وہ گناہ کبیرہ جس کے لیے معتبر بیانات میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ حد بھی مقرر کی گئی ہے, چپٹی لڑنا (یعنی اپنی شرمگاہ دوسری کی شرمگاہ سے رگڑنا) ہے۔ ایک عورت نے امام جعفر صادق ع سے کہا: جو عورتیں آپس میں چپٹی لڑتی ہیں, ان کی حد کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا:
زنا کی حد ہے (یعنی 100 کوڑے)۔ وہ جہنم میں ہیں جب قیامت ہو گی انہیں آگ کی چادر اڑھا دی جائے گی، ان کی شرمگاہوں میں آگ کے گرز گھسیڑے جائیں گے اور انہیں جہنم میں ڈال دیں گے۔ عورت نے کہا: کیا اس عمل کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے عرض کیا: کہاں؟ آپ نے فرمایا: واصحاب الرس۔ (فرقان - 38) اے عورت! وہ قدیم ترین قوم جس میں چپٹی کا رواج ہوا حضرت لوط کی قوم تھی جس کے مرد لونڈے بازی کرنے میں لگے تو بیویاں بے شوہروں کی رہ گئیں۔ آخر وہ بھی ایک دوسرے سے اسی طرح مشغول ہو گئیں جس طرح مرد آپس میں مشغول ہو گئے تھے۔ (اور عذاب نازل ہونے پر سب کے سب ہلاک ہو گئے۔) (وسائل الشیعہ کتاب نکاح باب 24)
اصحاب الرس کے بارے میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ خدا نے ان پر تیز سرخ ہوا بھیجی۔ ان کی زمین نے بھی آگ اگلی، کالی گھٹا ان پر چھا گئی اور پھر ان پر ایسی بجلی گری کہ سب کو ہلاک کر گئی۔
جب عورت اس حرام کام کا چار بار اقرار کر لے یا چار عادل مرد اس کی گواہی دے دیں تو ان دونوں عورتوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔ البتہ اگر جرم کے اقرار یا عادل گواہوں کی گواہیوں سے پہلے پہلے وہ توبہ کر لیں تو حد نہیں لگے گی۔
اسی طرح دو برہنہ مردوں یا دو برہنہ عورتوں کا ساتھ ساتھ ایک ہی لحاف میں اس طرح سونا کہ ان کے بیچ میں کوئی روک نہ ہو حرام ہے اور اگر حاکم شرع کے سامنے ثابت ہو جائے تو وہ انہیں سو کوڑوں سے کم کی (جتنی بھی مناسب سمجھے) سزا دے۔ کچھ روایتوں میں ان کی حد سو کوڑے بتائی گئی ہے۔
گناہ کبیرہ جس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے وہ منی کو غیر فطری طریقے مثلاً اپنے ہاتھ سے عضو مخصوص کو مل کر یا بیوی کے علاوہ کسی اور کے اعضاء سے اپنے اعضاء کو رگڑ کر خارج کرنا ہے۔ اس کے حکم سے متعلق پوچھنے پر آپؐ فرماتے ہیں:
یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس سے خدا نے قرآن مجید میں منع کیا ہے اور منی نکالنے والے کی مثال یہ ہے جیسے اس نے اپنے آپ سے نکاح کیا ہو۔ اگر میں کسی ایسے شخص کو جان لوں جو یہ کام کرتا ہے تو اس کے ساتھ کھانا نہ کھاؤں۔ اس حدیث کا راوی آپؐ سے پوچھتا ہے: یہ مطلب قرآن کے کس مقام سے نکلتا ہے؟ تو آپؐ فرماتے ہیں اس آیت سے,
جوکوئی اپنی بیوی یا لونڈی کے علاوہ کسی اور سے اپنی شہوت کی تسکین کرتا ہے وہ بدعنوان ہے۔
راوی نے پھر پوچھا, زنا کا گنا بڑا ہے یا منی نکالنے کا؟ آپ نے فرمایا: منی نکالنا بڑا گناہ ہے۔ (جواہر الاحکام کتاب الحدود)
جو اپنے ہاتھ سے اپنی شہوت مٹاتا ہے وہ ملعون ہے۔ (نکاح مستدرک ص 870)
لوگ امامؑ سے منی نکالنے کے حکم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپؑ فرماتے ہیں: یہ بڑا اور نہایت بڑا گناہ ہے اور یہ کسی حیوان سے جماع کرنے یا رگڑ کر شہوت مٹانے کے حکم میں آتا ہے۔ جو کوئی اپنی شہوت اس سے یا اس جیسے کسی اور ذریعے سے مٹاتا ہے وہ زنا کرنے کے حکم میں داخل ہے یعنی یہ زنا کے گناہ کے برابر ہے۔
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں: لوگوں کے تین گروہ ایسے ہیں جن سے خدا بات نہیں کرے گا، انہیں رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا اور انہیں پاک نہیں کرے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
بدقسمتی سے نکاح کرنے کی بے حد وحساب مشکلات اور جوانوں کے کنوارے رہنے نے اس گھر پھونک بیماری اور گناہ کو غیر معمولی رواج دے دیا ہے اور اس سے بہت سے پیارے جوان آخرت کی سزاؤں سے قطع نظر جان بوجھ کر یا انجانے میں طرح طرح کی بیماریوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو آگاہ کریں اور اپنے جوانوں کا خیال رکھیں۔ اسی طرح دین اور حفظان صحت کی تعلیم دینے والے منشیوں اور مدرسوں کا فرض ہے کہ وہ جوانوں کو مصیبت کے خطرناک روحانی اور جسمانی نتائج سے باخبر کریں۔ اس مقام پر ہم منی خارج کرنے کے کچھ نقصانات کتاب ناتوانی ہائے جنسی سے نقل کرتے ہیں جو اس فن کے ماہرین کی تحریروں کا مجموعہ ہے۔
یہ عمل لوگوں کو شہوانی قویٰ کی کمزوری میں مبتلا کرتا ہے، سستی اور بزدلی پیدا ہوتی ہے، ان سے دلیری اور ایمانداری رخصت ہو جاتی ہے، ایسے کتنے ہی لوگ ہیں جو جوانی کے شروع میں ہی مشت زنی (جلق) کی وجہ سے ایسی روحانی اور جسمانی کمزوریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ منشیات کے عادی لوگ بھی ان کے مقابلے میں شیر نر نظر آتے ہیں۔ یہ غیر فطری جنسی عمل یعنی منی خارج کرنا یا مشت زنی کرنا پانچوں حواس سے اس قدر قریبی تعلق رکھتا ہے کہ سب سے پہلے آنکھ اور کان پر اس طرح اثر کرتا ہے کہ نظر کو کمزور کر دیتا ہے اور سماعت کو بھی خاص حد تک ناکارہ بنا دیتا ہے۔ مشت زنی کرنے والے خصوصاً وہ لوگ جو جسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگتے ہیں جن سے انہیں سخت پریشانی ہوتی ہے۔ وہ آنکھوں کو بند کر لین تب بھی ان ترمروں سے انہیں نجات نہیں ملتی اور جب یہ عمل ہر بار کئی کئی منٹ تک جاری رہتا ہے تو انہیں چکر آ جاتا ہے اور وہ زمین پر گر پڑتے ہیں۔ اسی طرح ان کے کانوں میں گھنٹیوں کی سی آوازیں آنے لگتی ہیں جن سے انہیں بہت بے چینی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جسمانی اور روحانی قوتیں کم ہو جاتی ہیں، خون گھٹ جاتا ہے، رنگ اُڑ جاتا ہے، یاداشت کمزور پڑ جاتی ہے، جسم دُبلا ہو جاتا ہے، سستی اور کاہلی بے حد بڑھ جاتی ہے، بھوک جاتی رہتی ہے، کج خلقی پیدا ہوتی ہے، طبعیت میں چڑچڑاہٹ آ جاتی ہے، سر میں درد رہنے لگتا ہے اور دوسری بیماریوں کی ہزاروں مصیبتیں ہیں جو مشت زنی کرنے والوں کو آ گھیرتی ہیں۔
ممکن ہے کہ جس کسی نے ایک مدت تک مشت زنی کی ہو وہ پہلے مرحلے میں اعصاب کی سستی کے خلل سے یا نظر کی کمزوری یا سر کے چکروں میں مبتلا ہو اور پھر ایک ایک کر کے باقی تمام بیماریاں اس تک پہنچیں۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ مشت زنی شرع کے لحاظ سے بھی عمومی لحاظ سے بھی ہر طرح حرام اور ناپسندیدہ فعل ہے۔البتہ جو لوگ جسمانی لحاظ سے قوی ہیں ممکن ہے ان کا ان بیماریوں سے دیر میں سابقہ پڑے لیکن ان سے بچنا یا بچے رہنا ناممکن ہے اور سب کو خواہ مخواہ ان مصیبتوں میں گرفتار ہونا ہی پڑتا ہے۔
مشت زنی کرنے والوں کی ایک بدبختی یہ ہے کہ ان کی قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے، اس لیے جب انہیں اپنے عمل کے نتیجے کا پتا لگتا ہے تو ان میں اتنی قوت ارادی نہیں ہوتی کہ اسے چھوڑ سکیں۔ سو ہم جو یہ کہتے ہیں کہ منی خارج کرنے کا عمل روحانی لحاظ سے بھی انسانی قویٰ کو خراب کر دیتا ہے بے سبب نہیں ہے۔ یہ عمل جسمانی نقصانات کے علاوہ جنسی لحاظ سے بھی انسان کو خراب کر دیتا ہے۔ یعنی رس دینے والے اندرونی غدودوں کو بیکار کر دیتا ہے۔ یہ غدود منی بناتے ہیں جو مشت زنی کے باعث دھیرے دھیرے چھوٹے ہو کر چنے کے برابر رہ جاتے ہیں اور چونکہ اس صورت میں منی یعنی ماء الحیات یا آب زندگی نہیں بنا سکتے، انسان ہمیشہ کے لیے جنسی لذت سے محروم ہو جاتا ہے اور اگر اس صورت میں مکمل طور پر نامرد نہ بھی ہو تو قطعی طور پر دوسری جنسی کمزوریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اکثر دیکھا اور سنا گیا ہے کہ ان کی پیشاب کی جگہ خون آنے لگتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ جن لوگوں کی ایسی حالت ہو جاتی ہے وہ چاہے جس قدر جوان ہوں موت کا خطرہ ان کی گھات میں رہتا ہے کیونکہ شہوت کے بغیر اور شہوت کا مزہ لیے بغیر ان کی منی برابر بہتی یا نکلتی رہتی ہے اور اس کی وجہ سے چلتے چلتے یکا یک گر پڑتے ہیں اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
پاگل خانے میں جا کر دیکھئے وہاں رہنے والے دس پاگلوں میں سے نو مشت زنی کے عادی ہیں۔ یعنی منی خارج کرتے کرتے پاگل ہو گئے اور پاگل خانے میں ایک طرف آ پڑے کیونکہ مشت زنی کا نامعقول اثر دماغی قوتوں پر زیادہ ہوتا ہے اور جب دماغی قویٰ بگڑ جاتے ہیں تو یہ مانی ہوئی بات ہے کہ پاگل پن پر نوبت پہنچے گی۔ بلامبالغہ سل کے دس مریضوں میں سے جو دارالصحت (سینے ٹوریم) میں سو رہے ہیں چار مریض مشت زنی کی لت پڑنے کے باعث اس خطرناک بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے جس تک علماء اور اسکالر دسیوں سال کے تجربے کے بعد پہنچ پائے ہیں۔
آج کی دُنیا کہتی ہے خوب کھاؤ لیکن کسی کام میں حد سے نہ بڑھو۔ طاقتور رہو تاکہ بیمار نہ پڑو۔ لیکن مشت زنی کے عادی لوگوں کو بھوک نہیں لگتی جو خوب کھالیں اور وہ جنسی معاملات میں بھی غیر فطری طریقے سے حد سے تجاوز کرتے ہیں اس لیے مجبوراً کمزور ہوتے ہیں اور چونکہ کمزور ہوتے ہیں اس لیے ہر قسم کی بیماری میں مبتلا ہونے کا امکان رکھتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض مشت زنی کے عادی اس عمل میں افراط کی وجہ سے (Sadism)سے ملتی جلتی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس وقت ان کے جذبات کتے بلی کو دیکھ کر بھی برانگیختہ ہو جاتے ہیں اور وہ فوراً جلق کرنے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ کوئی آدمی پانچ چھ مہینے سے زیادہ جنسی قوت سے اس طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتا اس لیے اس کے جنسی قویٰ بیکار ہو جاتے ہیں یا وہ نہایت دلخراش حالت میں اپنی موت سے جا ملتا ہے۔ (ناتوانی ہائے جنسی ص 48 تا 52)