لوگ میرے پیچھے منتظر ہیں اور انہوں نے مجھے اپنے اور تمہارے درمیان واسطہ قرار دیا ہے اورخداکی قسم میں نہیں جانتا ہوں کہ میں تم سے کیا کہوں؟ میں کوئی ایسی بات نہیں جانتا ہوں جس کا تمہیں علم نہ ہو اور کسی ایسی بات کی نشاندہی نہیں کر سکتا ہوں جو تمہیں معلوم نہ ہو۔ تمہیں تمام وہ باتیں معلوم ہیں جو مجھے معلوم ہیں اور میں نے کسی امر کی طرف سبقت نہیں کی ہے کہ اس کی اطلاع تمہیں کروں اور نہ کوئی بات چپکے سے سن لی ہے کہ تمہیں با خبرکروں۔ تم نے وہ سب خود دیکھا ہے جو میں نے دیکھا ہے اوروہ سب کچھ خود بھی سنا ہے جومیں نے سنا ہے اور رسول اکرم (ص) کے پاس ویسے ہی رہے ہو جیسے میں رہا ہوں۔
ابن ابی قحافہ اور ابن الخطاب حق پر عمل کرنے کے لئے تم سے زیادہ اولیٰ نہیں تھے تم ان کی نسبت رسول اللہ سے زیادہ قریبی رشتہ رکھتے ہو۔ اورتمہیں وہ دامادی کا شرف بھی حاصل ہے جو انہیں حاصل نہیں تھا لہٰذا خدارا اپنے نفس کو بچائو کہ تمہیں اندھے پن سے بصارت یاجہالت سے علم نہیں دیا جا رہا ہے۔ راستے بالکل واضح ہیں اور نشانات دین قائم ہیں۔ یاد رکھوخدا کے نزدیک بہترین بندہ وہ امام عادل ہے۔ جو خود ہدایت یافتہ ہو اوردوسروں کوہدایت دے۔ جانی پہچانی سنت کو قائم کرے اور مجہول بدعت کو مردہ بنادے۔ دیکھو ضیا بخش سنتوں کے نشانات بھی روشن ہیں اوربدعتوں کے نشانات بھی واضح ہیں اوربد ترین انسان خداکی نگاہ میں وہ ظالم پیشوا ہے جو خود بھی گمراہ ہو اور لوگوں کو بھی گمراہ کرے۔ پیغمبر سے ملی ہوئی سنتوں کو مردہ بنادے اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کردے میں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ روز قیامت ظالم رہنماکو اس عالم میں لایا جائے گا کہ نہ کوئی اس کا مدد گار ہوگا اورنہ عذر خواہی کرنے والا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی۔ اس کے بعد اسے قعر جہنم میں جکڑ دیا جائے گا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ خدارا تم اس امت کے مقتول پیشوا نہ بنو, اس لئے کہ دور قدیم سے کہاجا رہا ہے کہ اس امت میں ایک پیشوا قتل کیا جائے گا جس کے بعد قیامت تک قتل و قتال کا دروازہ کھل جائے گا اور سارے امور مشتبہ ہو جائیں گے اور فتنے پھیل جائیں گے اور لوگ حق و باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے اور اسی میں چکر کھاتے رہیں گے اور تہ و بالا ہوتے رہیں گے ۔ خدارا مروان کی سواری نہ بن جائو کہ وہ جدھر چاہے کھینچ کرلے جائے کہ تمہارا سن زیادہ ہوچکا ہے اور تمہاری عمر خاتمہ کے قریب آچکی ہے۔
حضرت عثمان نے اس ساری گفتگو کو سن کر کہا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ ذرا مہلت دیں تاکہ میں ان کی حق تلفیوں کا علا ج کرسکوں؟ آپ نے فرمایا کہ جہاں تک مدینہ کے معاملات کا تعلق ہے ان میں کسی مہلت کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جہاں تک باہر کے معاملات کاتعلق ہے ان میں صرف اتنی مہلت دی جا سکتی ہے کہ تمہارا حکم وہاں تک پہنچ جائے۔