور نہ ان کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔ فقط دعوائے محبت سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ پس تم اللہ سے ڈرو تا کہ اس کی رحمت تمہارے شامل حال ہو جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور کسی کے درمیان رشتہ داری نہیں۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ترین اور عزیز ترین بندہ وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرتا ہو اور سب سے زیادہ عمل کرتا ہو۔
اے جابر! خدا کی قسم قرب الٰہی بغیر اس کی اطاعت کے کسی طرح نصیب نہیں ہوتا۔ جب ہمارے شیعوں کے پاس اطاعت و عمل نہ ہو تو ان کو بے قصور ٹھہرا کر جہنم سے آزادی کا ہمارے پاس کوئی حکم نامہ نہیں۔ فقط یہ کہنا کہ ’ شیعہ ہوں‘، بارگاہ الٰہی میں قابل سماعت دلیل نہیں۔ پس جو کوئی اللہ کی اطاعت کرنے والا ہو وہی ہمارا ولی (دوستدار) ہے اور جو معصیّت کار ہو وہ ہمارا دشمن ہے۔ اور ہماری ولایت سوائے تقویٰ و عمل کے کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی۔
جابر حضرت امام محمّد باقر ع سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
کیا کسی کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے کو شیعیت کی طرف نسبت دے اور کہے کہ میں اہل بیت (علیہم السلام) کا دوستدار ہوں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ اس شخص کے سوا اور کوئی نہیں جو خدا سے ڈرتا ہے اور ان کے احکام کی اطاعت کرتا ہے۔
عیسیٰ بن عبداللہ قمّی حضرت ابی عبداللہ امام جعفر صادق ع کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمایا:
وہ شخص ہم میں سے نہیں اور نہ ہمارے نزدیک اس کی عزت ہے کہ کسی شہر میں ایک لاکھ نفر آباد ہوں اور وہاں ایک آدمی بھی اس سے زیادہ پرہیزگار موجود ہو۔
امام جعفر صادق ع کا ارشاد گرامی ہے:
کوئی شخص کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے مگر اس کو عملا ً بجا نہیں لاتا۔ کبھی بندہ گناہ کا کام کرتا ہے اور خدا اُسے دیکھتا ہے اور فرماتا ہے میری عزّت کی قسم اس کے بعد میں تجھے ہر گز نہیں بخشوں گا۔
علّامہ مجلسی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ امام جعفر صادق ع نے تمام گناہوں سے ڈرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ ہر گناہ سے یہی گُمان ہوتا ہے کہ شاید یہ درگزر کرنے کے قابل نہ ہو۔
امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
کوئی بندہ نہیں مگر اس کے دل میں ایک سفید نقطہ ہوتا ہے۔ جب گناہ کرتا ہے اس نقطے سے سیاہ نقطہ نکل آتا ہے۔ اگر توبہ کرے تو وہ سیاہی مٹ جاتی ہے، اگر وہ گناہوں میں ڈوب گیا اور لگاتار آلودہ رہا تو دل کی سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ دل کی پوری سفیدی کو گھیر لیتی ہے۔ جب سفید نقطہ پر مکمل طور پر کالا پردہ چھا جاتا ہے تو ایسے دل کے مالک کبھی بھی خیر کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔ یہ روایت فرمان الٰہی کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: نہیں، نہیں بات یہ ہے کہ جو لوگ اعمال (بد) کرتے ہیں ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔
"ولایت" اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت اور اعمال و اخلاق میں ان کے نقش قدم پر چلنے کا نام ہے۔ اس بیان کی دلیل حدیث زرارہ ہے کہ جس میں امام محمّد باقر ع نے ولایت کو اطاعت سے تعبیر فرمایا ہے۔
حدیث ’سلسلةُ الذّہب‘ میں امام رضا ع سے نقل ہوا ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : علی بن ابی طالب کی ولایت میرا قلعہ ہے۔ پس جو کوئی میرے قلعے میں داخل ہو وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا۔
آپ ع ہی نے فرمایا:
ہمارے دوستدار کو قیامت کے دن ایسی حالت میں محشور کرنا اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے کہ اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک رہا ہو۔ اس کی دلیل روشن اور اس کی حجّت اللہ کے نزدیک ظاہر ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے کہ ہمارے دوست کو قیامت کے دن انبیاء و شہداء و صدیقین کے ساتھ محشور فرمائے اور یہ ہستیاں بہترین رفیق ہیں۔
ابن عباس نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے نقل کیا ہے:
یعنی حضرت علی ع کی محبت گناہوں کو اس طرح جلا دیتی ہے جس طرح آگ لکڑی کو جلاتی ہے۔
انس نے رسولﷲؐ سے روائت کی,
خداوندعالم نے حضرت علی ع کے نور سے ستّر ہزار طرشتے پیدا کئے ہیں۔ یہ ملائک اُن پر اور ان کے دوستوں کے لیے قیامت تک استغفار کرتے رہیں گے۔
امام موسیٰ کاظم ع فرماتے ہیں:
اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہمارا شیعہ صرف وہ ہے جو ہماری پیروی کرے، ہمارے نقش قدم پر چلے اور ہمارے اعمال کی اقتداء کرے۔
ایک رات حضرت امیر المومنین ع مسجد سے باہر جا رہے تھے۔ چاندنی کی وجہ سے فضا روشن تھی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک گروہ آپ کے پیچھے آ رہا تھا۔ آ پ نے فرمایا : تم لوگ کون ہو؟، عرض کیا : ہم آپ کے شیعہ ہیں۔ آنحضرت نے ان کے چہروں کو غور سے دیکھا اور ارشاد فرمایا: کیا وجہ ہے کہ تمہارے چہروں پر شیعہ ہونے کی کوئی نشانی نہیں پائی جاتی؟ عرض کی: مولا! شیعوں کی علامت کیا ہے؟ فرمایا:
عبادت خدا میں زیادہ شب بیداری سے اُن کے چہرے زرد ہوتے ہیں، خوف خدا سے زیادہ رونے کے سبب ان کی آنکھوں سے پانی گرتا ہے، عبادت میں زیادہ مشغول رہنے کے باعث ان کی کمر جھکی ہوئی ہوتی ہے، روزہ زیادہ رکھنے کی بناء پر ان کا پیٹ پیٹھ سے ملا ہوا ہوتا ہے، کثرت دعا سے ان کے ہونٹ خشک ہوتے ہیں اور ان پر خوف الٰہی چھایا ہوتا ہے۔
حضرت امام صادق ع نے مفضل بن عمر سے فرمایا:
اگر تم ہمارے اصحاب کو پہچاننا چاہتے ہو تو اس شخص کو دیکھو جو سختی کے ساتھ گناہوں سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے خالق سے زیادہ ڈرتا ہے اور وہ اس کے ثواب کا امیدوار ہوتا ہے۔ جب تم کہیں بھی ایسے افراد کو دیکھنا تو سمجھ لینا کہ یہی لوگ میرے اصحاب ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں اُسے ’خیرالبریّہ ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
انَّ الَّذیْنَ آمَنُوا وَعَملُوا الصّٰلحٰت اُوْلٰئکَ هُمْ خَیْرُ الْبَریَّة (البینہ: 7)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے، یہی لوگ بہترین خلائق ہیں۔
اور حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
اے علی! ’خیرالبریّہ‘سے مراد آپ اور آپ کے شیعہ ہیں۔ قیامت کے دن جو کچھ اللہ تعالیٰ ان کو مرحمت فرمائے گا اس سے راضی اور خوشی کی حالت میں ہوں گے اور وہ سب پسندیدہ خدا ہوں گے۔
امام جعفر صادق ع سے اس قول خدا کی تفسیر کے بارے میں کہ ’خدا ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لا چکے انہیں تاریکیوں سے نکال کررو شنی میں لاتا ہے‘، پوچھا تو آپ نے فرمایا :
یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے توبہ اور مغفرت کے نور کی طرف لے جاتا ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو ہر ایک امام عادل اور اللہ کی طرف سے منصوب پیشواؤں یعنی بارہ امام (علیہم السلام) کی ولایت حاصل ہے۔
اوراس آیت کے آخری حصے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا انکے سرپرست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں ڈال دیتے ہیں۔(بقرہ: 257) کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس آیہ شریفہ سے اس کے سوا اور کچھ نہیں جو لوگ نوراسلام پر تھے اس کے بعد ہر ایک ظالم اور ناحق پیشواؤں کی پیروی کرتے رہے جو کہ منصوب من اللہ نہیں تھے۔ اس لئے نور اسلام سے کفر کی تاریکیوں کی طرف نکل گئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے کافروں کے ساتھ جہنم کی آگ ان کے لیے واجب قرار دیدی