امر بالمعروف یعنی دوسرے کو اطاعت پر مجبور کرنا اور نہی عن المنکر یعنی دوسرے کو گناہوں سے روکنا یہ دونوں اسلام کے ارکان اور اہم فرائض ہیں اور جہاد کا ایک شعبہ ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا ایسا گناہ ہے جس کے لیے قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ منکر کا بجا لانے والا اور نہی عن المنکر کا ترک کرنے والا دونوں عذاب کے یکساں مستحق ہیں, کیونکہ اگر بُرائی کرنے والے نے حرام کام کیا ہے تو نہی عن المنکر کو ترک کرنے والے نے بھی واجب الہٰی کو جو نہی عن المنکر ہے چھوڑ دیا ہے اور یوں گناہگار ہو گیا ہے۔ ارشاد کیا گیا ہے:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌۭ يَدْعُونَ إِلَى ٱلْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ (آل عمران ۔ 104)
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں.
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ ۗ وَلَوْ ءَامَنَ أَهْلُ ٱلْكِتَـٰبِ لَكَانَ خَيْرًۭا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ (آل عمران ۔ 110)
تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو
لَوْلَا يَنْهَىٰهُمُ ٱلرَّبَّـٰنِيُّونَ وَٱلْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ ٱلْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ ٱلسُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَصْنَعُونَ (مائدہ – 63)
بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بےشک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں۔
لُعِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ مِنۢ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُۥدَ وَعِيسَى ٱبْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ ٧٨ كَانُوا۟ لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍۢ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا۟ يَفْعَلُونَ (مائدہ: 78 - 79)
جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔ آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے جو وه کرتے تھے روکتے نہ تھے جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقیناً وه بہت برا تھا۔
اصحاب سبت کے قصے میں خدا یوں فرماتا ہے:
وَسْـَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ ٱلْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى ٱلسَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًۭا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ ١٦٣ وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌۭ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ ٱللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًۭا شَدِيدًۭا ۖ قَالُوا۟ مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ١٦٤ فَلَمَّا نَسُوا۟ مَا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦٓ أَنجَيْنَا ٱلَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ ٱلسُّوٓءِ وَأَخَذْنَا ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ بِعَذَابٍۭ بَـِٔيسٍۭ بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ ١٦٥ فَلَمَّا عَتَوْا۟ عَن مَّا نُهُوا۟ عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا۟ قِرَدَةً خَـٰسِـِٔينَ (الاعراف: 163-166)
اور ان سے اس گاؤں کا حال تو پوچھو جب لب دریا واقع تھا۔ جب یہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے (یعنی) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو ان کی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔ اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو الله ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کردیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے۔ یعنی جب وه، جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا تم ذلیل بندر بن جاؤ۔
پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
خدا اس کمزور مومن کو دشمن سمجھتا ہے جو دین نہیں رکھتا۔ آپؐ سے پوچھا گیا اے رسول خدا ! ایسا شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا وہ شخص ہے جو دوسروں کو بُرائی سے نہیں روکتا۔ (وسائل الشیعہ)
جب میری امت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دے تو پھر خدا کے قہر وعذاب کے پہنچنے کا انتظار کرے۔
امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
بے شک خدا نے تم سے پہلے والے لوگوں پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے کے باعث لعنت فرمائی ہے، چنانچہ نادانوں کو گناہ کرنے اور داناؤں کو نہی عن المنکر چھوڑ دینے پر لعنت فرمائی ہے۔
امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:
خدا نے حضرت شعیب ع پر وحی بھیجی کہ میں تمہاری قوم کے ایک لاکھ آدمی ہلاک کر دوں گا۔ چالیس ہزار بدکار اور ساٹھ ہزار نیک۔ شعیبؑ نے پوچھا اے پروردگار! بُرے تو خیر عذاب کے مستحق ہیں لیکن نیک کیوں؟ خدا نے فرمایا کیونکہ یہ گناہگاروں سے مل گئے اور میرے غضب کے باوجود ان سے ناراض نہیں ہوئے اور انہیں بُرائی سے نہیں روکا۔ (وسائل الشیعہ)
امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:
تم کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیئے۔ اگر نہیں کرو گے تو تم پر بُرے لوگ مسلط ہو جائیں گے پھر تمہارے نیک لوگ چاہے کتنی دعائیں کریں قبول نہیں ہوں گی۔ (وسائل الشیعہ)
یہ لوگ جو نہی عن المنکر نہ کرنے کے نتیجے میں پیغمبروں کی لعنت کے مستحق ہوئے اور ان کی صورتیں مسخ ہو گئیں, کبھی گناہگاروں کے ساتھ نہیں رہتے تھے اور ان کی مجلسوں اور محفلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے لیکن جب انہیں دیکھتے تھے تو ان کے سامنے خوش ہوتے اور ان سے محبت کا اظہار کرتے تھے۔ (وسائل الشیعہ کتاب امر باالمعروف)
چار شرطیں جمع ہونے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہو جاتا ہے:
یہ حدیث جو بیان کی گئی ہے سب سے بڑا شہید وہ ہے جو کسی ظالم کے سامنے حق بات کہے اور وہ ظالم اسے قتل کروا ڈالے۔ وہ ایسے موقعے کے لیے ہے جبکہ ابتداء میں نقصان اور فساد کا اندیشہ نہ ہو بلکہ یہ گمان ہو کہ اس میں کوئی نقصان نہیں ہو گا پھر سچ بات کہے اور قتل ہو جائے۔
نقصان کے خیال سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے والوں کی بُرائی میں حدیثیں ملتی ہیں۔ جابر، امام محمد باقر ع سے ایک طویل حدیث نقل کرتے ہیں کہ:
آخری زمانے میں کچھ ایسے منافق اور جاہل لوگ پیدا ہوں گے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب نہیں سمجھیں گے, بجز اس وقت کے جبکہ وہ نقصان سے محفوظ ہوں اور وہ اپنے لیے عذر ومعذرت پیش کریں گے۔ یعنی نہی عن المنکر سے بھاگنے یا بچنے کے لیے بہانے گھڑیں گے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ نماز، روزہ اور ایسے کام جن سے ان کے نفسوں اور مال کو نقصان نہیں ہو گا بجا لائیں گے اور اگر ان اعمال سے ان کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو وہ ان کو بھی ترک کر دیں گے جس طرح انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سب سے بڑے خدائی فریضے کو صرف نقصان پہنچنے کے احتمال سے ترک کر دیا (کافی)
اس قسم کی حدیث کی دو وجہیں ممکن ہیں:
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ حرام کام کرنے والے کو اس خیال سے نہیں روکتا ہے کہ وہ کہیں اس فائدے سے محروم نہ ہو جائے جس کی وہ اس سے آس لگائے ہوئے ہے, حالانکہ اسے خدا کے سامنے نہی عن المنکر کے ترک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب کوئی نقصان جو عقلمندوں کے نزدیک قابل توجہ ہو سکتا ہے معلوم ہو, یا اس کا شبہ ہو کہ اگر امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کیا تو وہ نقصان پہنچ جائے گا, صرف اسی وقت امر ونہی کا وجوب (واجب ہونا) باقی نہیں رہتا۔
اگر امر بالمعروف اور نہ از منکر کے ترک کرنے میں ان کے بجا لانے سے زیادہ نقصان ہو تو ترک نہیں کرنا چاہیئے۔ اور اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بجا لانے میں ان کے ترک کرنے سے زیادہ نقصان ہو تو ترک کر دینا چاہیئے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ ایک مسلمان کو بلا وجہ قتل کرنا چاہتے ہیں یا اس کا مال یا عزت لوٹنا چاہتے ہیں اور وہ انہیں روک سکتا ہے اور اس کا اثر بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے اسے کچھ بُرا بھلا سُننا پڑے گا اور تکلیف اٹھانا پڑے گی تو اس موقعے پر اسے نہی عن المنکر کرنا چاہیئے کیونکہ نہی عن المنکر سے اسے جو نقصان پہنچے گا وہ اس نقصان کے مقابلے میں ہیچ ہے جو اس مسلمان کو پہنچنے والا ہے۔
نہی عن المنکر کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ دل، زبان اور ہاتھ سے منع کرنا اور ان تینوں قسموں کے کئی کئی درجہ ہوتے ہیں جن کا لحاظ رکھنا واجب ہے یعنی جب تک زیادہ آسان اور سہل درجہ اثر کر سکتا ہو زیادہ سخت درجے سے کام نہیں لینا چاہئے۔
رسول خدا نے ہم کو حکم دیا کہ گناہگاروں سے روکھے پن اور بے مروتی سے ملیں۔ (وسائل الشیعہ)
امام صادق ع فرماتے ہیں:
خدا نے کسی شہر کے لوگوں کو ہلاک کرنے کے دو فرشتے بھیجے۔ جب وہ اس شہر میں پہنچے تو انہوں نے ایک عبادت گذار کو عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے خدا سے عرض کیا اے پروردگار! تیرا فلاں بندہ تو عبادت میں مشغول ہے ہم اس شہر پر کیسے عذاب نازل کریں؟ تو آواز آئی اس شخص کی پرواہ نہ کرو کیونکہ اس نے کبھی ہماری خاطر غصہ نہیں کیا اور گناہگاروں سے کبھی روکھے پن اور ترش روی سے پیش نہیں آیا۔ (وسائل الشیعہ)
بُرائی یا حرام کام کرنے والے سے کہہ دو ہم سے دُور رہو یا بُرائی چھوڑ دو۔ اگر وہ نہ مانے تو اس سے بچو اور الگ ہو جاؤ۔
حضرت امام جعفرصادق ع اپنے کچھ اصحاب کو نہی عن المنکر ترک کرنے پر ملامت کر رہے تھے راوی بولا ہم تو منع کرتے ہیں لیکن لوگ نہیں مانتے اور بُرائی سے باز نہیں آتے۔ آپؑ نے فرمایا, ان کی صحبت سے بچو اور ان کی مجلسوں میں نہ جاؤ۔ (وسائل الشیعہ)
پس جہاں تک ہو سکے پہلی ہی بار نہی عن المنکر کرو تاکہ بعد میں بار بار منع نہ کرنا پڑے اور پہلی بار بھی جب تک آسان درجہ حاصل ہے اور واقعی اثر کرتا ہے زیادہ سخت درجے پر عمل نہیں کرنا چاہیئے۔ مثلاً روکھے پن کو غصے پر اور غصے کو ترک صحبت پر ترجیح دینا چاہیئے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اشخاص کے لیے نرم گفتگو اور میٹھی باتیں غصے اور ترک صحبت سے آسان ہوتی ہیں اس صورت میں دوسرے درجے کو پہلے رکھنا چاہیئے۔
فَقُولَا لَهُۥ قَوْلًۭا لَّيِّنًۭا لَّعَلَّهُۥ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ (طہٰ ۔ 44)
اس سے نرمی سے بات کرنا شاید خبردار ہو جائے یا ڈر جائے۔
اگر نرم باتیں اثر نہ کریں تو کڑوی باتیں سُنائیں اور باتوں کی نرمی اور سختی میں بھی ان کے درجوں کا خیال رکھیں۔
حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں بعض مومن دل، زبان اور ہاتھ سے نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ یہ لوگ تمام اچھے پہلو رکھتے ہیں۔ بعض دل اور زبان سے نہی کرتے ہیں تو ان میں دو اچھی خصلتیں ہوتی ہیں اور تیسری خصلت کی کمی ہوتی ہے۔ کچھ صرف دل سے انکار کرتے ہیں تو ان میں ایک اچھی خصلت ہوتی ہے اور دوسری دو خصلتوں کی جو اس سے افضل ہیں ان میں کمی ہوتی ہے لیکن جس میں تینوں خصلتیں نہیں ہوتیں وہ زندہ انسانوں میں مردے کی طرح ہوتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سامنے تمام نیک اعمال اور خدا کی راہ میں کیا جانے والا جہاد ایسے ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک بوند۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کسی کی موت قریب نہیں آ جاتی اور نہ کسی کا رزق کم ہو جاتا ہے۔ (وسائل الشیعہ)