حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ہے کہ تمام گناہان کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ اللہ کا شریک قرار دینا اور والدین کا عاق ہے۔ عاق ایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں عذاب جہنم کا وعدہ ہے۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ع کا قول اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں یوں بیان کرتا ہے:
وَبَرًّۢا بِوَٰلِدَتِى وَلَمْ يَجْعَلْنِى جَبَّارًا شَقِيًّا (مریم ۔ 32)چونکہ حضرت عیسیٰ ع کے باپ نہ تھے اس لیے ماں کا ذکر کیا گیا۔ اسی سورہ میں حضرت یحییٰ ع کے ماں باپ دونوں کا ذکر ہے۔
اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا اور سرکش وبدبخت نہیں بنایا
وَبَرًّۢا بِوَٰلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا (مریم ۔ 14)
اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے اور سرکش اور نافرمان نہیں تھے
ان آیتوں میں عاق والدین کو تین صفات سے یا د فرمایا ہے:
اور ہر صفت کے لیے سخت عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے۔ چنانچہ جبار کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍۢ ١٥ مِّن وَرَآئِهِۦ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّآءٍۢ صَدِيدٍۢ ١٦ يَتَجَرَّعُهُۥ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُۥ وَيَأْتِيهِ ٱلْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍۢ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍۢ ۖ وَمِن وَرَآئِهِۦ عَذَابٌ غَلِيظٌۭ (ابراھیم: 15-17)
اور ہر سرکش ضدی نامراد رہ گیا, اس کے پیچھے دوزخ ہے اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پیئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکے گا اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی لیکن وه مرنے واﻻ نہیں۔ اور اس کے پیچھے سخت عذاب ہوگا
اور شقی صفت رکھنے والے کے بارے میں فرماتا ہے:
فَأَمَّا ٱلَّذِينَ شَقُوا۟ فَفِى ٱلنَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌۭ وَشَهِيقٌ ١٠٦ خَـٰلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌۭ لِّمَا يُرِيدُ (ھود: 106, 107)عصی یعنی نافرمان کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
پس جو لوگ بد بخت ہیں وہ دوزخ میں ہوں گے اس میں ان کا چلانا اور دھاڑنا ہوگا۔ جب تک آسمان اور زمین ہیں، اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ یقیناً تیرا رب جو کچھ چاہے کر گزرتا ہے.
وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُۥ يُدْخِلْهُ نَارًا خَـٰلِدًۭا فِيهَا وَلَهُۥ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ (النساء ۔ 14)
اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا
عاق والدین کی شقاوت کے لیے یہی کافی ہے کہ جبرائیل امین ع نے اس کے حق میں یہ بد دعا کی اور حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آمین کہا:
جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کے حقوق ادا نہ کئے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت نہ کرے گا۔حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ہیں کہ
اللہ کے دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے: خدایا! والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو محفوظ رکھ۔۔ دوسرا فرشتہ کہتا ہے: خداوندا! جن لوگوں سے ان کے والدین ناراض ہیں، انہیں اپنے غضب کے ذریعہ ہلاک فرما۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
خبردار! والدین کی ناراضگی سے پرہیز کرو۔ بے شک بہشت کی خوشبو ایک ہزار سال کے فاصلے سے محسوس ہوتی ہے لیکن ماں باپ کے عاق اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکے گا۔آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ہے:
جس کسی نے اپنے والدین کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ہے اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی پس وہ ملعون ہے۔نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
ماں باپ کو جس نے ناراض کیا پھر وہ جتنا بھی چاہے عمل کرے بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
تین گروہوں کے ساتھ خداوند تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا، نہ ان پر نظر رحمت رکھے گا، نہ ان کو گناہوں سے پاک فرمائے گا اور ان کے لیے دردنات عذاب ہے۔ ان تین گروہوں میں ایک تقدیر الٰہی کو جھٹلانے والا، دوسرا ہمیشہ شراب پینے والا اور تیسرا والدین کا عاق کیا ہوا۔حضرت امام جعفر صادق ع سے روایت ہے:
ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو مارا۔ ملعون ہے، ملعون ہے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا ہو۔
حضرت امام جعفر صادق ع سے روایت ہے کہ:
جو کوئی اپنے والدین کی طرف غصے سے نظر کرے گا حالانکہ والدین اولاد کے حق میں ظالم ہوں پھر بھی اللہ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔
علامہ مجلسی کتاب کافی کی شرح میں فرماتے ہیں:
عاق والدین سے مراد یہ ہے کہ اولاد ان کا ادب و احترام نہ کرے۔ کسی قسم کی گفتار و رفتار سے ان کو تکلیف پہنچائے۔ ان کی ایسی خواہشات و مطالبات کی مخالفت کرے جن کا پورا کرنا عقلاً و شرعاً جائز ہو۔ والدین کی طرف تندی اور غصے سے نظر کرنا عاق کا سبب بنتا ہے۔ نیز والدین کو غمگین کرنے سے عاق ہو جاتا ہے۔کم سے کم عاق ماں باپ کے سامنے اُف کہنا ہے۔ اور اگر اُف سے چھوٹا کوئی کلمہ عربی زبان میں ہوتا تو ذکر ہوتا اور ممنوع قرار دیا جاتا۔
والدین کے حق میں احسان و نیکی کرنا اور کما حقہ حق کی ادائیگی کرنا بھی واجب ہے۔ حضرت امیر المومنین ع فرماتے ہیں:
والدین کے ساتھ نیکی کرنا واجبات الٰہیہ میں سب سے بڑا فریضہ ہے۔اس سلسلے میں کچھ آیات تبرکاً ذکر کی جاتی ہیں:
وَوَصَّيْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ بِوَٰلِدَيْهِ حُسْنًۭا (العنکبوت ۔ 8)
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ سے نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔
أَنِ ٱشْكُرْ لِى وَلِوَٰلِدَيْكَ (لقمان ۔ 14)اس آیہ شریفہ میں اپنا شکر اور والدین کا شکر ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے۔
ہم نے انسان کو تاکید کی کہ میرا شکر ادا کرے اور اپنے والدین کا بھی۔
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّۢ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًۭا كَرِيمًۭا ٢٣ وَٱخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ ٱلذُّلِّ مِنَ ٱلرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ٱرْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِى صَغِيرًۭا (الاسرا: 23, 24)یہاں آیہ مذکورہ میں خداوند عالم نے والدین کے ساتھ نیکی کو اپنی عبادت کے مترادف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہے، اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کرنا بھی واجب ہے۔
اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے.
حضرت امام جعفر صادق ع سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں راہ خدا میں جہاد کرنے کا شوق رکھتا ہوں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا، پس راہ خدا میں جہاد کرو۔ بے شک اگر تم مارے گئے تو اللہ کے نزدیک زندہ رہو گے اور رزق پاؤ گے اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہو گا۔ اگر سلامتی کے ساتھ واپس آئے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہوگے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس شخص نے کہا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، میرے والدین زندہ ہیں اور بڑھاپے کی حالت میں ہیں اور مجھ سے کافی انس رکھتے ہیں۔ مجھ سے جدائی ان کو پسند نہیں۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا اگر ایسا ہے تو ان کی خدمت میں ٹھہر جا۔ قسم اس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، والدین سے ایک دن رات انس میں رہنا ایک سال کے مسلسل جہاد سے افضل ہے۔ یہ روایت بھیماں باپ سے نیکی بہت سارے گناہوں کا کفارہ ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک آدمی حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ، ایسا کوئی بُرا کام باقی نہیں بچا جس کا میں مرتکب نہ ہوا ہوں۔ کیا میرے لیے توبہ ہے؟ آنحضرت نے فرمایا، جاؤ، باپ کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو۔ جب وہ نکل گیا تو آپ نے فرمایا اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اس کے ساتھ نیکی کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ہے کہ فرمایا:والدین کے خدمت گار بن کر جنت میں مقام حاصل کر لو اور اگر والدین کے عاق ہو گئے تو جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لو۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
والدین کی رضامندی میں اللہ کی رضا ہے اور ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مزید ارشاد فرمایا:
والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بہشت میں پیغمبروں سے صرف ایک درجہ کے فرق پر ہو گا۔ اور والدین کا عاق شدہ جہنم میں فراعنہ سے صرف ایک درجہ نیچے ہو گا۔
حضرت خاتم الانبیاء نے فرمایا:
گناہوں میں تین گناہ ایسے ہیں جن کی سزا عجلت سے اس دنیا میں دی جاتی ہے اور قیامت تک تاخیرنہیں کی جاتی۔ ان میں سے پہلے والدین کا عاق ہونا، دوسرے اللہ کے بندوں پر ظلم کرنا اور تیسرے احسان پر ناشکری کرنا۔حضرت امام محمدباقر ع نے فرمایا:
مخفی طور پر صدقہ دینا پروردگار کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور والدین کے ساتھ نیکی و قرابت داروں سے صلہ رحم عمر کو دراز کرتا ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا:
ماں باپ سے نیکی اور پوشیدہ خیرات کرنے سے فقر دور ہوتا ہے اور یہ دونوں عمر کو طویل کرتے ہیں اور ستر قسم کی بُری موت اس سے دور ہوتی ہے۔یہ بھی فرمایا کہ:
جو کوئی مجھے یہ ضمانت دے کہ والدین سے نیکی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرے گا تو میں بھی اسے کثرت مال اور درازی عمر کے علاوہ اپنے قبیلہ میں محبوب بننے کی ضمانت دوں گا۔امام علی نقی ع نے فرمایا:
والدین کی ناراضگی سے (رزق کی) کمی اور ذلت پیچھا کرتی ہے۔جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
جو کوئی ماں باپ کو تکلیف پہنچاتا ہے اُسے اس جوان سے عبرت حاصل کر نی چاہیئے۔ دیکھو ! اس دنیا میں اس سے مال ودولت واپس لے لی گئی، اس کی ثروت و بے نیازی فقیری میں اور صحت بیماری میں تبدیل ہو گئی۔ اس طرح جو درجہ اس کو بہشت میں حاصل ہونا تھا، وہ ان گناہوں کے سبب اُس سے محروم ہو گیا۔ اس کی بجائے آتش جہنم اس کے لیے تیار کی گئی۔
اشارہ مدینہ منورہ کے ایک دولت مند جوان کی طرف تھا کہ جس کے ضعیف ماں باپ زندہ تھے۔ وہ جوان ان کے ساتھ کسی قسم کی نیکی نہیں کرتا تھا اور انہیں اپنی دولت سے محروم کیے ہوئے تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس جوان سے اس کا سب مال و دولت چھین لیا۔ وہ ناداری، تنگ دستی اور بیماری میں مبتلا ہو گیا اور مجبوری و پریشانی انتہا کو پہنچ گئی۔حضرت امام جعفر صادق ع سے منقول ہے کہ جب حضرت یعقوب ع اپنے بیٹے حضرت یو سف ع سے ملاقات کرنے مصر تشریف لائے تو حضرت یوسف ع اپنی ظاہری سلطنت اور شان و شوکت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے والد بزرگوار کے احترام کے لیے اپنی سواری سے نیچے نہیں اُترے تو حضرت جبرائیل ع نازل ہوئے اور حضرت یوسف ع سے کہا کہ اپنا ہاتھ کھو لیے، آپ ع نے جب ہاتھ کھولا تو اس سے ایک روشنی نکلی اور آسمان کی طرف بلند ہوئی۔
امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
جس کی خواہش ہو کہ جان کنی کی کیفیت اس پر آسان ہو جائے، اسے اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم اور والدین کے ساتھ نیکی بجا لانا چاہیئے۔ جب کوئی ایسا کرے گا تو خداوند عالم موت کی سختیاں اس پر آسان کر دے گا اور وہ شخص زندگی بھر کسی پریشانی و تنگ دستی میں نہ ہوگا۔ایک جوان آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اسی اثناء میں حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تشریف لائے اور اس کے پاس بیٹھ کر اسے شہادتین کی تلقین فرمانے لگے۔ مگر وہ جوان کچھ نہ بول سکا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے دریافت کیا کہ کیا اس کی ماں موجود ہے؟ جوان کے سرہانے بیٹھی ہوئی ایک عورت نے کہا، جی ہاں، میں اس کی ماں ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کیا تم اس سے ناراض ہو؟ عورت نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ چھ سال سے میرے اور اس کے درمیان بات چیت بند ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس کی ماں سے خواہش کی کہ اپنے بیٹے کو معاف کر دے۔
یَامَنْ یَّقْبَلُ الْیَسیْرَ وَیَعْفُوْعَنْ الْکَثیرَ اقْبَلْ منیْ الْیَسیْرَ وَاعْفُ عَنیّ الْکَثیْرَ۔حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے پوچھا، اب کیا دیکھ رہے ہو؟
حضرت خاتم الانبیاء نے ارشاد فرمایا:
بہشت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ماں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے سلسلے میں تین مرتبہ تکراراً حکم دیا ہے اور چوتھی مرتبہ باپ سے نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔
کیا ماں وہی ہستی نہیں ہے جس نے مدتوں تجھے اپنے رحم میں اٹھائے رکھا اور اس کے بعد وضع حمل کی سختیاں برداشت کیں؟ پھر اپنی چھاتی سے تیرے لیے غذا مہیا کی۔ پس ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔کسی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا کہ باپ کا کیا حق ہے؟ فرمایا، جب تک وہ زندہ ہے اس کی اطاعت کرنا، پھر پوچھا کہ ماں کا کیا حق ہے؟ فرمایا، اگر صحراؤں میں ریت کے ذرات کے برابر اور بارش کے قطرات کی مقدار میں بھی اگر ماں کی خدمت سرانجام دی جائے تو پھر بھی شکم مادر میں ایک دن بھی رہنے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
والدین مومن و عبادت گزار ہوں یا کافر و خطا کار، بلا تفریق ان کے حق میں نیکی کرنا واجب ہے اور ان کا عاق ہونا حرام ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق ع سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے والدین حق کے مخالف ہیں۔ آپ ع نے فرمایا کہ ان کے حق میں ایسی ہی نیکی کرو جیسے تم ہمارے شیعوں کے ساتھ نیکی کرتے ہو۔
حضرت امام محمد باقر ع نے فرمایا:تین چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ (اول) امانت کی واپسی، اگر چہ مالک مومن ہو یا کافر (دوم) ایفائے عہد کرنا، معاہدہ کرنے والا خواہ مومن ہو یا کافر (سوم) والدین سے نیکی کرنا، خواہ وہ مومن ہوں یا کافر۔ (اصول کافی)حضرت امام رضا ع نے مامون کے نام ایک خط لکھا جس میں شریعت اسلامیہ کا ذکر تھا اور اس ضمن میں یہ مضمون بھی تحریر تھا:
والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا واجب ہے اگر چہ دونوں مشرک ہی ہوں۔ البتہ والدین کی اطاعت واجب نہیں جبکہ خالق کی نافرمانی کا سبب بنے۔
ابراہیم کا بیٹا زکریا نصرانی تھا، بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت امام جعفر صادق ع کی زیارت سے مشرف ہوا تو اس نے عرض کی کہ میری ماں نصرانی و نابینا ہے، وہ بڑھاپے کی حالت میں ہے۔ آپ ع نے فرمایا، ماں کی خدمت کرو اور اچھے طریقے سے پیش آؤ۔
مرنے پر اس کا جنازہ دوسروں کے حوالے نہ کرنا، بذات خود تجہیز و تکفین کا کام انجام دینا۔ اس جملے میں بعد ہونے والی دو پیش گوئی کی طرف اشارہ فرمایا، ایک اس کی ماں کی وفات اور دوسرا اس کا مسلمان ہونا۔اول) ایسے واجبات کا ادا کرنا جو انہوں نے اپنی حیات میں انجام نہ دیئے ہوں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج اور قرضے وغیرہ
دوم) ان کی وصیت پر عمل کرناحضرت امام محمد باقر ع سے روایت ہے:
بے شک اگر ایک بندہ والدین کی زندگی میں تو نیک رہے اور جب وہ دونوں مر جائیں تو وہ اُنہیں بھول جائے، ان کے قرض ادا نہ کرے، اور نہ ہی ان کے لیے مغفرت و رحمت طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں عاق والدین لکھے گا۔ اور دوسرا بندہ ماں باپ کی زندگی میں تو عاق رہے مگر ان کی موت کے بعد ان کے قرضے ادا کرے اور ان کے لیے مغفرت و بخشش طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا نام والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں کی فہرست میں لکھے گا۔ (اصول کافی)
حضرت امام جعفر صادق ع نے فرمایا کہ تمہیں کس چیز کی مشکل درپیش ہے کہ والدین کی حیات و موت میں ان کی خدمت نہیں کرتے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) والدین کے مرنے کے بعد نیکی کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
ان کی نماز پڑھو(یعنی ان کی قضا نمازیں خود یا اُجرت دے کر پڑھوائیں، اگر ان کے ذمے قضا نماز نہ ہو تو نوافل خود پڑھے یا اُجرت دے کے پڑھوائے)، ان کی طرف سے صدقہ دو، ان کے قضا روزے رکھو اور حج ادا کرو۔ تم جو کچھ عمل بجا لاؤ گے اس کا ثواب دونوں کو ملے گا۔اس کے علاوہ والدین کے حق میں نیکی کرنے کا صلہ دو گنا عطا ہو گا۔ ایک اصل عمل بجا لانے کے سلسلے میں، دوسرا والدین کے حق میں نیکی کرنے کے صلے میں۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے دریافت کیا کہ کیا والدین کے مرنے کے بعد بھی میرے ذمے ان کے کچھ حقوق باقی رہتے ہیں؟
فرمایا، ہاں۔ ان کے لیے نماز پڑھو اور استغفار کرو اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، ان کے رشتہ داروں سے حسن سلوک رکھو۔والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرمات الٰہی کے مقابل کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ مثلاً والدین اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہ کی پندرھویں آیت میں اس کی تصریح فرمائی ہے:
وَإِن جَـٰهَدَاكَ عَلَىٰٓ أَن تُشْرِكَ بِى مَا لَيْسَ لَكَ بِهِۦ عِلْمٌۭ فَلَا تُطِعْهُمَا (لقمان ۔ 15)ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ وجوب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ اسی مخالفت کو عاق کہتے ہیں۔ مثلاً بیٹا غیر واجب سفرپر جانا چاہتا ہو لیکن والدین جانی و مالی ضرر کے اندیشے سے یا اس کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر جدائی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے سفر پر جانے سے منع کریں اور بیٹا منع کرنے کے باوجود سفر پر جائے تو اس صورت میں معصیت کا سفر ہوگا اور حرام ہوگا۔ ایسے سفر میں نماز و روزہ قصر نہیں ہو گا۔
اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔
جب کبھی والدین کے احکام میں تضاد واقع ہو جائے مثلاً باپ کہے کہ فلاں کام کرو، ماں کہے کہ وہ کام نہ کرو تو ایسی صورت میں کوشش کی جائے کہ دونوں کو راضی رکھا جا سکے اور اگر کوئی دونوں کو راضی نہ کر سکے تو ماں کی خوشنودی کو ترجیح دے۔ چونکہ ابتدائے خلقت میں باپ سے پہلے ماں کے حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ ماں زیادہ تکالیف سہتی ہے خصوصاً ایّام حمل، وضع حمل اور دودھ پلانے کی زحمات ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ ماں اس لیے بھی زیادہ نیکی کا استحقاق رکھتی ہے کہ عورت پیدائشی طور پر مرد کی نسبت نازک مزاج ہوئی ہے۔ وہ اولاد کی معمولی سی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، بیتاب ہو جاتی ہے مامتا اُسے بے قابو کر دیتی ہے۔
اس کے برعکس باپ کی عقل و ہوش مضبوط اور مزاج سنجیدہ ہوتا ہے وہ اولاد کی تکلیف سے کم متاثر ہوتا ہے۔ باپ احساس کر لیتا ہے کہ بیٹا میری مخالفت ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ ماں کی خاطر داری کی بنا پر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ مخالفت سے ناراض نہیں ہوتا۔شر ع مقدس ا سلام میں یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ کچھ امور میں اولاد ماں باپ دونوں سے یا کسی ایک سے اجازت حاصل کرے۔ جیسے وجوب کفائی مثلاًجہاد یا مستحبات مثلاً مستحبّی روزہ یا بعض عقود مثلاً عہد، قسم اور نذر بجا لانے میں ان سے اجازت لینا چاہیئے۔
والدین کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے پیش آنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اہل بیت اطہار (علیہم السلام) سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ مثلاً:
ماں باپ سے عاق کے عذاب کی طرح اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کی ولایت ترک کرنے پر بھی عذاب ہے۔ چونکہ آل محمد (علیہم السلام) حقیقی روحانی باپ ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ہیں۔روحانی باپ یعنی انسانوں کو ان کی غرض خلقت بتانے اور سعادت حقیقی سے ہمکنار کرنے والی ہستیاں حضرات محمد و آل محمد (علیہم السلام) ہیں۔ ان سے وابستگی ہی سے ہم جملہ آفات سے محفوظ اور نیکیوں سے مالا مال ہو سکتے ہیں۔
وَٱلَّذِينَ يَصِلُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوٓءَ ٱلْحِسَابِ (رعد ۔ 21)دوسری حدیث اسی آیہ مبارکہ کی تفسیر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت محمد و آل محمد کے صلہ رحم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اوراس میں مومنین کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: تجھے ایسا شخص نہیں ہونا چاہیئے کہ جو مذکورہ آیت کو فرد واحد کے لیے مخصوص جانے بلکہ جب بھی سنیں کہ فلاں آیت فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو اس کی مانند دوسرے افراد کے درمیان عمومیت قرار دینا چاہیئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں تعلقات قائم رکھنے کا حکم خدا نے دیا ہے۔ اُسے قائم رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور قیامت کے دن سخت حساب سے ڈرتے ہیں۔
روحانی والدین کے عقوق سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے جن امور کو بجا لانے کا حکم دیا ہے، ان کو ترک کرنا، پیروی و اطاعت کی حدود سے نکل جانا، باہمی معنوی اتصال اور حقیقی روابط کو منقطع کرنا ہے۔ حضرت امام رضا ع نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ برُا نہیں لگے گا کہ ماں باپ ناراضگیوں کی بنا پر کہیں کہ یہ میری اولاد نہیں ہے۔ حاضرین نے کہا، ضرور، ہمیں بُرا لگے گا۔
آپ نے فرمایا کہ روحانی ماں باپ تمہارے والدین سے افضل ہیں، لہٰذا اُنہیں اس بات کا موقع نہ دو بلکہ اُن کے فرزند ہونے کا شرف حاصل کرو۔