واجب کاموں میں تولا یعنی خدا کی دوستی اور ان لوگوں کی دوستی شامل ہے جن کی دوستی کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سر فہرست چودہ معصوم یعنی نبی اکرم ص کے اقرباء ہیں, چنانچہ قرآن مجید میں ان کی محبت اور دوستی کو پیغمبر ص کی رسالت کا معاوضہ بتایا گیا ہے:
قُل لَّآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ (الشوری ۔ 23)
کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر میرے اقرباء سے محبت
ان سے اتر کر ان کے شیعہ اور محب دار، اور ان سے منسوب ہونے کے باعث سادات کی بزرگ نسل یہ سب ہماری دوستی کے حقدار ہیں۔ تبرّا اور برأت کا مطلب خدا کے تمام دشمنوں اور خدا کے دوستوں کے دشمنوں کو دشمن سمجھنا ہے۔ جن میں سب سے بڑھ کر محمد اور آل محمد علیہم السلام کا حق مارنے والے اور ان پر ظلم کرنے والے ہیں۔ غرض اس کا مطلب ہر اس شخص کو دشمن سمجھنا ہے جس سے خدا اور رسول بیزار ہیں۔ اس سے گناہ اور گناہگاروں کو دشمن سمجھنا بھی مراد ہے۔ چنانچہ عبادت اور عبادت گذاروں کو دوست رکھنا تولاّ میں داخل ہے۔ ان دونوں فرائض الہٰی کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں جن کا شمار ارکان دین میں ہوتا ہے۔ ارشاد ہے:
قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَـٰرَةٌۭ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَـٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُوا۟ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَـٰسِقِينَ (توبہ ۔ 24)
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکےاور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وه تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اگر تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راه میں جہاد سے بھی زیاده عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور ولایت اور ان میں سے کسی کو ولایت کی طرح لازم نہیں کیا گیاور نہ ان کی طرح کسی کا حکم دیا گیا۔ (کافی)
دین کی بنیاد اہل بیت کے دوستوں کی دوستی اور ان کے دشمنوں کی دشمنی اور اہل بیت کی پیروی اور اطاعت وتقلید بھی شامل ہے۔(کافی)
خدا کی قسم اگر پتھر بھی ہمیں دوست رکھے گا تو خدا اُسے بھی ہمارے ساتھ محشور کرے گا اور کیا دین کی حقیقت دوستی اور دشمنی کے علاوہ بھی کچھ اور ہو سکتی ہے؟ (بحار)
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
پیغبر اکرم ص نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ ایمان کے سب سے مضبوط رشتے کون سے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ بعضوں نے کہا نماز, کچھ نے کہا روزہ, بعض نے کہا زکوٰة, چند اصحاب نے کہا حج اور عمرہ, اور کچھ نے بتایا جہاد۔ آنحضرتؐ نے فرمایا تم نے جو کچھ بتایا ان میں فضیلت تو ہے لیکن یہ سب سے مضبوط وسیلہ نہیں ہیں, بلکہ مضبوط ترین رشتہ ایمانی خدا کی خاطر دوستی اور اور دشمنی کرنا، خدا کے دوستوں سے دوستی کرنا اور خدا کے دشمنوں سے دُوری اختیار کرنا ہے۔ (کافی)
جو کوئی اپنے ایمان کے ساتھ خدا کی زیارت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ خدا، رسول اور مومنوں سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دُوری چاہے۔ (روضہ کافی)
امام رضا ع اپنے خط میں اسلامی قوانین کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
ان لوگوں سے دُوری اور علیحدگی جنہوں نے آل محمد ع پر ظلم کیے ہیں، ناکثین (جنگ جمل میں علی ع سے لڑنے والے)، قاسطین (جنگ صفین میں علی ع سے لڑنے والے) اور مارقین (جنگ نہروان میں علی ع سے لڑنے والے خوارج) سے بیزاری اور ان لوگوں سے بیزاری واجب ہے جنہوں نے امیرالمومنین ع کی ولایت سے انکار کیا اور ان کے اوّل اور آخر میں آنے والوں سے بھی۔ علی اور ان کی پیروی کرنے والوں کی دوستی اور ان لوگوں کی دوستی واجب ہے جو ان کی طرح کے تھے۔ (عیون اخبار الرضا)
کتاب وسائل کے باب تعین کبائر میں ایک حدیث کے سلسلے میں امام جعفرصادق ع نے انکار حقناً یعنی اہل بیت کے حق سے انکار کرنا گناہ کبیرہ میں شامل کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں وانکار ما انزل اللّٰہ یعنی خدا نے جو بات نازل فرمائی ہے اس سے انکار کرنا گناہ کبیر ہے۔
حق اہل بیت سے مراد ولایت اور وَلایت (واؤکے زیر اور زبر کے ساتھ ہے) ہے۔ یعنی ان کی ولایت اور حکومت کا حق اور انہیں اولوالامر سمجھنا۔ چنانچہ مذہب امامیہ کے نزدیک ان کا اقرار مذہب کا اصول ہے اور اس سے انکار کرنے والا ایمان سے خارج ہے۔ ان کی وَلایت (واؤ کے زبر سے) کا حق یعنی ان کی محبت اور تائید وحمایت جس کا تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے دین اسلام کی ضرورت ہے اس لیے فرض ہے اور اس سے انکار کرنے والا ناصبی، دین اسلام سے خارج اور نجس ہے۔
رہا مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کا انکار تو ظاہر ہے کہ اس سے وہ تمام باتیں جو خدا نے نازل فرمائی ہیں مختلف موضوعات کی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ جو کچھ خدا نے نازل فرمایا ہے ان میں سے ایک چیز سے بھی انکار کرنا گناہ کبیرہ ہے اور کچھ موقعوں پر کفر کا سبب ہے اور چونکہ سب سے اہم چیز جو خدا نے سخت تاکید کے ساتھ نازل فرمائی ہے وہ ولایت کا موضوع ہے اس لیے اس سے انکار شدید قسم کا گناہ کبیرہ ہے بلکہ اس گناہ کبیرہ کی بعض قسم (مثلاً اہل بیت کی دشمنی) بالکل کفر کا سبب ہے جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔
رہی اولیائے خدا سے لڑائی جو قطعی ظاہر ہے کہ خدا کے دوست ہیں یعنی جو شخص خدا کے کسی دوست سے دشمنی کرے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا اور چونکہ آل محمد خدا کے تمام دوستوں کے سردار ہیں، اس لیے ان سے دشمنی اور لڑائی کفر کی سب سے شدید قسم ہے۔
پیغمبر اکرم ص نے فرمایا کہ معراج کی رات خدا نے مجھ پر ایک یہ وحی بھی نازل فرمائی, کہ جو کوئی میرے کسی دوست کو ذلیل و پریشان کرتا ہے اس نے بلا شبہ مجھ پر لڑائی میں گھات لگائی ہے اور جو کوئی مجھ سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا۔ میں نے کہا اے پروردگار! یہ تیرا دوست کون ہے؟ خدا نے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس سے میں نے تیری، تیرے وصی (علی ع) کی دوستی اور پیروی اور تیرے وصی کی اولاد (یعنی آئمہ اثناء عشر علیھم السلام) کی دوستی اور پیروی کا عہد لیا ہے۔ (کافی)
امام جعفرصادق ع فرماتے ہیں:
قیامت کے دن منادی آواز دے گا وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے ہمارے دوستوں کی مخالفت اور مزاحمت کی تھی۔ اس پر کچھ ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے جن کے چہروں پر گوشت نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مومنوں کو ستایا ان کی مخالفت کی۔ ان سے دشمنی برتی اور ان کے دین کو نقصان پہنچایا۔ اس پر حکم ہو گا کہ انہیں دوزخ میں ڈال دیا جائے۔ (کافی)
مومن کی دشمنی اور اسے زبان یا اعضاء سے ظاہر کرنا گناہ ہے۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
جو دو مسلمان ایک دوسرے پر غصہ کریں اور تین دن تک اسی صورت میں جاری رکھیں اور میل نہ کریں تو وہ دونوں کے دونوں اسلام سے خارج ہیں اور ان میں دینی تعلق باقی نہیں ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے بات کرنے میں پہل کرے وہ قیامت کے دن بہشت میں جانے میں بھی پہل کرے گا۔ (وسائل الشیعہ کتاب حج باب 144)
امام جعفر صادق ع اپنے اصحاب سے فرماتے تھے:
خدا کی راہ میں ایک دوسرے کے بھائی بنو اور ایک دوسرے سے دوستی کرو اور آپس میں رشتہ کرو اور مہربان رہو۔ (وسائل الشیعہ)
امام موسیٰ کاظم ع فرماتے ہیں:
جو کوئی ہمارے شیعوں سے دشمنی کرے گا وہ ہم سے دشمنی رکھے گا کیونکہ یہ ہم سے ہیں اور ہماری ہی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ جو انہیں دوست رکھے گا وہ ہم سے ہے اور جو انہیں دشمن سمجھے گا وہ ہم سے نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: جو کوئی ان کو رد کرتا ہے گویا اس نے خدا کو رد کیا اور جو انہیں بُرا کہتا ہے اس نے گویا خدا کو بُرا کہا۔ (وسائل الشیعہ کتاب الامربالمعروف باب 17)