برطانوی سام راج

آفتاب حیدر نقوی 15/11/2016 2119

برطانیہ آج بھی دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے لئے ایک مؤثر حربہ دنیا بھر سے اہم شخصیات کو استعمال کرنا ہے۔ ویسے تو وہ پوری دنیا میں موجود لوگوں کو استعمال کرتا ہے لیکن ان کے وہ مہرے جنہیں وہ خاص طریقے سے اور مکمل آزادی سے استعمال کرنا چاہیں یا پھر انہیں خطرے کا سامنا ہو تو انہیں برطانیہ میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ چند ایک مثالیں ذکر کی جاتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ہر اسلام دشمن اور پاکستان دشمن کو برطانیہ میں ہی رہنے کو جگہ ملتی ہے۔

1. مرزا مسرور احمد قادیانی

قادیانی مذھب کہ جن کے عقیدہ کے مطابق موجودہ دور اسلام کے غلبہ کا دور ہے کے پانچویں خلیفہ کو دین کو پوری دنیا پر نافذ کرنے کے لئے برطانیہ نے پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اور وہ وہاں بیٹھ کر سیٹلائٹ ٹی وی چینلز اور دیگر مواصلاتی اور غیر مواصلاتی ذرائع سے اپنے دین کو دنیا پر نافذ کرنے کے مشن کو پورا کر رہے ہیں۔

2. صادق شیرازی، یاسر الحبیب اور ان کا نام نہاد شیعہ پلیٹ فارم

مسلمانوں میں نفرتیں دوریاں اور تشدد پیدا کرنے کی غرض سے برطانیہ نے صادق شیرازی، یاسر الحبیب اور اس جیسے لوگوں کو خریدا اور یہ خود ساختہ شیعہ عالم بن کر نفرت اور دشمنی کی آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ نام نہاد شیعہ عالم برطانیہ ہی میں بیٹھ کر اہلبیت ٹی وی، امام حسین ٹی وی اور اس جیسے بہت سے دوسرے شیعہ چینل چلاتے ہیں کہ جو دین کی خدمت کرنے کی بجائے برطانوی مفادات کو عملی جامہ پہنانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ امہات المومنین اور صحابہ کرام کے بارے میں گالیاں اور مغلظات بکتے ہیں کہ جن کی شیعہ مجتہدین سختی سے ممانعت کرتے ہیں اور اس بارے میں حال ہی میں رہبر معظم آیتﷲ علی خامنہ ای سختی سے منع فرما چکے ہیں۔ زنجیر زنی جو شیعیت کے نقطہ نظر سے بھی حرام ہے کی بھر پور تبلیغ بھی اسی گروہ کی طرف سے کی جا رہی ہے۔

3. الطاف حسین

پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی اور اس کے ذریعے سے ملک کے معاملات کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے مافیا کنگ الطاف حیسن کو بھی برطانیہ نے ہی پناہ دی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم میں آنے کے ہزار راستے بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے جانے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے موت۔ اسی بنیاد پر اس جماعت کو مافیا قرار دینا زیادہ مناسب ہے۔

4. ملالہ یوسف زئی

یہاں تک پہنچنے کا مطلب ہے کہ کہانی ختم نہیں ہوئی اور جاری ہے۔ پاکستان اور مسلمانوں کے لئے مستقبل کی برطانیہ میڈ قیادت کو تیار کیا جا رہا ہے تاکہ فتنوں کو آگے بڑھایا جاتا رہے۔ بی بی سی کی سائٹ پر چند ایک بچگانہ کہانیاں لکھنا کونسا ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ اسے آسمان پر بٹھا دیا جائے۔ یہاں سے بی بی سی کے استعمار کا آلہ کار ہونے کا پردہ بھی فاش ہوتا ہے اور ان دہشت گردوں کا بھی کہ جو فوج کا مقابلہ جو بڑی مہارت سے کرتے ہیں لیکن انہوں نے ملالہ کے سر پر بندوق رکھ کر گولی چلائی لیکن وہ بچ گئی۔ ظاہر ہے وہ بھی برطانیہ کے ایجنٹ تھے کہ ملالہ کی شناخت یا صرف بی بی سی کے پاس تھی اور یا پھر ان کے پاس۔ اور پھر انہوں نے ملالہ کو قتل نہیں کیا بلکہ ایک ہیرو بنانے میں بھرپور تعاون کیا۔

اس طرح کی بہت ساری شخصیات ہیں جو اپنے ملک میں اور اپنے لوگوں میں رہنے کی بجائے رہتے تو برطانیہ اور ان جیسے ممالک میں ہیں لیکن بدقسمی سے ہماری قوم انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ اگر ہم یہ اصول طے کر لیں کہ ہمارا نجات دہندہ وہی ہو گا جو ہم میں سے ہو نہ کہ برطانیہ یا امریکہ وغیرہ کی طرف سے آئے۔

متعلقہ تحاریر