امام زين العابدين ع کی زندگی

امام زين العابدين ع کی زندگی (ايک تحقيقی مطالعہ) ۔ آیت ﷲ خامنہ ای 23/08/2024 270

امام زين العابدين (ع) کی زندگی کا ايک مجموعی خاکہ

اسلامی حکومت کی تشکيل تمام ائمہ کا مقصد و ہدف رہا ہے، وه ہميشہ اسی راه پر گامزن رہے۔ ہر ايک نے وقت اور حالات کے تحت اس راه ميں اپنی کوششيں جاری رکھيں۔ چنانچہ جب کربلا کا حادثہ رونما ہوا اور سيد الشہداء امام حسين عليہ الصلوة و السلام شہيد کر ديئے گئے نيز بيماری کی حالت ميں ہی امام سجاد ع کو اسير بنا ليا گيا تو حقيقتا اسی وقت (روز عاشور 61ھ) سے امام سجاد ع کی ذمہ داريوں کا آغاز ہو گيا۔ اب تک مستقبل کی جو ذمہ داری (حکومت اسلامی کی تشکيل) امام حسن ع اور پھر امام حسين ع کے کاندھوں پر تھی وه امر امام زين العابدين ع کے سپرد کر ديا گيا- اب آپ (ع) کی ذمہ داری تھی کہ اس مہم کو آگے بڑھائيں اور پھر آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ طاہرين عليہم السلام اپنے اپنے دور ميں اس مہم کو پايہ تکميل تک پہنچائيں۔

اکثر محققوں اور سيرت نگاروں کے ذہن ميں يہ بات بيٹھی ہوئی ہے کہ يہ عظيم ہستی محض ايک گوشہ نشين عابد و زاہد جيسی زندگی گزارتی رہی جس کو سياست ميں ذره برابر دلچسپی اور دخل نہ تھا۔ بعض لوگوں نے اس عظيم ہستی کو ”بيمار“ کے لقب سے ياد کيا ہے جب کہ آپ کی بيماری واقعہ عاشوره کے ان ہی چند دنوں تک محدود تھی اس کے بعد اس کا سلسلہ باقی نہ رہا۔ تقريبا سب ہی لوگ اپنی عمر کے ايک حصہ ميں بيمار پڑجاتے ہيں۔ اگر چہ امام زين العابدين ع کی اس بيماری ميں الہی حکمت و مصلحت بھی کارفرما تھی در اصل پروردگارعالم کو ان دنوں خدا کی راه ميں جہاد و دفاع کی ذمہ داری، اپ پر سے اٹھالينا مقصود تھا تا کہ  آئنده (شہادت امام حسين ع کے بعد) امانت و امامت کا عظيم بار اپنے کاندھوں پر لے سکيں اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد چونتيس يا پينتيس برس تک زنده ره کر نہايت ہی سخت اور پر آشوب دور طے کرسکيں۔

امام سجاد (ع)کی زندگی کے باره ميں کوئی تحقيقی جائزه پيش کرتے وقت ہمارے بنيادی مصادر و ماخذ خود امام ع کے کلمات مبارکہ ہی ہونے چاہئيں, کيوں کہ ہماری نظر ميں کسی بھی امام (ع) کی زندگی سے متعلق صحيح معرفت و  آشنائی کے لئے خود اس امام (ع) کی زبان مبارک سے جاری ہونے والے بيانات يا روايتيں بہترين منبع و مدرک ہيں۔ ليکن ہم امام (ع) کے بيانات کو صرف اس وقت صحيح طور پر سمجھ سکتے ہيں جب موقف و مقصد، راه عمل اور تلاش و جستجو سے آشنا ہوں ور نہ ہم جوبھی تفسير کريں گے وه غلط ہوگی اور خود يہ آشنائی بھی ان کے کلمات کی برکت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

وه تمام ارشادات جو آپ (ع) کے دہن مبارک سے جاری ہوئے، وه اعمال جو آپ(ع) نے انجام ديئے وه دعائيں جو لب مبارک تک  آئيں وه مناجاتيں اور راز و نياز کی باتيں جو  آج صحيفہ کاملہ کی شکل ميں موجود ہیں ان سب کی امام (ع) کے اسی بنيادی موقف کی روشنی ميں تفسير و تعبير کی جانی چاہئے چنانچہ اس پورے دور امامت ميں مختلف موقعوں پر حضرت (ع) کے موقف اور فيصلوں کو بھی اسی عنوان سے ديکھنا چاہئے مثال کے طور پر:

  1. اسيری کے دوران کوفہ ميں عبيد ﷲ ابن زياد اور پھر شام ميں يزيد پليد کے مقابلہ ميں آپ (ع) کا موقف جو شجاعت و فداکاری سے بھرا ہوا تھا۔
  2. مسرف (مسلم) بن عقبہ کے مقابلہ ميں, جس کو يزيد نے اپنی حکومت کے تيسرے سال مدينہ رسول (ص) کی تباہی اور اموال مسلمين کی غارت گری پر مامور کيا تھا امام (ع) کا موقف نہايت ہی نرم تھا۔
  3. عبد الملک بن مروان جس کو خلفائے بنو اميہ ميں طاقتور ترين اور چالاک ترين خليفہ شمار کيا جاتا ہے، اس کے مقابلہ ميں امام (ع) کا موقف کبھی تو بہت ہی سخت اور کبھی بہت ہی نرم نظر  آتا ہے,اسی طرح
  4. عمر بن عبد العزيز کے ساتھ آپ کا برتاؤ
  5. اپنے اصحاب اور رفقاء کے ساتھ آپ (ع) کا سلوک اور دوستانہ نصيحتيں اور
  6. ظالم و جابر حکومت اور اس کے عملے سے وابستہ درباری علماء کے ساتھ امام ع کا رويہ

ان تمام موقفوں اور اقدامات کا مطالعہ کريں تو عظيم ہستی ايک ايسا انسان نظر آئے گی جو اس روئے زمين پر خدا وند وحده لا شريک کی حکومت قائم کرنے اور اسلام کو اس کی اصل شکل ميں نافذ کرنے کو ہی اپنا مقدس مقصد سمجھتے ہوئے اپنی تمام ترکوشش و کاوش بروئے کار لاتا رہا ہے اور جس نے پختہ ترين اور کار آمد ترين کا رگردگی سے بہره مند ہوکر نہ صرف يہ کہ اسلامی قافلہ کو اس پراگندگی اور پريشاں حالی سے نجات دلائی ہے جو واقعہ عاشور کے بعد دنيائے اسلام پر مسلط ہو چکی تھی بلکہ قابل ديد حد تک اس کو آگے بھی بڑھايا ہے۔

حضرات حسنین علیھما السلام کی تحریک سے تسلسل

حادثات زندگی ميں ائمہ عليہم السلام کا بنيادی موقف جہاں تک ميں سمجھ سکا ہوں 40 ہجری ميں امام حسن ع کی صلح کے بعد سے کبھی پيغمبر اسلام (ص) کے اہل بيت عليہم السلام اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ فقط گھر ميں بيٹھے اپنے ادراک کے مطابق احکامات الہيہ کی تشريح وتفسير کرتے رہيں بلکہ صلح کے آغاز ہی سے تمام ائمہ طاہرين عليہم السلام کا بنيادی موقف اور منصوبہ يہ رہا ہے کہ وه اپنے طرز فکر کے مطابق حکومت اسلامی کے لئے راہيں ہموار کريں۔ چنانچہ يہ فکر خود امام حسن مجتبی ع کی زندگی اور کلام ميں بطور احسن ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ امام حسن ع نے معاويہ سے صلح کرلی تو بہت سے ناعاقبت انديش کم فہم افراد نے حضرت ع کو مختلف عنوان سے ہدف بنا ليا اور اس سلسلہ ميں  آپ کو مورد الزام قرار دينے کی کوشش کی گئی کبھی تو  آپ (ع) کو مومنين کی ذلت ورسوائی کا باعث گردانا گيا اور کبھی يہ کہا گيا, آپ نے معاويہ کے مقابلہ پر آماده جوش وخروش سے معمور مومنين کی جماعت کوذليل وخوار کرديا معاويہ کے سامنے ان کا سر جھک گيا۔ بعض اوقات احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ذرا نرم وشائستہ انداز ميں بھی يہی بات دہرائی گئی۔ امام ع ان تمام اعتراضوں اور زبان درازيوں کے جواب ميں انھيں مخاطب کرکے ايک ايسا جامع و مانع جملہ ارشاد فرماتے تھے جو شايد حضرت کے کلام ميں سب سے زياده فصيح و بليغ اور بہتر ہو۔ آپ (ع) کہا کرتے تھے کہ :

تمھيں کيا خبر شائد يہ تمھارے لئے ايک آزمائش اور معاويہ کے لئے ايک عارضی سرمايہ ہو۔

اصل ميں يہ جملہ قران کريم سے اقتباس کيا گيا ہے۔ اس جملہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت کو مستقبل کا انتظار ہے اور وه مستقبل اس کے علاوه کچھ اور نہيں۔ ہوسکتا کہ امام ع کے نظر يہ کے مطابق حق سے منحرف موجوده ناقابل قبول حکومت برطرف کی جائے اور اس جگہ آپ کی پسنديده حکومت قائم کی جائے جبھی تو آپ ان لوگوں سے فرماتے ہيں کہ تم فلسفہ صلح سے واقفيت نہيں رکھتے تمھيں کيا معلوم کہ اسی ميں مصلحت مضمر ہے۔ آغاز صلح ميں ہی عمائدين شيعہ ميں سے دو شخصيتيں، مسيب بن نجيہ اور سليمان بن صردخزاعی چند مسلمانوں کے ہمراه امام حسن مجتبی ع کی خدمت ميں شرفياب ہوئيں اور عرض کيا:ہمارے پاس خراسان وعراق وغيره کی خاصی طاقت موجود ہے اور ہم اسے آپ کی اختيار ميں دينے کے لئے تيار ہيں اور معاويہ کا شام تک تعاقب کرنے کے لئے حاضر ہيں۔ حضرت ع نے ان کو تنہائی ميں گفتگو کے لئے طلب کيا اور کچھ بات چيت کی، جب وه وہاں سے باہر نکلے تو ان کے چہرے پر طمانيت کے آثار ہويدا تھے۔ انھوں نے اپنے فوجی دستوں کو رخصت کرديا حتی کہ ساتھ آنے والوں کو بھی کوئی واضح جواب نہ ديا۔

طہ حسين کا خيال ہے” در اصل اسی ملاقات ميں شيعوں کی تحريک جہاد کا سنگ بنياد رکھ ديا گيا تھا۔“يعنی وه يہ کہنا چاہتے ہيں کہ امام حسن مجتبی ع، ان کے ساتھ تنہائی ميں بيٹھے، مشورے ہوئے اور اسی وقت شيعوں کی ايک عظيم تنظيم کی بنا رکھ دی گئی۔ چنانچہ خود امام (ع) کے حالات زندگی اور مقدس ارشادات سے بھی واضح طور پر يہی مفہوم نکلتا ہے۔ اگر چہ يہ زمانہ اس قسم کی تحريک اور سياسی جدوجہد کے لئے سازگار نہ تھا۔ لوگوں ميں سياسی شعور بے حد کم اور دشمن کے پروپيگنڈوں نيز مالی دادووہش کا بازار گرم تھا۔ دشمن جن طريقوں سے فائده اٹھا رہاتھا، امام ع اختيار نہيں کرسکتے تھے۔مثال کے طور پر بے حساب پيسہ خرچ کرنا اور معاشره کے چھٹے ہوئے بد قماش افراد کو اپنے گرد اکٹھا کرلينا امام ع کے لئے ممکن نہ تھا۔ ظاہر ہے دشمن کا ہاتھ کھلا ہوا تھا اور امام کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اپ اخلاق وشريعت کے خلاف کوئی کام انجام نہ دے سکتے تھے۔ يہی وجہ ہے کہ امام حسن عليہ الصلوة و السلام کا کام نہايت ہی عميق، ديرپا اور بنيادی قسم کا تھا۔ دس برس تک حضرت (ع) اسی ماحول ميں زندگی بسر کرتے رہے۔ لوگوں کو اپنے قریب کيا اور انھيں تربيت دی۔ کچھ لوگوں نے مختلف گوشہ و کنار ميں جام شہادت نوش کرکے معاويہ کی حکومت سے کھل کر مقابلہ کيا اور نتيجہ کے طور پر اس کی مشينری کو کافی کمزور بنايا۔ اس کے بعد امام حسين ع کا زمانہ آيا تو آپ (ع) نے بھی اسی روش پر کام کرتے ہوئے مدينہ، مکہ نيز ديگر مقامات پر اس تحريک کو آگے بڑھايا۔ يہاں تک کہ معاويہ دنيا سے چلا گيا، اور کربلا کا حادثہ رو نما ہوا۔

اگر چہ اس حقيقت سے انکار نہيں کيا جا سکتا کہ کربلا کا حادثہ اسلام کے مستقبل کے لئے نہايت ہی مفيد اور ثمر آور ثابت ہوا ليکن وقتی طور پر وه مقصد جس کے لئے امام حسن اور امام حسين عليہما السلام کو شاں تھے کچھ دنوں کے لئے اس ميں تاخير ہو گئی کيوں کہ اس حادثہ نے دنيائے اسلام کو رعب و حشت ميں مبتلا کر ديا تھا۔ امام حسن و امام حسين عليہما السلام کے قريبی رفقاء کو تہ تيغ کر ديا گيا اور دشمن کو تسلط و غلبہ حاصل ہو گيا۔ اگر امام حسين ع کا اقدام اس شکل ميں نہ ہوتا اور يہ تحريک طبيعی طور پر جاری رہتی تو يہ بات بعيد از امکان نہيں کہ مستقبل قريب ميں جد و جہد کچھ ايسا رخ اختيار کر ليتی کہ حکومت کی باگ ڈور شيعوں کے ہاتھ ميں آجاتی۔ البتہ يہاں گفتگو کا يہ مقصد ہر گز نہيں کہ معاذ ﷲ، امام حسين ع کو انقلاب برپا نہيں کرنا چاہئے تھا, بلکہ حالات نے کروٹ ہی کچھ ايسی بدلی تھی کہ حسينی(ع) انقلاب ناگزير ہو گيا تھا، اور اس ميں کوئی شک و شبہ نہيں کہ اسلام کی بقا کے لئے حسينی(ع) انقلاب بے حد ضروری تھا، ليکن اگر حالات يہ رخ اختيار نہ کرتے اور امام حسين ع اس حادثہ ميں شہيد نہ ہوئے ہوتے تو شايد جلد ہی مستقبل سے متعلق کا منصوبہ بار آور ہو جاتا۔ اصول کافی ميں ابو حمزه ثمالی کی ايک روايت امام محمد باقر ع سے يوں نقل کی گئی ہے:

خدا وند عالم اس امر (يعنی حکومت اہلبيت ع) کے لئے 70 ہجری معين کر چکا تھا, جب امام حسين ع کو شہيد کر ديا گيا، اہل زمين پر خدا وند عالم کے غضب ميں شدت پيدا ہو گئی اور وه تاسيس حکومت کا وقت) 140 ہجری تک کے لئے آگے بڑھاديا گيا۔

يہ تاريخ امام جعفر صادق ع کی شہادت سے آٹھ سال قبل کی ہے۔ ميرا خيال يہی ہے کہ وه ولی امر جس کے ذريعہ ايک انقلابی اقدام کے تحت اہلبيت (ع) کا حق واپس ملنا تھا امام جعفر صادق ع کی ہی ذات مبارک ہونی چاہئے تھی, مگر اس وقت بنو عباس نے خود خواہی عجلت پسندی، دنيا پرستی اور ہوائے نفس کی پيروی کرتے ہوئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کيا اور فرصت بھی اہلبيت (ع) کے ہاتھ سے چھين لی گئی, اور وعده الہی پھر کسی اور وقت کے لئے ٹل گيا۔ روايت کے آخری فقرے يہ ہيں:

يعنی ہم نے تم لوگوں کو اس واقعہ سے مطلع کيا اور تم نے اس کو نشر کر ديا, بات پردٔه راز ميں نہ رکھ سکے، عوام ميں نہ کہا جانے والا راز افشا کر ديا۔ لہذا اب خدا وند عالم نے اس امر کے لئے کوئی دوسرا وقت معين طور پر قرار نہيں ديا ہے۔ خدا وند عالم اوقات کو محو کر ديا کرتا ہے, جس چيز کی چاہتا ہے نفی کر ديتا ہے اور جس چيز کو چاہتا ہے ثابت کر دکھاتا ہے۔ اور يہ بات نا قابل ترديد مسلمات اسلام ميں سے ہے کہ مستقبل کے سلسلہ ميں جو بات خدا کی جانب سے حتمی قرار دی جا چکی ہے وه نظر و قدرت الہی ميں تغير پذير نہيں ہے۔

حضرت (ع) کا مناره زندگی

معرکہ کربلا کے بعد آپ (ع) کی اسيری کا مختصر اور تاريخ ساز دور جس کو مناره زندگی سے تعبير کرنا غلط نہ ہوگا, جہاں اسيری کے بعد بھی آپ کا موقف بہت ہی سخت اور مزاحمت آميز رہتا ہے, بيمار اورقيد ہونے کے باوجود کسی عظيم مرد مجاہد کے مانند اپنے قول وفعل کے ذريعہ شجاعت و دليری کے بہترين نمونہ پيش کئے ہيں۔ اس دوران امام کا طرز عمل حضرت (ع) کی بقيہ عام زندگی سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔

امام ع کی زندگی کے اصلی (بعد کے) دور ميں  آپ (ع) کی حکمت عملی مستحکم بنياد پر بڑے ہی جچے تلے انداز ميں نرم روی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھنا ہے حتی کہ بعض وقت عبد الملک بن مروان کے ساتھ نہ صرف ايک محفل ميں بيٹھے ہوئے نظر آئے ہيں بلکہ اس کے ساتھ آپ (ع) کا رويہ بھی نرم نظر آتا ہے جب کہ اس مختصر مدت (ايام اسيری) ميں امام (ع) کے اقدامات بالکل کسی پر جوش انقلابی کے مانند نظر آتے ہيں جس کے لئے کوئی معمولی سی بات بھی برداشت کر لينا ممکن نہيں ہے لوگوں کے سامنے بلکہ بھرے مجمع ميں بھی مغرور و بااقتدار دشمن کا دندان شکن جواب دينے ميں کسی طرح کا تامل نہيں کرتے۔ کوفہ کا درنده صفت خونخوار حاکم، عبید ﷲ ابن زياد جس کی تلوار سے خون ٹپک رہا ہے جو فرزند رسول (ص) امام  حسين ع اور ان کے اعوان و انصار کا خون بہا کر مست و مغرور اور کاميابی کے نشہ ميں بالکل چور ہے اس کے مقابلہ ميں حضرت (ع) ايسا بے باک اور سخت لب و لہجہ اختيار کرتے ہيں کہ ابن زياد آپ (ع) کے قتل کا حکم جاری کر ديتا ہے۔ چنانچہ اگر جناب زينب سلام ﷲ عليہا ڈھال کے مانند آپ (ع) کے سامنے آکر يہ نہ کہتيں کہ ميں اپنے جيتے جی ايسا ہرگز نہ ہونے دوں گی اور ايک عورت کے قتل کا مسئلہ درپيش نہ آتا نيز يہ کہ قيدی کے طور پر دربار شام ميں حاضر کرنا مقصود نہ ہوتا تو عجب نہيں ابن زياد امام زين العابدين ع کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگين کر ليتا۔ بازار کوفہ ميں آپ (ع) اپنی پھوپھی جناب زينب (ع) اوراپنی بہن جناب سکينہ کے ساتھ ہم صدا ہو کر تقرير کرتے ہيں لوگوں ميں جوش و خروش پيدا کرتے ہيں اور حقيقتوں کا انکشاف کر ديتے ہيں۔ اسی طرح شام ميں چاہے وه يزيد کا دربار ہو يا مسجد ميں لوگوں کا بے پناه ہجوم، بڑے ہی واضح الفاظ ميں دشمن کی  سازشوں سے پرده اٹھاکر حقائق کا برملا اظہار کرتے رہتے ہيں چنانچہ حضرت (ع) کے ان تمام خطبوں اور تقريروں ميں اہلبيت (ع)کی حقانيت، خلافت کے سلسلہ ميں ان کا استحقاق اور موجوده حکومت کے جرائم اور ظلم و زيادتی کا پرده چاک کرتے ہوئے نہايت ہی تلخ اور درشت لب و لہجہ ميں غافل و نا آگاه عوام کو جھنجوڑنے اور بيدار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ يہ ہے امام (ع) کی اسارت اور قيد و بند کی زندگی جو جرأت و ہمت اورشجاعت و دلاوری سے معمور نظر  آتی ہے۔

رہائی کے بعد

ذہنوں ميں يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر وه کون سی وجوہات تھيں جن کے پيش نظر امام ع کے موقف ميں ايسی تبديلی پيدا ہوگئی کہ اب قيد سے چھوٹ کر  آپ نہايت ہی نرم روی کا مظاہره کرنے لگتے ہيں تقيہ سے کام ليتے ہيں۔ اپنے تيز و تند انقلابی اقدامات پر دعا اور نرم روی کا پرده ڈال ديتے ہيں تمام امور بڑی خاموشی کے ساتھ انجام ديتے ہيں جب کہ قيد و بند کے عالم ميں آپ نے ايسے دليرانہ عزائم کا اظہار اور مخاصمت آميز اقدام فرمايا ہے؟

تو اس کا جواب يہ ہے کہ يہ ايک استثنائی دور تھا۔ يہاں جناب امام سجاد ع کو فرائض امامت کی ادائيگی اور حکومت الہی و اسلامی کی تشکيل کے لئے مواقع فراہمی کے ساتھ ہی ساتھ عاشور کو بہنے والے بے گناہوں کے خون کی ترجمانی بھی کرنی تھی۔ حقيقت تو يہ ہے کہ يہاں حضرت سجاد ع کے دہن ميں ان کی اپنی زبان نہ تھی, بلکہ شمشير سے خاموش کر دی جانے والی حسين (ع) کی زبان اس وقت کوفہ و شام کی منزلوں سے گزر نے والے اس انقلابی جوان کو وديعت کر دی گئی تھی۔ چنانچہ اگر اس منزل ميں امام زين العابدين ع خاموش ره جاتے اور اس جرأت و ہمت اور جواں مردی و بيباکی کے ساتھ حقائق کی وضاحت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کرتے, تو آئنده آپ (ع) کے مقاصد  کی تکميل کی تمام راہيں مسدود ہو کر ره جاتيں۔ کيوں کہ يہ امام حسين ع کا جوش مارتا ہوا خون ہی تھا جس نے نہ صرف  آپ (ع) کے لئے ميدان ہموار کر ديا بلکہ تاريخ تشيع ميں جتنی بھی انقلابی تحريکيں برپا ہوئی ہيں ان سب ميں خون حسين ع کی گرمی شامل نظر آتی ہے۔ چنانچہ امام زين العابدين ع سب سے پہلے لوگوں کو موجوده صورت حال سے خبر دار کر دينا ضروری سمجھتے ہيں, تاکہ آئنده اپنے اسی عمل کے پر تو ميں بنيادی و اصولی، عميق و متين طولانی مخالفتوں کا سلسلہ شروع کر سکيں۔ اور ظاہر ہے تيز و تند زبان استعمال کئے

بغير لوگوں کو متنبہ اور ہوشيار کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اس قيد و بند کے سفر ميں حضرت امام زين العابدين ع کا کردار جناب زينت سلام اللہ عليہا کے کردار سے بالکل ہم آہنگ ہے, دونوں کا مقصد حسينی انقلاب اور پيغامات کی تبليغ و اشاعت ہے اگر لوگ اس بات سے واقف ہو جائيں کہ حسين ع قتل کر ديئے گئے، کيوں قتل کر ديئے گئے؟ اور کس طرح قتل کئے گئے تو  آئنده اسلام اور اہلبيت عليہم السلام کی دعوت ايک نيا رنگ اختيار کر لے گی ليکن اگر عوام ان حقيقتوں سے ناواقف ره گئے تو انداز کچھ اور ہوگا۔

لہذ ا معاشره ميں ان حقائق کو عام کر دينے اور صحيح طور پر حسينی (ع) انقلاب کو پہچنوانے کے لئے اپنا تمام سرمايہ بروئے کار لا کر جہاں تک ممکن ہو سکے اس کام کو انجام دينا ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت سيد سجاد ع کا وجود بھی جناب سکينہ (ع)، جناب فاطمہ صغری (ع)، خود جناب زينب سلام اللہ عليہا بلکہ ايک ايک قيدی کے مانند (اپنی اپنی صلاحيت کے اعتبار سے) اپنے اندر ايک پيغام لئے ہوئے ہے۔ ضروری تھا کہ يہ تمام انقلابی قوتيں مجتمع ہو کر غربت و بيکسی ميں بہا ديئے جانے والے حسينی (ع) خون کی سرخی کربلا سے لے کر مدينہ تک تمام بڑے بڑے اسلامی مراکز ميں پھيلا ديں۔ جس وقت امام سجاد ع مدينہ ميں وارد ہوں لوگوں کی بے چين و متجسس سوالی نگاہوں، چہروں اور زبانوں کے جواب ميں آپ (ع) ان کے سامنے حقائق بيان کريں اور يہ امام کی آئنده مہم کا نقشہ اول ہے۔ اسی لئے ہم نے امام زين العابدين ع کے اس مختصر دور حيات کو ايک استثنائی دور سے تعبير کيا ہے۔

اس مہم کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ (ع) مدينہ رسول (ص) ميں ايک محترم شہری کی حيثيت سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہيں اور اپنا کا م پيغمبر اسلام (ص) کے گھر اور آپ (ع) کے حرم (مسجد النبی ص) سے آغاز کرتے ہيں۔ حضرت امام سجاد ع کے آئنده موقف اور طريقہ کار کو سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کی حالت و کيفيت اور اس کے تقاضوں پر بھی ايک تحقيقی نظر ڈالی جائے۔

جب عاشور کا المناک حادثہ رو نما ہوا، پوری اسلامی دنيا ميں جہاں جہاں بھی يہ خبر پہنچی خصوصا عراق اور حجاز ميں مقيم ائمہ عليہم السلام کے شيعوں اور طرفداروں ميں ايک عجيب رعب و دہشت کی فضا پيدا ہو گئی۔ کيوں کہ يہ محسوس کيا جانے لگا کہ يزيدی حکومت اپنی حاکميت کو مسلط کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے حتی اس کو عالم اسلام کی جانی پہچانی عظيم، مقدس اور معتبر ترين ہستی فرزند رسول(ص)حسين ابن علی عليہما السلام کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے ميں بھی کسی طرح کا کوئی دريغ نہیں ہے۔ اور اس رعب و وحشت ميں جس کے آثار کو فہ و مدينہ ميں کچھ زياده ہی نماياں تھے، جو کچھ کمی ره گئی تھی وه بھی اس وقت پوری ہو گئی جب کچھ ہی عرصہ بعد بعض دوسرے لرزه خيز حوادث رو نما ہوئے جن ميں سر فہرست حادثہ ”حره“ ہے۔ اہلبيت طاہرين عليہم السلام کے زير اثر علاقوں يعنی حجاز (خصوصا مدينہ) اور عراق (خصوصا کوفہ) ميں بڑا ہی گھٹن کا ماحول پيدا ہو گيا تھا۔ تعلقات و ارتباطات کافی کمزور ہو چکے تھے۔ وه لوگ جو ائمہ طاہرين عليہم السلام کے طرفدار تھے اور بنو اميہ کے خلافت و حکومت کے زبردست مخالفين  ميں شمار ہوتے تھے بڑی ہی کسمپرسی اور شک و شبہ کی حالت ميں زندگی بسر کر رہے تھے۔ امام جعفر صادق ع گزشتہ ائمہ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:

امام حسين ع کے بعد تين افراد کے علاوہ سارے لوگ مرتد ہو گئے (بعض دوسری روايتوں ميں سات افراد تک کا ذکر ملتا ہے) پھر آہستہ آہستہ لوگ اہل بيت عليہم السلام سے ملحق ہوتے گئے اور تعداد ميں اضافہ ہوتا چلا گيا۔

خود امام زين العابدين ع فرماتے ہيں:

پورے مکہ و مدينہ ميں بيس افراد بھی ايسے نہيں ہيں جو ہم سے محبت کرتے ہوں۔

دراصل اس وقت ايسی خوف وہراس کی فضا پيدا ہو گئی تھی کہ ائمہ (ع)کے طرفدارمتفرق وپراگنده مايوس ومرعوب زندگی گزاررہے تھے اور کسی طرح کی اجتماعی تحريک ممکن نہ تھی۔ البتہ جس وقت اسيران کربلا کا لٹا ہو ا قافلہ کوفہ ميں وارد ہوتا ہے کچھ ايسے واقعات رو نما ہوتے ہيں جو شيعہ تنظيموں کے وجود کا پتہ ديتے ہيں۔ البتہ يہاں ہم نے جو شيعوں کی خفيہ تنظيم، کا لفظ استعمال کيا ہے اس سے يہ غلط فہمی نہيں پيدا ہونی چاہئے کہ يہاں ہماری مراد موجوده زمانہ کی طرح سياسی تنظيموں کی کوئی باقاعده منظم شکل ہے بلکہ ہمارا مقصد وه اعتقادی روابط ہيں جو لوگوں کو ايک دوسرے کے قريب لا کر ايک مضبوط شکل دھاگے ميں پرو ديتے ہيں اور پھر لوگوں ميں جذبہ فدا کاری پيدا کرکے خفيہ سر گرمی پر اکساتی ہے اور نتيجہ کے طور پر انسانی ذہن ميں ايک ہم فکر جماعت کا تصور پيدا ہو جاتا ہے۔

ان ہی دنوں جب کہ پيغمبر اسلام (ص) کی ذريت کو فہ ميں اسير تھی ايک رات اسی جگہ جہاں ان کو قيد رکھا گيا تھا، ايک پتھر آکر گرا، اہلبيت (ع) اس پتھر کی طرف متوجہ ہوئے ديکھا تو ايک کاغذ کا ٹکﮍا اس کے ساتھ منسلک تھا جس پر کچھ اس طرح کی عبارت تحرير تھی، کوفہ کے حاکم نے ايک شخص کو يزيد کے پاس (شام) روانہ کيا ہے تاکہ آپ کے حالات سے اس کو باخبر کرے نيز آئنده کے باره ميں اس کا فيصلہ معلوم کرے اب اگر کل رات تک (مثال) آپ کو تکبير کی آواز سنائی دے تو سمجھ ليجئے کہ آپ کويہيں قتل کر دينے کا فيصلہ ہوا ہے اور اگر ايسا نہ ہو تو سمجھئے گا کہ حالات کچھ بہتر ہيں۔

اس طرح کی ايک مثال عبدﷲ بن عفيف ازدی کی ہے جو ايک مرد نابينا ہيں اور اسيران کربلا کے کوفہ ميں ورود کے موقع پر ہی شديد رد عمل کا اظہار کرتے ہيں اور نتيجہ کے طور پر انھيں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس قسم کے افراد کيا کوفہ اور کيا شام ہر جگہ مل جاتے ہيں جو قيديوں کی حالت ديکھ کر ان سے محبت کا اظہار کرتے نظر  آتے ہيں اور صرف  آنسو بہانے پر اکتفا نہيں کرتے بلکہ ايک دوسرے کی نسبت ملامت کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہيں۔

لہذا اگرچہ حادثہ کربلا کے بعد نہايت ہی شديد قسم کا خوف عوام و خواص پر طاری ہو چکا تھا پھر بھی ابھی اس نے وه نوعيت اختيار نہيں کی تھی کہ شيعيان آل محمد (ص) کی تمام سر گرمياں بالکل ہی مفلوج ہو گئی ہوں اور وه ضعف و پراگندگی کا شکار ہو گئے ہوں۔ ليکن کچھ ہی دنوں بعد ايک دوسرا حادثہ کچھ اس قسم کا رو نما ہوا جس نے ماحول ميں کچھ اور گھٹن کا اضافہ کر ديا۔ ”جہاد الشيعہ“ کا مولف اپنے احساسات کو ان الفاظ ميں پيش کرتا ہے کہ:

گروه شيعہ نے حسين (ع) کی شہادت کے بعد خود کو باقاعده تنظيم کی صورت ميں منظم کر ليا، ان کے اعتقادات اور سياسی روابط انھيں  آپس ميں مربوط کرتے تھے۔ ان کی جماعتيں اور قائد تھے۔ اسی طرح وه فوجی طاقت کے بھی مالک تھے چنانچہ توابين کی جماعت اس تنظيم کی سب سے پہلی مظہر ہے۔ (توابين کی تحريک واقعہ کربلا کا سب سے پہلا رد عمل ہے جو کوفہ ميں ظاہر ہوا کہ امام حسين ع کے دشمنوں او ر قاتلوں سے حضرت کے خون کا انتقام ليا جائے۔ سليمان بن صرد خزاعی کی قيادت ميں کھلے طور پر مسلحانہ تحريک کا آغاز کيا۔ 5000 افراد کے لشکر کی بنو اميہ سے جم کر جنگ ہوئی اور سب کے سب مارے گئے۔ توابين کی تحريک کاايک دلچسپ پہلو يہ ہے کہ يہ لوگ با وجود اس کے کہ کوفہ ميں تھے پھر بھی شام گئے اور بر سراقتدار حکومت سے جنگ کی تاکہ يہ ثابت کر ديں کہ امام حسين عليہ السلام کا قاتل کوئی ايک شخص يا چند اشخاص نہيں ہيں بلکہ يہ حکومت ہے جس نے امام حسين ع کو شہيد کيا ہے۔)

عاشور کے عظيم حادثہ کے بعد شيعہ تحريکيں اپنی ناتوانی کے باوجود مصروف عمل رہيں جس کے نتيجہ ميں پہلے کی طرح دوباره خود کو منظم کرنے ميں کامياب ہو گئيں۔ يہاں تک کہ واقعہ حره پيش آيا۔ اور ميں سمجھتا ہوں واقعہ حره تاريخ تشيع ميں نہايت اہم موڑ ہے۔ در اصل يہی وه واقعہ ہے جس نے شيعہ تحريک پر بڑی کاری ضرب لگائی ہے۔

واقعہ حره

حره کا حادثہ تقريبا 63ھ ميں پيش آيا۔ مختصر طور پر اس حادثہ کی تفصيلات کچھ اس طرح ہیں کہ 63 ہجری ميں بنو اميہ کا کم تجربہ نوجوان مدينہ کا حاکم مقرر ہوا اس نے خيال کيا کہ شيعيان مدينہ کا دل جيتنے کے لئے بہتر ہوگا کہ ان ميں سے کچھ لوگوں کو شام جاکر يزيد سے ملاقات کرنے کی دعوت دی جائے۔ مدينہ کے چند سربراورده افراد، اصحاب نيز ديگر معزز ين سے منتخب کئے جس ميں اکثريت امام زين العابدين ع کے عقيدت مندوں ميں شمار ہوتی تھی, ان لوگوں کو شام جانے کی دعوت دی گئی کہ وه جائيں اور يزيد کے لطف و کرم ديکھ کر اس سے مانوس ہو جائيں اور اس طرح اختلافات ميں کمی واقع ہو جائے۔ يہ لوگ شام گئے اور يزيد سے ملاقات کی چند دن اس کے مہمان رہے ان لوگوں کی خوب پذيرائی کی گئی اور رخصت ہوتے وقت يزيد نے ہر ايک کو کافی بڑی رقم (تقريبا پچاس ہزار سے لے کر ايک لاکھ درہم تک) سے نوازا ليکن۔ جيسے ہی يہ لوگ مدينہ واپس پہنچے، چوں کہ يزيدی دربار ميں پيش  آنے والے الميئے انھوں نے اپنی نظروں سے خود ديکھ لئے تھے لہذا خوب کھل کر يزيد کو مورد تنقيد قرار ديا اور نتيجہ بالکل ہی برعکس ظاہر ہوا ان لوگوں نے يزيد کی تعريف و توصيف کرنے کے بجائے ہر خاص و عام کو اس کے جرائم سے  آگاه کرنا شروع کر ديا۔ لوگوں سے کہا, يزيد کو کس بنياد پر خليفہ تسليم کيا جا سکتا ہے جب کہ شراب و کباب ميں غرق رہنا اور کتوں سے کھيلنا اس کا بہترين مشغلہ ہے۔ کوئی فسق و فجور ايسا نہيں ہے جو اس کے يہاں نہ پايا جاتا ہو۔ لہذا ہم اس کو خلافت سے معزول کرتے ہيں۔ عبدﷲ بن حنظلہ (حنظلہ غسيل الملائکہ) جو مدينہ کی نماياں اور محبوب شخصيتوں ميں سے تھے يزيد کے خلاف آواز بلند کرنے والوں ميں پيش پيش تھے ان لوگوں نے يزيد کو معزول کرکے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دينی شروع کر دی۔ اس اقدام کا نتيجہ يزيد کی طرف سے براه راست رد عمل کی صورت ميں ظاہر ہوا اس نے اپنے ايک تجربہ کار پير فرتوت سردار، مسلم بن عقبہ کو چند مخصوص لشکريوں کے ساتھ مدينہ روانہ کيا کہ وه اس فتنہ کو خاموش کر دے۔ مسلم بن عقبہ مدينہ آيا اور چند روز تک اہل مدينہ کی قوت مقابلہ کو پست کرنے کے لئے شہر کا محاصره کئے رہا يہاں تک کہ ايک دن شہر ميں داخل ہوا اور اس قدر قتل و غارت گری مچائی اور اس قدر ظلم و بربريت کا مظاہره کيا اس حادثہ کے بعد اس کا لقب ہی مسرف پڑگيا اور لوگ اس کو ”مسرف بن عقبہ“ کے نام سے پکارنے لگے۔ يہ واقعہ تمام مسلمانوں خصوصا اہلبيت عليہم السلام کے دوستوں اور ہمنواؤں ميں بے پناه خوف و ہراس پيدا کرنے کا سبب بنا، خاص طور پر مدينہ تقريبا خالی ہو گيا۔ کچھ لوگ بھاگ گئے کچھ لوگ مار ڈالے گئے۔ اہلبيت (ع) کے کچھ مخلص و ہمدرد مثال کے طور پر عبدﷲ ابن حنظلہ جيسے لوگ شہيد کر ديئے گئے۔ اس حادثہ کی خبر پوری اسلامی دنيا ميں پھيل گئی اور سب سمجھ گئے کہ اس قسم کی ہر تحريک کا سد باب کرنے کے لئے حکومت پوری طرح آماده ہے اور کسی طرح کے اقدام کی اجازت دينے کو ہرگز تيار نہیں ہے۔

مختار ثقفی کی شہادت

اس کے بعد ايک اور حادثہ جو مزيد شيعوں کی سر کوبی اور ضعف کا سبب بنا جناب مختار ثقفی کی کوفہ ميں شہادت اور پورے عالم اسلام پر عبد الملک بن مروان کے تسلط کی صورت ميں ظاہر ہوا۔ اور يزيد کی موت کے بعد جو خلفاء  آئے ہيں ان ميں اس کا بيٹا معاويہ ابن يزيد ہے جو تين ماه سے زياده حکومت نہ کر سکا۔ اس کے بعد مروان بن حکم کے ہاتھ ميں اقتدار آيا اور تقريبا دو سال يا اس سے کچھ کم اس نے حکومت کی۔ پھر خلافت کی باگ ڈور عبد الملک بن مروان کے ہاتھ ميں آگئی جس کے لئے مٔورخين کا خيال ہے کہ وه خلفا ئے بنواميہ مين زيرک ترين خليفہ رہا ہے۔ چنانچہ اس کے بارے ميں مشہور ہے کہ

عبد الملک پورے عالم اسلام کو اپنی مٹھی ميں جکڑ لينے ميں کامياب ہو گيا اور خوف و دہشت سے معمور آمرانہ حکومت قائم کر دی۔ حکومت پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لئے عبد الملک کے سامنے صرف ايک راه تھی اور وه يہ کہ اپنے تمام رقيبوں کا صفايا کر دے۔ مختار جو شيعيت کی علامت تھے، مصعب بن زبير کے ہاتھوں پہلے ہی جام شہادت نوش فرما چکے تھے, ليکن عبد الملک شيعہ تحريک کا نام و نشان مٹا ڈالنا چاہتا تھا اور اس نے يہی کيا بھی۔ اس کے دور ميں عراق خصوصا کوفہ جو اس وقت شيعوں کا ايک گڑھ شمار کيا جاتا تھا، مکمل جمود اور خاموشی کی نذر ہو گيا۔ بہر حال يہ حوادث کربلا کے عظيم سانحہ سے شروع ہوئے اور پھر يکے بعد ديگرے واقعہ حره ميں اہل مدينہ کے قتل و غارت، عراق ميں تو ابين کی بيخ کنی، جناب مختار ثقفی اور ابراہيم بن مالک اشتر نخعی نيز ديگر اکابرين شيعہ کی شہادت کا نتيجہ يہ نکلا کہ آزادی کے حصول کی غرض سے ہر تحريک چاہے وه مدنيہ ہو يا کوفہ (کيوں کہ اس وقت يہ دونوں شيعوں کے اہم ترين مراکز تھے) کچل کر رکھ دی گئی، شيعيت سے متعلق پورے عالم اسلام ميں ايک عجيب خوف و ہراس پيدا ہوگيا۔ اس کے بعد بھی جو لوگ ائمہ طاہرين عليہم السلام سے وابستہ ره گئے تھے اپنی زندگی نہايت ہی غربت و کسمپرسی ميں بسر کر رہے تھے۔

اس دور ميں امام ع کا موقف

بعض لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ اگر امام زين العابدين ع بھی بنو اميہ کے نظام حکومت کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتے ہوتے تو وه بھی علم بغاوت بلند کر ديتے, يا کم از کم (مثال کے طور پر) عبد ﷲ بن حنظلہ يا مختار ثقفی سے ملحق ہو جاتے يا يہ کہ آپ (ع) ان لوگوں کی رہبری قبول کر ليتے, اور کھل کر مسلحانہ مقابلہ کرتے۔ ليکن اگر اس دور کے حالات ہمارے پيش نظر ہوں جس ميں امام سجاد ع زندگی بسر کر رہے تھے تو ہمارے لئے سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ اس طرح کی فکر ائمہ عليہم السلام کے مقصد سے قطعی ميل نہيں کھاتی۔ ان حالات ميں اگر امام زين العابدين ع يا ائمہ عليہم السلام ميں سے کوئی بھی ہوتا اور کھل کے کسی مخالف تحريک ميں شامل ہو جاتا يا تلوار لے کے سامنے  آگيا ہوتا تو يقينی طور پر شيعيت کی جڑيں ہميشہ کے لئے کٹ جاتيں۔ اور پھر  آئنده کسی زمانہ ميں مکتب اہلبيت عليہم السلام کے نشو و نما اور ولايت و امامت کے قيام کی کوئی اميد باقی نہ ره جاتی, سب کچھ ختم اور نيست و نابود ہوکر ره جاتا۔ بظاہر يہی وجہ نظر آتی ہے کہ امام سجاد ع مختار ثقفی کے معاملہ ميں ان سے کھل کر کسی طرح کی ہم آہنگی کا اعلان نہيں کرتے, اگر چہ بعض روايتيں اس بات کی شاہد ہيں کہ آپ (ع) کا مختار ثقفی سے مخفی طور پر رابطہ قائم تھا۔ چنانچہ يہ ايک کھلی ہوئی حقيقت ہے کہ امام نے علی الاعلان ان سے کبھی کسی طرح کا رابطہ نہ رکھا۔ بلکہ بعض روايتيں تو کہتی ہيں کہ حضرت ع عام نشستوں ميں مختار سے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کرتے تھے, اور يہ چيزبالکل فطری ہے۔ ظاہر ہے آپ (ع) اس سلسلہ ميں تقيہ سے کام لے رہے تھے, تاکہ دشمن کو ان کے درميان کسی خفيہ رابطہ کا شک بھی نہ ہونے پائے۔ اگر مختار کو کاميابی نصيب ہو جاتی تو حکومت اہلبيت (ع)کے سپرد کر ديتے, ليکن شکست کی صورت ميں جيسا کہ ہوا, امام زين العابدين ع اور مختار کے درميان رابطہ کا علم ہو جانے کے بعد خود امام ع اور آپ کے دوستوں اور ہمنواؤں کو بھی اس کی سخت قيمت چکانی پڑتی اور شايد شيعيت کا قلع و قمع ہو گيا ہوتا۔ لہذا امام سجاد ع ان سے کھل کر کسی طرح کا رابطہ بر قرار کرنا, کسی طرح اپنے موقف کے لئے مفيد نہيں سمجھتے۔

کیا امام زین العابدین ع نے یزید کی بیعت کر لی تھی؟

روايت ميں ہے جس وقت حره کے موقع پر مسلم ابن عقبہ مدينہ منوره پہنچ رہا تھا کسی کو شک نہ تھا کہ سب سے پہلی شخصيت جو اس کے ظلم و جور کا نشانہ بنے گی وه امام زين العابدين ع کی ذات مبارک ہے ليکن حضرت (ع) نے اپنی تدبير و فراست سے کام ليتے ہوئے ايسی حکيمانہ روش اختيار کی کہ يہ بلا آپ (ع) سے دور ہو گئی چنانچہ امام (ع) کا وجود باقی رہا اور اس طرح شيعيت کا اصل محور اپنے مقام پر محفوظ ره گيا۔ البتہ وه روايتيں جو بعض کتب منجملہ ان کے خود بحار الانوار ميں بھی نقل کی گئی ہيں کہ امام ع نے مسلم بن عقبہ کے سامنے اپنی حقارت و عاجزی کا اظہار فرمايا، اس کو بھی ميں کسی صورت قبول کرنے پر تيار نہيں ہوں, بلکہ ميری نظر ميں يہ قطعی امام (ع) پر جھوٹ اور افترا باندھا گيا ہے کيوں کہ,

اولاً يہ کہ ان میں سے کوئی روايت صحيح اسناد پر منتہی نہيں ہوتی۔ ثانياً۔ يہ کہ ان کے بالمقابل دوسری روايتيں موجود ہيں جو مضمون کے اعتبار سے ان کا جھوٹا ہونا ثابت کرتی ہیں۔ امام زين العابدين ع اور مسلم بن عقبہ کی ملاقات کے ذيل ميں متعدد روايتيں ملتی ہيں اور ان ميں سے کوئی ايک دوسرے سے ميل نہيں کھاتی۔ ليکن چوں کہ ان ميں سے بعض روايات ائمہ عليہم السلام کی شخصيت اور ان کے کردار سے زياده قريب ہيں لہذا ہم ان کو قبول کرتے ہيں اور پھر ان کے بالمقابل بہت سی دوسری روايتيں خود بخود غلط قرار پاجاتی ہيں, اور ميرے نزديک ان کے غلط ہونے ميں کوئی شک و شبہ باقی نہيں رہتا۔ بہر حال وه اعمال جو بعض روايتوں ميں بيان کئے گئے ہيں امام ع سے بعيد ہيں ليکن اس ميں بھی کوئی شک نہيں کہ حضرت (ع) نے مسلم بن عقبہ کے مقابلہ ميں کسی معاندانہ رويہ کا اظہار نہيں ہونے ديا کيوں کہ اگر کوئی ايسا طريقہ کار آپ (ع) اپناتے تو قتل کر ديئے جاتے اور يہ چيز امام حسين ع کی اس تحريک کے حق ميں ايک ناقابل تلافی نقصان ثابت ہو سکتی تھی جس کو زنده رکھنا امام سجاد ع کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لہذا ضروری تھا کہ امام سجاد ع زنده رہيں اور اسی طرح جيسا کہ امام جعفر صادق ع سے منقول روايت ميں کہا گيا ہے, رفتہ رفتہ لوگ آپ (ع) سے ملحق ہوتے رہيں اور ان کی تعداد بڑھتی رہے۔ در اصل امام زين العابدين ع کا کام ايسے سخت اور نا مساعد حالات ميں شروع ہوتا ہے جس کا جاری رکھنا عام افراد کے لئے تقريبا ناممکن تھا۔ عبد الملک کا دور جس ميں حضرت (ع) کی امامت کا بيشترين حصہ يعنی تقريبا 30, 32 سال گزرابڑا ہی دشوار دور تھا۔عبد الملک کی پوری مشينری مکمل طور پر آپ کی نگرانی پر لگی ہوئی تھی اس نے ايسے جاسوس مقرر کر رکھے تھے جو امام ع کی زندگی کے ايک ايک پل حتی کہ خانگی اور خصوصی مسائل کی بھی خبر اس تک پہنچاتے رہتے تھے۔

حکومت اسلامی کی تشکيل ائمہ (ع) کا بنيادی ہدف رہا ہے

اس ميں تو کوئی شک نہيں کہ جناب امام سجاد (ع) کا آخری مقصد، اسلامی حکومت قائم کرنا ہے ليکن سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ آخر ان حالات ميں حکومت اسلامی کس طرح قائم ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے چند چيزيں بہت ضروری ہيں۔

1. منزل من ﷲ، صحيح اسلامی افکار و نظريات کی تدوين و تربيت

صحيح اسلامی طرز فکر، جو واقعی طور پر ائمہ عليہم السلام کے پاس تھی اور جو ايک مدت سے تحريف يا فراموشی کی نذر کر دی گئی تھی,  مدون و مرتب ہو اور درس و تبليغ کے ذريعہ عام کی جائے کيوں کہ يہی طرز فکر ہے جس کو اسلامی حکومت کی بنياد و اساس قرار ديا جا سکتا ہے۔ اس حقيقت کے پيش نظر کہ مسلسل طور پر ايک لمبے عرصے تک اسلامی معاشره صحيح اسلامی طرز فکر سے دوری اختيار کئے رہا, بھلا کس طرح ممکن ہو سکتا تھا کہ لوگوں کے ذہنوں پر اسلامی افکار کا نقش قائم کئے بغير اسلامی نظريات پر مبنی ايک حکومت قائم کر دی جائے, جب کہ ابھی حکومت کے حقيقی احکام کی تدوين و ترتيب بھی باقاعده عمل ميں نہ آسکی ہو۔

امام زين العابدين ع کا عظيم ترين کارنامہ يہی ہے کہ آپ (ع) نے اسلام کے بنيادی افکار و نظريات توحيد، نبوت،انسان کی معنوی حيثيت، خدا اور بنده کے درميان رابط نيز ديگر اہم موضوعات کو مدون و مرتب کر ديا ہے چنانچہ زبور آل محمد (ص) يعنی صحيفہ سجاديہ کی اہم ترين خصوصيت يہی ہے۔ اگراپ صحيفہ سجاديہ کا مطالعہ کريں اور اس کے بعد اس زمانے کی عام اسلامی فکر کا جائزه ليں تو  آپ ديکھيں گے کہ دونوں کے درميان کتنا عميق فاصلہ نظر  آتا ہے۔

جس وقت پورا عالم اسلام ماديت ميں گرفتار اپنی مادی ضروريات و خواہشات کی تکميل ميں سر گردان و منہمک ہے۔ خليفہ وقت (عبد الملک بن مروان) سے لے کر اس کے ارد گرد بيٹھنے والے علماء تک (مثلاً محمد بن شہاب زہری جيسے درباری علماء) سب کے سب مفاد پرستی و دنيا طلبی ميں غرق نظر  آتے ہيں۔

امام سجاد ع لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے ان کی اسلامی حميت کو للکارتے ہيں:

آيا ايک حريت پسند انسان ايسا نہيں ہوتا, جو کتّے کی بچی ہوئی غذا اس کے اہل کے لئے چھوڑدے۔

کتّے کی بچی ہوئی غذا کا مطلب يہی دنيوی آرائش، اونچے اونچے محل، شان و شوکت اور چمک دمک۔ وه چيزيں جن کی طرف تمام کمزور دل افراد عبدالملک کے دور ميں کھنچے چلے جارہے تھے۔ وه تمام لوگ جو عبد الملک کی غلامی يا اس کے غلاموں کی غلامی ميں مشغول تھے يا جو کچھ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا تھا اس سے راضی تھے، ان سب کا مقصد يہی کتے کی بچی ہوئی غذا کا حاصل کرنا تھا -امام عليہ السلام اسی لئے فرماتے ہيں کہ کتے کی بچی ہوئی غذا کے پيچھے نہ بھاگتے پھرو, تاکہ مومنين کرام عبدالملک کے پھيلائے ہوئے جال ميں پھنس کر اس کی طرف جذب نہ ہونے پائيں۔

يہاں اسلامی طرز فکر سے مراد معنويات کو اصل ہدف قرار دے کر صحيح اسلامی و معنوی بلنديوں تک پہنچنے کی جد و جہد کرنا اور انسان کا اپنے معبود نيز اس کی طرف سے عائد شده ذمہ داريوں کے تئيں متوجہ رہنا ہے۔ جب کہ اس کے بالمقابل وه مادی طرز فکر ہے جس نے اس دور کے مسلمانوں کو اپنا شکار بنا رکھا تھا۔  بہر حال صرف نمونہ کے طور پر ہم نے ايک بات يہاں ذکر کردی ورنہ امام سجاد ع نے اس طرح کے بے انتہا امور انجام ديئے ہیں جس کے نتيجہ ميں صحيح اسلامی طرز فکر اپنے اصل خد و خال کے ساتھ اسلامی معاشره ميں باقی ره جائے اور اس کو امام زين العابدين ع کا اولين کارنامہ قرار ديا جا سکتا ہے۔

2. اہلبيت عليہم السلام کی حقانيت اور خلافت و امامت و ولایت پر ان کے استحقاق کا اثبات

ان حالات ميں جب کہ دسيوں سال سے پيغمبر اسلام (ص) کی ذريت طاہره کے خلاف پروپيگنڈه کا بازار گرم رہا ہو اور تقريبا پورا عالم اسلام اس شوروغوغا سے لبريز ہو۔ پيغمبر اسلام (ص) کی طرف سے منسوب کرکے ايسی جعلی حديثوں کا انبار لگا ديا ہو جو اہل بيت عليہم السلام کی تحريک کے سو فيصد خلاف ہوں, حتی کہ بعض حديثوں ميں اہل بيت عليہم السلام کو مورد سب ولعن قرار دے ديا گيا ہو، اور يہ حديثيں عوام کے درمياں نشر بھی ہو چکی ہوں۔ لوگوں کو اہلبيت(ع) کی صحيح معرفت اور ان کی معنوی حيثيت اور مقام کا علم ہی نہ ہو۔ تو بھلا بتايئے اہلبيت عليہم السلام کے ہاتھوں حکومت کی تشکيل کيسے ممکن ہو سکتی ہے؟

اسی لئے امام زين العابدين ع کا ايک اہم ترين مقصد يہ بھی تھا کہ لوگوں کے درميان اہلبيت عليہم السلام کی حقانيت کو واضح و آشکار کريں۔ انھيں بتائيں کہ ولایت و امامت اور خلافت و حکومت ان کا حق ہے اور يہی حضرات, پيغمبر ختمی مرتبت (ص) کے حقيقی جانشين ہيں۔ ان کو يہ بتانا تھا کہ اس وقت جو لوگ خلافت و حکومت پر براجمان ہيں, حاکمان کفر و استبداد اور مربيان فسق و نفاق ہيں۔ اور آج اسلامی معاشره ميں عبدالملک بن مروان جيسوں کی حکومت، وه حاکميت نہيں ہے جو اسلام اپنے معاشره کے لئے چاہتا ہے کيوں کہ جب تک عوام ان مسائل سے آگاه و ہوشيار نہ ہوں گے اور اپنے آپ ميں نہ آئيں گے رفتار زمانہ کے ہاتھوں ان پر جو بے حسی طاری ہوگئی ہے اس کے گرد و غبار جب تک ذہنوں سے صاف نہ ہو جائيں گے, امام ع کی نگاه ميں حاکميت کا جو تصور ہے ان کے لئے کبھی قابل قبول نہ ہوگا۔  اگرچہ یہ مسئلہ اسلامی نظريات اور آئيڈيولوجی سے تعلق رکھتا ہے پھر بھی اس کا سياست سے بڑا گہرا ربط ہے۔ دوسرے لفظوں ميں موجوده سياسی نظام کے خلاف ايک سياسی تحريک ہے۔

3. شيعيان آل محمد (ص) کو ايک نقطہ پر جمع کرکے ان کی ايک باقاعده تنظيم کی تشکيل

امام سجاد ع کی تيسری اہم ذمہ داری يہ تھی کہ ايک ايسی تنظيم تشکيل دی جائے جس سے وابستہ افراد دست امامت کے تربيت يافتہ مرکزی ارکان ہوں اور جو  آئنده کے لئے ہر طرح کی سياسی و اسلامی تحريک کا اصل محور قرار پا سکے۔ ليکن ايک ايسے معاشره ميں جہاں لوگ گھٹن، فقر مالی، و معنوی فشار کے زير اثر افرا تفری اور پراگندگی کی زندگی گزار نے کے عادی ہو چکے ہوں حتی کہ خود شيعہ حضرات ايسے سخت دباؤ اور فشار ميں مبتلا کر ديئے گئے ہوں کہ ان کی تنظيميں درہم برہم ہو کر ره گئی ہوں بھلا امام زين العابدين عليہ السلام کے لئے کس طرح ممکن تھا کہ تن تنہا يا اپنے چند گنے چنے نا منظم مخلصين کے ساتھ اپنا کام شروع کر سکيں؟ چنانچہ کسی تحريک کے آغاز سے پہلے امام کے لئے ضروری تھا کہ وه شيعوں کو منظم کريں اور باقاعده ان کی تنظيميں تشکيل ديں۔ اور يہ جہاں تک ميری نظر ہے، امير المومنين ع کے دور ميں موجود تھی البتہ بعد ميں کربلا کے المناک سانحہ، مدينہ ميں حره کے حادثہ اور کوفہ ميں مختار کے واقعہ نے تقريبا ان کی بنياديں متزلزل کرکے رکھ دی تھيں۔ اب ضرورت تھی کہ ان کو دوباره منظم کرکے ان ميں ايک نئی روح پھونک دی جائے۔

ان تينوں بنيادی کاموں کے انجام پاجانے کا مطلب يہ ہے کہ اب اسلامی حکومت يا علوی نظام کے لئے زمين ہموار ہو چکی ہے۔ البتہ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہيں کہ امام جعفر صادق ع کے برخلاف امام زين العابدين ع کے پيش نظر يہ بات ہرگز نہيں تھی کہ خود ان کے زمانہ ميں ہی يہ حاکميت تبديل ہو کر حکومت اسلامی قائم ہو جائے, کيوں کہ معلوم تھا کہ امام زين العابدين ع کے زمانہ ميں اس کے لئے زمين ہموار نہيں ہو سکے گی۔ ظلم و زيادتی حبس اور گھٹن کا ماحول کچھ اتنا زياده تھا کہ محض 30 سال کی مدت ميں اس کا برطرف ہو جانا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ امام سجاد ع مستقبل کے لئے زمين ہموار کر رہے تھے اور آپ ع کا طريقہ کار طويل المدت کے لئے تھا۔ حتی کہ ايسے بھی متعدد قرائن ملتے ہيں جس کے مطابق امام محمد باقر ع کا بھی اپنی زندگی کے دوران (يعنی 95ھ سے 114ھ تک) ايسا کوئی اراده نہيں تھا کہ خود اپنے دور ميں ہی اسلامی حکومت تشکيل دے ديں, لہذا ان کی نظر يں بھی ايک مدت دراز کے بعد ظاہر ہونے والے نتائج پر تھيں۔

دیگر امور

اسلامی حکومت کی تشکيل کے تناظر میں ان تين بنیادی امور کے علاوه اور بھی بہت سے کام انجام پائے مگر ان کو ضمنی و ثانوی حيثيت حاصل ہے, مثلاً متعدد واقعات ملتے ہيں جہاں مجمع عام ميں امام (ع)کے ہمنوا يا خود امام ع کچھ ايسے خیالات کا اظہار فرماتے نظر آتے ہيں جس کا مقصد محض اس گھٹن کی فضا کو توڑ کر اس منجمد ماحول ميں ہوا کا ايک تازه جھونکا پيدا کرنا تھا (البتہ اس طرح کے واقعات بھی اس دور کے ہيں جب تحريک ميں کچھ استحکام پيدا ہوچلا تھا)۔ اسی طرح کا ايک اور ضمنی کام براه راست موجوده سياسی مشينری يا اس کے لواحقين کے ساتھ معمولی طور پنجے نرم کرنا بھی ہے۔ چنانچہ اس طرح کے قضيئے امام ع اور عبد الملک بن مروان کے درميان بار بار پيش آتے رہے ہيں۔ اس کے علاوہ اسی ضمن ميں حضرت (ع) اور عبدالملک سے وابستہ (محمد بن شہاب زہری جيسے) منحر ف علماء کے درميان پيش آنے والے معاملات بھی شامل ہيں۔ امام ع کے دوستوں اور خلفائے وقت کے مابين ہونے والی بعض معرکہ آرائياں بھی اسی فہرست ميں آتی ہيں۔ اور ان سب کا ہدف و مقصد کسی حد تک اس حبس اور گھٹن کے ماحول سے لوگوں کو نجات دلانا تھا۔ اگر کوئی شخص صرف اسی حد تک ميرے تمام معروضات کو اچھی طرح درک کرلے تو ساری کی ساری اخلاقی روايات موعظانہ گفتگو اور پيغامات، عارفانہ اور دعائيں نيز ديگر بے بہا اقوال و ارشادات جو امام چہارم ع سے مروی ہيں يا امام ع کی زندگی ميں واقع ہوتے رہے ہيں خود بخود ايک معنی پيدا کر ليں گے يعنی وه شخص اس بات کو محسوس کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ امام ع کے تمام اقدامات و ارشادات ان ہی تينوں خطوط کے ارد گردگھومتے نظر  آئيں گے جن کی طرف ميں نے ابھی اشاره کيا ہے اور مجموعی طور پر ان تمام امور کا ايک ہی مقصد و ہدف يعنی ايک اسلامی حکومت کی تشکيل ہے۔  البتہ يہاں يہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ امام سجاد ع کو ہر گز اس بات کی فکر اور جلدی نہيں تھی کہ مطلوبہ اسلامی حکومت خود آپ (ع) کے زمانے ميں ہی تشکيل پاجائے بلکہ آپ (ع) جانتے تھے کہ يہ کام مستقبل قريب ميں آپ (ع) کے فرزند امام جعفر صادق ع کے ہاتھوں انجام پانا مقرر ہو چکا ہے (جو آئنده پيش آنے والے حادثات کی بنا پر دوباره معرض التوا ميں پڑ گيا)۔

دعا اور موعظہ, ابلاغ کا بہترين طريقہ

امام ع چوں کہ انتہائی گھٹن کے ماحول ميں زندگی بسر کر رہے تھے اور آپ (ع) کے لئے ممکن نہيں تھا کہ کھل کر صريحی طور سے اپنے موقف اور نظريات بيان کر سکيں لہذا  آپ (ع)نے دعا اور موعظہ کو اپنے اظہار کا ذريعہ قرار ديا ہے۔ امام ع کے زياده تر ارشادات يا شايد يہ کہنا غلط نہ ہو کہ تمام کے تمام بيانات موعظہ کے لب و لہجہ ميں ہيں۔ امام ع نے کتنا حکيمانہ اور مدبرانہ طريقہ کار منتخب کيا ہے۔ بظاہر تو ايسا لگتا ہے کہ امام ع لوگوں کو وعظ و نصيحت کر رہے ہيں, ليکن اسی ضمن ميں جو باتيں لوگوں کے ذہن ميں بيٹھانا چاہتے ہيں غير محسوس طور پر لوگوں تک پہنچا ديتے ہيں اور يہ افکار و نظريات کے ابلاغ کا بہترين طريقہ ہے۔

يہاں ہم امام ع کے ان کلمات کی تحقيق و تشريح کرنا چاہتے ہيں جو کتاب” تحف العقول “ ميں حضرت (ع) سے نقل کئے گئے ہيں۔ ان ميں بعض بيانات وه ہيں جن ميں عام لوگوں سے خطاب ہے جيسا کہ خود بيان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے سننے اور پڑھنے والے امام ع کے خاص الخاص افراد نہيں ہيں۔ يہاں مخاطبين کا دائره کافی وسيع ہے اور ايھا الناس، سے خطاب ہے جو عموميت پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ عام لوگوں سے خطاب کرتے وقت ہميشہ قرانی آيات سند کے طور پر پيش کی گئی ہيں, کيوں کہ عوام الناس امام(ع) کو امام کی حيثيت سے نہيں پہچانتے وه تو ہر بات کے لئے دليل و استدلال چاہتے ہيں۔ اس روايت ميں تقريبا پچاس يا اس سے بھی زائد موارد ميں قرانی آيات کا براه راست يا استعاره کے طور پر استعمال نظر آتا ہے۔ ليکن بعد کے بيان ميں جہاں جہاں مومنين سے خطاب ہے ايسا نہيں ہے کيوں کہ وه امام کی معرفت رکھتے ہيں اور ان سے امام اپنی گفتگو کے دوران چوں کہ وه امام کی بات قبول کرتے ہيں، قران سے استدلال پيش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ خطاب ايھا المومنين, ايھا الاخوة يا اسی کے مثل کسی اور عنوان سے ہوتا ہے۔ اور اگر شروع سے آخر تک جائزه ليں تو قرانی  آيات بہت کم نظر آتی ہيں۔ امام سے ايک مفصل روايت نقل کرتے ہوئے ”صاحب تحف العقول“ فرماتے ہيںکہ يہ موعظہ اس لئے تھا کہ حضرت (ع) کے شيعہ اور حضرت (ع) کے دوست ہر جمعہ کے دن اپنوں کے مجمع ميں يا تنہا انفرادی طور پر اسے پڑھا کريں:

اے لوگو!  تقوائے الہی اختيار کرو اور يا د رکھو کہ  آخر خدا کو منہ دکھانا ہے۔ تمھارا فرض ہے کہ اسلام کو صحيح طور پر سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس وقت سے ڈرو جب تم کو لوگ تن تنہا قبر کے حوالے کر ديں گے اور منکر و نکير تمھارے پاس آئيں گے اور پہلی چيز جس کے باره ميں تم سے سوال کريں گے، تمھارے خدا سے متعلق ہوگی جس کی تم پر ستش و عبادت کرتے ہو۔ اور تم سے اس نبی کے بارے ميں سوال کريں گے جو تمھاری طرف بھيجا گيا تھا۔ اور اس دين کے بارے ميں پوچھيں گے جس کی تم نے پيروی کی ہے۔ اور تمھاری اس کتاب کے سلسلہ ميں خبر ليں گے جس کی تم تلاوت کيا کرتے تھے, اور اس امام کے بارے ميں بھی سوال ہوگا جس کی ولایت (حکومت) کا تم دم بھرتے رہے ہو۔

يہاں امام ع مسئلہ امامت کو واضح کر رہے ہيں در اصل ائمہ عليہم السلام کے يہاں مسئلہ امامت مسئلہ حکومت سے الگ نہيں ہے ائمہ کے نزديک مسئلہ ولایت (حکومت) اور مسئلہ امامت ميں کوئی فرق نہيں پايا جاتا۔ اگرچہ ممکن ہے ولی (حاکم) اور امام کے معنی آپس ميں کچھ تفاوت رکھتے ہوں ليکن يہ دونوں مسئلہ, مسئلہ امامت ومسئلہ ولایت, ائمہ کی زبان ميں ايک ہيں اور ان سے ايک ہی معنی مراد ہيں۔ اس جگہ حضرت (ع) اسی امام کے باره ميں سوال کی بات کر رہے ہيں جودينی طور پر لوگوں کی ہدايت و اگاہی کا بھی متکفل و ذمہ دار بنايا گيا ہے اور دنيوی اعتبار سے ان کے امور زندگی کا بھی نگراں اور ذمہ دار قرار ديا گيا ہے, يعنی پيغمبر اسلام (ص) کا جانشين۔

آج ہم جانتے ہيں امام يعنی معاشره کا رہبر و قائد۔ امام يعنی وه جس سے ہم دين بھی حاصل کرتے ہيں اور دنيا بھی اسی کے ہاتھ ميں ہے۔ جس کی اطاعت ہم پر دينی امور ميں بھی واجب ہے اور دنيوی معاملات ميں بھی فرض ہے۔ خوش قسمتی سے دور حاضر ميں لفظ امام نے ہمارے ذہنوں ميں اپنا صحيح مقام حاصل کر ليا ہے ورنہ آپ ملاحظہ فرمائيں صديوں سے دنيا ئے تشيع ميں يہ مسئلہ کتنی غلط فہمی کا شکار رہا ہے لوگ خيال کرنے لگے تھے کہ ايک شخص وه ہے جو معاشره پر حکومت کر رہا ہے نظم زندگی سے متعلق امور اس کے ہاتھ ميں ہيں بندش و آزادی سے لے کر جنگ و صلح تک سب کچھ اسی کے اختيار ميں ہے وہی ماليات (ٹيکس) مقرر کرتا ہے اور وہی ہمارے اچھے اور برے کا مالک و ذمہ دار ہے, اور اسی کے بالمقابل ايک شخص اور بھی ہے جس کا کام لوگوں کا دين درست کرنا ہے۔ پہلے کو حاکم کہتے ہيں دوسرے کو غيبت کے زمانہ ميں عالم اور قبل از غيبت امام کہتے ہيں۔ يعنی ائمہ عليہم السلام کے زمانہ ميں ايک امام کا مقام ہم وہی تصور کرنے لگے تھے جو غيبت امام کے زمانے ميں ايک عالم دين کی ہوتی ہے ظاہر ہے يہ تصور قطعا غلط ہے۔ در اصل امام، پيشوا اور ہادی کو کہتے ہيں, جيسا کہ صادق آل محمد ع منی يا عرفات ميں پہنچتے ہيں ايک مرتبہ يہ آواز بلند ارشاد فرماتے ہيں:

اے لوگو, بے شک رسول اللہ (ص) ہی امام تھے۔

امام اس کو کہتے ہيں جو لوگوں کے دين اور دنيا کا ذمہ دار ہوتا ہے، چنانچہ امام سجاد ع کے دور ميں بھی جس وقت اسلامی معاشره کی حکومت و فرمانروائی عبد الملک بن مروان کے ہاتھ ميں تھی، لوگ امام کا مفہوم غلط سمجھ بيٹھے تھے۔ معاشره کی امامت کا مطلب ہی لوگوں کے مسائل حيات نيز تمام بندش و آزادی کے نظام کی نگرانی و تحفظ کرنا ہے اور يہ امامت کا ايک بڑا ہی اہم شعبہ ہے۔ يہ منصب اہل سے لے کر نااہلوں کے سپرد کر ديا گيا تھا, اور وه نااہل خود کو امام سمجھتا بھی تھا وہی نہيں بلکہ عرصہ تک عوام بھی اس کو امام ہی سمجھا کرتے تھے۔ چنانچہ لوگ عبد الملک سے پہلے مروان بن حکم اور اس سے پہلے يزيد اور اس کے پيش رؤوں کو, اسی طرح عبدالملک کے بعد اس کی جگہ پر آنے والے دوسرے لوگوں کو اپنا امام تصور کرتے رہے۔ ان کو معاشره کا رہبر نيز لوگوں کے اجتماعی مسائل پر حاکم کے عنوان سے قبول کرتے تھے۔ اور يہ بات لوگوں کے ذہنوں ميں بيٹھ چکی تھی۔ جس وقت امام زين العابدين ع فرماتے ہيں, "قبر ميں تم سے امامت کے بارے ميں سوال کيا جائے گا", تو اس کا مطلب يہ ہے کہ امام (ع) متوجہ کرنا چاہتے ہيں کہ فيصلہ کر لو کہ جب نکيرين سوال کريں گے کہ  آيا تم نے جس کو اپنا امام منتخب کيا تھا وه واقعی امام تھا؟ وه شخص جو تم پر حکومت کر رہا تھا، معاشره کی رہبری جس کے ہاتھ ميں تم نے دے رکھی تھی کيا وه حقيقتاً امام ہونے کا مستحق تھا؟ کيا وه وہی شخص تھا جس کی امامت پر خدا راضی تھا؟ اس کا کيا جواب دوگے؟ يعنی اس طرح حضرت (ع) لوگوں کو اس مسئلہ کی نزاکت کا احساس دلا کر انھيں بيدار کر رہے تھے۔ گويا بالکل غير محسوس طور پر مسئلہ امامت جس کے سلسلہ ميں بنو اميہ کی پوری مشينری کسی طرح کی کوئی بات سننے پر قطعی تيار نہ تھی امام ع اس کو موعظہ ميں ڈھال کر ايک عمومی خطاب کے ضمن ميں پيش کر کے لوگوں کے ذہن و احساس کو زنده وبيدار کر رہے تھے۔ يہاں امام ع کی روش اور طريقہ کار ميں ٹھہراؤ پايا جاتا ہے کسی طرح کی عجلت نظر نہيں آتی۔ اگے چل کر جہاں امام (ع) نے ذرا سختی اور تيز ی سے کام ليا ہے ہم اس کا بھی ذکر کريں گے۔

مختصر يہ کہ عوام الناس سے مربوط اپنے عمومی خطاب ميں امام ع موعظہ کی زبان ميں اسلامی معارف منجملہ وه حقائق جن پر حضرت (ع)کی خاص توجہ بھی، لوگوں کے ذہنوں ميں زنده کر رہے ہيں آپ (ع)کی کوشش ہے کہ عوام ان چيزوں کو ياد رکھيں۔ اس قسم کے خطابات ميں دو نکتے خاص طور پر توجہ کے مستحق ہيں۔ اوالاً يہ کہ عوام الناس سے کئے جانے والے يہ خطاب تعليمی نقطہ نظر سے نہيں پيش کئے گئے ہيں بلکہ ان کی نوعيت تذکر و ياد دہانی کی ہے يعنی يہاں امام ع بيٹھ کر عوام کے سامنے مسئلہ توحيد کے دريچے کھولنے يا مسئلہ نبوت کی گھتياں سلجھانے کی کوشش نہيں کرتے بلکہ محض تذکر و ياددہانی مقصود ہے۔ مثال مسئلہ نبوت کو لے ليجئے۔ ظاہر ہے امام سجاد ع جس معاشره اور جس زمانہ ميں زندگی بسر کررہے تھے ابھی پيغمبر اسلام (ص) کو گزرے ہوئے اتنی زياده مدت نہيں ہوگئی تھی کہ مکمل طور اعتقادات اسلامی انحراف ياتحريف کا شکار ہوچکے ہوں اس زمانہ ميں بہت سے ايسے لوگ موجود تھے جنھوں نے پيغمبر اسلام (ص) کو اپنی آنکھوں سے ديکھا تھا، اور ائمہ اطہار عليہم السلام ميں سے۔ اميرالمومنين ع امام حسن ع اورامام حسين ع کو ديکھنے والے بھی موجود تھے اور اجتماعی نظام کے اعتبار سے ابھی وه نوبت نہيں پہنچی تھی کہ لوگ مسئلہ توحيد ونبوت کے سلسلے ميں يا مسئلہ معاد وقران کے بارے ميں کسی بنيادی واصولی شک وشبہ اور تحريف سے دوچار ہوں۔

ہاں يہ ضرور کہاجا سکتا ہے کہ اکثريت ان کو بھلا بيٹھی تھی۔ مادی زندگی اس بات کی موجب ہوئی کہ لوگ اسلام، اسلامی، اعتقادات اور ان کی عظمت واہميت کے بارے ميں فکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہيں کرتے تھے۔ معاشره ميں دنيوی ومادی طمع نے اس شدت کے ساتھ لوگو ں کواپنا اسير بناليا تھا کہ انسانی زندگی ميں معنويات وخيرات کے سلسلہ ميں تقابل و موازنہ کا بھی کوئی ميدان موجود ہے؟ لوگوں کے ذہنوں سے بالکل نکل چکا تھا, اور کسی کو اس ميدان ميں آگے بڑھنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ اور اگر اس طرف کوئی قدم بڑھاتا بھی تو اس ميں ظاہر داری اور سطحيت کا عمل دخل ہوتا۔ توحيد کے وه آثار و فوائد جو پيغمبر اکرم (ص) کے دور ميں يا اس سے متصل قريبی زمانہ ميں لوگوں پر مرتب ہوتے تھے اور اس سلسلے ميں وه احساس و ادراک اور وه ذمہ داری اب مفقود ہو چکی تھی لہذا فقط تذکر و ياد دہانی کی ضرورت تھی تاکہ لوگوں ميں ادراک پيدا ہوجائے ورنہ دين ميں ابھی کوئی ايسی تحريف نہيں ہوئی تھی جس کی تصحيح ضروری ہو۔

اس کے برخلاف بعد کے زمانوں ميں مثال کے طور پر امام جعفر صادق ع کے دور کو لے ليجئے يہ بات اپنی حد سے آگے بڑھ چکی تھی اس وقت خود مسلمانوں کے درميان بہت سے متکلمين يا دوسرے لفظوں ميں بہت سے فلسفی اور منطقی پيدا ہو گئے تھے جو طرح طرح کے ناموں سے بڑی بڑی مسجدوں, مسجد مدينہ، مسجد شام، حتی کہ خود مسجد الحرام ميں آکر بيٹھ جاتے تھے اور غلط افکار و عقائد کی باقاعده تعليم و تدريس کرتے تھے۔ وہاں ابن ابی العوجا جيسے افراد بھی موجود تھے جو زنديقيت و دہريت یعنی وجود خدا سے انکار کا درس ديا کرتے تھے اور اس پر استدلال بھی پيش کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام جعفر صادق ع کے بيانات کا ہم جائزه ليتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ حضرت (ع) توحيد و نبوت يا اسی کے مثل دوسرے مسائل باقاعده استدالال کے ساتھ بيان فرماتے ہيں، ظاہر ہے دشمن کے استدلال کے خلاف استدلال کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔

جب کہ امام زين العابدين ع کے بيانات ميں يہ چيزيں نہيں ملتی۔ حضرت (ع) اسلامی مطالب پيش کرتے وقت منطقی استدلال عوام کے سامنے پيش نہيں کرتے, بلکہ صرف تذکر و ياد دہانی کے طور پر اشاره کر ديتے ہيں۔ ديکھو! قبر ميں تم سے توحيد و نبوت کے سلسلہ ميں سوالات کئے جائيں گے۔ آپ نے ملاحظہ فرمايا يہ صرف ذہن کو ايک ٹہوکا دينے کے لئے ہے کہ انسان ان مسائل پر سوچنے کے لئے مجبور ہو جائے اور وه چيزيں جو غفلت و فراموشی کی نذر ہو چکی ہے ذہن دوباره اس کی طرف متوجہ ہو جائے، خلاصہ بحث يہ کہ امام سجاد عليہ الصلوة و السلام کے دور ميں کوئی ايسی چيز نہيں ملتی جو اس بات پر دلالت کرے کہ لوگ حتی ارباب حکومت و سلطنت بھی، اسلامی فکر و نظر سے کھل کر بغاوت و برگشتگی پر  آماده ہو ں ہاں صرف ايک موقع مجھے نظر آيا اور اس کا اظہار يزيد کے اس شعر سے ہوتا ہے جواس نے غرور ومستی ميں ڈوب کر اس وقت پڑھا تھا جب خانوادٔه رسول اکرم (ص) کو اسير کرکے اس کے دربار ميں پيش کيا گيا, وه کہتا ہے:

(معاذ ﷲ) بنی ہاشم نے حکومت و سلطنت کے لئے ايک کھيل کھيلا تھا نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی۔

يعنی اس کو دين و وحی سے کوئی مطلب نہ تھا۔ ورنہ حتی کہ عبد الملک اور حجاج بن يوسف جيسوں ميں بھی عقيده توحيد يا عقيده نبوت سے کھل کر مخالفت کرنے کی جرأت نہ تھی۔ عبد الملک بن مروان وه شخص ہے جو اس کثرت سے قران کی تلاوت کيا کرتا تھا کہ اس کو لوگ قراء قران ميں شمار کرتے تھے۔ چنانچہ کہتے ہيں جس وقت اس کو خبر دی گئی کہ تم خليفہ ہو گئے اور حکومت پر فائز ہوئے تو اس نے قران کو بوسہ ديا اور کہا, اب ہماری اور تمھاری ملاقات قيامت ميں ہوگی۔

حقيقت بھی يہی تھی, پھر اس کے بعد اس نے کبھی قران اٹھاکر نہ ديکھا۔ حجاج بن يوسف کيسا ظالم تھا آپ نے سنا ہی ہوگا ليکن يقينا جتنا آپ نے سنا ہے وه اس کے مظالم سے کہيں کم ہے۔ اس کے جيسا شخص بھی جب منبر سے خطبہ ديتا ہے تو لوگوں کو تقوائے الہی کی تلقين کرتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ امام سجاد ع کی زندگی ميں جو کچھ ملتا ہے اس کا ماحصل عوام کو اسلامی افکار و نظريات کی طرف متوجہ اور خبردار کرناہے تاکہ لوگوں کے فکری بہاؤ کو ماديت کے بجائے خدا، اس کے دين اور قران کی طرف موڑ ديا جائے-

ہم فکر جماعت کی تشکيل

بہر حال، يہ امام ع کے بيانات کی ايک قسم تھی۔ دوسری قسم کے بيانات وه ہيں جن ميں امام زين العابدين ع کے مخاطب کچھ مخصوص افراد ہيں اگر چہ يہ مشخص نہيں ہے کہ يہ کن لوگوں سے خطاب ہے ليکن يہ کاملاً طے ہے کہ آپ کا خطاب ايک ايسے گروه سے ہے جو موجوده حکومت سے بيزار اور اس کا مخالف ہے چاہے وه جو لوگ بھی ہوں۔ اور شايد يہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ يہ وہی گروه ہے جو امام ع کی اطاعت اور حکومت اہلبيت (ع) پر يقين و اعتقاد رکھتا ہے۔ کتاب” تحف العقول “ميں امام ع کے اس قسم کے بيانات کا ايک نمونہ موجود ہے:

خدا وند عالم ہم کو اور تم کو ظالموں کے مکر و فريب، حاسدوں کی بغاوت و سر کشی اور جابروں کی جبر و زيادتی سے محفوظ و مامون رکھے۔

خود خطاب کا انداز بتاتا ہے کہ امام ع اور آپ کا مخاطب گروه دونوں اس جہت ميں شريک ہيں يعنی موجوده حکومت و نظام کی طرف سے وه سب کے سب خطره ميں ہيں اور ظاہر ہے کہ يہ بات ايک مخصوص گروه سے تعلق رکھتی ہے اور اس جماعت کو لفظ مومنين يا اہلبيت کے محبين و مقربين سے تعبير کيا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اس انداز کے خطابات ” يا ايھاالمٔومنون “ سے شروع ہوتے ہيں۔ جب کہ پہلی نوعيت کے بيانات ميں ”ايھا الناس“ يا بعض موارد ميں”يابن آدم“ سے خطاب کيا گيا ہے۔ يہ طاغوتی افراد اور ان کے مطيع و فرمانبردار جو دنيا کے حريص، اس کے شيدائی، اس پر فريفتہ و قربان اور اس کی طرف دوڑ نے والے لوگوں سے ہيں تم کو فريب ميں مبتلا نہ کر ديں۔

يہاں مومنين سے خطاب کے وقت اصل لب و لہجہ ميں ان کو شر سے محفوظ رہنے اور آئنده ہم فکر ی کے ساتھ کام کرنے کے لئے آماده کيا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے موجوده طاغوتی نظام کے طرفداروں اور ائمہ کے ہمنواؤں کے درميان اندر اندر جو شديد مخالفت اور مقابلہ آرائی جاری تھی اس کی وجہ سے ائمہ عليہم السلام کے چاہنے والوں کو بڑی سخت محروميت اور رنج و مصيبت جھيلنی پڑ رہی تھی۔ چنانچہ امام ع کے اس بيان ميں اس نکتہ کو پيش نظر رکھتے ہوئے مومنين کو اس بات سے خبردار کيا گيا ہے کہ اس دنيا کی وقتی چمک دمک اور جھوٹی نمائش کے چکر ميں اگر آگئے تو اس کی قيمت کے طور پر تم کو اہل طاغوت سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اور يہ انداز اور لب و لہجہ نہ صرف اس بيان ميں بلکہ امام ع سے منقول اور بھی بہت سے دوسرے مختصر اقوال و روايات ميں آپ مشاہده فرماسکتے ہيں۔ اگر آپ ان کو ديکھيں تو محسوس کريں گے کہ امام ع نے لوگوں کو دنيا سے پرہيز کی دعوت دی ہے۔ دنيا سے پرہيز سے کيا مطلب ہے؟ يعنی لوگوں کو اس لہر سے محفوظ رکھيں جو انسان کو ناز و نعم ميں غرق کر ديتی ہے اور اس کے دام ميں گرفتار ہو کر انسان اپنے ايمان سے ہاتھ دھو بيٹھتا ہے اور اس کی انقلابی جد و جہد سرد پڑ جاتی ہے۔ اور يہ دعوت مومنين سے متعلق خطابات ميں ملتی ہے عوام الناس سے خطاب کے دوران يہ انداز بہت کم نظر آتا ہے۔ عوام سے خطاب کے وقت، جيسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہيں زياده تر جو لب و لہجہ اپنايا گيا ہے وه ہے کہ : لوگو، خدا کی طرف متوجہ رہو قبر و قيامت کا دھيان رکھو، اپنے کو کل کے لئے آماده کر و يا اسی طرح کی دوسری باتيں۔

ان حقائق کی روشنی ميں اگر کوئی سوال کرے کہ اس دوسرے قسم کے خطابات سے امام ع کا مقصد کيا تھا؟ تو اس کا جواب يہ ہے کہ امام ايک ہم فکر جماعت تيار کرنا چاہتے ہيں امام (ع) چاہتے ہيں کہ کسی ضروری موقع کے لئے مومنين کا ايک گروه رہے يہی وجہ ہے ان لوگوں کو اعلی اقتدار کی ہوس اور جھوٹی مراعات کی چکا چوند سے محفوظ رکھيں اس دوسرے قسم کے بيان ميں امام (ع) بار بار موجوده حاکم نظام کا تذکره کرتے ہيں جب کہ گزشتہ قسم کے بيان ميں يہ چيز اتنی وضاحت کے ساتھ نظر نہيں  آتی يہاں امام سجاد ع بڑے ہی سخت لب ولہجہ ميں حکومتی مشينری کو مورد ملامت قرار ديتے ہوئے اس کو شيطان کا ہم پلہ بتاتے ہيں مثال کے طور پر فرماتے ہيں:

تم لوگ جن امور سے ہر شب و روز دو چار رہتے ہو (يعنی) يہ ظلمت خيز فتنے نئی نئی بدعتيں, وه بدعتيں جو ظالم نظام کی اختراع ہيں, ظلم و جور پر مبنی سنتيں اور زمانہ بھر کی سختياں۔ يہ سلطنت کا خوف و ہراس۔ اور شيطانی وسوسے۔ يہ حوادث جو انسانی زندگی ميں شب و روز پيش آتے ہيں۔ خصوصا ايسے گھٹن کے ماحول ميں دلوں کو ان کی نيت اور جہت سے موڑ ديتے ہيں، جہاد کے شوق اور اس کے محرکات کو ختم کر ديتے ہيں۔ موجوده ہدايت کو يعنی وه ہدايت جو موجوده معاشره ميں پائی جاتی ہے اس کی طرف سے ذہنوں کو غافل و برگشتہ کر ديتے ہيں۔ (اور انسان سے) اہل حق کی معرفت سلب کرکے فراموشی ميں مبتلا کر ديتے ہيں اور اہل حق کی ياد کو ان کے دلوں ميں باقی نہيں رہنے ديتے۔

يہاں امام ع ذکر سلطان کے فورا بعد وسوسہ شيطان کا ذکر کر تے ہيں يعنی پوری صراحت کے ساتھ حاکم وقت کا ذکر کرتے ہيں اور اس کو شيطان کا دست راست قرار ديتے ہيں۔ امام ع کے اس پورے بيان ميں وہی اسلوب وانداز پايا جاتا ہے جس کا ہم نے شروع ميں ذکر کيا ہے يعنی لوگوں کو موعظہ و نصيحت کے انداز ميں خبر دار کر رہے ہيں کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ اس طرح کے حوادث زندگی ان کو ان کی مجاہدانہ روش سے غافل بنا ديں اور انھيں ان کے راستہ سے منحرف کرديں اور دل و دماغ اس کی ياد سے خالی ہو جائے۔ امام ع کے ايسے متعدد بيانات ملتے ہيں جن ميں سلطان و حاکم جور کا ذکر کيا گيا ہے۔ ايک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہيں:

ايسا نہ ہوکہ تم لوگ گناه گاروں کی ہم نشينی اختيار کو لو اور ستم گروں کی مدد کرنے لگو۔

يہاں گناہگاروں سے مراد کون لوگ ہيں؟ يہ وہی لوگ ہيں جو عبدالملک کے ظالمانہ نظام کا جز بن چکے ہيں۔ امام ع ان کی ہم نشينی سے منع کر رہے ہيں کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ تم لوگ ظالموں کی مدد کا ذريعہ بن جاؤ۔ اب ان حقائق کی روشنی ميں امام سجاد ع کی تصوير پردٔه تخيل پر اتار کر ديکھئے کہ حضرت کی کيسی شخصيت آپ کے ذہن ميں ابھر کر سامنے آتی ہے آيا اب بھی وہی مظلوم و بے زبان کمزور و بيمار امام جو امور زندگانی سے کوئی مطلب نہيں رکھتا آپ کے ذہن ميں آتاہے؟ امام ع اپنے کچھ مومن دوستوں طرفداروں اور بہی خواہوں کو ايک جگہ جمع کرتے ہيں اور موجوده حالات ميں ان کو ظالم حکام اور درباريوں کی قريب وہم نشينی نيز اپنی مقدس مہم اور جد و جہد سے غافل و بے پرواه ہونے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہيں اور ان کو اجازت نہيں دیتے کہ وه اپنی مجاہدانہ سر گرميوں سے منحرف ہو جائيں۔ امام ع ان کے ايمانی جذبات کو تر و تازه اور زنده و باقی رکھنا چاہتے ہيں تاکہ ايک روز ان کا وجود اسلامی حکومت کے قيام کی راه ميں موثر ثابت ہو سکے۔

فلسفہ امامت کا بیان

فلسفہ امامت کی ذیل میں حضرت (ع) کے وه ارشادات بھی ہيں جن ميں اہل بيت عليہم السلام سے وابستہ افراد کے گزشتہ تجربات کا آپ نے ذکر فرمايا, مثلاً ارشاد فرمایا:

کيا تم لوگوں کو ياد ہے کہ گزشتہ ادوار ميں ظالم و جابر حکمرانوں نے تم پر کيا کيا زيادتياں کی ہيں (یعنی معاويہ، يزيد اور مروان وغيره کے ہاتھوں مثلاً حجر بن عدی اور رشيد ہجری کی شہادت, واقعہ کربلا، واقعہ حره وغيره) ميری جان کی قسم، وه گزشتہ واقعات جو تمھاری آنکھوں کے سامنے گزر چکے ہيں فتنوں کا ايک لامتناہی سلسلہ جس ميں ايک دنيا غرق نظر آتی تھی, تم لوگوں کو ان حوادث و تجربات سے فائده اٹھانا چاہئے اور ان کو اپنے لئے درس و استدلال بناتے ہوئے زمين پر فساد پرپا کرنے والے گمراه اور بدعتی افراد سے دوری و اجتناب کر لينا چاہئے۔ تمھيں اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہے کہ اہل بغی و فساد, يعنی يہی حکام جور، جب تسلط حاصل کر ليں گے تو تمھارے ساتھ کس طرح پيش  آئيں گے۔

امام ع چاہتے ہيں کہ گزشتہ تجربات اور تلخ ترين يادوں کو تازه کرکے لوگوں کے مجاہدانہ عزم و اراده ميں مزيد پختگی پيدا کريں, کہ تمھيں ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے، اور ان کے مقابلہ ميں صف آرائی کرنی چاہئے۔ امام ع نے اپنے بيان ميں مسئلہ امامت کو بڑی صراحت کے ساتھ پيش کر ديا ہے، مسئلہ امامت يعنی يہی خلافت و ولایت، مسلمانوں پر حکومت کرنے اور نظام اسلامی کے نافذ کرنے کا مسئلہ ہے، يہاں امام سجاد ع مسئلہ امامت کتنے واضح انداز سے بيان کرتے ہيں جب کہ اس وقت کے حالات ايسے تھے کہ اس قسم کے مسائل اس صراحت کے ساتھ عوام ميں پيش نہيں کئے جا سکتے تھے امام (ع) فرماتے ہيں:

فرمان الہی اور اطاعت رب کو مقدم سمجھو اور اس کی اطاعت و پيروی اختيار کرو جس کی اطاعت و پيروی خدانے واجب قرار دی ہے۔ اور جو کچھ تم پر طاغوتوں (عبد الملک وغيره) کی طرف سے عائد کيا جاتا ہے اس کو خدا کی اطاعت کے زمره ميں رکھتے ہوئے خدا کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت پر مقدم قرار نہ دو۔

امام ع نے اس منزل ميں امامت کی بنياد اور فلسفہ کو شيعی نقطہ نظر سے پيش کيا ہے خدا کے بعد وه کون سے لوگ ہيں جن کی اطاعت کی جانی چاہئے؟ وه جن کی اطاعت خدا نے واجب قرار دی ہے اگر لوگ اس وقت اس مسئلہ پر غور فکر سے کام ليتے تو بڑی آسانی سے يہ نتيجہ نکال سکتے تھے کہ عبدالملک کی اطاعت واجب نہيں ہے کيوں کہ خدا کی طرف سے عبد الملک کی اطاعت واجب کئے جانے کا کوئی سوال ہی پيدا نہيں ہوتا، عبد الملک کا اپنے تمام ظلم و جور اور بغی وفساد کی وجہ سے لائق اطاعت نہ ہونا ظاہر ہے۔

اصل ميں امام ع نے اپنے بيان کے اس ٹکڑے ميں بھی مسئلہ امامت بڑی صراحت کے ساتھ پيش کر ديا ہے۔ حضرت (ع) نے گزشتہ بيان ميں بھی اور اس بيان ميں بھی دو بنيادی اور اساسی مسائل پر توجہ دلائی ہے چنانچہ دونوں بيانات ميں مذکوره تين مراحل تبليغ ميں سے دو مرحلے يعنی لوگوں کے اسلامی افکار و عقائد کی ياد دہانی تاکہ لوگ عقائد اسلامی کا پاس و لحاظ کريں اور ان دينداری کا شوق پيدا ہو سکے اور اس کے بعد دوسرا مسئلہ ” ولایت امر“ يعنی نظام اسلامی ميں حکومت و قيادت کا استحقاق واضح کرنا ہے۔ امام ع اس وقت لوگوں ميں ان دونوں مسائل کو بيان کرتے ہيں اور درحقيقت اپنے مد نظر نظام علوی يعنی اسلامی و الہی نظام کی تبليغ کرتے ہيں۔

تنظيم کی ضرورت

امام ع کے يہاں ايک تيسری نوعيت کے حامل بيانات بھی ملتے ہيں جوان دونوں سے بھی زياده توجہ کے مستحق ہيں ان بيانات ميں حضرت (ع) کھلے طور پر لوگوں کو ايک اسلامی تنطيم کی تشکيل کی طرف متوجہ کرتے ہيں البتہ يہ بات ان ہی لوگوں کے درميان ہوئی ہے جن کو امام (ع) کا اعتماد حاصل رہا ہے ورنہ اگر عام لوگوں کو اس قسم کی کسی جماعت کی تشکيل کی دعوت دی گئی ہوتی تو اس کا پرده راز ميں رہنا مشکل ہو جاتا اور حضرت (ع)کے لئے بڑی زحمت اور پريشانی کا سبب بن جاتا۔ خوش قسمتی سے ” تحف العقول “ ميں اس نوعيت کے بيانات کا بھی ايک نمونہ موجود ہے جسے ہم يہاں نقل کر رہے ہيں۔ امام (ع) کا بيان يوں شروع ہوتا ہے:

دنيا کے وه زاہدين جو دنيا کے پيچھے نہيں بھاگتے اور اپنی دلچسپی  آخرت پر مرکوز رکھتے ہيں ان کی پہچان اور علامت يہ ہے کہ ان کے جو دوست اور ساتھی ہم فکر و ہم عقيده, بلکہ ہم دل اور ہم مشرب نہيں ہوتے ان کو ترک کرديتے ہيں۔

کيا يہ واضح طور ايک شيعی تنظيم کی تشکيل کی دعوت نہيں ہے؟ اس بيان سے لوگوں کو يہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وه لوگ جو ان کے مطالبات و خیالات سے اتفاق نہيں رکھتے اور جن کے احساس و جذبات بالکل مختلف ہيں جو حکومت حق, يعنی علوی نظام نہيں چاہتے وه ان سے کناره کش ہو کر ان کے لئے اجنبی اور بيگانہ بن جائيں۔ اس کا يہ مطلب نہيں کہ ان کے يہاں آمد و رفت اور تعلقات ختم کر ليں۔ يہ تعلقات ويسے ہی ہوں جيسے پہلے تھے, يعنی ان سے مليں ليکن احتياط کے ساتھ۔ اس طرح کے بيانات خود امام سجاد ع اور امام جعفر صادق ع اور امام محمد باقر ع نيزان کے بعد کے کم از کم تين چار ائمہ کے يہاں مجھے ملے ہيں۔ حتی کہ امير المومنين ع کے فرمودات ميں بھی منظم و مرتب اسلامی جماعت کی تشکيل کی طرف اشارے موجود ہيں۔  

رسالہ حقوق

امام زين العابدين ع کے کچھ بيانات و ارشادات ايسے بھی ہيں جن ميں پيش کئے جانے والے مطالب کلی نوعيت کے حامل ہيں۔ مثلاً کتاب جو "رسالہ حقوق" کے نام سے مشہور ہے حضرت (ع) کا ايک خط ہے جو  آپ نے اپنے کسی محب کو لکھا ہے اور اس ميں ايک دوسرے کے تئيں انسانی حقوق و ذمہ داری کا ذکر فرمايا ہے۔ امام ع نے اس خط ميں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ايک دوسرے پر کيا حقوق ہيں, ان کا تفصيلی جائزه پيش کيا ہے۔ مثلاً خدا کے حقوق، اعضا ؤجوارح کے حقوق، کان کے حقوق، انکھ کے حقوق، زبان کے حقوق، ہاتھ کے حقوق وغيره اسی طرح اسلامی معاشره پر حاکم فرمانروا کے عوام پر کيا حقوق ہيں، عوام کے حاکم پر کيا حقوق ہيں، دوستوں کے حقوق، پڑسيوں کے حقوق، اہل خاندان کے حقوق اور ان تمام حقوق کااس عنوان سے ذکر کيا گيا ہے جس کا ايک اسلامی نظام ميں زندگی بسر کرنے والے شخص کو پاس لحا ظ رکھنا ضروری ہے- گويا امام ع نے بڑے ہی نرم انداز ميں حکومت سے مقابلہ  آرائی يا  آئنده نظام کا حوالہ دئيے بغير مستقبل ميں قائم کئے جانے والے نظام کی بنيادوں کو بيان کرديا ہے کہ اگر ايک روز خود امام سجاد (ع)کے زمانہ حيات ميں يا  آپ کے بعد  آنے والے زمانہ ميں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے ذہن ايک دوسرے کے تئيں عائد ہونے والی ذمہ داريوں سے پہلے سے مانوس رہيں۔ دوسرے لفظوں ميں لوگوں کو  آئنده متوقع اسلامی حکومت کے نظام سے آشنا بنا دينا چاہتے ہيں۔ يہ بھی امام ع کے بيانات کی ايک قسم ہے جو بہت ہی زياده قابل توجہ ہے۔

صحيفہ سجاديہ

ايک قسم وه بھی ہے جس کا آپ صحيفہ سجاديہ ميں مشاہده فرماتے ہيں- صحيفہ سجاديہ دعاؤں کا ايک ايسا مجموعہ ہے جس ميں ان تمام موضوعات کو مورد سخن قرار ديا گيا ہے جن کی طرف بيدار و ہوشمند انسان زندگی ميں متوجہ ہوتا ہے۔ ان دعاؤں ميں زياده تر انسان کے قلبی روابط اور معنوی ارتباطات پر تکيہ کيا گيا ہے اس ميں بے شمار مناجاتيں اور دعائيں مختلف انداز سے معنوی ارتقا ء کی خواہش و آرزو سے مملو ہيں۔ امام ع دعاؤں کے ضمن ميں دعاؤں کی ہی زبان سے لوگوں کے ذہنوں ميں اسلامی زندگی کا ذوق و شعور بيدار کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ دعا کے ذريعہ لوگوں کے قلوب ميں ايک صحيح و سالم محرک و رجحان پيدا کر ديتے ہیں, مثلاً جس وقت آپ کہتے ہيں:

خدايا ہمارا انجام بخير فرما-

ظاہر ہے آپ کے دل ميں اس وقت انجام کار کی ياد تازه ہوجاتی ہے اور آپ عاقبت کی فکر ميں لگ جاتے ہيں بعض وقت انسان اپنی عاقبت سے غافل ره جاتا ہے اپنے حال ميں مست زندگی گزارتا رہتا ہے اور اس بات کی فکر نہيں کرتا کہ عاقبت کا تصور انسانی سرنوشت کے تعين ميں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے، جب دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے يک بيک ذہن اس طرف متوجہ ہوا اور انجام کار پر نظر رکھنے کا جذبہ بيدار ہوگيا۔ اور پھر آپ اس فکر ميں پڑگئے کہ ايسے امور انجام ديں جو آپ (ع) کی عاقبت بہتر بنا سکيں۔ صحيفہ سجاديہ(ع) ايک ايسی کتاب ہے جو شروع سے آخر تک دعاؤں کے جامہ ميں ايسے ہی اعلی جذبات و افکار سے معمور ہے جن پر انسان اگر غور کرے تو صرف يہی صحيفہ سجاديہ ايک معاشره کی اصلاح اور بيداری کے لئے کافی ہے۔

اس کے علاوہ بھی ايسی بہت چھوٹی چھوٹی رواتيں ہيں جو امام زين العابدين ع سے نقل ہوئی ہيں- اسی فہرت ميں حضرت ع کے اشعار بھی شامل ہيں۔ امام سجاد ع نے اشعار بھی کہے ہيں اور ان اشعار کے مضامين بھی اسی قسم کے ہيں۔

درباری علماء پر امام سجاد ع کی سخت تنقيد

امام زين العابدين ع کے حالات اور طرز زندگی سے متعلق مسائل کی تشريح کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ زمين ايک ايسی عظيم اسلامی تحريک مہميز کرنے کے لئے ہموار ہوچکی ہے, جس کا حکومت علوی اور حکومت اسلامی پرمنتہی ہونا ممکن نظر آنے لگا ہے۔ اس صورت حال کو بطور مختصر ہم يوں بيان کر سکتے ہيں کہ امام ع کے طريقہ و روش ميں کچھ لوگوں کے لئے (معارف اسلامی کا) بيان و وضاحت, کچھ لوگوں کے لئے خود کو منظم و مرتب کرنے کی تلقين, اور کچھ افراد وه بھی تھے جن کے لئے عمل کی راہيں معين و مشخص ہو جاتی تھيں۔ يعنی اب تک کے معروضات کی روشنی ميں امام سجاد ع کی تصوير کا جو خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے تحت حضرت (ع) اپنے تيس، پينتيس سال اس کوشش ميں صرف کرديتے ہيں کہ عالم اسلام کے شدت کے ساتھ برگشتہ ماحول کو ايک ايسی سمت کی طرف لے جائيں کہ خود آپ (ع) کے لئے يا آپ (ع) کے جانشينوں کے لئے اس بنيادی ترين جد و جہد اور فعاليت کے لئے موقع فراہم ہو سکے جس کے تحت ايک اسلامی معاشره اور الہی حکومت قائم ہو سکے۔

چنانچہ اگر امام سجاد ع کی 33 سالہ سعی و کوشش، ائمہ عليہم السلام کی زندگی سے جدا کر لی جائے تو ہرگز وه صورت حال تصور نہيں کی جاسکتی جس کے نتيجہ ميں امام صادق ع کو اولاً حکومت بنی اميہ اور پھر حکومت بنی عباس کے خلاف اتنی کھلی ہوئی واضح پاليسی اپنانے کا موقع ہاتھ آيا۔ ايک اسلامی معاشره وجود ميں لانے کے لئے فکری و ذہنی طور پر زمين ہموار کرنا تمام چيزوں سے زياده لازم و ضروری ہے۔ اور يہ ذہنی و فکری آمادگی، اس وقت کے ماحول اور حالات ميں جس سے عالم اسلام دو چار تھا، وه کام تھا جو يقينا ايک طويل مدت کا طالب ہے, اور يہی وه کام ہے جو امام زين العابدين ع نے تمام تر زحمت اور صعوبت و مصيبت کے باوجود اپنے ذمہ ليا تھا۔ اس عظيم ذمہ داری کے دوش بدوش امام سجاد ع کی زندگی ميں ايک اور تلاش و جستجو جلوه گر نظر آتی ہے جو در اصل سابق کی تيار کرده زمين کو مزيد ہموار کرنے کی طرف امام (ع) کے ايک اور اقدام کی مظہر ہے- اس طرح کی کوششوں کا ايک بڑا حصہ سياسی نوعيت کا حامل ہے اور بعض اوقات بے حد سخت شکل اختيار کر ليتا ہے۔ اس کا ايک نمونہ امام ع کا حکومت و قت سے وابستہ اور ان کے کار گزار محدثوں پر کڑی تنقيد ہے۔

آئمہ عليہم السلام کی زندگی سے متعلق ولولہ انگيز ترين بحثوں ميں سے ايک يہ بھی ہے کہ اسلامی معاشره کی فکر و ثقافت کو رنگ عطا کرنے والے افراد يعنی علماء و شعراء کے ساتھ ان بزرگواروں کا برتاؤ کيسا رہا ہے؟ اصل ميں عوام کی فکری و ذہنی تربيت و رہبری ان ہی لوگوں کے ہاتھ ميں تھی، خلفاء بنی اميہ و بنی عباس معاشره کو جس رخ پر لے جانا پسند کرتے تھے يہ لوگ عوام کو اسی راه پر لگا ديتے تھے- گويا خلفاء کی اطاعت اور تسليم کا ماحول پيدا کرنا ان ہی حضرات کا کام تھا- چنانچہ ايسے افراد کے ساتھ کيا روش اور طرز اپنايا جائے ديگر ائمہ عليہم السلام کی طرح امام سجادع کی زندگی کا بھی ايک بڑا ہی اہم اور قابل توجہ پہلو ہے۔

حديث گھڑنا ظالموں کی ايک ضرورت

جيسا کہ ہم جانتے ہيں خلفائے ظلم و جور کے سامنے، اسلام کا عقيده رکھنے والوں پر اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارا ہی نہيں تھا کہ وه جو کچھ بھی انجام دينا چاہتے ہيں اس کی طرف لوگوں کے قلبی ايمان کو جذب کريں کيوں کہ اس وقت زمانہ صدر اسلام گزرے ابھی زياده دن نہيں ہوئے تھے, لوگوں کے دلوں ميں اسلام کا عقيده و ايمان باقی تھا۔ اگر لوگوں کو يقين پيدا ہو جاتا کہ يہ جو ظالم کی انھوں نے بيعت کی ہے درست نہيں ہے, يا يہ خليفہ, رسول ﷲ (ص) کی خلافت کے لائق نہيں ہے يقينا اپنے آپ کو ان کے حوالے نہ کرتے۔ اور اگر يہ بات ہم سب کے لئے قبول نہ کريں تو بھی اسلامی معاشرے ميں يقينا ايسے افراد کثرت سے پائے جاتے تھے جو پورے ايمان قلبی کے ساتھ خلفاء کے دربار کی غير اسلامی صورت حال کو تحمل کر رہے تھے- يعنی ان کا خيال تھا کہ يہی اسلامی شان ہے۔ يہی وجہ تھی کہ خلفائے جور نے اپنے دور کے زياده سے زياده دينی علماء اور محدثين کے خدمات سے استفاده کيا, اور ان لوگوں کو جو کچھ وه چاہتے تھے اس کے لئے آماده کيا اور پھر ان سے کہا کہ ان کی مرضی کے مطابق خود پيغمبر اسلام (ص) اور ان کے بزرگ اصحاب سے جعلی حديثيں روايت کريں۔

حديث گھڑنے کے کچھ نمونے

اس سلسلہ ميں مثاليں موجود ہيں جو انسان کو لرزا ديتی ہيں۔ نمونہ کے طور پر معاويہ کے زمانہ ميں ايک شخص کی کعب الاحبار (کعب الاحبار ايک يہودی تھا جو دوسرے دور خلافت ميں مسلمان ہو گيا ،اس کی بيان کرده حديثوں کے بارے ميں نہ صرف شيعوں کے درميان بلکہ بہت سے اہل سنت حضرات میں بھی بہت زياده شک و شبہ پايا جاتا ہے۔ البتہ بعض اہل سنت نے اس کو قبول بھی کيا ہے) سے مڈبھیڑ ہو گئی، کعب الاحبار چوں کہ معاويہ نيز ديگر شاہی امراء کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا تھا، اس لئے اس شخص سے سوال کيا۔ کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟

اہل شام سے ہوں۔

شايد تم ان لشکريوں ميں سے ہو جن کے ستر ہزار افراد بغير حساب کتاب کے وارد بہشت ہوں گے!

وه کون لوگ ہيں ؟

وه سب اہل دمشق ہيں۔

نہيں ميں اہل دمشق نہيں ہوں۔

پس شايد تو ان لشکريوں ميں سے ہے کہ خدا جن کی طرف ہر روز دو بار نگاه (لطف) کرتا ہے!

وه کون لوگ ہيں ؟

اہل فلسطين۔ اگر وه آدمی کہہ ديتا ميں اہل فلسطين سے نہيں ہوں، تو شايد کعب الاحبار ايک ايک کرکے بعلبک طرابلس اور شام کے بقيہ تمام شہروں کے ساکنين کے لئے حديثيں نقل کرتا رہتا, اور ثابت کر ديتا کہ يہ سب نہايت ہی صالح و شائستہ افراد ہيں! سب کے سب اہل بہشت ہيں! کعب الاحبار يہ حديثيں يا تو شامی امراء کی خوشامد اور چاپلوسی ميں گھﮍا کرتا تھا, تاکہ وه ان سے زياده سے زياده انعام و مدد حاصل کرکے ان کا محبوب و مقرب بن سکے يا يہ کہ اس کے اس عمل کی جڑيں اس کی اسلام دشمنی ميں تلاش کرنی پڑيں گی جس کا مقصد احاديث اسلامی خلط ملط کرکے اقوال پيغمبر اسلام (ص) کو مشتبہ اور ناقابل شناخت بنانا رہا ہوگا۔ تذکره اور رجال و حديث کی کتابوں ميں اس قسم کے بہت سے واقعات موجود ہيں۔ ان ہی ميں سے ايک اس امير کی داستان ہے جو اپنے فرزند کو ايک مکتب ميں داخل کرتا ہے اور وہان مہتمم متکب اس کی پٹائی کر ديتا ہے، لڑکا روتا دھوتا گھر پہنچ کر جب باپ کو اپنی پٹائی کی خبر ديتا ہے تو باپ غصہ ميں بپھرا ہو ا کہتا ہے, ابھی جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس مہتمم مکتب کے خلاف ايک حديث وضع کرو تاکہ مکتب کا مہتمم دوباره اس قسم کی غلطی کرنے کی جرأت نہ کرے!

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے لئے حديث گھﮍ لينا اس قدر آسان ہو چکا تھا کہ بچوں کی آنکھوں سے ڈھلنے والے آنسوؤں کے قطرے، خود مہتمم مکتب يا اس کے وطن و شہر کے خلاف ايک حديث ڈھالنے کے لئے کافی ہوتے تھے۔ بہر صورت يہی حالات اس بات کا سبب بنے کہ دنيا ئے اسلام ميں ہی اسلام سے برگشتہ ايک خود ساختہ مخلوط و مجعول ذہنيت اور تہذيب و ثقافت پھلنے پھولنے لگی، اور اس غلط ذہنيت کو جنم دينے والے وہی علماء اور محدثين تھے جو اپنے زمانہ کے صاحبان اقتدار و منصب کے ہاتھوں بکے ہوئے تھے۔ چنانچہ، ايسے سخت ترين حالات ميں اس گروه سے ٹکر لينا بہت ہی اہم اور فيصلہ کن تھا۔

محمد زہری کی چند جعلی حديثيں

محمد بن شہاب زہری شروع ميں امام سجاد ع کے شاگردوں اور ساتھ اٹھنے بيٹھنے والوں ميں نظر آتا ہے- يعنی يہ وه شخص ہے جس نے حضرت (ع)سے علوم حاصل کئے ہيں اور حضرت (ع)سے حديثيں بھی نقل کی ہيں- پھر بھی رفتہ رفتہ اپنے اندر پائے جانے والی جسارت کے باعث يہ شخص دربار خلافت سے قريب ہو تا گيا اور پھر ان درباری علماء, محدثين کے زمره ميں شامل ہو گيا جو ائمہ عليہم السلام کے بالمقابل کھﮍے کئے گئے تھے۔ محمد بن شہاب زہری کی افتاد طبع سے مزيد  آشنائی پيدا کرنے کے لئے پہلے ہم اس کے باره ميں چند حديثيں نقل کرتے ہيں-

۔

ان ميں ايک حديث وه ہے جس ميں وه خود کہتا ہے, "شروع ميں علمی قلم نگاری سے کام لينا ہميں اچھا نہ لگتا تھا يہاں تک کہ امراء و حکام نے ہم کو اس بات پر آماده کيا کہ ہم جو کچھ جانتے ہيں قلم بند کرديں تاکہ کتاب کی صورت ميں آجائے- اس کے بعد ہم اس نتيجہ پر پہنچے کہ کسی بھی مسلمان کو اس کام سے منع نہ کريں اور ہميشہ علم و دانش سپرد قلم ہوتے رہيں۔"

اس گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک محدثين کے اس گروه کے درميان يہ دستور رواج نہیں پايا تھا کہ جو حديثوں کو جانتے ہيں لکھ بھی ڈاليں۔ اسی طرح محمد بن شہاب زہری کا امراء کی خدمت ميں ہونا اور ان کا اس کو اپنے علم و خواہش کے تحت حديث قلمبند کرنے پر ابھارنا بھی اسی عبارت سے ثابت ہے۔ ايک ”معمر“ نامی شخص کہتاہے :ہمارا خيال تھا کہ ہم نے زہری سے بہت زياده حديثيں نقل کی ہيں يہاں تک کہ وليد مارا گيا، وليد کے قتل ہوجانے کے بعد ہم نے ديکھا کہ دفتروں کا ايک انبار ہے جو چوپايوں پر لاد کر وليد کے خزانے سے باہر کيا جا رہا ہے اور لوگ کہہ رہے ہيں کہ يہ سب زہری کا علم ہے۔ يعنی زہری نے وليد کی خواہش اورخوشامد ميں اتنے دفاتر وکتب، حديثوں سے پر کر ديئے تھے کہ جب وليد کے خزانے سے ان کو نکالنے کی نوبت آئی تو چوپايوں پر بار کرنے کی احتياج محسوس ہوئی۔ يہ دفاتر و کتب جو وليد کے حکم سے ايک شخص کے ذريعہ حديثوں سے پر ہوئے ظاہر ہے ان ميں کس طرح کی حديثيں ہو سکتی ہيں؟ بلا شبہ ان ميں ايک حديث بھی وليد کی مذمت اور اسے متنبہ کرنے والی نہيں مل سکتی بلکہ اس کے بر خلاف يہ وه حديثيں ہيں جن کے ذريعہ وليد اور وليد جيسوں کے کرتوتوں پر مہر تصديق ثبت کی گئی ہے۔

ايک دوسری حديث زہری کے باره ميں ہے جو بلا شبہ اس دور سے مربوط ہے جب زہری دربار خلافت سے وابستگی اختيار کر چکا تھا- يعقوبی اپنی تاريخ ميں لکھتا ہے, کہ زہری نے رسول خدا (ص) کی طرف نسبت دی ہے کہ پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا ہے, صاحبان ايمان و تقدس سفر نہيں اختيار کرتے مگر يہ کہ تين مساجد مسجد حرام، مسجد مدينہ اور مسجد اقصی کی طرف اور وه پتھر جس پر مسجد اقصی ميں، رسول خدا (ص) نے اپنا قدم رکھا تھا- اس (پتھر) کو کعبہ کی منزلت حاصل ہے!

حديث کا يہی آخری ٹکڑا ميری توجہ کا مرکز ہے, جس ميں مسجد اقصی کے ايک پتھر کو کعبہ کا مقام عطا کرتے ہوئے اس کے لئے اسی شرف و اہميت کا ذکر کيا گيا ہے جو کعبہ کو حاصل ہے۔ يہ حديث اس زمانے کی ہے جب عبدﷲ بن زبير کعبہ پر مسلط تھے اور جب کبھی لوگوں کے دل ميں حج (يا عمره) کے لئے جانے کی خواہش ہوتی وه مجبور تھے کہ مکہ ميں, جو عبدﷲ ابن زبير کے زير نفوذ ہے کچھ روز بسر کريں اور يہ عبد ﷲ ابن زبير کے لئے اپنے دشمنوں کے خلاف جن ميں عبد الملک ابن مروان کا نام سر فہرست  آتا ہے، پروپيگنڈه کا سنہره موقع ہوتا تھا- چوں کہ عبد الملک کی کوشش تھی کہ عوام ان پروپيگنڈوں سے متاثر نہ ہونے پائيں, لہذا وه ان کا مکہ جانا پسند نہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے اس کی بہترين اور آسان ترين راه يہ ديکھی کہ ايک حديث گھڑی جائے جس کے تحت مسجد اقصی کو شرف و منزلت ميں مکہ اور مدينہ کے برابر قرار دے ديا جائے۔ حتی کہ وه پتھر جو مسجد اقصی ميں ہے کعبہ کے برابر شرف ومنزلت کا حامل ہو! حالانکہ ہم جانتے ہيں اسلامی ثقافت و اصطلاح ميں، دنيا کا کوئی خطہ کعبہ کی قدر و منزلت کو نہیں پہنچ سکتا اور دنيا کا کوئی پتھر خانہ کعبہ کے پتھر حجر اسود کا مقام حاصل نہيں کر سکتا۔ اس اعتبار سے اس حديث کے گھﮍنے کی حاجت اسی لئے پڑی کہ عوام کو خانہ کعبہ کی طرف سامان سفر باندھنے سے منصرف کرکے فلسطين کی طرف جانے پر ابھارا جائے, کيوں کہ فلسطين شام کا ہی ايک جزو تھا اور وہاں عبدالملک کو پورا تسلط اور نفوذ حاصل تھا۔ اور اس حدیث گھڑنے کا مقصد محض عبد الملک بن مروان کے سياسی مقاصد کو تقويت پہنچانا تھا۔

اب جب کہ محمد بن شہاب زہری دربار خلافت سے وابستہ ہو چکا تھا اس کے لئے امام زين العابدين ع يا خاندان علوی سے متعلق تنظيم کے خلاف حديثيں گھﮍنے ميں بھلا کيا باک ہو سکتا تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ ميں مجھے دو حديثيں سيد عبد الحسين شرف الدين مرحوم کی کتاب ”اجوبۃ مسائل جار ﷲ“ ميں مليں جن ميں سے ايک روايت ميں محمد بن شہاب دعوی کرتا ہے کہ امير المومنين ع ”جبری“ تھے!  اور پيغمبر اسلام (ص) سے استناد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قران کی آيت ”وَكَانَ ٱلْإِنسَـٰنُ أَكْثَرَ شَىْءٍۢ جَدَلًۭا“ ميں” انسان“ سے مراد امير المومنين ع ہيں (العياذ بااللہ)۔ دوسری روايت ميں نقل کرتا ہے کہ سيد الشہداء جناب حمزه نے (معاذﷲ) شراب پی تھی۔ يہ دونوں روايتيں برسر اقتدار سياسی ٹولے بنو اميہ اور ان کے سربراه عبد الملک بن مروان کو ائمہ ھدی عليہم السلام کے مقابلہ ميں تقويت و حمايت پہنچانے کے لئے گھڑی گئی ہيں تاکہ اس طرح خاندان پيغمبر اسلام (ص)کے اس سلسلۃ الذہب کو جو امويوں کے مقابلے ميں ہميشہ ثابت قدم رہا ہے, مسلمانوں کی اعلی ترين صف سے خارج کرديں اور ان کو اس طور پر پيش کريں کہ وه احکام اسلام سے لگاؤ اور اس پر عمل کے لحاظ سے ايک متوسط درجہ کے قاصر و عاصی انسان يا بالکل ہی عوامی سطح کے حامل بلکہ اس سے بھی گئے گزرے افراد نظر  آئيں۔

بہر حال! ايک ايسا شخص جو دربار خلافت ميں بہت زياده تقرب و منزلت کا حامل ہے اور عوام کے افکار پر بھی پورے جاه و جلال کے ساتھ مسلط ہے, يقينا اسلامی تحريک کے لئے ايک خطرناک وجود شمار کيا جائے گا اور اس کے سلسلے ميں کوئی دنداں شکن پاليسی اختيار کرنا فطری سی بات ہے۔ چنانچہ اس شخص کے مقابلہ ميں امام سجاد عليہ الصلوة و السلام نہايت ہی سخت طريقہ کار کا انتخاب کرتے ہيں اور آپ (ع) کی يہ سخت گيری ايک خط ميں منعکس نظر  آتی ہے- البتہ ممکن ہے کوئی فکرکرے کہ بھلا ايک خط کے ذريعہ کس حد تک حضرت (ع) کے طرز عمل کا تعين کيا جاسکتا ہے پھر بھی اس حقيقت کے پيش نظر کہ اس خط کا لب و لہجہ خود زہری کے سلسلہ ميں بھی اور اس طرح بر سر اقتدار حکومتی مشينری کے خلاف بھی بہت ہی سخت اور شديد ہے اور يہ خط محمد بن شہاب تک محدود نہيں رہتا، دوسروں کے ہاتھ ميں بھی پڑتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ايک زبان سے دوسری زبان اور ايک منہ سے دوسرے منہ تک ہوتے ہوئے ہميشہ ہميشہ کے لئے دامن تاريخ پہ ثبت ہو کر تاريخ کا ايک جزوبن جاتا ہے, اور آج تيره سو سال گزر جانے کے بعد بھی ہم اس خط کے بارے ميں بحث کر رہے ہيں۔ ان امور پہ توجہ کرنے کے بعد ہم بہ آسانی سمجھ سکتے ہيں کہ يہ خط زہری جيسے نام نہاد علماء کے شيطانی تقدس پر کيسی کاری ضرب وارد کرتا ہے۔ يقينا اس خط کا اصل مخاطب محمد بن شہاب زہری ہے ليکن يہ اپنی زد ميں اس جيسے تمام ضمير فروش افراد کو لئے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے جس وقت يہ خط مسلمانوں، خصوصا اس زمانے کے شيعوں کے ہاتھ آيا ہوگا اور ايک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ميں پہنچا ہوگا, ان کے درميان اس قسم کے درباری افراد کے لئے کيسی سخت بے اعتمادی پيدا ہوئی ہوگی۔ خط کی ابتداء ان الفاظ ميں ہوتی ہے:

خدا وند عالم ہميں اور تمھيں فتنوں سےمحفوظ رکھے اور تم پر آتش جہنم سے رحم کرے۔ تم اس منزل پر کھﮍے ہو کہ جو شخص بھی تمھاری حالت کو سمجھ لے وه تمھارے حال زار پر رحم کرے۔ ان تمام نعمتوں کے باوجود جو تجھے خدا کی جانب سے ملی ہيں کيا تو خدا کے حضور کہہ سکتا ہے کہ کسی طرح تو نے ان نعمتوں کا شکر ادا کيا يا نہيں؟

خط کا  آغاز ہی ايسے لب و لہجہ ميں کيا جانا جو نہ صرف مخالفانہ بلکہ تحقير  آميز بھی ہو, زہری کے تئيں حضرت (ع)کے طرز عمل کی خود دليل ہے۔ غور فرمايئے کہ يہ ايک ايسے شخص سے خطاب ہے جس کا دربار حکومت ميں بزرگ علمائے دين ميں شمار ہوتا ہے- پھر قران کی چند آيتوں کا ذکر کرتے ہيں اور اس کی دربار حکومت و خلافت کے ساتھ قربت و وابستگی کو اس طرح اس کے سامنے پيش کرتے ہيں گويا سر پہ تازيانہ مار رہے ہوں:

خدا وند عالم تيرے قصور و گناه سے ہر گز راضی نہيں ہو سکتا کيوں کہ خدا وند عالم نے علماء پر فرض کيا ہے کہ وه حقائق کو عوام الناس کے سامنے بيان کريں اور کتمان حق سے کام نہ ليں۔ ياد رکھ! وه معمولی ترين چيز جس کے سلسلہ ميں تونے کتمان سے کام ليا ہے اور وه سبک ترين بات جو تونے برداشت کی ہے, يہ ہے کہ, ظالموں کے لئے جو چيز و حشت ناک تھی اس کو تو نے راحت و انسيت کا سامان بنا کر ان کے لئے گمراہی کے راستے مزيد ہموار کر ديئے۔ اور يہ کام تونے محض ان کا تقرب حاصل ہوجانے کے لئے کيا- چنانچہ انھوں نے تجھ کو جب بھی (کسی امر کی) دعوت دی تو تيار ہوگيا۔ ان لوگوں سے جو کچھ تجھ کو حاصل ہوا وه تيرا حق نہ تھا پھر بھی تونے لے ليا۔اور توايک ايسے شخص کے قريب ہو گيا جس نے کسی کا کوئی حق واپس نہ کیا (يعنی خليفہ ستمگر) اور جب اس نے تجھ کو اپنی قربت ميں جگہ دی تو, تو نے ايک بھی باطل, اس سے دور نہ کيا۔ تو نے دشمن خدا کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کر ليا۔

اس تہديد نامہ ميں امام (ع) کا وه جملہ جو ذہن کو سب سے زياده جھنجھوڑتا ہے يہ ہے کہ امام فرماتے ہيں:

آيا ايسا نہيں ہے اور تو نہيں جانتا کہ انھوں نے جب تجھ کو خود سے قريب کر ليا تو تيرے وجود کو ايک ايسا قطب اور محور بنا ديا جس کے گرد مظالم کی چکی گردش کرتی رہے, اور تجھ کو ايک ايسا پل قرار دے ديا جس سے ان کی تمام غلط کاريوں کے کاروان عبور کرتے رہتے ہيں۔ انھوں نے ايک ايسی سيڑھی تعمير کر لی ہے جو انھيں ان کی ذلت و گمراہی تک پہنچنے ميں سہارا ديتی ہے۔ تو ان کی گمراہيوں کی طرف دعوت دينے والا اور ان ہی کی راه پر چلنے والا بن گيا۔ انھوں نے تيرے ذريعہ علماء ميں شک و شبہ کی فضا پيدا کر دی (کہ کيا حرج ہے کہ ہم بھی دربار حکومت سے وابستہ ہو جائيں؟) اور جاہلوں کے قلوب اپنی جانب جذب کرلئے۔ ان کے نزديک ترين وزراء اور زبردست ترين احباب بھی ان کی اس طرح مدد نہ کر سکے جس طرح تونے ان کی برائيوں کو عوام کی نظروں ميں اچھا بنا کر مدد کی ہے۔

يہ خط لب ولہجہ کے اعتبار سے نہايت ہی سخت اور مضامين کے لحاظ سے بڑی اہميت کا حامل ہے۔ امام زين العابدين ع نے اس خط کے ذريعہ سياسی قدرت و اقتدار اور اجتماعی زمام و اختيار کے زير سايہ پروان چڑھنے والی علمی و فکری اقتدار اور زمامداری کی لہر کو ذليل و رسوا کر ديا اور وه لوگ جو دربار کے ساتھ  روابط استوار کرنے کے خواب ديکھ رہے تھے ان کی نينديں اڑگئيں- وه معاشره ميں ايک سوال بن کر ره گئے, ايک ايسا سوال جو ہميشہ کے لئے اسلامی در و ديوار پہ ثبت ہو کر ره گيا۔

آیا امام زين العابدين ع کبھی حکومت سے متعرض ہوئے؟

مجھے حضرت (ع) کی زندگی ميں کوئی ايک موقع بھی ايسا نہ مل سکا جہاں حکومت سے آپ (ع) نے اس طرح سے صريحی طور پر تعرض کيا ہو جيسا کہ ديگر ائمہ عليہم السلام مثلاً بنی اميہ کے دور ميں امام جعفر صادق ع يا بعد ميں امام موسی کاظم ع کے يہاں نظر آتا ہے۔ اور اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کيوں کہ ائمہ معصومين عليہم اسلام کی امامت اور سياسی تحريک کے وه چار ادوار جس کے تيسرے مرحلہ کا آغاز امام زين العابدين ع کی زندگی سے ہوتا ہے اگر اسی مرحلہ ميں خلافت سے تعرض کی تحريک شروع کردی جاتی تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ خطروں سے معمور ذمہ داريوں کا يہ کارواں، اہل بيت عليہم السلام جس منزل تک لے جانا چاہتے تھے نہيں پہنچ سکتا تھا- وه گلستان اہلبيت (ع) جس کی تربيت و آبياری امام سجاد ع جيسے ماہرانہ صلاحيت کا حامل باغباں کر رہا تھا، ابھی اتنا زياده مستحکم اور پائدار نہيں ہو سکا تھا۔ امام ع کے گردو پيش اہلبيت (ع) سے محبت و عقيدت رکھنے والے مومنين کی بہت ہی مختصر سی تعداد تھی اور اس زمانے ميں ممکن نہيں تھا کہ اس قليل تعداد کو جس کے کاندھوں پر شيعی تنظيم کو چلانے کی عظيم ذمہ داری بھی ہے ظالم تھپیڑوں کے حوالے کر کے ان کو موت کے گھاٹ اتر جانے پر مجبور کر ديں۔

اگر تشبيہ دينا چاہيں تو امام زين العابدين ع کے دور کی مکہ ميں پيغمبر اسلام (ص) کی دعوت کے ابتدائی دور سے تشبيہ دی جا سکتی ہے يعنی دعوت اسلام کے وه چند ابتدائی سال جب علی الاعلان دعوت دينا بھی ممکن نہ تھا۔ اسی طرح شايد امام محمد باقر ع کے دور کی پيغمبر (ص) کی مکی تبليغ کے دوسرے دور اور پھر اس کے ادوار کی دعوت اسلام کے بعد کے ادوار سے تشبيہ غلط نہ ہوگی۔ لہذا تعرض اور مڈبھیڑ کی حکمت عملی ابھی صحيح طور پر انجام نہ پاتی۔ يقين جانئے اگر وہی تيز و تند حکمت عملی، جو امام صادق ع، امام کاظم ع اور امام رضا ع کے بعض کلمات سے مترشح ہوتی ہے، امام سجاد ع بھی اپنا ليتے تو عبد الملک بن مروان جس کا اقتدار پورے اوج پر نظر آتا ہے، بڑی  آسانی کے ساتھ تعليمات اہلبيت (ع) کی پوری بساط الٹ کر رکھ ديتا اور پھر کام ايک نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا, اور يہ اقدام عاقلانہ نہ ہوتا۔ اس کے باوجود امام زين العابدين ع کے ارشادات و اقوال ميں، جو غالبا آپ کی زندگی اور طويل دور امامت کے آخر ی دنوں سے مربوط ہيں، کہيں کہيں حکومتی مشينری کے ساتھ تعرض و مخالفت کے اشارے بھی مل جاتے ہيں۔

ائمہ عليہم السلام کی طرف سے مزاحمت کے چند نمونہ ائمہ عليہم السلام کی تعرض  آميز روش کے جلوے مختلف شکلوں ميں ظاہر ہوئے جن ميں سے ايک شکل تو وہی تھی جو محمد بن شہاب زہری کے نام امام زين العابدين ع کے خط ميں آپ نے ملاحظہ فرمائی، ايک شکل معمولی دينی مسائل او ر اسلامی تعليمات کے پردے ميں اموی خلفاء کی وضع و سرشت اور حقيقت و بنياد پر روشنی ڈال دينے کی تھی۔ چنانچہ ايک حديث ميں امام جعفر صادق ع ارشاد فرماتے ہيں:

بنی اميہ نے لوگوں کے لئے تعليمات ايمانی کی راہيں کھلی چھوڑ رکھی تھيں، ليکن حقيقت شرک سمجھنے کی راہيں بند کر دی ہيں۔

مطلب يہ ہے کہ بنی اميہ نے علماء کو نماز، روزه، حج زکوة نيز ديگر عبادات اور اسی طرح توحيد و نبوت سے متعلق بحث و گفتگو کرنے کی چھوٹ دے رکھی تھی ليکن اس بات کی اجازت نہيں تھی کہ وه شرک کا مفہوم اور اس کے مصاديق نيز اسلامی معاشرے ميں موجود اس کے جيسے جاگتے نمونوں کو موضوع بحث و تدريس قرار ديں اس لئے کہ اگر عوام الناس کو شرک سے متعلق ان معارف کا علم ہو گيا، وه مشرک چہروں کو پہچان ليں گے، وه فورا سمجھ جائيں گے کہ بنی اميہ جن اوصاف کے حامل ہيں اور جس کی طرف انھيں گھسيٹ لے جانا چاہتے ہيں، در اصل شرک ہے، وه فورا پہچان ليں گے کہ عبد الملک بن مروان اور ديگر خلفا ئے بنو اميہ طاغوتی ہيں جنھوں نے خدا کے مقابل سر اٹھا رکھا ہے۔ گويا جس شخص نے بھی ان کی اطاعت اختيار کی در اصل اس نے شرک کے مجسموں کے آگے سر تسليم خم کر ديا۔ يہی وجہ تھی کہ عوام کے درميان شرک سے متعلق حقائق و معارف بيان کرنے کی اجازت نہيں دی جاتی تھی۔ جب ہم اسلام ميں توحيد کے موضوع پر بحث کرتے ہيں تو ہماری بحث کا ايک بڑا حصہ شرک اور مشرک کی شناخت سے مربوط ہے۔ بت کسے کہتے ہيں اور کون بت پرست ہے۔

علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی 48 ويں جلد ميں بڑی اچھی بات کہی ہے وه فرماتے ہيں, قران ميں شرک کی جو آيتيں بيان کی گئی ہيں بظاہر، ظاہر ی بتوں سے مربوط ہيں ليکن بباطن اگر تاويل کی جائے تو ان کے مصداق خلفائے جور ہيں جنھوں نے خلافت کے نام پر حکومت اسلامی کے ادعا اور اسلامی معاشرے پر حاکميت کے حق ميں خود کو ائمہ عليہم السلام کا شريک قرار دے ليا، جب کہ ائمۂ حق کے ساتھ يہ شرک خود خدا کے ساتھ شرک ہے کيوں کہ ائمہ حق خدا کے نمائندے ہيں ان کے دہن ميں خدا کی زبان ہوتی ہے وه خدا کی باتيں کرتے ہيں اور چوں کہ خلفائے جور نے خود کو ان کی جگہ پر پہنچاکر دعوائے امامت ميں ان کا شريک بنا ديا لہذا وه سب طاغوتی بت ہيں اور جو شخص ان کی اطاعت اور تأسی اختيار کرے وه در اصل مشرک ہو چکا ہے۔

يہ شرک کی تعبير، ان قوموں پر بھی صادق  آتی ہے جنھوں نے ائمہ حق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ائمہ جور سے الحاق اور پيروی اختيار کر لی, کيوں کہ ان لوگوں نے ان عقلی و نقلی دلائل سے (جو مثال کے طور پر عبد الملک کی مسلمانوں پر حکومت و خلافت کی نفی کرتی ہيں)عدول اختيار کر ليا اور اپنی ہوا و ہوس کی پيروی شروع کر دی۔ روشن و واضح نصوص کو ٹھکرا ديا۔ لوگوں نے ديکھا حکام وقت سے ٹکر لينے کی نسبت يہ زندگی آرام ده بھی ہے۔ اور ہر طرح کی درد سری سے خالی بھی، لہذا اسی راحت طلبی ميں لگ گئے اور ائمہ جور کی پيری اختيار کر لی۔ لہذا وه بھی مشرک قرار پاتے ہيں۔ ان حالات ميں، اگر ائمہ عليہم السلام شرک کے بارے ميں کچھ بيان کرنا چاہيں تو يہ دربار خلافت سے ايک طرح کا تعرض ہوگا اور يہ چيز امام زين العابدين ع کی زندگی اور حضرت (ع) کے کلمات ميں موجود ہے۔ اس تعرض و مخالفت کا ايک اور نمونہ ہم امام ع اور جابر و قدرت مند اموی حاکم عبدالملک کے درميان ہونے والی بعض خط و کتابت ميں مشاہده کرتے ہيں جس کے دو روشن نمونوں کی طرف يہاں اشاره مقصود ہے۔

عبد الملک کا خط اور امام ع کا جواب

ايک دفعہ عبدالملک بن مروان نے امام سجاد ع کو خط لکھا اور اس ميں حضرت (ع) کو اپنی ہی آزاد کرده کنيز کے ساتھ ازدواج کر لينے کے سلسلے ميں مورد ملامت قرار ديا۔ وه اس طرح یہ بھی باور کرانے کی کوشش کررہاتھا کہ ہم کواپ کے تمام امور کی خبر ملتی رہتی ہے۔ وه خط ميں لکھتا ہے کہ آپ کا يہ کام قريش کی روش کے خلاف ہے, حالانکہ امام (ع) کا عمل نہ صرف انسانی بلکہ ہر اعتبار سے اسلامی تھا کيوں کہ ايک کنيز کو کنيز ی اور غلامی کی زنجير سے آزاد ی دينا اور پھر عزت و شرافت کا تاج پہنا کر اسی کنيز کو رشتہ ازدواج سے منسلک کر لينا يقينا انسانيت کا اعلی شاہکار ہے۔ چنانچہ حضرت (ع) نے بھی اس کا جواب بہت ہی تندو سخت لب و لہجہ ميں ديتے ہيں جو قابل توجہ ہے۔ آپ نے اپنے خط سے عبد الملک پر يہ واضح کرديا کہ تيرا نيم دوستی اور نيم دشمنی پر محمول يہ خط کسی طرح بھی ميرے لئے قابل قبول نہيں ہے۔ يہ واقعہ اس دور کا ہے جب حضرت (ع) کسی حد تک اپنی جدو جہد کا آغاز کرچکے تھے۔ لکھتے ہیں:

يہ عمل کسی طرح بھی قابل اعتراض نہيں قرار ديا جا سکتا, پيغمبر اسلام (ص) کے يہاں بھی اسی طرح کا عمل ملتا ہے- چنانچہ اس سلسلے ميں ايک مسلمان کے لئے کسی طرح کی ذلت و خواری نہيں پائی جاتی, ہاں ذلت و پستی تو وہی جہالت کی ذلت و پستی ہے۔

عبد الملک کے لئے اس جملہ ميں بڑا ہی لطيف طنز اور نصيحت مضمر ہے- کتنے حسين انداز ميں اسے اس کے آباء و اجداد کی حقيقت کی طرف متوجہ کر ديا گيا ہے کہ يہ تم ہو جس کا خاندان جاہل و مشرک اور دشمن خدا رہا ہے, اور جن کے صفات تم کو وراثت ميں حاصل ہوئے ہيں! اگر شرم ہی کی بات ہے تو تم کو اپنی حقيقت پر شرم کرنی چاہئے- ميں نے تو ايک مسلمان عورت سے شادی کی ہے اس ميں شرم کی کيا بات ہے؟ جس وقت يہ خط عبد الملک کے پاس پہنچا، سليمان عبد الملک کا دوسرابيٹا، باپ کے پاس موجود تھا، خط پڑھا گيا تو اس نے بھی سنا۔ وه باپ سے مخاطب ہوا اور کہا, اے امير المومنين ديکھا، علی ابن الحسين ع نے  آپ پر کس طرح مفاخرت کا اظہار کيا ہے؟ وه اس خط ميں  آپ کو سمجھانا چاہتے ہيں کہ ہمارے باپ دادا تو تمام مومنرہے ہيں اور تيرے باپ دادا کافر و مشرک رہے ہيں۔ وه باپ کو بھﮍکانا چاہتا تھا تاکہ اس خط کے سلسلے ميں عبد الملک کوئی سخت اقدام کرے ليکن عبد الملک بيٹے سے زياده سمجھ دار تھا۔ وه جانتا تھا کہ اس نازک مسئلہ ميں امام سجاد ع سے الجھنا درست نہيں ہے۔ لہذا اس نے بيٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا: ميرے بيٹے, کچھ نہ کہو، تم نہيں جانتے يہ بنی ہاشم کی زبان ہے جو پتھر وں ميں شگاف پيدا کر ديتی ہے، يعنی ان کا استدلال ہميشہ قوی اور لہجہ سخت ہوتا ہے۔

رسول ﷲ ص کی تلوار ہتھیانے کے لئے دھمکی اور امام کا جواب

عبد الملک کو معلوم ہوا کہ پيغمبر اسلام (ص) کی تلوار امام سجاد ع کی تحويل ميں ہے اور يہ ايک قابل توجہ چيز تھی کيوں کہ وه نبی (ص) کی ياد گار اور فخر کا ذريعہ تھی، اور اب اس کا امام سجاد ع کی تحويل ميں چھوڑ دينا عبد الملک کے لئے خطرناک تھا کيوں کہ وه لوگوں کو اپنی طرف کھينچتی تھی۔ لہذا اس نے جو خط امام سجاد ع کو لکھا اس ميں درخواست کی کہ حضرت تلوار اس کے لئے بھيج ديں اور ذيل ميں يہ بھی تحرير کر ديا تھا کہ اگر آپ (ع) کو کوئی کام ہو تو ميں حاضر ہوں۔ (یعنی آپ کے اس ہبہ کا عوض ميں دينے کو تيار ہوں) امام ع کا جواب انکار ميں تھا لہذا دوباره اس نے ايک تہديد  آميز خط لکھا کہ اگر تلوار نہ بھيجی تو ميں بيت المال سے  آپ کا وظيفہ بند کردوں گا۔ (يہ وه زمانہ تھا جب تمام لوگوں کو بيت المال سے وظيفہ ملتا تھا اور امام ع بھی تمام افراد کی طرح معين وظيفہ ليتے تھے) امام اس دھمکی کے جواب ميں تحرير فرماتے ہيں:

اما بعد، خداوند عالم نے ذمہ داری لی ہے کہ وه اپنے پرہيز گار بندوں کو جو چيز انھيں ناگوار ہے اس سے نجات عطا کرے گا اور جہاں سے وه سوچ بھی نہ سکیں ايسی جگہ سے روزی بخشے گا اور قران ميں ارشاد فرما ديا ہے, يقيناً خدا کسی نا شکرے خيانت کارکو دوست نہيں رکھتا (حج - 38) اب ديکھو ہم دونوں ميں سے کس پر يہ آيت منطبق ہوتی ہے۔

ايک خليفۂ وقت کے مقابل ميں يہ لہجہ بہت زياده سخت تھا، کيونکہ يہ خط جس کسی کے ہاتھ لگا وه خود فيصلہ کرلے گا کہ امام سجاد ع کی نظر ميں عبد الملک خائن اور ناشکرا ہے۔ ديکھئے! کس شديد انداز ميں امام سجاد ع عبد الملک کی دھمکی کا جواب ديتے ہيں اس سے حضرت (ع) کے فيصلہ کن عمل کی حدود کا اندازه لگايا جا سکتا ہے۔ بہر حال يہ اموی سرکار کی نسبت امام کے مزاحمت آميز طرز عمل کے دو روشن نمونے تھے۔

فرزدق اور يحيی کے اعتراضات

آپ (ع) کے دوستوں سے نقل ہوئے واقعات بھی آپکی ہی مخالفت کے اظہار کا ايک انداز ہے, کيوں کہ اگر ہم يہ مان بھی لیں کہ خود حضرت (ع) نے کوئی اعتراض نہيں کيا تو بھی آپ کے قريبی افراد معترض رہے ہيں اور يہ خود ايک طرح سے امام کی مزاحمت ميں شمار کيا جائے گا۔ فرزدق کے واقعہ کو مورخين و محدثين دونوں نے نقل کيا ہے جس کا خلاصہ يہ ہے کہ,

ہشام، عبد الملک کا بيٹا، اپنے دور خلافت سے قبل مکہ گيا، طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دينا چاہا، کيوں کہ طواف ميں حجر اسود کا استلام مستحب ہے- حجر اسود کے قريب مجمع زياده ہونے کی وجہ سے ہزار کوشش کے باوجود خود کو حجر اسود کے قريب نہ پہنچا سکا- حالانکہ وه خليفہ وقت کا فرزند، ولی عہد، رفيقوں اور محافظوں کے ايک پورے دستے کے ہمراه حکومتی انتظام کے ساتھ آيا تھا۔ پھر بھی لوگوں نے اس کی حيثيت اور شاہی کروفر کی پرواه کئے بغير اس کو دھکوں ميں لے ليا۔ يہ نازو نعم کا پرورده ان افراد سے تو تھا نہيں کہ انسانوں کے ہجوم ميں دھکے کھاتا ہوا حجر اسود کو بوسہ دے۔ چنانچہ حجر اسود کے استلام سے مايوس ہوکر مسجد الحرام کی ايک بلندی پر پہنچ گيا اور وہيں بيٹھ کر مجمع کا تماشہ کرنے کی ٹھہری۔ اس کے ارد گرد بھی کچھ لوگ بيٹھے ہوئے تھے۔ اسی درميان ايک شخص، وقار و متانت کا مرقع ملکوتی زہد و ورع کے ساتھ طواف کرنے والوں کے درميان ظاہر ہوا اور حجر اسود کی طرف قدم بڑھايا مجمع نے فطری طور پر اس کو راستہ دے ديا اور کسی قسم کی زحمت کے بغير اس نے باطمينان حجر اسود کو استلام کيا، بوسہ ديا اور پھر واپس ہو کر طواف ميں مشغول ہو گيا۔ يہ منظر ہشام بن عبد الملک کے لئے نہايت ہی سخت تھا، وه خليفہ وقت کا فرزند ارجمند! ! اور کوئی اس کے احترام و ارجمندی کا قائل نہیں ہے! اس کو مجمع کے مکے اور لات سہکر واپس ہونا پڑجاتا ہے۔ استلام کرنے کے لئے اس کو راه نہيں ملتی!  دوسری طرف ايک شخص آتا ہے جو بڑے سکون و اطمينان کے ساتھ حجر اسود کو استلام کر ليتا ہے۔ آتش حسد سے لال ہو کر سوال کر بيٹھتا ہے، يہ کون شخص ہے؟ ارد گرد بيٹھے ہوئے افراد حضرت علی ابن الحسين عليہ السلام کو اچھی طرح پہچانتے ہيں, ليکن صرف اس لئے خاموش ہيں کہ کہيں ہشام ان کی طرف سے مشتبہ نہ ہو جائے کيوں کہ ہشام کے خاندان کے ساتھ امام سجاد ع کے خاندان کے اختلاف کسی سے ڈھکا چھپا نہيں تھا، ہميشہ بنی اميہ اور بنی ہاشم کے درميان اختلاف کی آگ روشن رہی ہے۔ وه يہ کہنے کی جرأت نہ کر سکے کہ يہ شخص تيرے دشمن خاندان کا قائد ہے، جس کے لئے لوگ اس قدر عقيدت و احترام کے قائل ہيں۔ ظاہر ہے يہ بات ايک طرح سے ہشام کی اہانت ميں شمار ہوتی۔

مشہور شاعر فرزدق جو اہلبيت (ع)سے خلوص و محبت رکھتا تھا وہيں موجود تھا، اس نے جب محسوس کيا کہ لوگ تجاہل سے کام لے رہے ہيں اور يہ باور کرانا چاہتے ہيں کہ ہم علی ابن الحسين ع کو نہيں پہچانتے، اگے بڑھا اور آواز دی, اے امير! اگر اجازت دے تو ميں اس شخص کا تعارف کرا دوں؟ ہشام نے کہا, ہاں ہاں بتاؤ کون ہے؟ اس وقت فرزدق نے وہيں ايک برجستہ قصيده پڑھنا شروع کر ديا جو شعرائے اہلبيت (ع) کے معروف ترين قصيدوں سے ہے اور شروع سے آخر تک امام زين العابدين ع کی شاندار مدح سے معمور ہے مطلع يوں شروع ہوتا ہے:

اگر تم اس کو نہيں پہچانتے ہو (تو نہ پہچانو) يہ وه ہے کہ سر زمين بطحی اس کے قدموں کے نشان پہچانتی ہے

يہ وه شخص ہے کہ حل و حرم اس کو پہچانتے۔ اور پھر ․․يہ وه ہے، زمزم و صفا جس کو پہچانتے ہيں ․․․

يہ پيغمبر اسلام (ص) کا فرزند ہے ․․․ يہ بہترين انسان کا فرزند ہے ․․․

مدح کے موتی لٹانے پر  آيا تو ايک قصيدهٔ غرار ميں اس طرح امام سجاد ع کے خصوصيات کا ذکر کر نا شروع کر ديا کہ ہر ہر مصرع ہشام کے سينے ميں خنجر کی طرح چھبتا چلا گيا۔ اور اس کے بعد ہشام کے غضب کا نشانہ بھی بننا پڑا، ہشام نے بزم سے نکال باہر کيا ليکن امام سجاد ع نے اس کے لئے انعام کی تھيلی روانہ کی جس کو فرزدق نے اس معذرت کے ساتھ واپس کر ديا کہ, ميں نے يہ اشعار خدا کی خوشنودی کے لئے کہے ہيں، آپ (ع) سے پيسہ لينا نہيں چاہتا۔ اس طرح کے انداز مزاحمت، امام کے اصحاب کے يہاں مشاہده کئے جاسکتے ہيں جس کا ايک اور نمونہ يحی بن ام الطويل کا طرز عمل ہے جو اہل بيت سے وابستہ نہايت ہی مخلص اور شجاع جوانوں ميں سے ہے, جس کا معمول يہ ہے کہ وه کوفہ جاتا ہے لوگوں کو جمع کرتا ہے اور آواز ديتا ہے,

اے لوگو (مخاطب حکومت بنی اميہ کے آگے پيچھے بھاگنے والے افراد ہيں) ہم تمھارے (اور تمھارے  آقاؤں کے) منکر ہيں جب تک تم لوگ خدا پر ايمان نہيں لاتے، ہم تم کو قبول نہيں کر تے۔

اس گفتگو سے ايسا لگتا ہے کہ وه لوگوں کو مشرک سمجھتا ہے اور ان کو کافر و مشرک کے الفاظ سے خطاب کرتا ہے۔

بنی اميہ سرکار کا امام سجاد (ع) کے ساتھ تعرض

امام اپنے 34 برس کے طويل دور امامت ميں, اپنی امامت کے اس عظيم دسترخوان کو وسيع سے وسيع تر کرتے رہے اور تعليم و تربيت کی ايمانی غذاؤں سے بہت سے مومن و مخلص افراد پيدا کئے- دعوت اہلبيت (ع) کو وسعت حاصل ہوتی رہی اور يہی وه چيز تھی جس کی وجہ سے اموی سرکار حضرت (ع) کے سلسلے ميں بدبين و فکر مند رہنے لگی- يہاں تک کہ حضرت (ع) کی راه ميں رکاوٹ اور روک ٹوک بھی کی گئی اور کم از کم ايک مرتبہ حضرت (ع) کو طوق و زنجير ميں کس کر (خصوصاً گلوئے مبارک کو جکڑ کر) مدينہ سے شام بھی لے جايا گيا۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے موارد پيش  آئے جب آپ (ع) کو مخالفين کی طرف سے آزار و شکنجے کا سامنا کرنا پڑا, اور آخر کار وليد بن عبد الملک ملعون (خدا اس کو واصل جہنم کرے) کے دور خلافت 95ھ ميں خلافت بنی اميہ کے سرکاری کارگزاروں کے ہاتھوں زہر دے کر شہيد کر ديا گيا۔

متعلقہ تحاریر