چھوٹے گناہوں پر اصرار, یعنی بار بار گناہ کرنا خود گناہ کبیرہ ہے, جس طرح وہ گناہ کبیرہ جس پر شرمندگی ہو اور جس کے ترک کرنے کا ارادہ کر لیا جائے پھر کبیرہ نہیں رہتا یعنی اس کی سزا باقی نہیں رہتی۔ رسول خدا ص فرماتے ہیں کہ سنگدلی کی ایک نشانی گناہ پر اصرار کرنا ہے۔ ابوبصیر, امام جعفرصادق ع سے نقل کرتے ہیں:
خدا کی قسم جب تک بندہ اپنے گناہ پر اصرار کرتا رہے گا خدا اس کی عبادت اور اطاعت قبول نہیں کرے گا۔ (کافی)
گناہ پر اصرار کے کبیرہ ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ خدا نے گناہ کے ترک کر دینے کو گناہوں کی بخشش اور بہشت میں پہنچنے کی شرط قرار دیا ہے۔ وہ آل عمران کی سورت میں فرماتا ہے:
وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا۟ فَـٰحِشَةً أَوْ ظَلَمُوٓا۟ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا۟ ٱللَّهَ فَٱسْتَغْفَرُوا۟ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا۟ عَلَىٰ مَا فَعَلُوا۟ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ۱۳۵ أُو۟لَـٰٓئِكَ جَزَآؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّـٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ ٱلْعَـٰمِلِينَ (آل عمران: 135,136)
اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اصرار نہیں کرتے۔ انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وه ہمیشہ رہیں گے، اور عمل کرنے والوں کا ﺛواب کیا ہی اچھا ہے
تفسیر المیزان میں لکھا ہے جملہ "ولم یصرواعلی ما فعلو" نے توبہ واستغفار کو گناہ پر اصرار نہ کرنے سے مشروط کر دیا ہے, کیونکہ گناہ پر اصرار اور اسے بار بار دہرانا انسان کی روح میں ایک ایسی کیفیت اور حالت پیدا کر دیتا ہے جس کی موجودگی میں پھر خدا کی یاد بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ اور اس حالت سے مراد خدا کے حکم کو حقیر سمجھنا، اس کی توہین کی اہمیت نہ جاننا اور اپنے آپ کو اس کی مقدس بارگاہ میں بڑا سمجھنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ انسان میں ایسی حالت پیدا ہو جانے سے پھر بندگی کی روح باقی نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا کی یاد کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ امام باقر ع فرماتے ہیں:
اصرار یہ ہے کہ ایک شخص گناہ کرتا ہے اور اس سے استغفار نہیں کرتا اور اس کے ترک کرنے کی نیت بھی نہیں رکھتا۔
گناہ پر اصرار مکر خدا سے بے خوفی ہے، اور مکر خدا سے صرف گھاٹا پانے والے ہی بے خوف ہوتے ہیں۔ (تحف العقول)
حضرت امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
گناہ پر اصرار کرنے سے ڈرو اور بچو کیونکہ اصرار سب سے بڑا گناہ کبیرہ ہے اور سب سے بڑا جرم ہے۔ (الغرر للآمدی)
اصرار یہ ہے کہ ایک شخص جس گناہ صغیرہ کے ارتکاب کے بعد پشیمان نہیں ہوتا بلکہ پھر اس کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے برابر جاری رکھتا ہے۔ مثلاً ریشمی لباس پہننا یا انگلی میں سونے کی انگوٹھی پہننا جو مردوں کے لیے حرام ہے اگرچہ اس کا گناہ کبیرہ ہونا ثابت نہیں ہوا ہے لیکن اس صورت میں جب وہ اس لباس اور انگوٹھی کا پہننا ترک نہیں کرتا بلکہ اس کا پہننا برابر جاری رکھتا ہے وہ بالکل گناہ کبیرہ ہو جاتا ہے۔ بلکہ مثلاً ایک شخص کسی نامحرم کو تاکنا یا دوسروں کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا جاری رکھتا ہے اور بجائے اس کے کہ اپنی ہر نظر پر شرمندہ ہو اور استغفار کرے, تو ایسے اصرار اور مداومت کو فقہاء نے بالاتفاق گناہ کبیرہ کہا ہے۔ مختصر یہ کہ اصرار کے معنی گناہ کی عملی تکرار ہے۔ اس گناہ کے بعد شرمندہ ہوئے اور توبہ کیے بغیر اس طرح کہ عرف عام میں یہ کہا جائے کہ اس نے گناہ جاری رکھا یا گناہ میں اضافہ کیا۔
اصرار کے علاوہ درج ذیل عنوانات بھی ایک صغیرہ گناہ کو بڑے گناہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
کچھ علماء نے کہا ہے کہ جب کسی سے کوئی صغیرہ گناہ سرزد ہو اور وہ اسے چھوٹا اور حقیر سمجھے اور اپنے آپ کو خدا کی سزا کا مستحق نہ جانے تو اس کا گناہ کبیرہ بن جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تمام کبیرہ گناہوں سے دُوری اختیار کرنے کے بعد بھی گناہان صغیرہ پر باز پرس نہ ہونا صرف خدا کے فضل اور رحمت پر منحصر ہے ورنہ خدا کی ہر ممانعت کے لیے چاہے کبیرہ ہو یا صغیرہ عقل کی رو سے سزا کا مستحق ہونا ثابت ہے, اور ظاہر ہے کہ فضل خدا صرف اسی شخص پر ہوتا ہے جو اس کی بندگی کے راستے سے نہیں ہٹتا اور جو کوئی تکبر اور نخرے کرنے والا ہے اور اپنی بے مائیگی اور خدا کی عظمت نہیں پہچانتا اور اسی وجہ سے اپنے گناہ کو حقیر گردانتا ہے اس پر خدا کا فضل نہیں ہو گا بلکہ ایسا شخص انتقام اور ذلت کا مستحق ہو گا۔ حضرت امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
سب سے سخت گناہ وہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اسے حقیر سمجھے۔ (وسائل الشیعہ)
حضرت امام جعفرصادق ع نے فرمایا: ان گناہوں سے ڈرو اور بچو جنہیں چھوٹا اور حقیر سمجھا گیا ہے۔ روای نے پوچھا حقیر گناہ کون سے ہیں؟ امام نے فرمایا ایک شخص گناہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے اگر اس گناہ کے سوا میرا اور کوئی گناہ نہ ہوتا تو میں کتنا خوش قسمت ہوتا۔ یہ گناہ تو چھوٹا اور ناچیز ہے۔ (کافی, باب استغفار الذنب)
گناہ صغیرہ کو جو باتیں گناہ کبیرہ بنا دیتی ہیں ان میں کیے ہوئے گناہ پر خوشی، مسرت کا محسوس کرنا بھی ہے۔ جس طرح گناہ پر شرمندگی اور افسوس اسے ختم اور اس کے کرنے والے کو پاک کر دیتے ہیں اسی طرح گناہ پر خوشی اور مسرت اسے بڑا بناتی اور مضبوط ومستحکم کر دیتی ہے اور درحقیقت گناہ پر خوشی مکر الہٰی سے بے خوفی ہے جو خود ایک کبیرہ گناہ ہے۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
جس شخص کو اس کے نیک اعمال خوش کرتے اور بُرے اعمال غمگین بنا دیتے ہیں وہ مومن ہے۔
جو شخص گناہ کرتے میں خوش ہوتا اور ہنستا ہے وہ روتا ہو اجہنم میں جائے گا۔ (وسائل الشیعہ)
گناہ کی چار باتیں خود اس گناہ سے بدتر ہیں,
- گناہ کو چھوٹا سمجھنا،
- اس پر فخر کرنا،
- اس پر خوش ہونا
- اس پر اصرار کرنا۔ (مستدرک)
جس طرح خدا بڑا ہے اسی طرح اس کے امر اور نہی کی مخالف بھی بڑی ہے۔ حضرت امیرالمومنین ع سے روایت ہے:
گناہ کرتے وقت اس گناہ کی طرف مت دیکھ جو تیری نظر میں چھوٹا ہے بلکہ خدا کی عظمت اور بڑائی پر دھیان دے جس کی تو مخالفت کر رہا ہے۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد)
اپنا گناہ دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا اور بیان کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے, اور گناہ کا اظہار, خدا کی محترم چیزوں کی توہین بھی ہے۔ حضرت رسول خدا فرماتے ہیں:
جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور اسے غیر خدا سے چھپاتا ہے تو وہ نیکی ستر گنا ہو جاتی ہے, اور جو کوئی گناہ کرتا ہے اگر اس نے اسے ظاہر کر دیا تو اس پر خدا کی تباہی واقع ہو گی, اور اگر اس نے اسے چھپائے رکھا تو بخش دیا جائے گا۔ (کافی)
جاننا چاہیئے کہ دو صورتوں میں گناہ ظاہر کر دینے سے نقصان نہیں ہوتا۔ ایک اس جگہ جہاں عقل تقاضا کرے, جیسے طبیب کے سامنے مرض کا اظہار، جب علاج کے لیے اس کا اظہار ضروری ہو۔ اسی طرح کسی عالم کے سامنے گناہ کا اظہار, جب اس کا حکم معلوم کرنے کے لیے ضرورت ہو، دوسرے گناہگار کا خصوصی نہیں عمومی اظہار۔ اس سے بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا, بلکہ ظاہر کرتے وقت عجز اور انکسار بہت عمدہ چیز ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہے کہ میں خدا کی بارگاہ میں گناہگار ہوں, رو سیاہ ہوں, مجھ سے بڑے بڑے گناہ سرزد ہوئے ہیں۔ بلکہ خداکے سامنے گناہگاری کا اقرار بہترین مناجات اور عبادت ہے, اور توبہ کے قبول ہونے، دل کی نورانیت بڑھانے اور درجہ بلند کرنے میں بڑے اثرات رکھتا ہے۔
غرض گناہ کا عمومی اعتراف اور قصور کا اقرار, غرور کی ضد ہے اور دین کے بزرگوں کا پسندیدہ طریقہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ خطوں اور کتابوں میں لوگ اپنے عاصی، مذنب (گناہگار)، اقل (سب سے کم یعنی کمتر ہونے)، احقر العباد (سب سے چھوٹا بندہ) وغیرہ کے لقب لکھا کرتے ہیں۔
جب کوئی شخص سماج میں اس طرح ممتاز ہو کہ اس کے کردار اور گفتار کا لوگوں کے حالات پر اثر پڑ سکتا ہو مثلاً اہل علم اور پاکیزگی اور تقویٰ میں مشہور لوگوں سے جو دُنیا والوں کی روحانی پیشوائی کے لائق ہوتے ہیں، جب کوئی گناہ صغیرہ بھی سرزد ہوتا ہے تو اس سے لوگوں میں گناہ کبیرہ کی جرأت پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھی تو اس بات سے ان کا ایمان اور عقیدہ بھی ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔ تو اس شخص کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا گناہ صغیرہ بھی منکر کا حکم ہے, یعنی بُرائی کرنے کا تقاضا ہے۔ یعنی عملی طور سے اور عقل اور شرع کی رو سے بھی اس کا علم اور عقل اس کے گناہ کی اہمیت بڑھا دیتے ہیں, اور اس کے صغیرہ کو کبیرہ کے زمرے میں لے آتے ہیں۔ امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:
جاہل کے ستر گناہ بخش دئیے جائیں گے اس سے پہلے کہ عالم کا ایک گناہ بخشا جائے۔ (کافی)
محقق خوانساری امیرالمومنین ع کے جملے " زلة العالم تفسدالعوالم" کی تشریح اور ترجمے میں فرماتے ہیں کہ عالم کی غلطی کئی دُنیاؤں کو خراب کر دیتی ہے۔ عالم کی غلطی سے وہ گناہ مراد ہے جو وہ کرتا ہے یا وہ غلطی اور خطا ہے جو اسے شرعی حکم میں واقع ہوتی ہے اور ان دونوں باتوں میں سے ہر ایک سے کئی دُنیاؤں کو بگاڑ ڈالنا اس اعتبار سے ہے کہ جب عالم علم اور عقل کے باوجود گناہ کرتا ہے تو اس کی برائی اکثر لوگوں کی نظر سے دُور ہو جاتی ہے اور وہ اس کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور اسے معمولی شمار کرتے ہیں۔ اور جو خطا اور غلطی وہ کسی حکم شرع میں کرتا ہے کبھی کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ حکم بہت سے لوگوں میں مدتوں تک جاری رہے اور ان کے بہت سے کاموں کی بنیاد اسی پر رکھی رہے۔ اس لیے لازم ہے کہ عالم گناہ سے پرہیز کرنے اور اپنے آپ کو خطا اور غلطی سے بچانے میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط سے کام لے۔ (الغرر و الدرر للآمدی)
آپؑ نے یہ بھی فرمایا:
عالم کی غلطی کشتی کے ٹوٹ جانے کی طرح ہوتی ہے جو خود ڈوب جاتی ہے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ڈبو دیتی ہے۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ درج بالا چار عنوانات (استحقار یعنی حقیر سمجھنا اور لاپرواہی برتنا، استصغار یعنی چھوٹا سمجھنا، گناہ سے خوشی، سماجی حیثیت) میں سے کسی ایک عنوان کے تحت, گناہ صغیرہ, کبیرہ ہو جاتا ہے, اس سے بظاہر شدید سزا کا مستحق ہونا مراد ہے۔ یعنی گناہ صغیرہ ان میں سے کسی ایک عنوان کے ساتھ گناہ کبیرہ کی مانند عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ لیکن گناہ صغیرہ کا ان میں سے کسی ایک عنوان کے ساتھ اس طرح اصطلاحی کبیرہ ہونے کا علم نہیں ہے, کہ اس کا ارتکاب کرنے والا فاسق اور غیر عادل ہو جائے, بلکہ اس کے برعکس ظاہر ہے۔ اور گناہ صغیرہ کے اصطلاحی کبیرہ ہونے کی مسلمہ خصوصیت, اس پر اصرار ہی ہے۔