توبہ خداوند کریم کے فضل عظیم کا ایک بڑا شعبہ اور رحمت واسعہ کا سب سے بڑ ادروازہ ہے۔ خوش نصیب ہے وہ بندہ جو اس باب رحمت کی قدر کرے۔ چونکہ انسان سہو و خطا کا پتلا ہے خواہشات نفسانی اس کے دامن گیر ہے اس کے تمام حرکات سکنات گناہوں اور خطاوں سے خالی نہیں مگر یہ کہ ارحم الراحمین کی رحمت اس کا تحفظ اور راہنمائی شامل حال ہو۔ خداوند حکیم ور حیم نے توبہ, تمام روحانی درد اور قلبی بیماریوں کی دوا اور ہر قسم کے گناہوں کی آلودگی سے پاک کرنے والا بہترین اور آسان نسخہ تجویز فرمایا ہے, تا کہ انسان گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد توبہ کی برکت سے مغفرت کا اہل اور نجات کا مستحق بن جائے۔
روز قیامت جب بندے موقع حساب میں لائے جائیں گے اور اس سے ان کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا تو یہ بدنصیب بندے کہیں گے پروردگار میں ناداں و بے خبر تھا اپنی شہوت وغضب خواہشات نفسانی کا اسیر تھا اور میں شیطان کے وسوسوں کے سامنے بے بس تھا تو خدواند عالم جواب میں فرمائے گا, کیا تم پر کوئی ایسی ذمہ داری ڈال دی گئی تھی جو تمہاری قوت و استطاعت سے باہرتھی؟ کیا میں نے توبہ کے بارے میں سخت شرائط عائد کئے تھے؟ تو بندہ گنہگار جواب میں عرض کرے گا, خدایا میری حالت پر رحم فرما تو نے میرے حیلہ وحجت کا خاتمہ کر دیا۔ تجھے جواب دینے میں میری زبان کام نہیں کرتی تیرے سوالات سے میرے دل پر دہشت طاری ہوئی ہے اس لئے جواب سے قاصر ہے۔ (ابوحمزہ ثمالی)
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں
گناہ سے پشیمانی توبہ ہے،
امام محمد باقر ع نے فرمایا:
کوئی بندہ کسی قسم کا گناہ کرے اس کے بعد پشیمان ہوتا ہے تو خداوند رحیم اس سے پہلے کہ وہ (زبان سے) اپنے گناہ کی مغفرت طلب کرے اسے معاف کر دیتا ہے۔ (کافی)
پس معلوم ہوا گناہ سے پشیمانی ہی توبہ کی حقیقت ہے۔اور یہ کہ وہ محسوس کرے خدائے عزوجل کے نزدیک بہت بری چیز اس کی نافرمانی ہے جس سے وہ ناراض ہو تا ہے۔
پروردگار عالم، روزجزا اور جو کچھ انبیاء کرام و آئمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین نے احکام خدا ہم تک پہنچائے ہیں ان پر جس قدر ایمان اور یقین کا درجہ بلند ہو گا اسی حساب سے پشیمانی کا احساس بھی سخت ہو گا۔ چنانچہ گناہ پر ندامت اور تاسف کا لازمہ یہ ہے کہ اس گناہ کو آئندہ ترک کرنے کا پختہ عزم کرے۔ اگر ایسا ارادہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت وہ اس گناہ سے پشیمان نہیں ہوا۔ حضرت امیر المومنین ع فرماتے ہیں
اس میں شک نہیں کہ کسی گناہ پر شرمندگی اس کے ترک کا سبب بن جاتا ہے۔
نیز گناہ سے پشیمانی اور اظہار افسوس کا لازمہ یہ ہے کہ وہ آئندہ اس گناہ کے تدارک کے لئے اس طرح کوشش کرے کہ اگر گناہ حق اللہ میں سے ہو مثلاً نماز،روزہ حج یا زکوٰة کو تر کر دیا ہو تو اس کا قضا بجالائے اگر حق الناس میں سے اگر مالی حق اس کے ذمہ واجب الادا ہو تو صاحب مال کو واپس کر دے اگر مالک مرچکا ہو تو اس کے وارثوں کو واپس کرے۔اگر وارثوں کو نہیں پہچانتا تو ان کی طرف سے صدقہ دے۔
اگر حق الناس عرضی (عزت و ناموس) سے متعلق ہو تو اسے بخشوائے اور اپنے آپ سے راضی کرے۔ لیکن اگر ایسے گناہ کا مرتکب ہوا ہو جس کے لئے خداوند عالم نے حد مقرر کر دی ہو جیسے زنا تو اس کے لئے یہ واجب نہیں کہ حاکم شرع کے پاس حد جاری کروانے کے لئے اقدام کیا جائے بلکہ اس کے توبہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپنے گناہ پر ندامت, آئندہ نہ کرنے کا عزم اور باربار استغفار کرتے رہنا ہی کافی ہے۔ اسی طرح وہ گناہان کبیرہ جن کے لئے حد مقرر نہیں کی گئی جیسے غنا اور موسیقی سننا اور غیبت کرنا وغیرہ گناہوں کے لئے بھی ندامت و استغفار ضروری ہے۔اس بات کی توضیح ضروری ہے کہ اگر دنیا میں کسی گنہگار پرحد جاری کر دی جائے تو آخرت میں اس کے لئے قطعا سزا نہیں۔ لیکن اگر صرف توبہ کر لی جائے اس صورت میں توبہ کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ قبولیت توبہ اور عذاب سے معافی کے متعلق خوف و رجاء کے درمیان غیر یقینی عالم میں طلب عفو کرتا رہے۔
آیات کریمہ اور احادیث کی رو سے پشیمانی کے بعد استغفار کرنا واجب ہے بایں معنی کہ بارگاہ خداوندی میں گناہوں کی مغفرت کے لئے استغفار اور دعا کرتے رہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:
وَٱسْتَغْفِرُوا۟ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (بقرہ ۔ 199)
اور خدا سے مغفرت کی دعا مانگو بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
استغفار کے بعد کوئی گناہ کبیرہ باقی نہیں رہتا۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
گناہوں کی بیماری کی دوا ستغفار ہے۔
امام علی ع فرماتے ہیں:
مجھے تعجب ہے اس شخص سے جو (گناہوں میں زیادہ ملوث ہونے کے بعد ناامیدی کی حالت میں حیران ہے جبکہ) اس کے ساتھ گناہوں کو مٹانے والا آلہ موجود ہے کسی نے عرض کیا مولا مٹانے والا آلہ سے کیا مراد ہے ؟فرمایا گناہوں کو مٹانے والا آلہ توبہ استغفار اور دعا ہے۔
توبہ کرنے والے محبوب خدا ہوتے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:
إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ (بقرہ ۔ 222)
بے شک ﷲ توبہ کرنے والوں اور پاک وصاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
بے شک خداوند عالم اپنے بندہ مومن کی توبہ سے اس طرح خوش ہوتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گم شدہ مال کے واپس ملنے پر خوشی محسوس کرتا ہے۔ (اصول کافی)
توبہ کی برکت سے نہ صرف گناہ کی آلودگی دور ہو جاتی ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا اپنی رحمت سے توبہ کرنے والے کا گناہ نیکی میں بدل دیتا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَـٰلِحًا فَأُو۟لَـٰٓئِكَ يُبَدِّلُ ٱللَّهُ سَيِّـَٔاتِهِمْ حَسَنَـٰتٍ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (فرقان ۔ 70)
جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربان ہے.
توبہ کرنے والا فرشتوں کی د عا و ثناء کا مستحق ہے۔ رب جلیل ارشاد فرماتا ہے:
ٱلَّذِينَ يَحْمِلُونَ ٱلْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِۦ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَىْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَٱغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا۟ وَٱتَّبَعُوا۟ سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ ٱلْجَحِيمِ ۔ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّـٰتِ عَدْنٍ ٱلَّتِى وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ ءَابَآئِهِمْ وَأَزْوَٰجِهِمْ وَذُرِّيَّـٰتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ۔ وَقِهِمُ ٱلسَّيِّـَٔاتِ ۚ وَمَن تَقِ ٱلسَّيِّـَٔاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُۥ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ (مومن / غافر ۔ 7,8,9)
عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے. اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعده کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں۔ یقیناً تو تو غالب و باحکمت ہے. انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ، حق تو یہ ہے کہ اس دن تونے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی اور بہت بڑی کامیابی تو یہی ہے.
توبہ کرنے والے جنتی ہیں۔ اس بارے میں پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا۟ فَـٰحِشَةً أَوْ ظَلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا۟ ٱللَّهَ فَٱسْتَغْفَرُوا۟ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلُوا۟ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ١٣٥ أُو۟لَـٰٓئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌۭ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّـٰتٌۭ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ ٱلْعَـٰمِلِينَ (آل عمران ۔ 135,136)
جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناه کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وه لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے. انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے، ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ﺛواب کیا ہی اچھا ہے.
توبہ طول عمر،رزق کی فراوانی اور خوشحالی کا سبب ہے:
وَأَنِ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوٓا۟ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَـٰعًا حَسَنًا إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِى فَضْلٍۢ فَضْلَهُۥ ۖ وَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍۢ كَبِيرٍ (ھود ۔ 3)
اور یہ کہ تم اپنے پرودگار سے مغفرت طلب کرو پھر اسی کی طرف متوجہ رہو، وه تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان (زندگی) دے گا اور ہر صاحب فضل کو اسکے حصے کا فضل عطا فرمائے گا۔ اور اگر تم لوگ اعراض کرتے رہے تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے.
سورہ نوح میں ارشاد فرمایا گیا:
فَقُلْتُ ٱسْتَغْفِرُوا۟ رَبَّكُمْ إِنَّهُۥ كَانَ غَفَّارًۭا ١٠ يُرْسِلِ ٱلسَّمَآءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًۭا ١١ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَٰلٍۢ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّـٰتٍۢ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَـٰرًۭا (نوح ۔ 10, 11, 12)
اور کہا کہ اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے لگاتار مینہ برسائے گا۔ اور تمہیں مال اور اوﻻد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا.
گناہ عمر کم کرنے اور توبہ عمر درازی کا سبب بنتی ہے۔ امام جعفر صادق ع سے مروی ہے:
جو لوگ گناہوں کے سبب کم عمری کی حالت میں جلد مرجاتے ہیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بہ نسبت ان افراد کے جو مقدار اجل پر مرتے ہیں۔
کسی نے حضرت امیر المومنین ع کے سامنے کہا "استغفر اللہ" (جبکہ اس کا استغفار زبان تک محدود تھا اور دل حقیقت توبہ سے نا آشنا تھا)۔ آپ ع نے فرمایا تیری ماں تیرے ماتم میں روئے۔ تمہیں معلوم ہے کہ استغفار کیا ہے؟ فرمایا: استغفار بلند مقام افراد اور صدر نشین اشخاص کا مرتبہ ہے۔ استغفار کے معنی اور اس کی حقیقت سمجھنے کے لئے کچھ چیزیں لازم ہیں۔
جب تم میں یہ چھ صفتیں پیدا ہوں اس وقت تم استغفر اللہ کا ورد پڑھنے کے اہل ہو
علماء کرام کا یہ متفقہ فتویٰ ہے کہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ ان میں مرتکب ہونے کے بعد توبہ کرنا واجب ہے اور عقل انسان بھی اس حکم کو تسلیم کرتی ہے۔ چنانچہ محقق طوسی تجرید الکلام میں اور علامہ حلی اعلی اللہ مقامہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ توبہ دنیوی اوراخروی ضرر کو دور کرتی ہے اور ہر ضرر اور نقصان کا دفاع کرنا عقلاً واجب ہے اس لئے توبہ عقل کی رو سے واجب ہے۔اس بارے میں خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (نور ۔ 31)
اے ایماندارو تم سب کے سب خدا کی بار گاہ میں توبہ کرو تاکہ فلاح پا جاؤ۔
مزید فرماتا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ تُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ (تحریم ۔ 8)
اے ایمانداروخدا کی بارگاہ میں توبہ نصوح (خالص توبہ صرف خدا کی خوشنودی کے لئے) کرو۔ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہارے گناہ دور کردے۔
علامہ مجلسی اعلی اللہ مقامہ شرح کافی میں مفسرین کے حوالے سے توبہ نصوح کے چند معانی بیان فرماتے ہیں:
توبہ کرنے والے پر لازم ہے کہ ہمیشہ اپنے گناہوں کو تفصیل کے ساتھ پیش نظر رکھے اور ہر ایک گناہ کے برابر ایک نیکی بجا لائے تاکہ اس کی تلافی ہو۔مثلاً غنا اور موسیقی اور ان کے آلات کی آواز کو جتنا سنا ہو اسی کے برابر قرآن،حدیث، وعظ و نصیحت، دینی مسائل و دروس سننے کی کوششش کریں۔ اگر حرام چیزوں کی طرف نظر کی ہو تو اس کے بدلے ان چیزوں کو دیکھنا چاہئے جن کا صرف دیکھنا ہی عبادت ہو مثلاً قرآن مجید کے حروف و خطوط پر نظر کرنا۔ والدین کو شفقت کی نگاہ،مومنین باکردار سادات کرام اور عترت آل اطہار صلوات اللہ علیہم اجمعین و غیرہ کو دیکھنا۔
اگر لوگوں کے حقوق سے بری الذمہ ہونا مقصود ہو تو توبہ و پشیمانی کے بعد اپنی ضرورت سے زائد مال کو صدقہ دے۔ کسی مومن کی غیبت کی تلافی مطلوب ہو تو توبہ کے بعد اس مومن کی مدح و ثناء اور اس کی نیک صفات کو اجاگر کرے۔ مختصر یہ کہ ہر گناہ میں ملوث ہونے کے بعد پہلے توبہ کرے پھر وہ عبادات بجالائیں جو کئے گئے گناہوں کی ضد ہیں۔