مال حرا م کھانے کا مطلب اس میں تصّرف کرنا ہے، خواہ یہ تصّرف کسی طرح بھی کیا جائے۔ یعنی خواہ اسے کھایا پیا جائے یامکان وغیرہ تعمیر کیا جائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص مال حرام کو صرف اپنے پاس رکھے اور اسے اس کے مالک تک نہ پہنچائے تب بھی یہ مال حرام میں تصّرف ہوگا اور کہا جائے گا کہ اس نے حرام کا مال کھایا ہے! اسی طرح سود کھانے اور یتیم کا مال کھانے سے مراد اس میں ہر طرح کا تصّرف کرنا ہے، صرف کھانا ہی حرام نہیں ہے۔ سورئہ مائدہ میں حرام خوری کو یہودیوں کی صفت بتایا گیا ہے۔ ارشاد ہوا:
وَتَرَىٰ كَثِيرًۭا مِّنْهُمْ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَأَكْلِهِمُ ٱلسُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ٦٢ لَوْلَا يَنْهَىٰهُمُ ٱلرَّبَّـٰنِيُّونَ وَٱلْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ ٱلْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ ٱلسُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ (مائدہ: 62, 63)
اور تم دیکھو گے کہ ان میں اکثر گناہ اور زیادتی اور حرام کھانے میں جلدی کر رہے ہیں بےشک یہ جو کچھ کرتے ہیں برا کرتے ہیں۔ بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں
سُحت کے لغوی معنی زائل ہونے اور دور ہوجانے کے ہیں اور مال مسحُوت کے معنی ہلاک شدہ مال یا تلف شدہ مال ہیں۔ اب چونکہ حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور اس میں تصّرف کرنے والا فائدہ نہیں اٹھا سکتا لہذا اسی مناسبت سے حرام خوری کو قرآن نے "اَکلُ السُّحْت" کہا ہے۔ شیخ صدوق نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
ہروہ چیز جس میں امام سے خیانت کی جائے سُحْت ہے اور سحت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ایک وہ مال کہے جو ظلم وستم کے ساتھ حکم کرنے والوں سے ملے۔ اور اسی میں قاضیوں کی اجرت، بدکارعورتوں کی اُجرت، شراب کی قیمت، اس نبیذ (جو کی شراب) کی قیمت جو نشہ کرنے والی ہو، اور سود کھانا بھی شامل ہیں یعنی یہ سب بھی سحت اور حرام ہیں جیسے شریعت نے ان کو حرام ظاہر کیا ہے۔ اور قاضی کا فیصلہ کرتے وقت رشوت لینا، خدائے بزرگ وبرتر سے انکار اور کفر ہے! (کتاب خصال)
امام محمد باقر علیہ اسلام سے روائت ہے کہ:
سُحت سے مراد مُردار،غیر شکاری کتے اور شراب کی قیمت ہے۔ اسی طرح زناکار عورت کی زنا کرانے پر اجرت اور عدالتی حکم دینے میں رشوت لینا اورجنات کے ذریعے غیب کی باتیں بتا کر اجرت لینا بھی سُحت ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب التجارة)
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ (حلال یا حرام ) کس دروازے سے وہ دینار و درہم کما رہا ہے تو قیامت کے دن میں بھی پرواہ نہیں کروں گا کہ اسے جہنم کے کس دروازے سے داخل کروں! (بحارالانوار، جلد 23)
آنحضرت کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:
جب کسی بندے کی پیٹ میں حرام مال کا ایک لقمہ چال جاتا ہے اور بدن کا جزء بن جاتا ہے۔ تو آسمان وزمین کے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں! (سفینہ البحار, جلد اوّل)
مال حرام میں تصّرف کرنا گناہ ہے, البتہ بعض کو بڑی شدت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا ہے اور ان کا عذاب انتہائی شدید ہے۔ ان میں سب سے بدتر رشوت کھانا ہے۔ رشوت کھانے والا کافر کے حکم میں ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس پر لعنت کی ہے۔ البتہ بعض تصّرفات میں گنا ہوں سے زیادہ ہے۔ سود کھانے والے کو تو خدا و رسول سے جنگ کرنے والا کہا گیا ہے!
رشوت کی تین قسمیں ہیں۔
پہلی قسم کی رشوت یہ ہے کہ قاضی یا جج کو مال دیا جائے تاکہ وہ اس کے حق میں حکم صادرکرے یا دوسرے فریق پر غلبہ حاصل کرنے کا طریقہ بتائے۔ ایسا کرنا حرام ہے اگرچہ کہ رشوت دینے والا حق پر ہی کیوں نہ ہو اور قاضی برحق فیصلہ ہی کیوں نہ صادر کرے! لہذا ایسی رشوت لینا بھی حرام ہے اور دینا بھی حرام ہے، اس میں تصّرف بھی حرام ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے۔ ایسی رشوت دینے، لینے اور دلانے والا خدا کی لعنت کا سزاوار ہے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
خدا رشوت دینے والے، رشوت لینے والے اور جو بھی انکے درمیان واسطے اور رابطے کا کام کرے اس پر لعنت کرتا ہے۔ (سفینتہ البحار)
ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا:
اپنے آپ کو رشوت سے بچاو!کیونکہ یہ کفر کے علاوہ اور کچھ نہیں ! رشوت میں ملوث آدمی بہشت ک خوشبوتک نہیں سونگھ سکے گا۔ (سفینتہ البحار جلد)
رشوت دیناگناہ ہونے کے علاوہ اعانت اثم، یعنی گناہ کرنے میں مدد بھی ہی ہے۔ ہاں البتہ اگر مجبور ہو اوررشوت دئے بغیر اپنا حق حاصل نہ کرسکتا ہو تو رشوت دینا جائز ہے اگرچہ کہ رشوت لینے والے کے لئے حرام ہے۔ اسی طرح رشوت لے کر دوسرے تک پہنچانا بھی حرام ہے اور بیچ میں پڑ کر رشوت کی مقدار کو کم یا زیادہ کروانا بھی حرام ہے۔ ایسی رشوت بہر حال حرام ہے خواہ وہ نقد رقم کی صورت میں ہومکان یا دوکان کا نفع ہو یا کوئی کام ہو مثلا قاضی کے لیے کپڑے سی کر دے یا اس کا مکان تعمیر کرے۔ کبھی زبان سے بھی رشوت دی جاسکتی، مثلاً قاضی کی تعریف کرے تاکہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو اور اس کے حق میں فیصلہ دے دے۔ ان تمام قسموں کی رشوت کے حرام ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
اگر خمس اور ہدیہ کے نام پر رشوت دی جائے تو وہ بھی حرام ہے مثلاًرشوت کی نیت سے کوئی ہدیہ دے یا صلح کے عنوان سے کوئی مال کسی کو دے اوردل میں رشوت کا ارادہ ہو، یعنی اس نیت سے دے کہ ایسا کرنے سے میری مرضی کا کام ہوجائے گا تو یہ حرام ہے۔ اسی طرح اپنے واجبات یعنی خمس و زکات کو رشوت کی نیت سے دے تو یہ بھی حرام ہے اور اس کا خمس اور زکات ادا نہیں ہوگا۔ ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ دو بارہ خمس وزکات ادا کرنے کیونکہ ان کی ادائیگی کے لئے قصد قربت (یعنی حکم خداوندی کی بجاآوری کا ارادہ ) ضروری ہے۔ حدیث میں قُرب قیامت کی ایک نشانی کو کچھ اس طرح بیان کیا گیاہے کہ, ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ رشوت کو ہدیہ کہ کر حلال قرار دیں گے! یعنی رشوت لیں گے اور اسے ہدیہ قرار دیں گے۔
رشوت کی دوسری قسم حرام کام کے لئے رشوت ہے یعنی کسی حاکم کو یا کسی ظالم اور غنڈے شخص کوکوئی رشوت دے تاکہ اس کے ذریعے کسی شخص پر ظلم کرے یا کوئی اور گناہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی رشوت بھی حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے:
وَلَا تَأْكُلُوٓا۟ أَمْوَٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ وَتُدْلُوا۟ بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا۟ فَرِيقًۭا مِّنْ أَمْوَٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (بقرہ: 188)
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ﻇلم وستم سے اپنا کر لیا کرو، حاﻻنکہ تم جانتے ہو۔
اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں سے منع کیا گیاہے۔ پہلی بات یہ کہ جب تک کوئی مال شرعاً جائز نہ ہو اسے استعمال نہ کیاجائے، جیسے چوری کا مال امانت میں خیانت کر کے کسی کے مال کو غصب کرلینا وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ اپنا مال ومتاع بھی اس مقصد سے ظالم حکام کو نہیں دیا جائے کہ اس کی وجہ سے ظالم حکام دوسروں کا مال ناحق چھین کر کھانے میں اس کی مدد کریں۔
رشوت کی تیسری قسم مباح کام کے لیے رشوت دینا ہے۔ اور اس سے مُراد یہ ہے کہ اپنا مال کسی شخص کو دے تاکہ اس کی حمایت سے اپنا حق حاصل کرے یا اپنے آپ سے کسی ظالم کو دور کرے یاکسی مباح کام کو انجام دے سکے۔ رشوت کی یہ تیسری قسم حلال ہے۔
محمد ابن مسلم نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس کو آدمی اس لئے رشوت دے تاکہ وہ اس کا مکان خالی کردے (قبضہ چھوڑدے ) اور تاکہ وہ خود اس مکان میں رہ سکے۔ امام ع نے فرمایا اس (رشوت دینے میں) کوئی حرج نہیں ہے۔
حفص الاعور نے امام علی النقی علیہ السّلام سے سوال کیا کہ: بادشاہ اپنے کارندے معین کرتا ہے تاکہ وہ ہم سے اجناس خرید کر لے جائیں۔ کیا ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ان کارندوں کو ہم رشوت دیں تاکہ ہم بادشاہ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہیں؟ امام نے جواب میں فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ تم جتنا دینے میں اپنی مصلحت سمجھتے ہو دے دو۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: جب تم بادشاہ کے کارندے کو رشوت دے دیتے ہو تو کیا اس صورت میں تمہیں بادشاہ کو کم مال دینا پڑتا ہے؟ سوال کرنے والے نے کہا, ہاں۔ امام ع نے فرمایا: تم نے رشوت ہی کو فاسد کر دیا! (وسائل الشیعہ، کتاب تجارت)
حدیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ اپنا حق حاصل کرنے اور ظلم سے بچنے کے لئے رشوت دینا صحیح اور جائز ہے۔ لیکن دوسرے کا حق حاصل کرنے یا کسی پر ظلم کرنے کے لئے رشوت دینا حرام ہے۔
یہاں پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تیسری قسم کی رشوت جو اپنے حق حاصل کرنے یا کسی مباح کام کو انجام دینے کے لئے ہدیہ کے طور پر دی جاسکتی ہے لیکن اس جائز کام کے لئے رشوت لینا کراہیت سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا ہدیہ ہے جو رشوت سے مشابہت رکھتا ہے۔ اگر ایسا بھی ہوتا ہے جائز کام کے لئے رشوت دینے کی سہولت اور عادت آدمی کو ناجائز کام کے لئے بھی رشوت دینے پر اکساتی ہے، اور آدمی حرام میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پرہیز گار آدمی اگر حلال، لیکن مکروہ قسم کی رشوت لینے سے بچے گا تو یقینا حرام قسم کی رشوت لینے سے بھی بچا رہے گا۔ دوسری طرف ضرورتمند لوگوں سے تحفہ قبول کرنے سے آدمی کو سخت پرہیز کرنا چاہیئے تاکہ وہ کسی دن حرام رشوت میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
حرام خور کی پہچان یہ ہے کہ اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
جو شخص ناجائز طریقے سے مال کماتا ہو اس کے سر میں عمارت، مٹی اور پانی کا سودا سما جاتا ہے۔ (بحا رالانوار، جلد 23، اور سفینتہ البحار جلداوّل)
یعنی حرام مال کمانے والے شخص کر ہر وقت یہ فکر لگی رہتی ہے کہ وہ اپنا مال عمارت بنانے اور اس کو وسیع کرنے میں لگاتا رہے تاکہ وہ مال ضائع نہ ہوجائے۔ پانی اور مٹی کی آمیزش سے بننے والی عمارت آدمی کو نہ تو دنیامیں مطلوبہ سکون فراہم کرتی ہے اور نہ ہی آخرت میں مفید ثابت ہوتی ہے۔ وہ زمین کے ایک ٹکڑے کو حکم دیتا ہے کہ اس کا سارا حرام مال نگل لے۔ حرام مال میں ایک طرف دنیاوی اعتبار سے برکت نہیں ہوتی تو دوسری طرف حرام مال کھانا عبادتوں کے قبول ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے حضرت رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ:
حرام خوری کے ساتھ کی جانے والی عبادت بُھربھری مٹی پر تعمیر ہونے والی عمارت کی طرح ہے (سفینہ البحار، جلد اول)
یعنی بے بنیاد ہے اور اس کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی عمارت یا تو قائم نہیں ہوتی، یاجلد منہدم ہوجاتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ:
کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ دیتا ہے تو اس کو اس کا کوئی اجر نہیں ملتا۔ بندہ حرام مال میں سے کچھ راہ خدا میں بھی خرچ کرتا ہے تو اس کے مال میں برکت پیدا نہیں ہوتی! بندہ اپنے پیٹھ پیچھے حرام مال چھوڑ جاتا ہے تو وہ اسے مزید جہنم کی طرف ہی لے جاتا ہے۔ (بحارالانوار، جلد 23)
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا رشاد ہے:
جو شخص حرام مال کا ایک لقمہ بھی کھائے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں بھی قبول نہیں ہوں گی اور ان چالیس دنوں میں اس کی کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔ اور ہر وہ گوشت جو حرام مال کھانے کی وجہ سے نشوونما پایا ہو جہنم کی آگ میں جلنے کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ اور بے شک ایک لقمہ بھی کچھ نہ کچھ گوشت کی نشوونما کر دیتا ہے! (سفینة البحار، جلد اول)
آنحضرت یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعا قبول ہو، اسے چاہئیے کہ وہ اپنی خوراک اور اپنے ذرائع معاش کو حرام سے پاک رکھے! (کتاب عدة الداعی)
خداوند تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کو وحی فرمائی:
بنی اسرائیل میں جو لوگ ظالم ہیں ان سے کہہ دو کہ وہ مجھے اس وقت تک نہ پکاریں اور اس وقت تک دعا نہ مانگیں جب تک کہ حرام مال اُن کے تصرف میں ہے۔ اور اگر اسی حالت میں لوگ مجھے پکاریں گے یا مجھ سے دعا مانگیں گے تو میں ان پر لعنت کروں گا! (کتاب عدة الداعی)
حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السّلام نے ابن سعد کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
یعنی تمہارے پیٹ حرام مال سے بھر چکے ہیں، اور تمہارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، اب تم حق کو قبول نہیں کرو گے۔ تم انصاف سے کام کیوں نہیں لیتے؟ اب تم میری بات کیوں نہیں سنتے؟ (کتاب نفس المہموم)
عباسی بادشاہ مہدی کے زمانے میں شریک بن عبدالله نامی ایک قاضی ہوا کرتا تھا جب تک بادشاہ نے اسے اپنے پاس نہیں بلایا تھا وہ ایک متقی مجتہد تھا۔ لیکن مہدی عباسی نے اسے بلاکر مجبور کر دیا کہ وہ تین کاموں میں سے کوئی ایک کام اختیار کرے یا تو بادشاہ کا قاضی بن جائے یا بادشاہ کے بچوں کی تعلیم و تربیت کرے، یا پھر بادشاہ کے ساتھ ایک مرتبہ بیٹھ کر کھانا کھا لے! قاضی شریک نے خیال کیا کہ ایک مرتبہ شاہی طعام کھا لینا سب سے آسان کام ہے۔ اس خیال خام کے تحت اس نے کھانا کھانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ بادشاہ نے اپنے خاص باورچی کو حکم دیا کہ وہ انواع و اقسام کے انتہائی لذیذ کھانے تیار کرے۔ قاضی شریک نے جب بادشاہ کے ساتھ کھانا کھا لیا تو بادشاہ کے خاص باورچی نے اپنے لوگوں سے کہا: قاضی شریک نجات نہیں پائیں گے! ہوا بھی یہی۔ حرام غذا نے قاضی پر اتنا برا اثر ڈالا کہ اس نے باقی کے دو کام بھی قبول کر لئے، بادشاہ کا خاص قاضی بھی بن گیا اور بادشاہ کے بچوں کا معلم بھی۔ کہتے ہیں کہ قاضی شریک کو بیت المال سے وظیفہ ملتا تھا اور وہ اپنا وظیفہ شاہی خزانچی سے حاصل کرنے میں بہت سختی سے کام لیتا تھا۔ ایک دن خزانچی نے شریک سے کہا: آپ نے مجھے کوئی گندم تو نہیں بیچا ہے جس کی قیمت وصول کرنے میں آپ اتنی سختی کر رہے ہیں۔ قاضی شریک نے جواب دیا تھا: ہاں، میں نے گندم سے زیادہ قیمتی چیز بیچ دی ہے! میں نے اپنا دین بیچ دیا ہے!
ایک دن ہارون رشید کی جانب سے بہلول دانا کے پاس شاہی طعام سے بھرا ہوا ایک خوان بھیجا گیا۔ انہوں نے اسے قبول نہ کیا۔ بادشاہ کے آدمیوں نے کہا: خلیفہ کا عطا کردہ ہدیہ واپس نہیں لوٹایا جاسکتا! بہلول دانا نے آس پاس کے کتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کے سامنے رکھ دو بادشاہ کے آدمیوں کو سخت غصہ آگیا اور وہ تیزی میں آکر کہنے لگے: تم نے خلیفہ کے تحفے کی توہین کر دی ہے۔ بہلول دانا نے ان کو چپ کراتے ہوئے فرمایا:آہستہ بولو، اگر کتوں نے سمجھ لیا کہ یہ خلیفہ کا طعام ہے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے!
حرام خوری ہر قسم کے شر اور فساد کا سر چشمہ ہے۔ جبکہ لقمہ حلال ہر قسم کے نیکیوں اور خوبیوں کا باعث ہے۔ اکل حلال یعنی حلال روزی کھانے کی فضیلت میں بہت سی روایتیں وارد ہوئی ہیں۔ مثلاً پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
عبادت کی ستر اقسام ہیں ان میں سب سے افضل حلال روزی کمانا ہے! (سفینة البحار، جلد اول)
آنحضرتؐ فرماتے ہیں:
جو شخص حلال خوراک کھاتا ہے ایک فرشتہ اس کے سر پر کھڑے ہو کر اس وقت تک اس کے لئے مغفرت کرتا رہتا ہے جب تک وہ کھانے سے فارغ نہیں ہو جاتا۔ (سفینة البحار، جلد اول)
آنحضرت یہ بھی فرماتے ہیں :
جو شخص رزق حلال کمانے میں صبح سے رات کر دے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ (سفینة البحار، جلد اول)
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حجة الوداع کے موقع پر مسجد الحرام (خانہ کعبہ کی مسجد) میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
آگاہ ہوجاؤ کہ میری روح پر روح الامین (جبرئیل) یہ وحی لائے ہیں کہ کوئی جاندار اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اس کا رزق پورااسے نہیں مل جاتا۔ پس خدا سے ڈرو اور روزی کی طلب میں حرص نہ کرو۔ اگر رزق کی فراہمی میں کچھ تاخیر ہوجائے تو ایسا نہیں ہونا چاہئیے کہ تم خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی طلب پر لگ جاؤ۔ بے شک خدائے تعالیٰ نے ہر مخلوق کی روزی حلال ہی تقسیم کی ہے اور کسی کی قسمت میں حرام روزی نہیں لکھی ہے۔ پس جو شخص خدا سے ڈرے گا اور صبر سے کام لے گا تو خدا حلال طریقہ سے اسے رزق فراہم کر دے گا۔ لیکن جو شخص اپنی پاکیزگی کا دامن چاک کرے گا اور جلدی میں ناجائز طریقے اپنا لے گا تو اس کے حلال رزق میں سے اتنا رزق کاٹ لیا جائے گا۔ قیامت کے دن اس حرام کمائی کا اس سے حساب لیا جائے گا۔ خداوند تعالیٰ نے یہ کہہ کر اس سے منع فرمادیا ہے کہ: وَلَا تَتَبَدَّلُوا۟ ٱلْخَبِيثَ بِٱلطَّيِّبِ (نساء ۔ 2) یعنی پاکیزہ چیز کے بدلے خبیث اور بری چیز نہ لے لو! ایسا نہ ہو کہ حرام روزی کے سلسلے میں عجلت کر بیٹھو اس سے پہلے کہ خداوند تعالیٰ اس رزق حلال میں سے تمہیں عطا کرے جو اس نے تمہارے مقدر میں لکھ دیا ہے۔
ایک روز حضرت علی اپنے سواری کے جانور سے مسجد کے دروازے کے قریب اترے۔ آپ نے خچر ایک شخص کے حوالے کیا اور خود مسجد میں تشریف لے گئے۔ اُ س شخص نے خچر کی لگام کھینچ کر نکال لی۔ خچر کو یوں ہی چھوڑ دیا اور لگام لے کر فرار ہوگیا۔ جب حضرت علی علیہ السّلام مسجد سے باہر تشریف لائے تو دو درہم ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ یہ دو درہم اس شخص کو دیں جسے آپ نے خچر کی حفاظت کے لئے معین فرمایا تھا۔ خچر کو بغیر لگام پایا۔ گھر پہنچ کر وہ دو درہم اپنے غلام کو دئیے تاکہ وہ لگام خرید لائے۔ غلام بازار گیا۔ اس نے وہی لگام ایک شخص کے ہاتھ میں دیکھی معلوم ہوا کہ چور نے اسے دو درہم میں بیچا اور اسے اس کے قسمت کے وہی دو درہم ملے ہیں جو حضرت علی علیہ السّلام اسے خود بھی عطا فرمانا چاہتے تھے۔ جب غلام نے یہ سارا ماجرا حضرت کو سنایا تو آپ نے ارشاد فرمایا: بندہ خود دامن صبر کو چھوڑ دینے کی وجہ سے اور جلد بازی کی وجہ سے اپنے رزق حلال کو حرام کر لیتا ہے۔ حالانکہ جو کچھ اس کی قسمت میں لکھا ہوا ہوتا ہے اس سے زیادہ ہ نہیں پاتا (کتاب لئالی الاخبار)