جھوٹ کے موضوع میں ذکر ہوچکا ہے کہ جھوٹ ایک گناہ کبیرہ ہے اور اسی کی ایک شاخ جھوٹی گواہی ہے۔ حضرت عبدالعظیم نے جو روایت امام محمد تقی علیہ السَّلام سے نقل فرمائی ہے اس میں انہوں نے جھوٹی گواہی کے گناہ کبیرہ ہونے کی دلیل کے طور پر مندرجہ ذیل آیت بیان فرمائی تھی کہ جس میں رحمان کے بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
وَٱلَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ ٱلزُّورَ (فرقان ۔ 72)
اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے
اس آیت میں لفظ زُوْر کے معنٰی ہیں, باطل کو حق ظاہر کرنا حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
جھوٹی گواہی دینا کسی کو خدا کا شریک قرار دیے دینے کے برابر ہے!
آپؐ نے یہ جملہ مسلسل تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَـٰنِ وَٱجْتَنِبُوا۟ قَوْلَ ٱلزُّورِ (حج ۔ 30)
تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
امام محمد باقر علیہ السَّلام سے حدیث منسوب ہے کہ:
خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں جھوٹی گواہی کو شرک کے مساوی قرار دیا ہے! یعنی بتوں سے پرہیز کرنے کے بیان کے ساتھ ہی جھوٹ اور جھوٹی گواہی سے بھی پرہیز کا حکم آیا ہے۔ (مستدرک الوسائل)
ابھی جو روایتیں ذکر ہوئی ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں جہاں لفظ زُور آیا ہے، اس سے مراد جھوٹ ہے, جبکہ لفظ زور کے معنی بعض روایتوں کی رو سے غنا یا گانے بجانے کے بھی ہیں۔ ان دونوں قسموں کی روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ دراصل لفظ زور ہر باطل اور ناپسندیدہ چیز کو کہتے ہیں۔ اور ان میں سر فہرست گانے بجانے کے علاوہ جھوٹ اور جھوٹی گواہی بھی ہے۔
حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
حاکم کے سامنے جھوٹی گواہی دینے والے کی گواہی ابھی پوری بھی نہیں ہوتی کہ اس کا ٹھکانا جہنم میں طے پاجاتا ہے۔ (کتاب کافی)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے:
کسی بھی انسان کے خلاف جو شخص جھوٹی گواہی دے گا اسے جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں منافقوں کے ساتھ اس کی زبان سے لٹکا دیا جائے گا۔ اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا کوئی حق ضبط کرے گا تو خدائے تعالیٰ اس وقت تک اس کے رزق سے برکت ہٹا لے گا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ (وسائل الشیعہ)
حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہ حدیث نقل فرماتے ہیں کہ:
یعنی جو شخص شرعی حاکم کے سامنے گواہی چھپائے گا یا کسی مسلمان آدمی کا خون بہانے یا اس کا مال چھین لینے کی نیت سے جھوٹی گواہی دے گا وہ قیامت کے دن اس حال میں محشور ہوگا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے حد نگاہ تک اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور اس کے چہرے پر خراشیں لگی ہوں گی اور لوگ اُسے اس نام اور نسب سے پہچانیں گے۔ (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب)
حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام کا ارشاد ہے:
جب کوئی شخص کسی مسلمان آدمی کا مال اس سے چھین لینے کے لئے جھوٹی گواہی دیتا ہے تو خدا اُسی وقت اس جھوٹی گواہی دینے والے کے لئے سخت شعلوں والی آگ کا عذاب لکھ دیتا ہے! (کتاب کافی)
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا, کیا میں تمہیں سب سے بڑا گناہ کبیرہ بتاؤں؟ اصحاب کہتے ہیں کہ ہم نے کہا کیوں نہیں اے الله کے رسول! آپؐ نے فرمایا:
ظاہر ہے قَوْل زُوْر میں یا ہر جھوٹی بات میں جھوٹی گواہی بھی شامل ہے اور رسول خدا نے اسے ایک سب سے بڑا گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔
جھوٹی گواہی دینے کے سلسلے میں فرق نہیں ہے کہ آدمی جھوٹ کو جھوٹ جانتے ہوئے جھوٹی گواہی دے یا بغیر یقین کے یونہی گواہی دے ڈالے جو حقیقت میں جھوٹی ہو۔ یہ بھی گناہ کبیرہ ہے۔ آدمی پر واجب ہے کہ وہ اس وقت گواہی نہ دے جب تک اسے اپنے سچّا ہونے کا یقین نہ ہو۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں :
اس وقت تک کوئی گواہی مت دو جب تک کہ تمہیں اس کے بارے میں ایسا یقین حاصل نہ ہو جیسا یقین تمہیں اپنی ہتھیلی کے وجود کے بارے میں ہے۔ (وسائل الشیعہ)
ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے گواہی دینے یا نہ دینے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں! پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ایسے گواہی دے دیا کرو، اور اگر ایسا یقین نہ ہوتو گواہی مت دو (وسائل الشیعہ، گواہی کے ابواب)
اور حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے:
گواہ کو صرف وہی گواہی دینی چاہیئے جو وہ یقین سے جانتا ہو۔ اسے اپنے پروگرام یعنی الله سے ڈرتے رہنا چاہیئے۔ زُوْر (جھوٹی بات) یہ بھی ہے کہ آدمی یقین کے بغیر ہی گواہی دے ڈالے یا ایک چیز کایقین ہے مگر وہ اس سے انکا ر کربیٹھے۔ خدائے عزّوجل فرماتا ہے کہ ہر جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔ خداکی خاطر خود کو برائیوں سے پاک رکھو اور شرک نہ کرو۔ (سورہ حج ۔ 30) پس خدا وند تعالیٰ نے جھوٹی گواہی کو شرک کے ہم پلہ قرار دے دیا ہے! (مستدرک الوسائل)
حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلَّام فرماتے ہیں:
جھوٹی گواہی دینے والوں کوڑے لگائے جانے چاہئیں، اور کوڑوں کی تعداد معین کرنا امام کی مرضی پر ہے اور جھوٹی گواہی دنے والوں کو شہر میں گھمایا جانا چاہیئے تاکہ لوگ ان کو اچھی طرح پہچان لیں, پھر امام علیہ السَّلام نے ان آیات شریفہ کی تلاوت فرمائی,
وَلَا تَقْبَلُوا۟ لَهُمْ شَهَـٰدَةً أَبَدًۭا ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ ٤ إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُوا۟ مِنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ (نور ۔ 4)
اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں. ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے واﻻ اور مہربانی کرنے واﻻ ہے.
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السَّلام سے دریافت کیا, کس طرح معلوم ہوگا کہ اس نے توبہ کرلی ہے؟ فرمایا: جس جگہ پر اس کو تعزیر کے سلسلے میں کوڑے لگائے گئے ہوں وہیں وہ گواہوں کے مجمع کے سامنے اپنی گواہی کو جھوٹا قرار دے اور اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس طرح اس کی توبہ ظاہر ہوجائے گی۔ (وسائل الشیعہ)
اگر جھوٹی گواہی کی وجہ سے کسی مسلمان کی جان مال یا عزت کا نقصان ہو تو خود جھوٹے گواہ سے قصاص لیا جاتا ہے اور نقصان کی تلافی کی جاتی ہے۔ جمیل نامی راوی حضرت امام جعفر صاد ق علیہ السَّلام سے جھوٹی گواہی دینے والے شخص کے بارے میں یہ روایت نقل کرتے ہیں انھوں نے فرمایا: اگر چیز بعینہ باقی ہے تو اس کے مالک کو واپس لوٹا دے۔ اور اگر چیز باقی نہیں ہے تو جس حد تک اس نے دوسرے آدمی کا مال تلف کیا ہے اُس حد تک وہ (جھوٹاگواہ) ضامن ہے (یعنی وہ اسی جیسی دوسری چیز اصل مالک کو لا کردے گا یا اس کی قیمت ادا کریگا)۔ (کتاب مسالک )