حسد

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 20/11/2022 691

وہ گناہ جس کے لیے معتبر احکام میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے حسد ہے اور حسد یہ ہے کہ دوسرے کے پاس کوئی نعمت نہیں دیکھ سکتا اور چاہتا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔

مومن سے حسد اور دشمنی گناہ ہے اور اس کا ظاہر کرنا عدالت کے خلاف ہے۔ حسد اور بغض کے اظہار کو جو عدالت کے خلاف سمجھا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حسد اور دلی بغض حرام نہیں ہیں اور صرف ان کا اظہار حرام ہے, بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک کوئی ان کو ظاہر نہیں کرتا ان سے عدالت کی نفی نہیں ہو سکتی, کیونکہ وہ دل کی بات ہے اور اس کے ثابت ہونے کا طریقہ صرف اس کا اظہار ہے۔ اگرچہ اظہار کیے بغیر بھی حسد اور بغض حرام ہے۔

حسد آگ کی طرح ایمان کو کھا جاتا ہے

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں:

خدا نے موسیٰ بن عمران سے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو کچھ عطا کیا ہے اس پر حسد نہ کرنا اپنی آنکھیں اس کے پیچھے نہ لگانا اور اپنے دل کو اس کے پیچھے نہ دوڑانا کیونکہ جس نے حسد کیا اس نے میری نعمت کو بُرا سمجھا اور میں نے اپنے بندوں میں جو تقسیم کی ہے اس کو روکا اور جو ایسا ہو گا میں اس سے نہیں ہوں اور وہ مجھ سے نہیں۔ (کافی)

امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

انسان غصے کے وقت ہر قسم کی عجلت ظاہر کرتا اور خود کو کافر بنا لیتا ہے لیکن حقیقت میں حسد ایسی چیز ہے جو ایمان کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (کافی)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

حسد ایمان کو یوں ختم کر دیتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
حسد، غرور اور ڈینگیں مارنا دین کے لیے مصیبت ہے۔ (کافی)
کفر کی بنیاد تین چیزوں پر ہے: حرص، غرور اور حسد۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب 54)

کفر کی جڑ

حاسد شخص اس نعمت کو جو اس شخص کو ملی ہے جس سے وہ حسد کرتا ہے اگر خدا کی طرف سے نہیں سمجھتا تو گویا اس نے کسی اور کو خدا کا شریک بنا لیا ہے, اور اگر اسے خدا کی طرف سے سمجھتا ہے تو خدا کو عادل اور حکیم نہیں سمجھتا اور اس کے فعل پر ناراض ہو گیا ہے۔ کیا خدا سے ناراضگی اور دشمنی سے بدتر بھی کوئی کفر ہو سکتا ہے اور کیا ایسی صورت میں ایمان ظاہر کرنا یعنی اپنے آپ کو مومن کہنا منافقت نہیں ہے؟ رسول خدا فرماتے ہیں:

بلاشبہ جو بیماری اور مصیبت پچھلی قوموں میں تھی وہی تم تک بھی پہنچی ہے اور وہ حسد ہے جو دین کو ختم کرنے والا ہے۔ نجات اس میں ہے کہ انسان اپنی زبان اور ہاتھ کو حسد کرنے سے روکے اور اپنے مومن بھائی سے دشمنی نہ رکھے۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب 54)

حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں, خدا چھ گروہوں کو چھ گناہوں کے باعث عذاب دے گا:

  1. عرب کو غلط تعصب کی وجہ سے،
  2. کسانوں اور زمینداروں کو غرور کی وجہ سے،
  3. حاکموں کو ظلم کرنے کی وجہ سے،
  4. عالموں کو حسد کرنے کی وجہ سے،
  5. لین دین کرنے والوں کو خیانت کی وجہ سے
  6. دہقانوں (گاؤں والوں) کو نادانی کی وجہ سے۔ (خصائل ص 158)

امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

کفر کی بنیاد تین چیزوں پر ہے: حرص، غرور اور حسد۔ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب 54)

شہید کشف الریبہ میں فرماتے ہیں: حسد انسانی دل کے لیے سب سے بڑا، سب سے بُرا اور سب سے زیادہ برباد کرنے والا گناہ ہے اس سے بُری کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر کیا گیا۔ جس وقت شیطان نے آدم سے حسد کیا اور انہیں گناہ پر مجبور کر دیا۔ قابیل نے بھی اپنے بھائی ہابیل سے حسد کیا اور اسے مار ڈالا۔ خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ شیطان اور جادوگر کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کے بعد حاسد کے شر سے خدا کی پناہ طلب کرو۔ اس طرح خدا نے حاسد کو شیطان اور جادوگر کے زمرے میں رکھا ہے۔

واقعی حاسد شخص کی نہ دُنیا ہے اور نہ آخرت کیونکہ دنیا میں وہ سخت پیچ وتاب، تکلیف اور نامرادی میں مبتلا رہتا ہے کیونکہ اس کے حسد کے باوجود دوسرے کی نعمت نہیں چھنتی بلکہ ہو سکتا ہے زیاد ہی ہو جائے جبکہ وہ اس کی نعمت زائل ہو جانے کے لیے کس قدر محنت کرتا اور تکلیفیں جھیلتا ہے پھر بھی جو وہ چاہتا ہے وہ حاصل نہیں ہو پاتا۔

آخرت کے متعلق بھی شک نہیں ہے کہ حاسد حضور قلب سے عبادت نہیں کر پاتا اور کچھ بڑی بڑی عبادتوں جیسے مومنوں سے بھلائی، ان پر احسان اور ان کی عزت کرنے سے محروم رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کچھ نیک اعمال بھی رکھتا ہے تو وہ اس شخص کی نذر کر دیتا ہے جس سے حسد کرتا ہے۔ اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری اور اپنا پلڑا ہلکا کر دیتا ہے کیا اس سے بھی بدتر نقصان ہو سکتا ہے؟

حسد کا ظاہر کرنا

بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حسد جب تک ظاہر نہیں ہوتا حرام نہیں ہے۔  اس کا اظہار حرام ہوتا ہے یعنی اعضاء سے حسد کو عمل میں لانا حرام ہے کیونکہ پہلے تو دلی حسد اپنے اختیار میں نہیں ہے یعنی ذاتی بدباطنی یا پُرانی دشمنی کی وجہ سے جو کسی سے ہوتی ہے اگر وہ دوسرے کو نازو نعمت میں دیکھتا ہے تو اسے بے اختیار بُرا لگتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے اور جو چیز اختیاری نہ ہو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ دوسرے اس بات کی کئی روایتوں میں صراحت ہو چکی ہے کہ دلی حسد جب تک ظاہر نہ ہو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم کی حدیث رفع ہے جس میں آپ فرماتے ہیں, میری امت سے نو باتوں کی ذمہ داری اُٹھا لی گئی ہے:

  1. غلطی،
  2. بھول چوک،
  3. جس بات کا علم نہ ہو،
  4. جس کو نہ کر سکیں،
  5. جس میں بے بس ہوں،
  6. جس کے لیے زبردستی مجبور کر دئیے جائیں،
  7. بدشگونی،
  8. آفرینش کے سوچ بچار میں وسوسہ،
  9. حسد جب تک کہ ہاتھ یا زبان سے ظاہر نہ ہو۔ (کافی باب مارفع من الامة)

حدیث رفع کی توجیہ

ایک شخص جب یہ سنتا ہے کہ اس کے دشمن کو کوئی نعمت ملی ہے تو اسے بُرا لگتا ہے اور اس کا دل چاہنے لگتا ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے، جب اس حالت میں اس کو عقل اور ایمان کی روشنی کی بدولت یہ کیفیت اچھی نہیں لگی اور اس نے چاہا کہ یہ بُرا خیال دُور ہو جائے تو حسد کا یہ درجہ (جو صرف خیال) قابل معافی ہے اور اس کی کوئی سزا نہیں ہے لیکن جب کوئی اسے بُرے خیال سے نہ جھجکے بلکہ اسے دل میں رکھے اور روکے رہے تو چاہے اپنے اعضا سے کچھ نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ درحقیقت وہ اس بُرے خیال کو تقویت دیتا ہے حالانکہ ایک اور حدیث میں کہا گیا ہے: جب تجھے حسد لاحق ہو جائے تو ظلم مت کرو۔ (خصال صدوق)

حسد اختیار میں ہوتا ہے

حسد کے اختیاری نہ ہونے کا جواب یہ ہے کہ وہ بات جس کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اختیاری نہیں ہے دلی خیالات ہیں جس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نعمت کسی ایسے شخص کو مل گئی ہے جس سے پچھلی دشمنی چلی آ رہی ہے تو از خود اور بے اختیار بُرا لگتا ہے اور انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے لیکن اس حالت کا باقی رہنا اور دل کو ایسے بُرے خیال میں مشغول رکھنا اختیاری اور دلی گناہ ہے کیونکہ اپنے دل کو اس گناہ سے علمی اور عملی طریقے سے روکا جا سکتا ہے۔

حسد کو روکنے کا علمی اور عملی طریقہ

علمی طریقہ حسد کی ان خرابیوں پر جو بیان کی گئی ہیں بلکہ دنیا اور اس کی فناکی بُرائی پر سوچنا اور غور کرنا ہے جس سے دنیا کی محبت کا منحوس پودا جوہر گناہ کی جڑ ہے دل سے نکل جائے اور دُور ہو جائے۔

عملی طریقہ اس بُرے خیال کو عمل میں نہ لانا ہے کیونکہ جس خیال کی تائید نہیں کی جاتی وہ ازخود ختم ہو جاتا ہے۔ چنانہ روایت میں یہ آیا ہے: وسوسہ کتے کے حملہ کرنے کی طرح ہوتا ہے اگر اس پر توجہ دی جائے تو وہ زیادہ جھپٹے گا اور اگر لاپروائی برتی جائے تو دُور ہو جائے گا۔

با قی تما م روا یتوں سے تضا د نہیں

ایسی روایتیں ملتی ہیں کہ جب مومن گناہ کی نیت کرتا ہے جب تک وہ اس کا ارتکاب نہیں کرتا، اس پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا اور اس کے اعمال نامے میں کوئی گناہ نہیں لکھا جاتا، اس لیے حاسد بھی جب تک کوئی کام نہیں کرتا اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔

جواب یہ ہے کہ یہ روایتین ان گناہوں کے بارے میں ہیں جو اعضاء اور جوارح سے کیے جاتے ہیں اور جب تک کیے نہیں جاتے گناہ نہیں ہوتے لیکن جن گناہوں کی جگہ دل میں ہے جیسے منافقت، غرور، مومن کی دشمنی، حسد وغیرہ یہ سب کے سب معافی کی روایتوں سے خارج ہیں۔

جو کچھ کہا گیا ہے اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جب بھی کسی انسان کے دل میں کسی مسلمان کی نعمت چھن جانے سے دلچسپی اور لگاؤ پیدا ہوا اسے واجب ہے کہ اس حالت کو بُرا سمجھے اور اسے دُور کرنے کی کوشش کرے اور اگر اسی حالت پر باقی اور قائم رہا تو سمجھ لے کہ گناہ کبیرہ واقع ہو گیا اور پھر واجب ہے کہ ہر وقت پچھتاتا اور اپنے گناہ سے توجہ کرتا رہے۔

رشک حرام نہیں ہے

حسد کے معنی کسی کے نعمت پانے پر ناخوش ہونا اور اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی خواہش کرنا جیسا کہ ذکر کیا گیا اور رشک کے معنی ہیں اس نعمت جیسی نعمت پانے کی تمنا کرنا جو دوسرے کو ملی ہے لیکن نہ اس میں دوسرے کے نعمت پانے کا بُرا لگتا ہے نہ اس سے نعمت چھن جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ رشک میں ویسی ہی نعمت پانے کی آرزو ہوتی ہے جیسی دوسرے کو ملی ہے اور حسد میں دوسرے کی نعمت ختم ہو جانے کی تمنا ہوتی ہے۔

رشک اپنے موقع ومحل کے لحاظ سے مختلف قسم کا ہو سکتا ہے, مثلاً کسی کا دوست حج کر آیا اور وہ رہ گیا اب وہ تمنا کرے کہ وہ بھی اس کی طرح یہ فرض ادا کرتا یا مثلاً اپنے اس دوست کی حالت پر رشک کرنا جس نے زیارت یا اور کوئی مستحب کام کیا ہے۔ کبھی رشک ناپسندیدہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً اس شخص کی حالت پر رشک کرنا جسے کوئی حرام منصب یا حرام مال ملا ہو یا اس پر رشک کرنا جس سے کوئی مکروہ عمل صادر ہوا ہو۔

متعلقہ تحاریر