عبدالعزیز نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ص فرماتے تھے:
اے علی ان دونوں بچوں یعنی حسن و حسین علیہما السلام نے میرے دل کو کسی اور کی محبت سے روک دیا ہے, میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں انہیں اور جو انہیں دوست رکھے اس کو دوست رکھوں۔ (1)
جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ص نے فرمایا:
جو شخص عروۃ الوثقی (مضبوط رسی) کو پکڑنا چاہتا ہے کہ جس کے پکڑنے کا خدا نے قرآن میں حکم دیا ہے، اس کو چاہیے کہ وہ علی بن ابی طالب حسن اور حسین علیہما السلام کو دوست رکھے کیونکہ خدا ان دونوں کو عرش سے دوست رکھتا ہے۔ (6)
ولید نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ص نے فرمایا, جو شخص حسن و حسین علیہما السلام کا بغض لے کر قیامت میں آئے گا اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا اور میری شفاعت اس کے شامل حال نہیں ہو گی۔ (7)
ابن ہبیرہ کے غلام زید سے روایت ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے کہا کہ رسول خدا نے فرمایا, اس ”انزع“ (جس کی پیشانی کے دونوں طرف کے بال نہ ہوں, یہ مولا علی ع کا لقب ہے) کو مضبوطی سے پکڑو, کیونکہ وہی صدیق اکبر ہے اور اپنے پیرؤوں کی ہدایت کرتا ہے، اور جو اس پر سبقت کرے گا دین خدا سے خارج ہو جائے گا, اور جو اسے ذلیل کرے گا خدا اس کو نابود کر دے گا، جو اس کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے گا وہ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا، جو اس کی ولایت کا اعتراف کرے گا خدا اس کی ہدایت کرے گا, اور جو اس کی ولایت سے انکار کرے گا خدا اس کو گمراہ کرے گا- اور اس سے میری امت کے نواسے حسن و حسین علیہما السلام ہیں جو حقیقت میں میرے بیٹے ہیں، اور حسین کی نسل سے ہدایت کرنے والے ائمہ ہیں کہ انہی میں مہدی قائم ہے، لہذا ان کو دوست رکھو اور ان کے دشمنوں کو دوست نہ رکھو ورنہ غضب الہی کے مستحق اور دنیا میں ذلیل و خوار ہو گے۔ (10)
عامری کا کہنا ہے کہ میں رسول خدا ص کے ہمراہ اس جگہ گیا جہاں ہماری دعوت تھی وہاں میں نے دیکھا حسین بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، رسول خدا لوگوں کے سامنے آئے اور دونوں ہاتھ بڑھا کر امام حسین ع کو آواز دی، بچہ کبھی اس طرف جاتا تھا تو کبھی اُس طرف، یہ دیکھ کر حضرت ہنسنے لگے پھر دوڑ کر بچے کو آغوش میں لیا، لبوں کا بوسہ لیا اور فرمایا, حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں خدا اس شخص کو دوست رکھتا ہے جو حسین کو دوست رکھتا ہے، حسین میرے نواسوں میں سے ایک ہے۔ (12)
علی بن جعفر نے اپنے بھائی امام موسیٰ بن جعفر علیہما السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا نے حسن و حسین علیہما اسلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا, جو شخص ان دونوں بچوں اور ان کے ماں باپ کو دوست رکھے گا قیامت کے دن وہ میرا ہم درجہ ہوگا۔ (13)
ابو بصیر کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک مرتبہ امام حسین، پیغمبر اسلام کی خدمت میں تشریف لے گئے اتنے میں جبرئیل آئے اور کہا اے محمد, کیا اس بچے کو آپ دوست رکھتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا ہاں- جبرئیل نے کہا اس کو آپ کی امت قتل کر دے گی، امامؑ فرماتے ہیں یہ سن کر حضرت بہت مغموم ہوئے، جبرئیل نے کہا یا رسول اللہ, اس سر زمین کو آپ دیکھنا چاہتے ہیں جس پر وہ قتل کیا جائے گا، پیغمبر ص نے فرمایا, ہاں- پس آپ ص کے مقام اور کربلا کے درمیان کی زمینیں نیچی ہو گئیں حتی کہ دونوں ٹکڑے اس طرح مل گئے (حضرتؑ نے دونوں شہادت کی انگلیوں کو ملا کر دکھایا)- پھر جبرئیل نے اپنے پر سے کربلا کی تھوڑی مٹی اٹھائی اور رسول خدا نے اس کو لے لیا، پھر چشم زدن میں جبرئیل پلٹ گئے- اس وقت رسول خدا ص نے فرمایا, اے کربلا کی خاک تو کتنی خوش نصیب ہے اور وہ کتنا خوش نصیب ہے جس کا خون تیری سرزمین پر بہے گا۔ (5)
یزید بن معاویہ عجلی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ قرآن مجید میں اسماعیل کا جو ذکر ہوا ہے کہ ”و اذكر في الكتاب اسماعيل انه كان صادق الوعد و كان رسولا نبیا" یہ کون اسماعیل ہیں کیا جناب ابراہیم کے بیٹے ہیں؟ کیونکہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اسماعیل بن ابراہیم ہیں، حضرت نے جواب دیا اسماعیل کا انتقال جناب ابراہیم سے پہلے ہو گیا تھا اور جناب ابراہیم حجت خدا اور صاحب شریعت تھے پھر کس کے لیے اسماعیل کو مبعوث کیا جاتا ؟ راوی نے پوچھا اس آیت میں اسماعیل سے مراد کون سے اسماعیل ہیں؟ حضرت نے فرمایا وہ اسماعیل بن حز قیل ہیں جو نبی تھے اور انہیں خدا نے ان کی قوم میں مبعوث کیا مگر قوم نے ان کو جھٹلایا، ان کو قتل کیا اور پھر ان کے چہرے کی کھال کھینچ لی، ان کی اس حرکت سے خدا غضبناک ہوا اور اس نے فرشتہ عذاب سطاطائیل کو ان کے پاس بھیجا، اس فرشتے نے کہا اے اسماعیل میں فرشتہ عذاب سطاطائیل ہوں خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر تم کہو تو تمہاری قوم پر مختلف قسم کا عذاب نازل کروں؟ اسماعیل نے کہا نہیں، اس وقت وحی الہی ہوئی اے اسماعیل تم کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا پروردگارا, تو نے اپنے بندوں سے اپنی ربوبیت، محمد کی نبوت اور ان کے اوصیاء کی ولایت کا میثاق لیا ہے اور اپنے نیک بندوں کو تو نے خبر دی ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعد ان کی امت حسین بن علی علیہما السلام کے ساتھ کیا سلوک کرے گی اور تو نے حسین سے اس دنیا میں دوبارہ بھیجنے کا وعدہ کیا ہے تا کہ وہ اپنی قوم جفا کار سے انتقام لیں، لہذا اے میرے پروردگار میری حاجت یہ ہے کہ مجھے بھی دوبارہ اس دنیا میں بھیج تا کہ ظالمین سے اپنا انتقام اسی طرح لے سکوں جس طرح حسین اس دنیا میں آکر اپنا انتقام لیں گے۔ خدا نے اسماعیل بن حز قیل کو امام حسین کے ساتھ اس دنیا میں بھیجنے کا وعدہ کیا۔ (3)
مسمع بن عبد الملک نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک دن امام حسین ع کو جناب فاطمہ س نے گود میں اٹھایا ہوا تھا، رسول خدا ص نے ان کو اپنی آغوش میں لے کر فرمایا لعنت ہو تیرے قاتل پر, لعنت ہو اس شخص پر جو تیرا لباس اتارے گا، خدا ہلاک کرے ان افراد کو جو تیرے خلاف ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ جناب فاطمہ نے عرض کیا اے بابا، بابا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ حضرت نے فرمایا بیٹی میرے اور تمہارے بعد جو ظلم و ستم اس پر ہوں گے ان کو یاد کر رہا ہوں، اس دن وہ ایک گروہ کے درمیان ہوگا جو ستاروں کے مانند چمکتے ہوں گے اور سب کے سب موت کی طرف خوشی خوشی دوڑ رہے ہوں گے، میں ان کے لشکر اور محل دفن کو دیکھ رہا ہوں۔
جناب فاطمہ نے دریافت کیا بابا وہ کونسی جگہ ہے؟ حضرت نے فرمایا کر بلا، یہ زمین ہمارے لئے اور ہماری امت کے لئے کرب و بلا کی جگہ ہے، ان پر میری امت کے بدترین افراد خروج کریں گے، اگر ان اشرار میں سے ایک کی شفاعت سارے اہل زمین اور سارے اہل آسمان کریں تو بھی وہ شفاعت قبول نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ جناب فاطمہ نے پو چھا بابا یہ بچہ (امام حسین ) قتل کیا جائے گا؟ حضرت نے فرمایا ہاں بیٹی، اس سے پہلے کوئی بھی شخص قتل نہیں کیا گیا ہے جس پر آسمانوں، زمینوں، فرشتوں، وحشی جانوروں، مچھلیوں اور پہاڑوں نے گریہ کیا ہو, اگر ان کو اجازت ہوتی تو روئے زمین پر کوئی بھی ذی روح نہ بچتا۔
ہمارے چاہنے والوں کا ایک گروہ پیدا ہو گا جن سے زیادہ کوئی خدا کو نہیں پہنچانتا ہوگا, اور اقامہ حق میں ان سے زیادہ کوئی کوشاں نہیں ہوگا اور اس کرہ ارض پر ان سے زیادہ کوئی اور خدا کی توجہ اور التفات کا محور نہیں ہو گا، یہی جور وستم کی گھٹا ٹوپ تاریکی کے چراغ ہیں، حوض کوثر پر جب میرے پاس یہ آئیں گے تو ان کے چہروں کو دیکھ کر میں انہیں پہچان لوں گا، اس دن ہر مذہب والے اپنے پیشوا کو تلاش کریں گے اور یہ ہمارے سوا کسی کو نہیں ڈھونڈیں گے- زمین انہی کی وجہ سے ٹھہری ہوئی ہے اور انہی کی برکت سے زمین پر بارش ہوتی ہے۔ (2)
داؤد بن فرقد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے، حضرت نے فرمایا کہ عبداللہ بن زبیر نے امام حسین سے کہا اے کاش آپ مکہ آتے اور وہیں رہتے- حضرت نے فرمایا نہ میں وہاں رہنا چاہتا ہوں نہ ہی تم لوگ مجھے وہاں رہنے دو گے، میری نظر میں اعفر کے ٹیلے پر میرا قتل ہونا بہتر ہے حرم میں قتل ہونے سے۔ (5)
ابو الجارود نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، امام حسین ع ترویہ سے ایک دن پہلے مکہ سے چلے، عبداللہ بن زبیر نے بڑھ کر پوچھا ابھی تو اعمال حج انجام دینے کا وقت ہے اور مکہ ترک کر کے عراق جارہے ہیں؟ حضرت نے جواب دیا, اے ابن زبیر صحن کعبہ میں دفن ہونے سے بہتر ہے کہ میں فرات کے کنارے دفن ہوں۔ (6)
امیرالمومنین ع لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور فرما رہے تھے, مجھ سے پوچھ لواس سے پہلے کہ تم مجھے کھو دو۔ خدا کی قسم جس چیز کے بارے میں تم مجھ سے پوچھو گے خواہ گزری ہوئی باتیں ہوں یا رونما ہونے والی سب کا میں جواب دوں گا، راوی کا کہنا ہے کہ سعد بن وقاص کھڑا ہوا اور کہا یا امیر المومنین بتائیے میرے سر اور داڑھی کے کتنے بال ہیں- حضرت نے جواب دیا, خدا کی قسم تو نے ایسی بات مجھ سے پوچھی ہے, جس کے بارے میں میرے دوست رسول خدا ص نے مجھے بتایا تھا کہ عنقریب تو یہ سوال مجھ سے کرے گا- تیرے سر اور داڑھی میں کوئی ایسا بال نہیں جس کی جڑ میں شیطان نہ بیٹھا ہو، اور تیرے گھر میں بکری کا ایک بچہ (عمر بن سعد) ہے جو میرے بیٹے حسینؑ کو قتل کرے گا۔ ان دنوں عمر (ابن سعد) اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر چلتا تھا۔ (12)
کلیب بن معاویہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا، قاتل يحيی بن زکریا بھی ولد الزنا تھا اور قاتل حسین بھی ولد الزنا, اور سوائے ان دونوں کے کسی پر آسمان نہیں رویا۔ (1)
جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا, جہنم میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں کوئی نہیں جائے گا سوائے قاتل حسین بن علی اور قاتل یحیی بن زکریا کے۔ (2)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے فرعون کی اس بات, وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِىٓ أَقْتُلْ مُوسَىٰ – مجھے چھوڑ دو کہ میں موسی کو قتل کر ڈالوں (مومن - 26) کے بارے میں پوچھا گیا کہ موسیٰ کو قتل کرنے اسے کس چیز نے روکا- آپ ع نے جواب دیا, اس کا حلال زادہ ہونا، اس لئے کہ انبیاء اور حجت خدا کو کوئی قتل نہیں کرتا سوائے ولدالزنا اور بدکار عورتوں کے۔ (7)
حریز نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا کہ آپ اہلبیت کی عمر کتنی کم ہوتی ہے اور کتنی جلد آپ حضرات اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں جب کہ دنیا کو آپ کی ضرورت ہے! حضرت نے جواب دیا: ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک صحیفہ ہوتا ہے جس میں وہ ساری باتیں لکھی ہوتی ہیں جنہیں ہمیں انجام دینا ہوتا ہے، اور جب ہم انہیں انجام دے لیتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ زندگی ختم ہونے والی ہے، اس وقت پیغمبر اسلام تشریف لاتے ہیں اور مرنے کی خبر دیتے ہیں اور خدا کے نزدیک جو مرتبہ ہوتا ہے اس سے باخبر کرتے ہیں۔ (امام) حسینؑ نے بھی اپنا صحیفہ پڑھا، اس میں ان باتوں کی وضاحت تھی جو آپ کو پیش آنے والی تھیں اور ان باتوں کی بھی وضاحت تھی جو آپ کے بعد رونما ہونے والی تھیں، امام حسین ع (ان باتوں کو پڑھ کر) میدان کارزار میں جنگ کے لئے آئے اور آپ کے بعد جو واقعات رونما ہونے والے تھے رونما ہوئے۔
ملائکہ نے آپ کی نصرت کرنے کے لئے خدا سے اجازت مانگی، خدا نے انہیں اجازت دی، ملائکہ نے آپ کی نصرت کے لئے اپنے کو آمادہ کیا, مگر جب وہ زمین پر پہنچے تو حسین شہید ہو چکے تھے ملائکہ نے اس منظر کو دیکھ کر بارگاہ الہی میں عرض کیا, معبود تو نے زمین پر آنے اور حسین کی نصرت کرنے کی اجازت دی مگر جب ہم زمین پر پہنچے تو تو نے ان کی روح قبض کر لی؟ وحی الہی ہوئی اب تم اس کی قبر کے مجاور بن جاؤ اور جب صاحب قبر رجعت کرے تب تم اس کی نصرت کرنا اور اس نصرت کا جبران گریہ کے ذریعے کرو اور یہ گریہ اور نصرت تم ہی سے مخصوص ہے، پس حسین کی نصرت نہ کرنے کی وجہ سے ملائکہ گریہ کرنے لگے اور جب آپ رجعت کریں گے تو یہ ملائکہ آپ کے انصار میں سے ہوں گے۔ (17)
صفوان جمال نے امام جعفر صادق ع سے مدینہ کے راستہ میں سوال کیا اور ان کا ارادہ مکہ جانے کا تھا, اے فرزند پیغمبر کیا ہوا کہ آپ محزون و مغموم ہیں، حضرت نے جواب دیا جو میں سن رہا ہوں اگر تم بھی اس کو سنتے تو ایسا سوال نہیں کرتے، میں نے پوچھا آپ کیا سن رہے ہیں؟ حضرت نے جواب دیا قتل امیرالمومنینؑ اور قتل حسینؑ پر بارگاہ الہی میں ملائکہ کا گریہ وزاری, جنوں کا نوحہ اور آنحضرت کی قبر کے اطراف میں موجود ملائکہ کا بکاء۔ لہذا کون ہے جو ان آوازوں کو سنے اور اسے کھانا پینا اور سونا اچھا لگے۔ (18)
اسماعیل بن ابی زیادہ سکونی نے امام جعفر صادق ع سے روایت کی ہے آپؑ نے فرمایا, غٹرغوں کرنے والے کبوتر کو اپنے گھروں میں رکھو, کیونکہ وہ حسینؑ کے قاتلوں پر لعنت کرتے ہیں۔
صاعد بربری نے جو امام رضا ع کی قبر کا نگران تھا اپنے والد سے روایت کی کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا, اس الو کو دیکھتے ہو, اس کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا آپ پر فدا ہو جاؤں اس کے بارے میں سوال کرنے کے لئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں، حضرت نے فرمایا: میرے جد رسول خدا کے زمانے میں یہ اُلو منزلوں محلوں اور گھروں میں رہتا تھا اور جب لوگ کھانا کھاتے تھے تو یہ ان کے پاس آتا تھا اور وہ اس کے سامنے کھانا ڈالتے تھے, اور پھر وہ اپنی جگہ واپس چلا جاتا تھا- مگر جب حسین قتل کئے گئے تو اس نے آبادی کو چھوڑ کر سنسان جگہ، پہاڑوں اور بیابانوں کو اپنے رہنے کی جگہ بنا لیا اور کہنے لگا, تم بڑی خراب امت ہو! تم نے جب اپنے پیغمبر کے نواسے کو قتل کر ڈالا تو پھر مجھ کو بھی تم سے امان نہیں ہے۔ (2)
امام جعفر صادق ع سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا, الو دن میں روزہ رکھتا ہے تو جب افطار کرتا ہے تو غمناک ہو جاتا ہے اور صبح تک حسین بن علی ع پر غمزدہ رہتا ہے۔ (3)
علی بن ابی حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو کہتے ہوئے سنا کہ, انسان کے لئے سارے امور میں بے تابی اور گریہ کرنا مکروہ ہے سوائے حسین بن علی پر بے تابی اور گریہ کرنے کے، کیونکہ اس میں اجر و ثواب ہے۔ (2)
ابی ہارون مکفوف سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، جس کے سامنے ذکر حسین ہو اور اس کی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر بھی آنسو نکلے تو اس کا اجر خدا کے ذمہ ہے, اور وہ اس کے جنت کے علاوہ کسی چیز پر راضی نہیں ہو گا۔ (3)
مسمع بن عبد الملک کردین بصری کا بیان ہے کہ مجھ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا, اے مسمع تم عراق کے رہنے والے ہو کیا قبر حسین کی زیارت کے لئے جاتے ہو؟ میں نے عرض کیا نہیں، کیونکہ میں اہل بصرہ کے درمیان مشہور آدمی ہوں اور میرے پاس ایسے افراد رہتے ہیں جو خلیفہ کے بہی خواہ ہیں اور ناصبیوں اور غیر ناصبیوں کے درمیان ہمارے دشمن بہت زیادہ ہیں اور مجھے خوف ہے کہ وہ پسر سلیمان تک خبر پہنچا دیں اور میرے ساتھ وہ ایسا سلوک کرے جو دوسروں کے لئے باعث عبرت بن جائے، اسی وجہ سے احتیاط کرتا ہوں اور زیارت کے لئے نہیں جاتا ہوں۔
حضرت نے مجھ سے پوچھا کیا ان مصائب کو یاد کرتے ہو جو آنحضرت پر پڑے تھے اور وہ اذیت و آزار جو آپ کے لئے روار کھے گئے تھے؟ میں نے عرض کیا: ہاں حضرت نے پوچھا کیا جزع فزع کرتے ہو؟ میں نے کہا بخدا ایسا ہی ہے اور ان مصائب کو یاد کر کے اس طرح محزون و مغموم ہو جاتا ہوں کہ میرے اہل و عیال اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور میری کیفیت ایسی ہو جاتی ہے کہ کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے اور اس حزن و اندوہ کے آثار میرے چہرے پر نظر آتے ہیں، حضرت نے فرمایا, ان آنسوؤں کی وجہ سے خدا تم پر رحمت نازل کرے یقیناً تمہارا شمار ان لوگوں میں ہوگا جنہوں نے ہماری وجہ سے جزع فزع کیا اور ہماری خوشی سے خوش اور ہمارے خون سے محزون ہوئے، ہمارے خوف سے خائف اور ہمارے امن سے امن میں ہوئے۔ عنقریب تم موت کے وقت اپنے سرہانے میرے اجداد کو دیکھو گے جو ملک الموت سے سفارش کریں گے اور جس چیز کی تمہیں بشارت دیں گے وہ سب سے بالا تر ہے اور تم دیکھو گے کہ جتنی ماں اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے زیادہ ملک الموت تم پر مہربان ہوگا۔
مسمع کا بیان ہے کہ پھر حضرت رونے لگے اور میں بھی آپ کے ساتھ رونے لگا اس کے بعد آپ نے فرمايا, اے مسمع جب سے امیر المومنین قتل کئے گئے زمین و آسمان گریہ کر رہا ہے اور فرشتوں نے سب سے زیادہ ہم پر گریہ کیا ہے اور ان کے آنسوؤں کا سلسلہ جاری ہے ٹوٹنے والا نہیں ہے، کوئی بھی ہماری مصیبت پر گریہ نہیں کرتا مگر یہ کہ آنکھوں سے آنسو نکلنے سے پہلے خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے اور جب اس کے رخسار پر آنسو پہنچتا ہے تو اگر اسکا ایک قطرہ جہنم میں گر جائے تو اسکی آگ کو خاموش اور حرارت کو ختم کر دے گا۔
جس کا دل ہماری وجہ سے درد ناک ہو تو جس دن اسکو موت آئے گی وہ ہم کو دیکھے گا۔ اس وقت اس کو ایسی خوشی ملے گی جو ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو گا اور جب ہمارا محب حوض کوثر پر آئے گا تو کوثر کو ایک خاص قسم کا فرح و سرور ملے گا اور وہ اس کو انواع و اقسام کے ایسے کھانے کھلائے گا جس کے ذائقے کو وہ نہیں چاہے گا کہ زائل ہو جائے۔
اے مسمع, جو شخص اس حوض سے ایک گھونٹ پانی پئے گا پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور نہ ہی کبھی پانی مانگے گا۔ کافور جیسی ٹھنڈک، کستوری جیسی خوشبو، زنجبیل کا ذائقہ, شہد سے زیادہ شیریں, مکھن سے زیادہ نرم، آنسوؤں سے زیادہ صاف ہے، عنبر سے زیادہ شفاف ہے، تسنیم (جنت کا کنواں) سے نکلتا ہے، جنت کی نہروں سے گزرتا ہے، بہشتی ریتوں پر سے کہ وہ درو یا قوت ہیں, گزرتا ہے، ستاروں کی تعداد سے زیادہ اس میں پیالے ہیں، ہزار سال کی مسافت کے فاصلے سے اس کی خوشبو سونگھی جاسکتی ہے، اس کے پیالے سونے چاندی اور دیگر قیمتی جواہر کے ہوں گے, نسیم معطر کے جھونکے سیراب ہونے والے کے چہرے سے ٹکرائیں گے اور وہ کہے گا کہ کاش مجھے یہیں چھوڑ دیا جاتا، میں نہیں چاہتا کہ اس جگہ کو کسی اور جگہ سے تبدیل کروں-
اے کر دین آگاہ ہو جاؤ کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو آب کوثر سے سیراب ہوں گے، کوئی بھی آنکھ ایسی نہیں ہوگی جو ہم پر روئے اور وہ آب کوثر سے سیراب نہ ہو- ہمارے چاہنے والے جب آب کوثر سے سیراب ہوں گے تو انہیں اس سے ایسی لذت ملے گی، ایسا لطف آئے گا اور ایسی شہوت پیدا ہوگی جو ان لوگوں کی لذت و شہوت سے کہیں زیادہ ہوگی جو مرتبے میں ہمارے محب سے کم تر ہوں گے۔
حوض کوثر پر امیر المومنین کھڑے ہوں گے اور آپ کے ہاتھ میں عوسج کا عصا ہوگا جس سے ہمارے دشمنوں کو مار بھگائیں گے، اس وقت دشمنوں میں سے ایک شخص کہے گا میں کلمہ شہادتین پڑھتا ہوں، آنحضرت فرمائیں گے تم اپنے فلاں امام کے پاس جاؤ اور ان سے شفاعت حاصل کرو، وہ شخص کہے گا جس امام کا آپ نام لے رہے ہیں وہ اپنا دامن چھڑا رہا ہے، آنحضرت فرمائیں گے تم اپنے پیچھے پلٹ جاؤ اور جن کو تم چاہتے تھے اور خلائق پر ان کو مقدم رکھتے تھے اگر وہ خلائق میں سب سے بہتر تھے تو ان سے شفاعت مانگو اس لئے کہ بہترین شخص وہ ہے جو دوسرے کا شفیع بنے، وہ شخص کہے گا پیاس مارے ڈال رہی ہے، حضرت اس سے فرمائیں گے خدا تیری پیاس بڑھائے اور تیری تشنگی میں اضافہ کرے۔
(مسمع کا بیان ہے کہ) میں نے (چھٹے امام سے) کہا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں یہ شخص کسی طرح حوض تک پہنچے گا جب کہ امیر المومنین کا وہاں پہرہ رہے گا؟ حضرت نے فرمایا, اس شخص نے کچھ برے کام سے اپنے کو بچایا تھا اور جب ہم اہلبیت کا کا ذکر ہوا تھا تو اس نے ہمیں برا بھلا نہیں کہا تھا اور جن برے کاموں کو دوسرے انجام دے رہے تھے ان سے اپنے کو اس نے روک رکھا تھا، البتہ اس نے ہماری محبت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ ایسا زیادہ عبادت کرنے، تدین اور لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی وجہ سے تھا لیکن اس کے دل میں نفاق، اس کا دین و آئین ناصبیوں کا اور ان کا پیرو تھا، وہ ماضی کے خلفاء کا دوست اور ان دو کو سب پر مقدم رکھتا تھا۔ (6)
عبداللہ بن بکیر سے روایت ہے کہ میں حج میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہمراہ تھا- میں نے پوچھا یابن رسول اللہ اگر قبر حسین بن علی ع کھودی جائے تو اس میں کچھ ملے گا ؟ حضرت نے جواب دیا تم نے کتنا اہم سوال کیا ہے، حسین اپنے والد، ماں اور بھائی کے ہمراہ پیغمبر ص کے پاس ہیں اور سب رزق الہی سے بہرہ مند ہوتے ہیں، اور آپ (امام حسینؑ) کے بارے میں کہتا ہوں کہ یمین عرش کو پکڑ کر کہتے ہیں, پروردگار جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا وہ پورا کر- آپ اپنے زائروں کو دیکھتے ہیں اور ان کو، ان کے ناموں کو، ان کے باپ کے ناموں کو اور ان کی آنے والی نسل کو جانتے ہیں، نیز گریہ کرنے والوں پر نظر کرتے ہیں اور انکے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور ان کی مغفرت کے لئے اپنے پدر بزرگوار سے درخواست کرتے ہیں اور جو گریہ کرتے ہیں ان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں, اے گریہ کرنے والے اگر تم جان جاؤ کہ اس کا اجر خدا نے کیا رکھا ہے تو تمہاری خوشی تمہارے غم پر غالب آ جائےگی۔ اور اس کا ہر گناہ اور غلطی معاف کر دی جاتی ہے۔ (7)
فضیل بن فضالہ امام جعفر صادق ع سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ع نے فرمایا, جس کےپاس ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں تو اللہ اس کے چہرے کو آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ (10)
ابو عمارہ المنشد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا, اے ابا عمارہ غم حسین میں شعر پڑھو- میں نے حضرت کے سامنے شعر پڑھے، حضرت رونے لگے، پھر میں نے اور شعر پڑھے حضرت روتے رہے، میں نے پھر شعر پڑھے، حضرت پھر رونے لگے۔ ابو عمارہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم میں شعر پڑھتا جا رہا تھا اور حضرت روتے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ گھر سے رونے کی میں نے آواز سنی۔ پھر حضرت نے مجھ سے فرمایا, اے اباعمارہ جو شخص مظلومیت حسین میں ایک شعر پڑھے اور پچاس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے، جو شخص غم حسین میں ایک شعر پڑھے اور چالیس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے، جو شخص غم حسین میں ایک شعر پڑھے اور میں آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے، جو شخص مظلومیت حسین میں ایک شعر پڑھے اور دس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے، جو شخص مصیبت حسین میں ایک شعر پڑھے اور ایک آدمی کو رلائے اس کے لئے جنت ہے، جو شخص مصیبت حسین میں شعر پڑھے اور خود روئے اس کے لئے جنت ہے، جو شخص مصیبت حسین میں شعر پڑھے اور اور رونے والے کی صورت بنائے اس کے لئے بھی جنت ہے۔ (2)
داؤد رقی کا بیان ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا- حضرت نے پانی مانگا اور جب آپ پانی پی چکے تو دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی ہیں- پھر مجھ سے فرمایا, اے داؤد، قاتل حسین پر خدا لعنت کرے، کوئی بندہ نہیں ہے جو پانی پیئے اور حسین کو یاد کرے اور آپ کے قاتل پر لعنت بھیجے مگر یہ کہ خدا اس کو ایک لاکھ حسنہ دے گا اور ایک لاکھ گناہ معاف کر دے گا اور اس کے مقام کو ایک لاکھ درجہ بلند کر دے گا، گویا کہ ایک لاکھ غلام اس نے آزاد کئے ہیں اور قیامت کے دن خدا اس کو مطمئن دل کے ساتھ محشور کرے گا۔ (1)
امام مام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت نے فرمایا, (چوتھے امام) علی بن الحسین اپنے والد حسین بن علی پر بیس سال یا چالیس سال تک روتے رہے اور جب بھی آپ کے سامنے کھانا رکھا جاتا تھا تو آپ حسینؑ پر رونے لگتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے غلام نے عرض کیا یا بن رسول اللہ میں آپ پر فدا ہو جاؤں مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز نہ کر جائے، حضرت نے اس کو جواب دیا: إِنَّمَآ أَشْكُوا۟ بَثِّى وَحُزْنِىٓ إِلَى ٱللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ - میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں، مجھے اللہ کی طرف سے وه باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے. (یوسف – 86) جب بھی فرزندان فاطمہ کی قتل گاہ یاد آتی ہے دم گھٹنے لگتا ہے۔ (1)
روایت کیا گیا ہے کہ (چوتھے امام) علی بن الحسین ع اپنے حجرے میں سجدے کی حالت میں گریہ میں مشغول تھے کہ آپ کا غلام آپ کے قریب آیا اور کہا اے میرے مولا، اے علی بن الحسین آپ کب تک روئیں گے، یہ سن کر حضرت نے سر اٹھایا اور اس سے فرمایا : وائے ہو تم پر (یا کہا تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے) جو ہم نے دیکھا ہے اس کے مقابلے یعقوب کا غم بہت چھوٹا ہے پھر بھی انہوں نے بارگاہ الہی میں یوں گلہ کیا: يَـٰٓأَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ – ہائے افسوس یوسف (یوسف – 84) جب کہ انہوں نے صرف ایک فرزند کھویا تھا، مگر میرے سامنے میرے باپ اور میرے خاندان کے سروں کو تن سے جدا کیا گیا۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت، اولاد عقیل کو بہت چاہتے تھے، چنانچہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ فرزندان جعفر سے زیادہ فرزندان عقیل کو کیوں چاہتے ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا مجھے یاد ہے وہ دن جب وہ میرے باپ کے ہمراہ مصیبتوں میں گرفتار ہوئے تھے اسی لئے میرا دل انکے لئے نرم ہو جاتا ہے۔ (2)
ہارون بن خارجہ سے روایت ہے کہ ہم امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھے، وہاں ہم نے امام حسین کا ذکر کیا، حضرت رونے لگے اور ہم بھی رونے لگے، پھر حضرت نے سر اٹھایا اور کہا کہ امام حسین نے فرمایا ہے, میں کشتہ اشک (قتیل العبرة) ہوں، مومن مجھے یاد نہیں کرے گا مگر روئے گا ۔ (6)
حنان نے امام جعفر صادق ع سے روائت کی ہے کہ, حسینؑ کی زیارت کرو اور (اس میں کوتاہی کر کے) ان پر جفا نہ کرو, کیونکہ وہ تمام مخلوقات میں جوانان جنت کے سردار اور سید الشہداء ہیں۔ (1)