کیا امام حسینؑ اپنے مقصد کو حاصل کر پائے؟
- یزیدی حکومت کا تو خاتمہ نہیں ہوا؟
- معاشرے کی اصلاح بھی نہیں ہوئی ؟
یزید (لعن) جو شرابی اور زانی تھا اور رسولﷲؐ کے حرام کئے ہوئے امور کو مباح قرار دیتا تھا, جو اپنی مغنیہ (گانے والی) سے کہتا تھا کہ گانا گا کے میرے کانوں کو پاک کرو, کیونکہ ابھی آذان کی آواز نے میرے کان نجس کر دئیے ہیں کے سیاہ کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ حتی اس ملعون کے امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کے چند اقدامات حسب ذیل ہیں:
- مدینہ پر حملہ کیا, 10,000 افراد کو شہید کیا, 1000 صحابیات, تابعات اور تبع تابعات کو حاملہ کیا, 3 دن تک مسجد نبوی میں آذان ہوئی نہ نماز
- مکہ پر حملہ کیا, خانہ کعبہ کو آگ لگائی
- کہا نبوت بنو ہاشم کا ڈھونگ تھا, نہ کوئی فرشتہ آیا نہ کوئی وحی
پھر کامیابی کیا ہوئی ؟
کامیابی یہ ہوئی کہ امام حسینؑ کے بعد اس سوئے ہوئے معاشرے میں امربالمعروف شروع ہوگیا, نہی عن المنکر شروع ہو گیا۔ لوگوں نے مظالم, برائیوں اور یزیدی کے خلاف نہ صرف بولنا شروع کیا بلکہ قیام بھی کیا۔ حجاز میں عراق میں عرض بہت جگہوں پر یزیدی حکومت کے خلاف لشکر کشی ہوئی, مسلح بغاوتیں ہوئیں اور حتی پہلی مرتبہ حکومت اسلامی حصوں بخروں میں تقسیم ہو گئی اور مختلف حصے مخلتف حکمرانوں کے ماتحت ٹھہرے۔
کیا امام حسین کا مطمع نظر حکومت تھی؟
عبدﷲ ابن عباس نے امام حسینؑ کو مشورہ دیا کہ کوفہ کے لوگ ناقابل اعتبار ہیں۔ انہہوں نے پہلے آپ کے والد اور بھائی سے بھی وفا نہیں کی۔ بہتر ہے کہ آپ وہاں جانے سے پہلے ان کا امتحان کر لیں۔ اور امتحان کی صورت یہ بتلائی کہ آپ اہل کوفہ سے کہیں کہ کوفہ میں موجود یزیدی حکومت کے گورنر نعمان بن بشیر کو ہٹا کر اپنا حکمران متعین کریں۔ اگر وہ یہ کر گذریں تو ثابت ہو جائے گا کہ آپ کا ساتھ دینے کے دعوے میں سچے ہیں۔ پھر آپ اطمینان سے وہاں تشریف لے جائیے گا۔
امام حسینؑ نے اس مشورہ کو بحث کے قابل بھی نہیں سمجھا اور مسترد کر دیا۔ اگرچہ حکومت کرنا امامؑ کا ہی حق تھا, لیکن اس وقت امام حسینؑ دیکھ رہے تھے کہ معاشرہ جس حد تک بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے اس کا علاج حکومت میں نہیں ہے۔ اس وقت اس مردہ معاشرہ کو زندگی عطا کرنے کے لئے خون دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ لہذا اسی لئے آپؑ اس قسم کے مشوروں کو خاطر میں لائے بغیر اپنے رستے پہ آگے بڑھتے رہے کہ جس کے بارے میں آپ شروع سے ہی فرما رہے تھے کہ اس کا انجام موت ہے۔ اور اس انجام کی خبر تو بارہا خود رسول خداؐ سب سے پہلے دے چکے تھے۔
ہماری یزید سے نفرت کی دلیل اور امام حسین کی یزید سے نفرت کی دلیل
آج ہمیں یزید سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے آل رسول کو شہید کیا، لیکن امام حسین کو یزید سے کیوں نفرت تھی؟ 61ھ سے پہلے تو اس نے آل رسول پر ظلم نہیں ڈھایا تھا۔ہماری اور امام کی نفرت کی دلیل میں فرق ہے امامؑ کو یزید سے نفرت عاشور سے پہلے کی تھی، امامؑ کو اس لیے نفرت تھی کہ وہ اللہ کے دین کو پامال کر رہا تھا، وہ اللہ کے قانون کی حدود توڑ رہا تھا، وہ اللہ کے دین کی بے حرمتی کر رہا تھا۔ اگر آج ہماری نفرت کی دلیل بھی وہی ہوتی جو امامؑ کی تھی تو ہمیں ہر دور کے یزید سے نفرت ہوتی.۔
آج کا یزید وہ ہے جو دين الٰہی کے اصولوں کو پامال کررہا ہے، حدود کو پار کررہا ہے، رسولؑ کے دین کو بگاڑ کر پیش کررہا ہے۔ آج ہمیں جہاد اس یزیدی کردار کے خلاف کرنا ہے۔
عزاداری رسم نہیں رزم ہے:
عزاداری کو چند رسومات کا مجموعہ قرار دے کر پوری زندگی اسی کی تکرار میں بسر کر دینا امام مظلوم امام حسینؑ کے مقصد کے ساتھ دیانتدارانہ برتاؤ نہیں ہے۔ ہمیں شمر کے خنجر کے ساتھ ساتھ حسین کی نماز آخر اور سجدہ آخر بھی یاد رکھنا چاہئے۔ مخدرات اہلبیت کے چادروں کو رونے کے ساتھ ساتھ اپنی چادروں اور اپنی حیاء کی بھی حفاظت کرنا چاہئے۔ یہ درست نہیں کہ ماتم اگر زور سے کیا جائے تو اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے, نہیں بلکہ ثواب کی بنیاد آپ کی معرفت اور آپکا خلوص ہے۔ عزاداری اور عزاداران کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
عزاداری رزم اس طرح سے ہے کہ امام حسینؑ کا راستہ دین کی خاطر قیام کا راستہ ہے, اس کی خاطر قربانی کا راستہ ہے اور اس کی خاطر اسیری کا راستہ ہے۔ ہماری عزاداری کو ایسے ہونا چاہئے کہ اس سے بھی یہی مقاصد حاصل ہوں۔
غم حسین میں گریہ کرنا:
غم حسینؑ میں بہایا گیا ایک آنسو آپ کی جنت کا ضامن ہے بشرطیہ وہ آنسو خدا کی بارگاہ میں قبول ہو۔ کیوں کہ ارشاد رب العزت ہے:
إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ۔ (المائدة:27)
بے شک ﷲ متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔
پس آنسؤں کی قبولیت کے لئے بھی پہلے صاحب تقوی ہونا ضروری ہے۔ پھر دوسری طرف یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کئی مقامات پر خود یزیدی لشکر نے گریہ کیا۔ تو کیا ان کا گریہ کرنا انہیں کوئی فائدہ دے سکتا تھا؟ یا مدینہ کے لوگ امام حسینؑ کو رخصت کرتے ہوئے گریہ کر رہے تھے, لیکن امام حسینؑ کے ساتھ نکلنے کو تیار نہیں تھے۔ آپ کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے۔ کیا ایسے لوگوں کا گریہ انہیں کوئی فائدہ دے گا۔ یا پھر کوفہ کے وہ لوگ جن قتل امام حسینؑ میں شریک رہے اور پھر باقی ساری زندگی گریہ کناں رہے۔ کیا ان کا گریہ انہیں کوئی فائدہ دے گا؟ نہیں گریہ اس وقت قبول ہو گا جب آپ امام حسینؑ کے رستے پر چلنے والے ہوں۔ اور خالی عقیدہ بھی فائدہ نہیں دیتا کیوں کہ قرآن کریم نے بار بار فرمایا,
آمنوا وعملوا الصالحات
گویا ایمان کے ساتھ عمل کو لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے۔
روز عاشور سے متعلق غلط فہمیاں:
محفل کو گرمانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا امام حسینؑ کے مقصد سے غداری کے مترادف ہے۔ کچھ چیزوں کی اصلاح کی طرف توجہ مبذول کروانا مقصود ہے۔
مثلاً بیان کیا جاتا ہے کہ 9 لاکھ کا یزیدی لشکر امام حسینؑ کے مقابل تھا۔ حالانکہ اس وقت شائد پوری عراق کی آبادی بھی 9 لاکھ نہ ہو۔ پھر میدان کربلا میں اتنے افراد کا سما جانا بھی ایک عجیب بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یزیدی لشکر کی تعداد قریب 30 ہزار تھی۔ البتہ یہ تعداد بھی قریب 100 کے لشکر کے مقابلے کے لئے بہت بھاری تعداد تھی۔
امام موسی کاظمؑ قید میں ہیں اور شیعہ اربعین پہ کربلا جا رہے ہیں۔
تعلیمات اہلبیتؑ میں تاکید کی گئی ہے کہ عاشورہ و محرم کے تقریبات بھلے اپنے اپنے علاقوں میں کریں لیکن ہر شخص چہلم امام حسینؑ (اربعین) کے روز کربلا میں حاضر ہو اور امامؑ کی زیارت سے مشرف ہو۔ عزاداری کا ایک رسم کی صورت اختیار کرنا اس وقت انتہائی تکلیف دہ ہو گیا کہ جب زمانے کے امام یعنی امام موسی کاظمؑ مامون الرشید کی 14 سالہ قید میں ہیں اور ان 14 سالوں میں ہر سال بڑی تعداد میں شیعہ کربلا جا رہے ہیں, اور امام حسینؑ کا غم منا رہے ہیں۔ اگر یہی شیعہ اگر امام حسینؑ کو رونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے امام یعنی امام موسی کاظمؑ کو بھی یاد کر لیتے تو دشمن کو اتنی جراءت نہ ہوتی کہ وہ انہیں یوں قید رکھے اور اسی قید کی دوران شہادت سے دوچار کر دے۔