سچی گواہی سے اجتناب

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 28/04/2022 1940

حق کو حق ثابت کرنے اور باطل کو باطل ثابت کرنے کے لئے "کچھ شرطوں" کی موجودگی میں، گواہی دینا واجب ہوجاتا ہے۔ شرعی عدالت میں اپنی سچی گواہی دینے سے اجتناب کرنا گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہے۔ حضرت عبدالعظیم سے منقول ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السَّلام نے گواہی چھپانے کے گناہ کبیرہ ہونے کی دلیل کے طور پر یہ آیت پیش کی:

وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌ قَلْبُهُۥ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (بقرہ ۔ 283) 
اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وه گنہگار دل واﻻ ہےاور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔

اس آیت شریفہ میں دل کو گنہگار بتایا گیا ہے۔ اس میں دونکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ گواہی چھپانا ایک قلبی گناہ ہے، اور اس میں اعضاء وجوارح براہ راست کچھ نہیں کرتے۔  آدمی دل میں حقیقت کو چھپالیتا ہے اورزبان سے ظاہر نہیں کرتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس حد تک دل کو جسم کے تمام اعضاء و جوارح پر فضیلت حاصل ہے،اسی حد تک دل کا گناہ بھی اعضاء و جوارح کے گناہ سے زیادہ بڑا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دل کی اطاعت خدا، اُس اطاعت سے کہیں افضل ہے جو اعضاء وجوارح کے ذریعے ہوتی ہے۔  یہ دل ہی ہے جو آدمی کو شرک جیسے سب سے بڑے گناہ میں آلودہ کردیتا ہے۔

امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ گواہی چھپانے کی مذمت میں آنے والی آیت میں گناہگار دل سے مراد اس کے دل میں کفر ہونا ہے۔ خداوند تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے:

وَلَا يَأْبَ ٱلشُّهَدَآءُ إِذَا مَا دُعُوا۟ (بقرہ ۔ 282) 
اور گواہوں کو چاہئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں

اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد ہے:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَـٰدَةً عِندَهُۥ مِنَ ٱللَّهِ (بقرہ ۔ 140) 
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف داری میں گواہی موجود ہو لیکن وہ اس گواہی کو چھپا دے!

ایسا شخص یقیناً ان اہل کتاب کی طرح سے ہے جنھوں نے توریت اور انجیل میں پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفٰیؐ کے اوصاف پڑھ لئے تھے مگر اس کے باوجود ان کو چھپالیا تھا!

سچّی گواہی دیجئے، خواہ آپ کو نقصان ہو

سورئہ نساء میں خدا وند تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّٰمِينَ بِٱلْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمْ أَوِ ٱلْوَٰلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَٱللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا۟ ٱلْهَوَىٰٓ أَن تَعْدِلُوا۟ ۚ وَإِن تَلْوُۥٓا۟ أَوْ تُعْرِضُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (نساء ۔ 135)
اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کیتو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

جب گواہی دینے سے ضرر پہنچے

مثلاً ایک شخص نے کوئی جرُم کیا ہے۔ اب آدمی جو اس جُرم کا گواہ ہے، محض اس لئے اس گواہی کو چھپا نہیں سکتا کہ اگر گواہی دے دی تو وہ آدمی دیا ہوا قرض واپس مانگ لے گا۔ یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ مجرم کو شرعی طور پر سزا ملنی چاہیئے اگرچہ گواہ کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔  اگر گواہ واقعی ایسا قرضدار ہے جو قرض ادا نہیں کرسکتا تو وہ بیّنہ (دو عادل آدمیوں کی گواہی ) یا قسم کے ذریعے اپنی تنگ دستی ثابت کرسکتا ہے۔ ہاں البتہ اگر مجرم کا جُرم گواہ پر آنے والے ضرر سے چھوٹا ہو، یعنی گواہ کو حد سے زیادہ زحمت، پریشانی یا جان کا خطرہ لاحق ہو تو یہ گواہی چھپانے کے لیئے ایک معقول عذرہے۔

دشمن کے حق میں بھی انصاف

ارشاد رب العزت ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّٰمِينَ لِلَّهِ شُهَدَآءَ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ ۚ ٱعْدِلُوا۟ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا تَعْمَلُونَ (مائدہ ۔ 8)
اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آماده نہ کردے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیاده قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

اس آیت شریفہ میں یہ حکم موجود ہے کہ کسی قسم کی دشمنی حق گوئی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیئے۔ ایک اور جگہ اور ارشاد ہے:

وَأَقِيمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ لِلَّهِ (طلاق ۔ 2)
اور خدا ہی کے لئے تم ٹھیک ٹھیک گواہی دیا کرو۔

سچّی گواہی چھپانے والے

جضرت امام امحمد باقرعلیہ السَّلام فرماتے ہیں:

جو شخص گواہی دینے سے پھر جائے گا یا سرے سے گواہی چھپا لے گا، خدا وند تعالیٰ (قیامت کے دن) سب لوگوں کے سامنے اس کا گوشت خود اسی کو کھلوائے گا اور اایسا شخص جب جہنّم میں داخل ہوگا تو اپنی زبان دانتوں سے کاٹ رہا ہوگا! (وسائل الشیعہ )

حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

جب تم سے گواہی مانگی جائے تو گواہی ضرور دو اس لئے کہ خدا عزّوجل فرماتا ہے,
إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا۟ ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا (نساء ۔ 58)
بے شک خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کوان کے اہل لوگوں تک پہنچا دو
گواہی خود ایک امانت ہے اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے,
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَـٰدَةً عِندَهُۥ مِنَ ٱللَّهِ (بقرہ ۔ 140) 
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف داری میں گواہی موجود ہو لیکن وہ اس کو چھپا دے!
(وسائل الشیعہ)

تفسیر علی ابن ابراہیم قمی میں حضرت امیر المومنین علیہ اسَّلام کا یہ قَوْل نقل ہے کہ:

جو شخص کوئی گواہی اپنے پاس رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے ظاہر کردے۔  جب اس سے گواہی طلب کی جائے تو وہ بتادے۔ کسی کی ملامت سے نہ ڈرے۔  اپنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بہرحال انجام دے!

کیا گواہ بنناواجب ہے؟

جب کوئی مسلمان اپنے دینی بھائی سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اس کا ساتھ دے اور گواہی کے لئے شرعی عدالت میں حاضر ہوجائے، یا کسی معاملے میں گواہ بن جائے تاکہ اگر آئندہ گواہی کی ضرورت پڑے تو گواہی دے سکے، تو فقہا ومجتہدین کے درمیان مشہوریہی ہے کہ گواہی دینے پر یا کسی معاملے کا گواہ بن جانے پر آمادہ ہوجانا واجب ہے۔  خداوند تعالٰی خود حکم فرماتا ہے کہ:

وَٱسْتَشْهِدُوا۟ شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَٱمْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ ٱلشُّهَدَآءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَىٰهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَىٰهُمَا ٱلْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ ٱلشُّهَدَآءُ إِذَا مَا دُعُوا۟ ( سورئہ بقرہ ۲: آیت ۲۸۲)
اور اپنے لوگوں میں سے جن لوگوں کو تم گواہی کے لئے پسند کرو کم سے کم دو مردوں کی گواہی کرالیا کرو۔ پھر اگر دو مردنہ ہوں تو کم سے ایک مرد اور دوعورتیں۔ کیونکہ ان دونوں میں سے اگر ایک بھول جائے گی تو ایک دوسری کو یاد دلادے گی، اور جب گواہ بلائے جائیں تو انھیں گواہی کے لئے انکار نہیں کرنا چاہیئے۔

امام موسٰی کاظم علیہ السَّلام سے آس آیت کے ضمن میں یہ معنی نقل کئے گئے ہیں کہ, جب کوئی شخص تم کو کسی قرضے یا کسی حق کے سلسلے میں گواہ بننے کی خاطر بلائے تو تم کواتنی چھوٹ نہیں ہے کہ اس سے لاپرواہی کرو! (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب)

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کسی کی درخوست کے بغیر اور خود اپنی خواہش کے بغیر ہی گواہ بن بیٹھتا ہے۔ مثلًایہ ہوتا ہے کہ وہ گذرتے ہوئے کسی چیز کو دیکھ لے یا کوئی بات سُن لے۔ بعد میں اگر اس سے گواہی طلب کی جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ اگر وہ گواہی دے دے تو کسی مسلمان کو وہ نقصان سے بچاسکے گا یا اُسے اس کا حق مل جائے گا، جب کہ اگر گواہی نہ دے تو اس مسلمان ضرر پہنچے گا یا اس کا حق حاصل نہ ہوگا، ایسی صورت میں گواہی دینا واجب ہوجاتا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کو ظلم سے روکنا اگرممکن ہو تو واجب ہوتا ہے۔

لیکن اگر گواہی نہ دینے اور سکوت اختیار کرلینے کی صورت میں کسی مسلمان کا حق ضائع نہ ہوتا ہو یا اسے ضرر نہ پہنچتا ہو تو گواہی دینا واجب نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر اسے گواہی دینے کے لئے بھی کہا جائے تو بھی وہ گواہی دینے سے انکار کرسکتا ہے, اس لئے کہ اس کو باقاعدہ گواہ نہیں بنایا گیا تھا۔

محمد ابن مسلم حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

اگر آدمی کوئی گواہی سُن لے لیکن اسے گواہ نہ بنایا گیا ہو تو اس کی مرضی ہے کہ چاہے تو گواہی دے دے اور چاہے تو سکوت اختیار کرے۔ (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب)

وہ لوگ جن کی دُعا قبول نہیں ہوتی

حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں :چارقسم کے لوگوں کی دعا مستجاب نہیں ہوتی:

  1. ایسا شخص جو ہاتھ پر ہاتھ دہرے اپنے گھر میں بیٹھا رہے، کمانے کی کوشش نہ کرے، اور دعا کرے کے خدایا مجھے روزی دے! ایسے شخص کو جواب دے دیا جاتا ہے کہ کیا ہم نے تجھے طلب رزق میں کوشش کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟
  2. ایسا شخص جو اپنی بیوی کے لئے بدعا کرے۔ اس سے کہہ دیا جاتا ہے کہ آیاکہ یہ مسئلہ ہم نے تیرے اختیار میں نہیں دے دیا تھا کہ اگر ایسی بیوی نہیں چاہتا تو اسے رشتہ ازواج سے آزاد کر دے!
  3. ایسا شخص جس کا کچھ مال تھا لیکن اس نے اسراف کیا اور بے ہودہ کاموں میں اسے ضائع کرڈالا۔  اب اگر وہ دُعا کرے کہ خدایا مجھے روزی دے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ آیا ہم نے تجھے اعتدال سے خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا؟
  4. اور ایسا شخص جو اپنا کچھ مال دوسرے کو قرض دے، لیکن اس معاملے پر کسی کو گواہ نہ بنائے۔ ایسی صورت میں اگر قرض دار شخص انکار کردے تو اس کی دعا کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ کیا ہم نے تمہیں گواہ بنانے کاحکم نہیں دیا تھا؟  (کتاب عدَّةُ الدَّاعی)

اس بناء پر جب کوئی آدمی کسی سے گواہ بننے کی درخواست کرے تو اس پر واجب ہے کہ وہ گواہ بن جائے, اور تمام اہم باتوں پر توجّہ دے، دیکھی اور سُنی ہوئی تمام باتوں کو ذہن نشین کرے، یا اپنے پاس لکھ کر محفوظ رکھے اور لاپرواہی نہ کرے، تاکہ ضرورت کے وقت یا گواہی دیتے وقت کوئی بھول یا اشتباہ نہ ہوجائے اور وہ یقین کے ساتھ حقیقت بتا سکے۔

جس بات پر یقین ہے اس کی گواہی دو

گواہ کو گواہی کے تمام پہلووں پر اچھی طرح توجہ دینی چاہیئے اور گواہی دینے کا موقع آئے تو صرف ان ہی باتوں کی گواہی دینی چاہیئے جن پر اسے یقین ہے۔ ایسی باتیں گواہی میں نہیں پیش کردینی چاہیں جو اس نے خود نہ سُنی ہوں یا جنہیں اس نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو۔ جس طرح کہ خود حدیث میں ہے کہ گواہی کی بات سورج کی جیسی روشن اور واضح ہونی چاہیئے۔

جب سچّی گواہی سے کسی پر ظلم ہو

یہ بات جان لینی چاہیئے کہ اگر گواہی دے دینے سے کسی مسلمان کی جان، مال، عزّت یا خود گواہ کی جان، مال یا عزّت کو خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہئیے۔ گواہی چھپانا اس لئے حرام ہے اورگواہی دینااس لئے واجب ہے تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف قائم رہے اور معاشرے کا نظام صحیح روش پر چلتا رہے ظلم کا خاتمہ ہو۔ ظالم کو سزا ملے اور حق دار کو اُس کا حق۔ لیکن جب خود گواہی دینا ظلم کا سبب بن رہا ہو تو ایسی گواہی چھُپا لینا واجب ہے۔ حضر ت امام موسٰی کا ظم علیہ السَّلام فرماتے ہیں کہ:

تم الله کے لئے گواہی دو اگرچہ گواہی دینے میں خود تمہیں اپنے یا اپنے والدین اور اعزاء وا قرباء کے خلاف کچھ کہنا پڑے۔  لیکن اگر تمہارے دینی بھائی کو نقصان پہنچنے کا خداشہ ہو تو گواہی نہ دو۔ (وسائل الشیعہ)

لیکن اگر ضرر کا آدمی مستحق ہو اور عدالت کا تقاضا ہو کہ اس کووہ ضرر پہنچے تو گواہی دینا پھر بھی واجب رہتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے داود بن عصین روایت کرتے ہیں:

خدا کے لئے گواہی دیا کرو، اگرچہ والدین اور بیٹے کے خلاف کچھ کہنا پڑے۔  لیکن اپنے دینی بھائی کے خلاف ضَیْر کی خاطر گواہی نہ دو۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا ضَیر کیا چیز ہے؟ فرمایا, یہ اس وقت ہے جب کوئی حق رکھنے والا شخص اپنا حق حاصل کرنے کے سلسلے میں خدا و رسول کے حکم کے خلاف ظلم پر اتر آئے,
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کا قرض دوسرے شخص کی گردن پر ہو لیکن وہ دوسرا شخص تنگی میں ہو۔ خدائے تعالٰی نے ایسی صورت میں اسکو آسودہ حال ہونے تک مہلت دینے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے,
فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ (بقرہ ۔ 280) 
آسانی تک مہلت دینی چاہئے
اس کے باوجو د قرض دینے والا شخص تم سے گواہی دینے کو کہے۔ اب چونکہ تم قرض دار شخص کی تنگ دستی سے واقف ہو اس لئے تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم گواہی دے دو (کہ اس نے قرض لیا تھا) (وسائل الشیعہ)

متعلقہ تحاریر