معاویہ نے امیر المومنین کی خلافت کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے پہلے صفین کا میدان کا رزار گرم کیا۔ اس کے بعد ہر علاقہ میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی تاکہ آپ کو ایک لمحہ کے لئے سکون نصیب نہ ہو سکے۔ اور آپ اپنے نظام عدل و انصاف کو سکون کے ساتھ رائج نہ کرسکیں۔ معاویہ کی انہیں حرکات میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ بنی غامد کے ایک شخص سفیان بن عوف کو چھ ہزار کا لشکردے کر روانہ کردیا کہ عراق کے مختلف علاقوں پر غارت کا کام شروع کرے۔ چنانچہ اس نے انبار پر حملہ کردیا جہاں حضرت کا مختصر سا سرحدی حفاظتی دستہ تھا اور وہ اس لشکر سے مقابلہ نہ کرسکا صرف چند افراد ثابت قدم رہے۔ باقی سب بھاگ کھڑے ہوئے اور اس کے بعد سفیان کا لشکر آبادی میں داخل ہوگیا اور بیحد لوٹ مچائی۔
اس خبر نے حضرت کو بے چین کردیا اور آپ نے منبر پر آکر قوم کو غیرت دلائی لیکن کوئی لشکرتیارنہ ہو سکا جس کے بعد آپ خود روانہ ہوگئے اور اس صورت حال کو دیکھ کر چند افراد کو غیرت آگئی اور ایک لشکر سفیان کے مقابلہ کے لئے سعید بن قیس کی قیادت میں روانہ ہوگیا مگر اتفاق سے اس وقت سفیان کا لشکر واپس جا چکا تھا اوریہ لشکر جنگ کے بغیر واپس آگیا اور آپ نے ناسازی مزاج کے باوجود یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ بعض حضرت کا خیال ہے کہ یہ خطبہ کوفہ واپس آنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ مقام نخیلہ پر ہی ارشاد فرمایا تھا بہر حال صورت واقعہ انتہائی افسوس ناک اور درد ناک تھی اور اسلام میں اس کی بیشمار مثالیں پائی جاتی ہیں
اما بعد! جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے پروردگارنے اپنےمخصوص اولیاء کے لئے کھولا ہے۔ یہ تقویٰ کا لباس اور اللہ کی محفوظ و مستحکم زرہ اور مضبوط سپرہے۔ جس نے اعراض کرتے ہوئے نظر انداز کردیا اسے اللہ ذلت کا لباس پہنادے گا اور اس پر مصیبت حاوی ہو جائے گی اور اسے ذلت و خواری کے ساتھ ٹھکرا دیا جائےگا اوراس کے دل پر غفلت کا پردہ ڈال دیا جائے گا اور جہاد کو ضائع کرنے کی بنا پرحق اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اسے ذلت برداشت کرناپڑے گی اور وہ انصاف سےمحروم ہو جائے گا
آگاہ ہو جائو کہ میں نے تم لوگوں کواس قوم سے جہادکرنے کے لئے دن میں پکارا اور رات میں آواز دی۔ خفیہ طریقہ سے دعوت دی اور علی الاعلان آمادہ کیا اور برابر سمجھایا کہ ان کے حملہ کرنے سے پہلے تم میدان میں نکل آئو کہ خدا کی قسم جس قوم سے اس کے گھر کے اندر جنگ کی جاتی ہے اس کا حصہ ذلت کےعلاوہ کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن تم نے ٹال مٹول کیا اورسستی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں تک کہ تم پر مسلسل حملے شروع ہوگئے اور تمہارے علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ دیکھو یہ بنی غامد کے آدمی ( سفیان بن عوف) کی فوج انبار میں داخل ہوگئی ہے اوراس نے حسان بن حسان بکری کو قتل کردیا ہے اور تمہارے سپاہیوں کوان کے مراکز سے نکال باہر کردیا ہے
اورمجھے تو یہاں تک خبر ملی ہے کہ دشمن کا ایک سپاہی مسلمان یا مسلمانوں کے معاہدہ میں رہنے والی عورت کے پاس وارد ہوتا تھااوراس کے پیروں کےکڑے ' ہاتھ کے کنگن ' گلے کے گلو بند اور کان کے گوشوارے اتار لیتا تھا اور وہ سوائے انا للہ پڑھنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی اور وہ سارا سازو سامان لے کر چلا جاتا تھا نہ کوئی زخم کھاتا تھا اور نہ کسی طرح کا خون بہتا تھا۔ اس صورت حال کے بعداگر کوئی مرد مسلمان صدمہ سے مربھی جائے توقابل ملامت نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے کس قدر حیرت انگیز اور تعجب خیز صورت حال ہے۔ خدا کی قسم یہ بات دل کو مردہ بنا دینے والی اور ہم و غم کو سیمٹنے والی ہے کہ یہ لوگ اپنے باطل پرمجتمع اورمتحد ہیں اور تم اپنے حق پر بھی متحد نہیں ہو۔ تمہارا برا ہو کیا افسوسناک حال ہے تمہارا۔ کہ تم تیر اندازوں کا مستقل نشانہ بن گئے ہو۔ تم پر حملہ کیا جارہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہوتم سے جنگ کی جا رہی ہے اور تم باہرنہیں نکلتے ہو۔ لوگ خدا کی نا فرمانی کر رہے ہیں اورتم اس صورت حال سے خوش ہو۔ میں تمہیں گرمی میں جہاد کے لئے نکلنے کی دعوت دیتا ہوں تو کہتے ہو کہ شدیدگرمی ہے۔ تھوڑی مہلت دیجئے کہ گرمی گزرجائے۔ اس کے بعد سردی میں بلاتا ہوں تو کہتے ہو سخت جاڑا پڑ رہا ہے ذراٹھہر جائیےکہ سردی ختم ہوجائے حالانکہ یہ سب جنگ سےفرارکرنے کے بہانے ہیں ورنہ جو قوم سردی اورگرمی سےفرارکرتی ہووہ تلواروں سےکس قدر فرار کرے گی۔
اے مردوں کی شکل و صورت والے نا مردو! تمہاری فکریں بچوں جیسی اورعقلیں حجلہ نشین عورتوں جیسی ہیں۔ میری دلی خواہش تھی کہ کاش میں تمہیں نہ دیکھتا اورتم سے متعارف نہ ہوتا۔ جس کا نتیجہ صرف ندامت اور رنج و افسوس ہے۔ اللہ تمہیں غارت کردے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینہ کورنج و غم سےچھلکا دیا ہے۔ تم نے ہرسانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ہیں اور اپنی نا فرمانی اورسرکشی سے میری رائے کوبھی بیکار وبے اثر بنادیا ہے یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنےلگے ہیں کہ فرزند ابو طالب بہادرتو ہیں لیکن انہیں فنون جنگ کا علم نہیں ہے۔
اللہ ان کا بھلا کرے۔ کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہےجو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو اور مجھ سے پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو۔ میں نے جہاد کے لئے اس وقت قیام کیا ہے جب میری عمر 20 سال بھی نہیں تھی اور اب تو 60 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے۔ جس کی اطاعت نہیں کی جاتی ہے اس کی رائے کوئی رائے نہیں ہوتی۔