تیسرے امام حسینؑ 3 یا 5 شعبان 4ھجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت علیؑ اور مادر گرامی جناب فاطمہ زہرا بنت رسولؐ تھیں۔ آپ کی کنیت ابو عبدﷲ اور القاب رشید, طیب, سید, سبط, وفی اور مبارک تھے۔ آپ کی ولادت کے وقت جبرائیل امین مبارک باد دینے خدمت پیغمبرؐ میں حاضر ہوئے اور خدا کی طرف سے یہ پیغام لائے کہ ان کا نام حسین رکھیں۔ پیغمبر اسلامؐ نے داہنے کان میں آذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی, ساتویں دن دو گوسفند آپ کے عقیقہ کے لئے ذبح کئے اور ان کا گوشت فقراء میں تقسیم کیا۔
امام حسینؑ نے اس دنیا میں قریباً 57 سال زندگی بسر کی جس میں قریباً 7 سال اپنے جد پیغمبر اسلامؐ کے ہمراہ رہے۔ مولائے کائنات امیرالمومنین حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد 10 سال اپنے بھائی امام حسنؑ کی امامت میں آپ کے ساتھ رہے اور 50ھ میں ان کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ روز عاشورہ 61ھ میدان کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔
پیغمبر اسلامؐ نے متعدد احادیث میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی امامت کا تذکرہ کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: میرے یہ دونوں بیٹے امام ہیں, چاہے قیام کریں یا خاموشی اختیار کریں۔
اس کے علاوہ امام حسنؑ نے بھی اپنی شہادت کے وقت آپ کی امامت کا اعلان کیا۔ آپؑ نے اپنی شہادت کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کو بلایا اور فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میری شہادت کے بعد حسین ابن علیؑ امام ہوں گے۔ انکی امامت خدا عالم کی مرضی سے ہے اور پیغمبر اسلامؐ نے اس بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور خداوند عالم جانتا ہے کہ تم اہلبیتؑ خدا کے بہترین بندے ہو۔ حضرت محمدؐ کو خداوند عالم نے نبوت کے لئے منتخب کیا, انہوں نے امامت کے لئے حضرت علیؑ کو معین کیا۔ میرے والد حضرت علیؑ نے میری امامت کا اعلان کیا اور میں نے امامت کے لئے حسینؑ کو منتخب کیا۔
مسعودی نے اثبات الوصیہ میں لکھا: جس وقت امام حسنؑ بیمار ہوئے ان کے بھائی ابو عبدﷲ امام حسینؑ ان کے پاس حاضر ہوئے۔ دونوں میں گفتگو ہوئی۔ امام حسنؑ نے اپنے بھائی امام حسینؑ کو اپنی وصی قرار دیا۔ ان کو اسم اعظم کی تعلیم دی۔ انبیاء کی میراث اور امیرالمومنینؑ کی وصیت ان کے حوالہ کی۔
پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا۔ حسین مجھے سے ہے اورمیں حسین سے ہوں۔ جو حسین کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے۔
اسی طرح آپؐ نے فرمایا,
حسنؑ و حسینؑ میرے اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد زمین پر سب سے افضل ہیں اور ان کی ماں دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔
اسی طرح آپؐ نے فرمایا,
حسنؑ و حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے افضل ہیں۔
امام زین العابدینؑ سے عرض کیا گیا کہ کیوں آپ کے بابا کے فرزندوں کی تعداد اتنی کم ہے تو آپؑ نے فرمایا: مجھے ان کے ذریعہ خود اپنی ولادت پر تعجب ہے, اس لئے کہ وہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے تھے۔
امام حسینؑ نے 25 حج پیدل کئے جب کہ آپؑ کے پاس سواری کا جانور موجود تھا (مدینہ سے مکہ کا فاصلہ قریب 550 کلومیٹر ہے)۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے حسنؑ و حسینؑ کو دیکھا کہ آپ حج کے لئے پیدل تشریف لے جا رہے ہیں۔ جو سوار ان کے پاس سے گذرتا اپنی سواری سے اتر جاتا اور ان کے ساتھ پیدل چلنے لگتا۔ ان میں سے بعض نے سعد بن ابی وقاص سے کہا کہ ہمارے لئے پیدل چلنا مشکل ہے لیکن اچھا نہیں لگتا کہ یہ دونوں بزرگ سید پیدل چلیں اور ہم سوار ہو کر۔ سعد نے یہ بات امام حسنؑ تک پہنچا دی, اور عرض کیا کہ کاش آپ لوگ ایسے لوگوں کی حالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سواری پر سوار ہو جاتے۔ امام حسینؑ نے جواب دیا کہ ہم سوار نہیں ہو سکتے اس لئے کہ ہم نے عہد کیا ہے کہ پیدل حج کریں گے۔ لیکن دوسرے مسافروں کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس راستہ سے الگ ہو جائیں گے۔ یہ کہ کر وہ دونوں حضرات اس راستہ سے دور ہو گئے۔
امام حسینؑ اسامہ بن زید کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اسامہ بیمار تھے اور کہ رہے تھے "وا غماہ"۔ امامؑ نے ان سے فرمایا, بھائی آپ کو کیا غم ہے؟ انہوں نے عرض کیا, اے فرزند رسول میرے اوپر 60,000 درہم کا قرض ہے میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں میں مر جاؤں اور میرے اوپر قرض کا بوجھ رہ جائے۔ امامؑ نے ان سے فرمایا, پریشان نہ ہو تمہاری موت سے پہلے ہی میں تمہارا قرض ادا کر دوں گا اور آپ نے ایسا ہی کیا۔
شعیب بن عبدالرحمن کا بیان ہے, امام حسینؑ کی شہادت کے بعد آپ کے دوش مبارک پر کچھ نشانات دیکھے گئے۔ امام سجادؑ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا, یہ نشانات کھانے کے اس بوجھ کے ہیں جو میرے والد بیواؤں, یتیموں اور غریبوں کے یہاں پہونچایا کرتے تھے۔
امام حسینؑ سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا, پیغمبر اسلام کے اس قول کا صحیح ہونا میرے نزدیک ثابت ہو چکا ہے کہ نماز کے بعد سب سے اہم عمل مومن کے دل کو خوش کرنا ہے, البتہ اس طرح کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔
ایک دن آپ نے ایک غلام کو دیکھا کہ ایک کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ ایک نوالہ خود کھانا تھا اور ایک نوالہ کتے کے سامنے ڈال دیتا تھا۔ آپ نے اس غلام سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا, اے فرزند رسول میں بہت غمزدہ ہوں۔ اس کتے کو خوش کر رہا ہوں شائد خداوند عالم مجھے بھی خوش کر دے, میرا مالک ایک یہودی ہے میں اس سے چھٹکارا چاہتا ہوں۔
امام حسینؑ اس غلام کے مالک کے یہاں تشریف لے گئے, اور اس غلام کے عوض 200 دینار اس یہودی کو دیئے۔ اس یہودی نے عرض کیا, یہ غلام آپ کے قدموں پر نثار کہ آپ یہاں تشریف لائے۔ میں نے یہ زراعت بھی اسے بخش دی اور یہ 200 دینار آپ رکھ لیجئے۔ امام حسینؑ نے فرمایا, میں نے تمہارا ہدیہ قبول کر لیا اور سب کچھ غلام کو عطا کر کے اس کو آزاد کر دیا۔
اس یہودی کی زوجہ جو یہ منظر دیکھ رہی تھی اس نے کہا میں اسلام لاتی ہوں اور اپنا مہر معاف کئے دیتی ہوں۔ اس یہودی مرد نے کہا میں بھی مسلمان ہو گیا اور وہ گھر اپنی زوجہ کو عطا کر دیا۔
انس کا بیان ہے کہ, میں حسین ابن علیؑ کے پاس تھا ایک کنیز آپ کے پاس آئی اور آپ کی خدمت میں پھولوں کی ایک شاخ پیش کی۔ امامؑ نے کنیز سے کہا, تمہیں راہ خدا میں آزاد کیا۔ انس نے عرض کیا, فرزند رسول پھولوں کی یہ شاخ اتنی قیمتی تو نہیں تھی کہ آپ نے اس کے بدلہ میں اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ آپؑ نے فرمایا, خدا نے مجھے اسی طرح تعلیم دی ہے۔ ﷲ نے فرمایا ہے, إِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا (یعنی, جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ النساء 86) پھولوں کی شاخ سے بہتر اس کو آزاد کرنا تھا۔
امام حسینؑ کے ایک غلام سے کچھ غلطی ہو گئی جس کی اسے سزا ملنا چاہئے تھی۔ اس غلام نے جب محسوس کیا کہ اسے سزا ملے گی تو عرض کیا, وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ (اور غصہ پینے والے)
امامؑ نے فرمایا, میں نے بخش دیا
اس نے عرض کیا, وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ (اور لوگوں سے درگزر کرنے والے)
حضرت نے فرمایا, میں نے تجھے معاف کیا۔
اس نے عرض کیا, وَاللّـٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ (اللہ تعالیٰ ان نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران 134)
حضرتؑ نے فرمایا, تجھے راہ خدا میں آزاد کیا, اور تجھے جتنا عطا ہو چکا اس سے دوگنا اور دیا جائے گا۔
ایک دیہاتی عرب امام حسینؑ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا, فرزند رسول پوری دیت کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور میں اس کو ادا کرنے سے عاجز ہوں۔ میں نے یہ طے کیا ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ کریم شخص سے اس کا مطالبہ کروں گا اور میری نظروں میں اہلبیت رسولؑ سے زیادہ کوئی کریم نہیں ہے۔
امام حسینؑ نے فرمایا, میں تجھ سے تین سوال کروں گا۔ اگر تم ان میں سے ایک کا جواب دو گے تو تیرے مطالبہ کا ایک تہائی عطا کروں گا۔ اگر دو سوالوں کا جواب دیا تو دو تہائی اور اگر تینوں سوالوں کا جواب دیا تو سارا مال عطا کروں گا۔ اس اعرابی نے عرض کیا, فرزند رسولؑ آپ جیسی عظیم شخصیت اتنے علم و فضل کے باوجود مجھ جیسے شخص سے سوال کرے؟
امامؑ نے فرمایا: ہاں, میں نے اپنے جد رسولﷲؐ سے سنا ہے " المعروف بقدر المعرفة " (بخشش معرفت کے مطابق ہوتی ہے)
اس اعرابی نے عرض کیا, آپ سوال کیجئے اگر معلوم ہو گا تو بتا دوں گا ورنہ آپ سے معلوم کر لوں گا۔ ولا حول ولا قوة الا باﷲ
امام حسینؑ نے اس سے دریافت کیا سب سے بہتر عمل کیا ہے؟
اس نے جواب دیا: خدا پر ایمان۔
امامؑ نے پوچھا: ہلاکتوں سے نجات کا ذریعہ کیا ہے؟
اس نے عرض کیا: خدا پر اعتماد کرنا۔
امامؑ نے سوال کیا: انسان کی زینت کیا ہے؟
اس نے جواب دیا: وہ علم جس کے ساتھ صبر ہو۔
امامؑ نے فرمایا: اگر یہ نہ ہو؟
اس نے عرض کیا: تو وہ مال جو انصاف اور جوانمردی کے ساتھ ہو۔
امامؑ نے فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو تو کیا چیز زینت ہے؟
اس نے عرض کیا: وہ فقر و تنگدستی جس کے ساتھ صبر ہو۔
امامؑ نے پوچھا: اگر یہ بھی نہ ہو تو؟
اس شخص نے عرض کیا, اس صورت میں چاہئے کہ آسمان سے ایک بجلی گرے اور اس کو جلا دے۔ امام حسینؑ ہنسے اور اس کو 1000 دینار اور اپنی انگوٹھی جس کی قیمت 200 درہم تھی اس کو عطا کر کے فرمایا, اس پیسہ سے اپنا قرض ادا کرو اور اس انگوٹھی کو بیچ کر اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کا سامان فراہم کرو۔ اس اعرابی نے پیسہ اور انگوٹھی لیکر عرض کیا خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔
معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان صلح نامے میں طے ہو چکا تھا کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنا ولی عہد نہیں بنائے گا اور خلیفہ کا انتخاب لوگوں پر چھوڑ دے گا۔ لیکن معاویہ نے اپنے اس عہد پر عمل نہیں کیا اور اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنا دیا جو کہ فسق و فجور اور شراب نوشی میں مشہور ایک نوجوان تھا۔ یزید شطرنج اور تنبور بازی کرات تھا اور گلوکار کنیزوں کے درمیان سوتا تھا۔ زیاد بن ابیہ جس سے معاویہ نے یزید کی خلافت کے لئے اقدام کرنے کو کہا تھا نے معاویہ کو لکھا کہ ہم کس طرح یزید کی ولی عہدی کی بات کر سکتے ہیں اور اس کے لئے لوگوں سے بیعت لے سکتے ہیں جب کہ وہ کتوں اور بندروں سے کھیلنے والا ہے وہ طرح طرح کے رنگین لباس پہنتا ہے, ہمیشہ شراب پیتا رہتا ہے اور ساز و موسیقی کی آواز پر تھرکتا ہے۔
یزید کے حکم کے مطابق فرزند رسول امام حسینؑ کو آپ کے تمام فضائل و کمالات اور آپ کے بارے میں پیغمبر اسلامؐ کی بیحد تاکید کے باوجود یزید کی بیعت نہ کرنے کے جرم میں روز عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام سن 61ھجری کربلا کے میدان میں آپ کے اولاد اور دوسرے اعزاء, اقرباء اور انصار کے ساتھ بیدردی سے شہید کر دیا گیا۔ آپ کے اہلبیتؑ کو اسیر کر کے دربار یزید میں پیش کرنے کے لئے شام لے جایا گیا۔ کوفہ اور شام کے راستہ میں دیہاتوں اور شہروں میں ان کی تشہیر کی اور انہیں تماشا بنا کر پیش کیا۔ پیغمبر اسلامؐ کے اہلبیتؑ کو شام کی گلیوں اور بازاروں میں پھرایا گیا اس کے بعد یزید کے دربار میں لے جا کر ان کی توہین کی گئی۔
لکھا ہے جس وقت امام حسینؑ کے اہلبیتؑ اسیر ہو کر شام پہونچے یزید کے سپاہی امام حسینؑ کا سر مبارک لے کر یزید کے دربار میں حاضر ہوئے۔ یزید نے حکم دیا کھانے کا دسترخوان بچھایا جائے۔ دسترخوان پر امام کا سر مبارک رکھا گیا۔ یزید اپنے اصحاب کے ساتھ شراب پی پی کر کھانا کھا رہا تھا, امام حسینؑ کا سر مبارک ایک طشت میں رکھ کر اس کے اوپر شطرنج کھیل رہا تھا اور امام حسینؑ, ان کے والد ماجد امام علیؑ اور ان کے جد بزگوار حضرت رسول خداؐ کا مذاق اڑاتا جا رہا تھا۔ جب کھیل میں اپنے مقابل پر کامیاب ہو جاتا تھا تو فقاع نامی شراب کا جام پی پر بچی ہوئی شراب پھینک دیتا تھا, اور اس مضمون کے اشعار پڑھتا تھا:
اے کاش ہمارے بدر کے بزرگ موجود ہوتے اور حسین کی شہادت اور ان کے اہلبیت کی اسیری کو دیکھتے تو خوش ہو کر کہتے, شاباش یزید, تو نے بدر میں مارے جانے والوں کا بدلہ لے لیا۔
امام حسینؑ عاشق خدا تھے۔ آپ نے اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کر دیا۔ آپ نے زندگی میں 25 حج پاپیادہ کئے۔ خدا نے آپ کو وہ منزلت عطا کی کہ ہر سال کروڑوں لوگ نجف سے یا اپنے گھروں سے پیدل کربلا کا ایک طویل سفر طے کر کے آپ کی خدمت میں حاضری کے لئے جاتے ہیں۔