رسول خداؐ ہجرت کے دسویں سال، ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ فریضہ حج (حجۃ الوداع) کی ادائیگی کے بعد واپسی کے سفر میں بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ یہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ کے رستے جدا ہوتے تھے, اتنے میں جبرائیل آیہ تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول خداؐ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ علیؑ کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔ آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا۔ اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا, جس کے بعد تمام بزرگ صحابہ سمیت حاضرین نے حضرت علیؑ کی بیعت کی:
ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے, وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے۔ وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے۔
وہ ہمیشہ سے قابل حمد تھا اور ہمیشہ قابل حمد رہے گا، وہ ہمیشہ سے بزرگ ہے۔ وہ ابتدا کرنے والا, پلٹانے والا, اور ہر کام کی بازگشت اسی کی طرف ہے۔ بلندیوں کا پیدا کرنے والا، فرش زمین کا بچھانے والا، آسمان و زمین پر اختیار رکھنے والا، پاک ومنزہ، پاکیزہ، ملائکہ اور روح کا پروردگار، تمام مخلوقات پر فضل وکرم کرنے والا اور تمام موجودات پر مہربانی کرنے والا ہے, وہ ہر آنکھ کو دیکھتا ہے اگرچہ کوئی آنکھ اسے نہیں دیکھتی۔
وہ صاحب حلم وکرم اوربردبار ہے، اسکی رحمت ہر شے کااحاطہ کئے ہوئے ہے اور اسکی نعمت کا ہر شے پر احسان ہے۔ انتقام میں جلدی نہیں کرتا اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتا۔
اسرار کو جانتا ہے اور ضمیروں سے باخبر ہے، پوشیدہ چیزیں اس پر مخفی نہیں رہتیں، اور مخفی امور اس پر مشتبہ نہیں ہوتے، وہ ہر شے پر محیط اور ہر چیز پر غالب ہے، اسکی قوت ہر شے میں, اسکی قدرت ہر چیز پر ہے، وہ بے مثل ہے, اس نے شے کو اس وقت وجود بخشا جب کوئی چیز نہیں تھی اوروہ زندہ ہے، ہمیشہ رہنے والا، انصاف کرنے والا ہے، اسکے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ عزیز و حکیم ہے۔
نگاهوں کی رسائی سے بالاتر ہے اور ہر نگاہ کو اپنی نظر میں رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی, کوئی شخص اسکے وصف کو پا نہیں سکتا اور کوئی اسکے ظاہر وباطن کی کیفیت کا ادراک نہیں کرسکتا مگر اتنا ہی جتنا اس نے خود بتا دیا ہے۔
میں گواھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جس کی پاکی و پاکیزگی ہر زمانہ پر محیط اور جسکا نور ابدی ہے, اسکا حکم کسی مشیر کے مشورے کے بغیر نافذ ہے، اور نہ ہی اس کی تقدیر میں کوئی اسکا شریک ہے، اور نہ اس کی تدبیر میں کوئی فرق ہے۔ جو کچھ بنایا وہ بغیر کسی نمونہ کے بنایا اور جسے بھی خلق کیا بغیر کسی کی اعانت یا فکر ونظر کی زحمت کے بنایا۔ جسے بنایا وہ بن گیا اور جسے خلق کیا وہ خلق ہو گیا۔ وہ خدا ہے لا شریک ہے جس کی صنعت محکم اور جس کا سلوک بہترین ہے۔ وہ ایسا عادل ہے جو ظلم نہیں کرتا اور ایسا کرم کرنے والا ہے کہ تمام کام اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔
میں گواھی دیتا ہوں کہ وہ ایسا بزرگ و برتر ہے کہ ہر شے اسکی قدرت کے سامنے متواضع، تمام چیزیں اس کی عزت کے سامنے ذلیل، تمام چیزیں اس کی قدرت کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور ہر چیز اسکی ہیبت کے سامنے خاضع ہے۔ وہ تمام بادشاهوں کا بادشاہ، تمام آسمانوں کا خالق، شمس و قمر پر اختیار رکھنے والا، یہ تمام معین وقت پرحرکت کر رہے ہیں، دن کو رات اور رات کو دن پر پلٹانے والا ہے کہ دن بڑی تیزی کے ساتھ اس کا پیچھا کرتا ہے، ہر معاند ظالم کی کمر توڑنے والا اور ہر سرکش شیطان کو ہلاک کرنے والا ہے۔
نہ اس کی کوئی ضد ہے نہ مثل، وہ یکتا ہے بے نیاز ہے، نہ اسکا کوئی باپ ہے نہ بیٹا، نہ ہمسر۔ وہ خدائے واحد اور رب مجید ہے، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے, جوارادہ کرتا ہے پورا کر دیتا ہے, وہ جانتا ہے پس احصا کر لیتا ہے، موت وحیات کا مالک، فقر وغنا کا صاحب اختیار، ہنسانے والا، رلانے والا، قریب کرنے والا، دور ہٹا دینے والا عطا کرنے والا، روک لینے والا ہے، ملک اسی کے لئے ہے اور حمد اسی کے لئے زیبا ہے اور خیر اسکے قبضہ میں ہے۔ وہ ہر شے پر قادر ہے۔
رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کردیتا ہے۔ اس عزیزو غفار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، وہ دعاؤں کا قبول کرنے والا، بکثرت عطا کرنے والا، سانسوں کا شمار کرنے والا اور انسان و جنات کا پروردگار ہے، اسکے لئے کوئی شے مشتبہ نہیں ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سے پریشان نہیں ہوتا ہے اور اسکو گڑگڑانے والوں کا اصرار خستہ حال نہیں کرتا، نیک کرداروں کا بچانے والا، طالبان فلاح کو توفیق دینے والا مومنین کا مولا اور عالمین کا پالنے والا ہے۔ اسکا ہر مخلوق پر یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اسکی حمد و ثنا کرے۔
ہم اس کی بے نہایت حمد کرتے ہیں اور ہمیشہ خوشی، غمی، سختی اور آسائش میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، میں اس پر اور اسکے ملائکہ، اس کے رسولوں اور اسکی کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں، اسکے حکم کو سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں، اسکی مرضی کی طرف سبقت کرتا ہوں اور اسکے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوں, چونکہ اسکی اطاعت میں رغبت ہے اور اس کے عتاب کے خوف کی بناء پر, کہ نہ کوئی اسکی تدبیر سے بچ سکتا ہے اور نہ کسی کو اسکے ظلم کا خطرہ ہے۔
میں اپنے لئے بندگی اور اسکے لئے ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے لئے اس کی ربوبیت کی گواھی دیتا ہوں اسکے پیغام وحی کو پہنچانا چاہتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوتاھی کی شکل میں وہ عذاب نازل ہو جائے جس کا دفع کرنے والا کوئی نہ ہو, اگرچہ بڑی تدبیر سے کام لیا جائے اور اس کی دوستی خالص ہے۔ اس خدائے وحدہ لا شریک نے مجھے بتایا کہ اگر میں نے اس پیغام کو نہ پہنچایا جو اس نے مجھ پر نازل فرمایا ہے تو اسکی رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اس نے میرے لئے لوگوں کے شر سے حفاظت کی ضمانت لی ہے اور خدا ہمارے لئے کافی اور بہت زیادہ کرم کرنے والا ہے۔ اس خدائے کریم نے یہ حکم دیا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُۥ ۚ وَٱللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِ (مائدہ ۔ 67)
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا
ایہا الناس! میں نے حکم کی تعمیل میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور میں اس آیت کے نازل ہونے کا سبب واضح کر دینا چاہتا ہوں۔
جبرئیل تین بار میرے پاس خداوندِ سلام کا یہ حکم لے کر نازل ہوئے کہ میں اسی مقام پر ٹھہر کر سفیدوسیاہ کو یہ اطلاع دے دوں کہ علی بن ابی طالب (ع) میرے بھائی، وصی، جانشین اور میرے بعد امام ہیں۔ ان کی منزلت میرے نزدیک ویسی ہی ہے جیسے موسیٰ کے لئے ھارون کی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ هوگا، وہ اللہ و رسول کے بعد تمہارے حاکم ہیں اور اس سلسلہ میں خدا نے اپنی کتاب میں مجھ پر یہ آیت نازل کی ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَٰكِعُونَ (مائدہ ۔ 55)
بس تمھارا ولی الله ہے اور اسکا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰة ادا کرتے ہیں
علی بن ابی طالب(ع) نے نماز قائم کی ہے اور حالت رکوع میں زکوٰة دی ہے وہ ہر حال میں رضاء الٰہی کے طلب گار ہیں۔
میں نے جبرئیل کے ذریعہ خدا سے یہ گذارش کی کہ مجھے اس وقت تمہارے سامنے اس پیغام کو پہنچانے سے معذور رکھا جائے اس لئے کہ میں متقین کی قلت اور منافقین کی کثرت، فساد برپا کرنے والے، ملامت کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے منافقین کی مکاریوں سے باخبر ہوں، جن کے بارے میں خدا نے صاف کہہ دیا ہے کہ یہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہے، اور یہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں حالانکہ پروردگار کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔ اسی طرح منافقین نے بارہا مجھے اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ وہ مجھے اُذُنْ (ہر بات پر کان دھرنے والا) کہنے لگے اور ان کا خیال تھا کہ میں ایسا ہی ہوں, چونکہ اس (علی) کے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے، اس کی طرف متوجہ رہنے اور اس کے مجھے قبول کرنے کی وجہ سے یہاں تک کہ خداوند عالم نے اس سلسلہ میں آیت نازل کی ہے:
وَمِنْهُمُ ٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلنَّبِىَّ وَيَقُولُونَ ہو أُذُنٌۭ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍۢ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ (توبہ ۔ 61)
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو رسول کو ستاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بس کان ہی ہیں آپ کہہ دیجئے کہ وه کان تمہارے بھلے کے لئے ہے, وه اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مومنین (کی باتوں) کا یقین رکھتے ہیں
اور اگر میں چاہوں تو اُذُنْ کہنے والوں میں سے ایک ایک کا نام بھی بتا سکتا ہوں، اگر میں چاہوں تو ان کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں اور اگر چاہوں تو تمام نشانیوں کے ساتھ ان کا تعارف بھی کرا سکتا ہوں، لیکن میں ان معاملات میں کرم اور بزرگی سے کام لیتا ہوں۔ اس سب کے پیش نظر خدا مجھ سے اس وقت تک راضی نہیں ہو گا کہ جب تک میں اس حکم کی تبلیغ نہ کر دوں جو مجھ پر نازل ہوا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُۥ ۚ وَٱللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِ (مائدہ ۔ 67)
اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا
لوگو! جان لو کہ اللہ نے علی کو تمھارا ولی اور امام بنایا ہے, اور ان کی اطاعت کو تمام مہاجرین، انصار اور نیکی میں ان کے تابعین اور ہر شہری، دیہاتی، عجمی، عربی، آزاد، غلام، صغیر، کبیر، سیاہ، سفید پر واجب کر دیا ہے۔ ہر توحید پرست کیلئے ان کا حکم جاری، ان کا امر نافذ اور ان کا قول قابل اطاعت ہے، ان کا مخالف ملعون اور ان کا پیرو مستحق رحمت ہے۔ جو ان کی تصدیق کرے گا اور ان کی بات سن کر اطاعت کرے گا اللہ اسکے گناہوں کو بخش دے گا۔
ایہا الناس! یہ اس مقام پر میرا آخری قیام ہے لہٰذا میری بات سنو، اور اطاعت کرو اور اپنے پروردگار کے حکم کو تسلیم کرو۔ اللہ تمھارا رب، ولی اور پروردگار ہے اور اس کے بعد اس کا رسول محمد (ص) تمھارا حاکم ہے جو آج تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اس کے بعد علی تمھارا ولی اور بحکم خدا تمھارا امام ہے اس کے بعد امامت میری ذریت اور اس کی اولاد میں تمہارے خدا و رسول سے ملاقات کے دن تک با قی رہے گی۔
حلال وہی ہے جس کو اللہ، رسول اور انھوں (بارہ ائمہ) نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے جس کو اللہ، رسول اور انھوں (بارہ ائمہ) نے تم پر حرام کیا ہے۔ اللہ نے مجھے حرام و حلال کی تعلیم دی ہے اور اس نے اپنی کتاب اور حلال و حرام میں سے جس چیز کا مجھے علم دیا تھا وہ سب میں نے اس (علی) کے حوالہ کر دیا۔
ایہا الناس! علی (ع) کو دوسروں پر فضیلت دو۔ خداوندعالم نے ہر علم کا احصاء ان میں کر دیا ہے اور کوئی علم ایسا نہیں ہے جو اللہ نے مجھے عطا نہ کیا ہو اور جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا تھا سب میں نے علی (ع) کے حوالہ کر دیا ہے۔ وہ امام مبین ہیں اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَكُلَّ شَىْءٍ أَحْصَيْنَـٰهُ فِىٓ إِمَامٍۢ مُّبِينٍۢ (یس ۔ 12)
ہم نے ہر چیز کا احصاء امام مبین میں کردیا ہے
ایھا لناس! علی (ع) سے بھٹک نہ جانا، ان سے بیزار نہ ہو جانا اور ان کی ولایت کا انکار نہ کر دینا کہ وہی حق کی طرف ہدایت کرنے والے، حق پر عمل کرنے والے، باطل کو فنا کر دینے والے اور اس سے روکنے والے ہیں، انہیں اس راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں ہوتی۔
وہ سب سے پہلے اللہ و رسول پر ایمان لائے اور اپنے جی جان سے رسول پر قربان تھے۔ وہ اس وقت رسول کے ساتھ تھے جب لوگوں میں سے ان کے علاوہ کوئی عبادت خدا کرنے والا نہ تھا۔ انھوں نے لوگوں میں سب سے پہلے نماز قائم کی اور میرے ساتھ خدا کی عبادت کی ہے۔ میں نے خداوند عالم کی طرف سے ان کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم دیا تو وہ بھی اپنی جان فدا کرتے ہو ئے میرے بستر پر سو گئے۔
ایہا الناس! انہیں افضل قرار دو کہ انہیں اللہ نے فضیلت دی ہے اور انہیں قبول کرو کہ انہیں اللہ نے امام بنایا ہے۔
ایہا الناس! وہ اللہ کی طرف سے امام ہیں اور جو ان کی ولایت کا انکار کرے گا نہ اس کی توبہ قبول ہو گی اور نہ اس کی بخشش کا کوئی امکان ہے, بلکہ اللہ یقینا اس امر پر مخالفت کرنے والے کے ساتھ ایسا کرے گا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ لہٰذا تم ان کی مخالفت سے بچو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جہنم میں داخل ہو جاوٴ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جس کو کفار کے لئے مہیا کیا گیا ہے۔
ایہا الناس! خدا کی قسم تمام انبیاء علیہم السلام و مرسلین نے مجھے بشارت دی ہے اور میں خاتم الانبیاء والمر سلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کےلئے حجت پروردگار ہوں۔ جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ جاھلیت جیسا کافر ہو جا ئے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا۔ اور جس نے ہمارے کسی ایک امام کے سلسلہ میں شک کیا اس نے تمام اماموں کے بارے میں شک کیا, اور ہمارے بارے میں شک کرنے والے کا انجام جہنم ہے۔
ایہا الناس! اللہ نے جو مجھے یہ فضیلت عطا کی ہے یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور میری طرف سے تا ابد اور ہر حال میں اسکی حمدو سپاس ہے۔
ایہا الناس! علی (ع) کی فضیلت کا اقرار کرو کہ وہ میرے بعد ہر مرد و زن سے افضل و برتر ہے۔ جب تک اللہ رزق نازل کر رہا ہے اور اس کی مخلوق باقی ہے۔ جو میری اس بات کو رد کرے اور اس کی موافقت نہ کرے وہ ملعون ہے, ملعون ہے اور مغضوب ہے, مغضوب ہے۔ جبرئیل نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ پر وردگار کا ارشاد ہے کہ جو علی سے دشمنی کرے گا اور انہیں اپنا حاکم تسلیم نہ کرے گا اس پر میری لعنت اور میرا غضب ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل کے لئے کیا مہیا کیا ہے۔ اس کی مخالفت کرتے وقت اللہ سے ڈرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ حق سے قدم پھسل جائیں اور اللہ تمھا رے اعمال سے با خبر ہے۔
ایہا الناس! علی (ع) وہ جنب اللہ ھیں جن کاخداوند عالم نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں فرمایا ہے:
أَن تَقُولَ نَفْسٌۭ يَـٰحَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِى جَنۢبِ ٱللَّهِ (زمر ۔ 56)
کہ کوئی شخص کہے ہائے افسوس کہ میں نے جنب خدا کے حق میں بڑی کوتاہی کی
ایہا الناس! قرآن میں فکر کرو، اس کی آیات کو سمجھو، محکمات میں غوروفکر کرو اور متشابہات کے پیچھے نہ پڑو۔ خدا کی قسم قرآن مجید کے باطن اور اس کی تفسیر کو اس کے علاوہ اور کوئی واضح نہ کر سکے گا۔
جس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور جس کا بازو تھام کر میں نے بلند کیا ہے اور جس کے بارے میں یہ بتا رہا ہوں کہ:
جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (ع) مولا ہے۔ یہ علی بن ابی طالب (ع) میرا بھائی ہے اور وصی بھی۔ اس کی ولایت کا حکم اللہ کی طرف سے ہے جو مجھ پر نازل ہوا ہے۔
ایہا الناس! علی (ع) اور ان کی نسل سے میری پاکیزہ اولاد ثقل اصغر ہیں اور قرآن ثقل اکبر ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی خبر دیتا ہے اور اس سے جدا نہ هوگا یہاں تک کہ دونوں حوض کو ثر پر وارد ہوں گے جان لو! میرے یہ فرزند مخلوقات میں خدا کے امین اور زمین میں خدا کے حکام ہیں۔
آگاہ ہو جاوٴ میں نے میں نے ادا کر دیا, میں نے پیغام کو پہنچا دیا۔ میں نے بات سنا دی، میں نے حق کو واضح کر دیا، آگاہ ہو جاوٴ جو اللہ نے کہا وہ میں نے دہرا دیا۔ پھر آگاہ ہو جاوٴ کہ امیرالمومنین میرے اس بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور اس کے علاوہ یہ منصب کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے۔
اس کے بعد پیغمبر اسلام ص نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی علیہ السلام کو بلند کیا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اورعلی (ع) کو اتنا بلند کیا کہ آپ (ع) کے قدم مبارک آنحضرت (ص) کے گھٹنوں کے برابر آگئے۔ اس کے بعد آپ (ص) نے فرمایا,
ایہا الناس! یہ علی (ع) میرا بھائی اور وصی اور میرے علم کا مخزن اورمیری امت میں سے مجھ پر ایمان لانے والوںکے لئے میرا خلیفہ ہے, اور کتاب خدا کی تفسیر کی رو سے بھی میرا جانشین ہے۔ یہ خدا کی طرف دعوت دینے والا، اس کی مرضی کے مطابق عمل کرنے والا، اس کے دشمنوں سے جہاد کرنے والا، اس کی اطاعت پر ساتھ دینے والا، اس کی معصیت سے رو کنے والا ہے۔ یہ اس کے رسول کا جا نشین اور مومنین کا امیر، ہدایت کرنے والا امام ہے اورناکثین (بیعت شکن), قاسطین (ظالم), اور مارقین (خارجی افراد) سے جہاد کرنے والا ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:
مَا يُبَدَّلُ ٱلْقَوْلُ لَدَىَّ (ق ۔ 29)
میرے یہاں بات میں تبدیلی نہیں ہوتی
خدایا تیرے حکم سے کہہ رہا ہوں, خدایا علی (ع) کے دوست کو دوست رکھنا اور علی (ع) کے دشمن کو دشمن قرار دینا، جو علی (ع) کی مدد کرے اس کی مدد کرنا اور جو علی (ع) کو ذلیل و رسوا کرے, تو اس کو ذلیل و رسوا کرنا۔ ان کے منکر پر لعنت کرنا اور ان کے حق کا انکار کرنے والے پر غضب نازل کرنا۔
پروردگار! تو نے اس مطلب کو بیان کرتے وقت اور آج کے دن علی (ع) کو تاج ولایت پہناتے وقت علی (ع) کے بارے میں یہ آیت نازل فرما ئی:
ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًۭا (مائدہ ۔ 3)
آج میں نے دین کو کامل کر دیا، نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیدیا
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ ٱلْإِسْلَـٰمِ دِينًۭا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ (آل عمران ۔ 85)
اور جو اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کرے گا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ شخص آخرت میں خسارہ والوں میں ہو گا
پروردگار میں تجھے گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے تیرے حکم کی تبلیغ کر دی۔
ایہا الناس! اللہ نے دین کی تکمیل علی (ع) کی امامت سے کی ہے۔ لہٰذا جو علی (ع) اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا, اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال برباد ہو جائیں گے۔ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔
ایہا الناس! یہ علی (ع) ہے, تم میں سب سے زیادہ میری مدد کرنے والا، تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب تر اور میری نگاہ میں عزیز تر ہے۔ اللہ اور میں دونوں اس سے راضی ہیں۔ قرآن کریم میں جو بھی رضا کی آیت ہے وہ اسی کے بارے میں ہے اور جہاں بھی یا ایھا الذین آمنوا کہا گیا ہے اس کا پہلا مخاطب یہی ہے۔ قرآن میں ہر آیت مدح اسی کے بارے میں ہے۔ سوره ھل اتیٰ میں جنت کی شہادت صرف اسی کے حق میں دی گئی ہے, اور یہ سورہ اس کے علا وہ کسی غیر کی مدح میں نازل نہیں ہوا ہے۔
ایہا الناس! یہ دین خدا کا مدد گار، رسول خدا (ص) سے دفاع کرنے والا، متقی، پا کیزہ صفت، ھا دی اور مہدی ہے۔ تمھارا نبی سب سے بہترین نبی, اور اس کا وصی بہترین وصی ہے, اور اس کی اولاد بہترین اوصیاء ہیں۔
ایہا الناس! ہر نبی کی ذریت اس کے صلب سے ہوتی ہے, اور میری ذریت علی (ع) کے صلب سے ہے۔
ایہا الناس! ابلیس نے حسد کر کے آدم کو جنت سے نکلوا دیا, لہٰذا خبردار تم علی سے حسد نہ کرنا کہ تمہارے اعمال برباد ہو جا ئیں، اور تمھا رے قدموں میں لغزش پیدا ہو جا ئے۔ آدم, صفی اللہ ہونے کے با وجود ایک ترک اولیٰ پر زمین میں بھیج دئیے گئے تو تم کیا ہو اور تمھاری حقیقت کیا ہے؟ تم میں دشمنان خدا بھی پائے جاتے ہیں۔ یاد رکھو علی کا دشمن صرف شقی ہو گا اور علی کا دوست صرف تقی ہو گا۔ اس پر ایمان رکھنے والا صرف مومن مخلص ہی ہو سکتا ہے اور خدا کی قسم علی (ع) کے بارے میں ہی سوره عصر نازل ہوا ہے:
مگر علی (ع) جو ایمان لائے اور حق اور صبر پر راضی ہوئے
ایہا الناس! میں نے خدا کو گواہ بنا کر اپنے پیغام کو پہنچا دیا اور رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایہا الناس! اللہ سے ڈرو، جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار! اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک اس کے اطاعت گذار نہ ہو جاؤ۔
ایہا الناس!
اللہ، اس کے رسول (ص) اور اس نور پر ایمان لاوٴ جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے (التغابن ۔ 8)
قبل اس کے کہ خدا کچھ چہروں کو بگاڑ کر انہیں پشت کی طرف پھیر دے یا ان پر اصحاب سبت کی طرح لعنت کرے (النساء ۔ 48)
خدا کی قسم اس آیت سے میرے اصحاب کی ایک قوم کا قصد کیا گیا ہے کہ جن کے نام و نسب سے میں آشنا ہوں, لیکن مجھے ان سے پردہ پوشی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس ہر انسان اپنے دل میں علی (ع) کی محبت یا بغض کے مطابق عمل کرتا ہے۔
ایہا الناس! نور کی پہلی منزل میں ہوں, میرے بعد علی (ع) اور ان کے بعد ان کی نسل ہے اور یہ سلسلہ اس مہدی قائم (عج) تک برقرار رہے گا, جو اللہ کا حق اور ہمارا حق حاصل کرے گا۔ چونکہ اللہ نے ہم کو تمام مقصرین، معاندین، مخالفین، خائنین، آثمین اور ظالمین کے مقابلہ میں اپنی حجت قرار دیا ہے۔
ایہا الناس!
میں تمہیں باخبر کرنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے لئے اللہ کا نمائندہ ہوں, جس سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں۔ تو کیا میں مر جاوٴں یا قتل ہو جاؤں تو تم اپنے پرانے دین پر پلٹ جاوٴ گے؟ تو یاد رکھو جو پلٹ جائے گا وہ اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دینے والا ہے۔ (آل عمران ۔ 144)
آگاہ ہو جاوٴ کہ علی (ع) کے صبر و شکر کی تعریف کی گئی ہے اور ان کے بعد میری اولاد کو صابر و شاکر قرار دیا گیا ہے, جو ان کے صلب سے ہے۔
ایہا الناس! مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو, بلکہ خدا پر بھی احسان نہ سمجھو کہ وہ تمہارے اعمال کو نیست و نابود کر دے, اور تم سے ناراض ہو جا ئے، اور تمہیں آگ اور پگھلے ہوئے تانبے کے عذاب میں مبتلا کردے, تمھارا پروردگار مسلسل تم کو نگاہ میں رکھے هوئے ہے۔
ایہا الناس!عنقریب میرے بعد ایسے امام آئیں گے جو جہنم کی دعوت دیں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ اللہ اور میں, دونوں, ان لوگوں سے بیزار ہیں۔
ایہا الناس! یہ لوگ اور ان کے اتباع و انصار سب جہنم کے پست ترین درجے میں ہوں گے اور یہ متکبر لوگوں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ آگاہ ہو جاوٴ کہ یہ لوگ اصحاب صحیفہ ہیں, لہٰذا تم میں سے ہر ایک اپنے صحیفہ پر نظر رکھے۔
آنحضرت (ص) نے صحیفہ ملعونہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس پر منافقین کے پانچ بڑے افراد نے حجة الوداع کے موقع پر کعبہ میں دستخط کئے تھے, جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد خلافت ان کے اہل بیت علیہم السلام تک نہیں پہنچنی چاہئے۔
ایہا الناس! آگاہ ہو جاوٴ کہ میں خلافت کو امامت اور وراثت کے طورپر قیامت تک کے لئے اپنی اولاد میں امانت قرار دے کر جا رہا ہوں, اور مجھے جس امر کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا میں نے اس کی تبلیغ کر دی ہے تا کہ ہر حاضر و غائب، موجود و غیر موجود، مولود و غیر مولود سب پر حجت تمام ہو جائے۔ اب حاضر کا فریضہ ہے کہ قیامت تک اس پیغام کوغائب تک اورماں باپ اپنی اولاد کے حوالہ کرتے رہیں۔
میرے بعد عنقریب لوگ اس امامت کو بادشاہت سمجھ کر غصب کر لیں گے، خدا غاصبین اور تجاوز کرنے والوں پر لعنت کرے۔ یہ وہ وقت هوگا جب اے جن و انس تم پر عذاب آئے گا, آگ اور (پگھلے ہوئے) تانبے کے شعلے برسائے جا ئیں گے, جب کوئی کسی کی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔
ایہا الناس! اللہ تم کو انہیں حالات میں نہ چھوڑے گا جب تک خبیث اور طیب کو الگ الگ نہ کرے۔
ایہا الناس! کوئی قریہ ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ اسے تکذیب کی بنا پر ہلاک کر دے گا اور اسے الامام المہدی (عج) کی حکومت کے زیر سایہ لے آئے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ صادق الوعد ہے۔
ایہا الناس! تم سے پہلے اکثر لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور اللہ ہی نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے, اور وہی بعد والوں کو ہلاک کرنے والا ہے۔ خداوند عالم کا فرمان ہے :
أَلَمْ نُهْلِكِ ٱلْأَوَّلِينَ ١٦ ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ ٱلْـَٔاخِرِينَ ١٧ كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِٱلْمُجْرِمِينَ ١٨ وَيْلٌۭ يَوْمَئِذٍۢ لِّلْمُكَذِّبِينَ (مرسلات: 16- 19)
کیا ہم نے ان کے پہلے والوں کو ہلاک نہیں کیا, پھر دوسرے لوگوں کو بھی انہیں کے پیچھے لگا دیں گے ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کا برتاوٴ کرتے ہیں اور آج کے دن جھٹلانے والوں کے لئے بربادی ہی بربادی ہے
ایہا الناس! اللہ نے مجھے امر و نہی کی ہدایت کی ہے اور میں نے اللہ کے حکم سے علی(ع) کو امر ونہی کیا ہے۔ وہ امر و نہی الٰہی سے با خبر ہیں۔ ان کے امر کی اطاعت کرو تاکہ سلا متی پاوٴ، ان کی پیروی کرو تاکہ ہدایت پاو, ان کے روکنے پر رک جاوٴ تاکہ راہ راست پر آ جاوٴ۔ ان کی مرضی پر چلو اور مختلف راستے تمہیں اس کی راہ سے منحرف کردیں گے۔
میں وہ صراط مستقیم ہوں جس کی اتباع کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر میرے بعد علی (ع) ہیں اور ان کے بعد میری اولاد جو ان کے صلب سے ہے۔ یہ سب وہ امام ہیں جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور حق کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔
اس کے بعد آنحضرت (ص) نے سوره حمد کی تلاوت کی, جس کے بعد آپ ص نے اس طرح فرمایا:
خدا کی قسم یہ سورہ میرے اور میری اولاد کے بارے میں نا زل ہوا ہے، اس میں اولاد کے لئے عمومیت بھی ہے اور اولاد کے ساتھ خصوصیت بھی ہے۔ یہی خدا کے دوست ہیں جن کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن! یہ حزب اللہ ہیں جو ہمیشہ غالب رہنے والے ہیں۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ دشمنان علی ہی اہل تفرقہ، اہل تعدی اور برادران شیطان ہیں, جو باطل چیزوں کو خواہشات نفسانی کی وجہ سے ایک دوسرے تک پہونچاتے ہیں۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دوست ہی مومنین بر حق ہیں جن کا ذکر پروردگار نے اپنی کتاب میں کیا ہے:
لَّا تَجِدُ قَوْمًۭا يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ يُوَآدُّونَ مَنْ حَآدَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَوْ كَانُوٓا۟ ءَابَآءَهُمْ أَوْ أَبْنَآءَهُمْ أَوْ إِخْوَٰنَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ كَتَبَ فِى قُلُوبِهِمُ ٱلْإِيمَـٰنَ (مجادلہ ۔ 22)
آپ کبھی نہ دیکھیں گے کہ جو قوم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی ہے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رہی ہے جو اللہ اور رسول سے دشمنی کرنے والے ہیں چاہے وہ ان کے باپ یا اولاد یا برادران یا قبیلہ والے ہی کیوں نہ ہوں, یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان (اہل بیت) کے دوست وہ مومنین ہیں جن کی توصیف پروردگار نے اس انداز سے کی ہے:
ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَلَمْ يَلْبِسُوٓا۟ إِيمَـٰنَهُم بِظُلْمٍ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمُ ٱلْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ (الانعام ۔ 82)
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں
آگاہ ہو جاؤ کہ ان کے دوست وہی ہیں جو ایمان لائے ہیں اور شک میں نہیں پڑے ہیں۔
آگاہ هوجاوٴ کہ ان کے دوست وہ ہیں جو جنت میں امن و سکون کے ساتھ داخل ہوں گے اور ملائکہ سلام کے ساتھ یہ کہہ کے ان کا استقبال کریں گے کہ تم طیب و طاہر ہو، لہٰذا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل ہو جاوٴ
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دوستوں کے لئے جنت ہے اور انہیں جنت میں بغیر حساب رزق دیا جائیگا۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان (اہل بیت) کے دشمن وہ ہیں جو آتش جہنم کے شعلوں میں داخل ہوں گے۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جو جہنم کی آواز اُس عالم میں سنیں گے کہ اس کے شعلے بھڑک
رہے ہوں گے اور وہ ان کو دیکھیں گے۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جن کے بارے میں خدا وند عالم فرماتا ہے:
كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌۭ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا (اعراف ۔ 38)
(جہنم میں) داخل ہو نے والا ہر گروہ دوسرے گروہ پر لعنت کرے گا
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دشمن وہ ہیں جن کے بارے میں پروردگار کا فرمان ہے:
كُلَّمَآ أُلْقِىَ فِيهَا فَوْجٌۭ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَآ أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌۭ ٨ قَالُوا۟ بَلَىٰ قَدْ جَآءَنَا نَذِيرٌۭ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ ٱللَّهُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِى ضَلَـٰلٍۢ كَبِيرٍۢ ٩ وَقَالُوا۟ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ أَصْحَـٰبِ ٱلسَّعِيرِ ١٠ . . . . (الا) فَسُحْقًۭا لِّأَصْحَـٰبِ ٱلسَّعِيرِ (ملک: 8-11)
جب اس میں کوئی گروه ڈاﻻ جائے گا اس سے جہنم کے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے واﻻ کوئی نہیں آیا تھا؟ وه جواب دیں گے کہ بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلایا اور ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نےکچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ تم بہت بڑی گمراہی میں ہی ہو. اور کہیں گے اگر ہم سنتے یاسمجھتے ہوتے تو دوزخیوں میں نہ ہوتے . . . . (آگاہ ہو جاؤ) اب جہنم والوں کے لئے تو رحمت خداسے دوری ہی دوری ہے
آگاہ ہو جاوٴ کہ ان کے دوست وہ ہیں جو اللہ سے از غیب ڈرتے ہیں اور انہیں کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
ایہا الناس! دیکھو آگ کے شعلوں اور اجر عظیم کے مابین کتنا فاصلہ ہے۔
ایہا الناس! ھمارا دشمن وہ ہے جس کی اللہ نے مذمت کی اور اس پر لعنت کی ہے اور ھمارا دوست وہ ہے جس کی اللہ نے تعریف کی ہے اور اس کو دوست رکھتا ہے۔
ایہا الناس! آگاہ ہو جاوٴ کہ میں ڈرانے والا ہوں اور علی (ع) بشارت دینے والے ہیں۔
ایہا الناس!میں انذار کرنے والا اور علی (ع) ہدایت کرنے والے ہیں۔
ایہا الناس! میں پیغمبر ہوں اور علی (ع) میرے جانشین ہیں۔
ایہا الناس! آگاہ ہو جاوٴ میں پیغمبر ہوں اور علی (ع) میرے بعد امام اور میرے وصی ہیں اور ان کے بعد کے امام ان کے فرزند ہیں۔ آگاہ ہو جاوٴ کہ میں ان کا باپ ہوں اور وہ اس کے صلب سے پیدا ہونگے۔
یاد رکھو کہ آخری امام ھمارا ہی قائم مہدی ہے، وہ ادیان پر غالب آنے والا اور ظالموں سے انتقام لینے والا ہے، وہی قلعوں کو فتح کرنے والا اور ان کو منہدم کرنے والا ہے، وہی مشرکین کے ہر گروہ پر غالب اور ان کی ہدایت کرنے والا ہے۔
آگاہ هوجاؤ وہی اولیاء خدا کے خون کا انتقام لینے والا اور دین خدا کا مددگار ہے۔ جان لو! کہ وہ عمیق سمندر سے استفادہ کرنے والا ہے۔
وہی ہر صاحب فضل پر اس کے فضل اور ہر جاہل پر اس کی جہالت کا نشانہ لگانے والا ہے۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ وہی اللہ کا منتخب اور پسندیدہ ہے، وہی ہر علم کا وارث اور اس پر احاطہ رکھنے والا ہے۔
آگاہ ہو جاؤ وہی پروردگار کی طرف سے خبر دینے والا اورآیات الٰہی کو بلند کرنے والا ہے, وہی رشید اور صراط مستقیم پر چلنے والا ہے, اسی کو اللہ نے اپنا قانون سپرد کیا ہے۔
اسی کی بشارت دور سابق میں دی گئی ہے۔ وہی حجت باقی ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں ہے، ہر حق اس کے ساتھ ہے اور ہر نور اس کے پاس ہے، اس پر کوئی غالب آنے والا نہیں ہے وہ زمین پر خدا کا حاکم، مخلوقات میں اس کی طرف سے حَکَم اور خفیہ اور علانیہ ہر مسئلہ میں اس کا امین ہے۔
ایہا الناس! میں نے سب بیان کر دیا اور سمجھا دیا، اب میرے بعد یہ علی تمہیں سمجھائیں گے۔
آگاہ ہو جاوٴ! کہ میں تمہیں خطبہ کے اختتام پر اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ پہلے میرے ہاتھ پر ان کی بیعت کا اقرار کرو،ً اس کے بعد ان کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ میں نے اللہ کے ساتھ بیعت کی ہے اور علی (ع) نے میری بیعت کی ہے, اور میں خداوند عالم کی جانب سے تم سے علی(ع) کی بیعت لے رہا ہوں:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّهَ يَدُ ٱللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًۭا (فتح ۔ 10)
بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کر تے ہیں وہ درحقیقت اللہ کی بیعت کر تے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ ہی کا ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کرتا ہے خدا اسی کو اجر عظیم عطا کر ے گا
ایہا الناس! یہ حج اور عمرہ اور یہ صفا و مروہ سب شعائراللہ ہیں:
فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ أَوِ ٱعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا (بقرة ۔ 158)
لہٰذا جوشخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کا چکر لگائے
ایہا الناس! خانہ ٴخدا کا حج کرو۔ جو لوگ یہاں آ جاتے ہیں وہ بے نیاز ہو جاتے ھیں, خوش ہوتے ہیں اور جو اس سے الگ ہو جاتے ہیں وہ محتاج ہو جاتے ہیں۔
ایہا الناس! کوئی مومن کسی موقف (عرفات، مشعر، منی) میں وقوف نہیں کرتا مگر یہ کہ خدا اس وقت تک کے گناہ معاف کر دیتا ہے، لہٰذا حج کے بعد اسے از سر نو نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔
ایہا الناس! حجاج کی مدد کی جاتی ہے اور ان کے اخراجات کا اس کی طرف سے معاوضہ دیا جاتا ہے اور اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔
ایہا الناس! پورے دین اور معرفت احکام کے ساتھ حج بیت اللہ کرو، اور جب وہ مقدس مقامات سے واپس ہو تو مکمل توبہ اور ترک گناہ کے ساتھ۔
ایہا الناس! نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اگر وقت زیادہ گذر گیا ہے اور تم نے کوتاہی و نسیان سے کام لیا ہے, تو علی (ع) تمہارے ولی اور تمہارے لئے بیان کرنے والے ہیں جن کو اللہ نے میرے بعد اپنی مخلوق پر امین بنایا ہے اور میرا جانشین بنایا ہے, وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
وہ اور جو میری نسل سے ہیں وہ تمہارے ہر سوال کا جواب دیں گے, اور جو کچھ تم نہیں جا نتے ہو سب بیان کر دیں گے۔
آگاہ ہو جاوٴ کہ حلال و حرام اتنے زیادہ ہیں کہ سب کا احصاء اور بیان ممکن نہیں ہے۔ مجھے اس مقام پر تمام حلال و حرام کی امر و نہی کرنے اور تم سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا ہے, اور تم سے یہ عہد لے لوں کہ جو پیغام علی (ع) اور ان کے بعد کے ائمہ کے بارے میں خدا کی طرف سے لایا ہوں، تم ان سب کا اقرار کر لو کہ یہ سب میری نسل اور اس (علی ع) سے ہیں اور امامت صرف انہیں کے ذریعہ قائم هوگی, ان کا آخری مہدی ہے جو قیامت تک حق کے ساتھ فیصلہ کرتا رہے گا۔
ایہا الناس! میں نے جس جس حلال کی تمہارے لئے رہنمائی کی ہے اور جس جس حرام سے روکا ہے کسی سے نہ رجوع کیا ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی کی ہے, لہٰذا تم اسے یاد رکھو اور محفوظ کرلو، ایک میں پھر اپنے لفظوں کی تکرار کرتا ہوں: نماز قائم کرو، زکوٰة ادا کرو، نیکیوں کا حکم دو، برائیوں سے روکو۔
اور یہ یاد رکھو کہ امر بالمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جاوٴ اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچاوٴ اور اس کے قبول کرنے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو, اس لئے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے, اور امام معصوم کو چھوڑ کر نہ کوئی امر بالمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر۔ً
ایہا الناس! قرآن نے بھی تمہیں سمجھایا ہے کہ علی (ع) کے بعد امام ان کے فرزند ہیں اور میں نے تم کو یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ یہ سب میری اور علی کی نسل سے ہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا ہے:
وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةًۭ فِى عَقِبِهِۦ (زخرف ۔ 28)
اللہ نے انہیں کی اولاد میں کلمہ باقیہ قرار دیا ہے
اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا ہے کہ جب تک تم قرآن اور عترت سے متمسک رهو گے ہر گز گمراہ نہ ہو گے۔
ایہا الناس! تقویٰ اختیار کرو, تقویٰ۔ قیامت سے ڈرو جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے:
إِنَّ زَلْزَلَةَ ٱلسَّاعَةِ شَىْءٌ عَظِيمٌۭ (حج ۔ 1)
زلزلہ قیامت بڑی عظیم شیٴ ہے
موت، قیامت، حساب، میزان، اللہ کی بارگاہ کا محاسبہ، ثواب اور عذاب سب کو یاد کرو کہ وہاں نیکیوں پر ثواب ملتا ہے, اور برائی کرنے والے کا جنت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
ایہا الناس! تمھاری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ایک میرے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیعت نہیں کر سکتے ہو۔ لہٰذا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھاری زبان سے علی (ع) کے امیرالمومنین ہونے اور ان کے بعد کے ائمہ جو ان کے صلب سے میری ذریت ہیں سب کی امامت کا اقرار لے لوں, اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ میرے فرزند ان کے صلب سے ہیں۔
لہٰذا تم سب مل کر کہو:
ہم سب آپ کی بات سننے والے، اطاعت کرنے والے، راضی رہنے والے اور علی (ع) اور اولاد علی (ع) کی امامت کے بارے میں جو پروردگار کا پیغام پہنچایا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ ہم اس بات پر اپنے دل، اپنی روح، اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں سے آپ کی بیعت کر رہے ہیں اسی پر زندہ رہیں گے، اسی پر مریں گے اور اسی پر دوبارہ اٹھیں گے۔ نہ کوئی تغیر و تبدیلی کریں گے اور نہ کسی شک و ریب میں مبتلا ہوں گے، نہ عہد سے پلٹیں گے نہ میثاق کو توڑیں گے۔اور جن کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ وہ علی امیر المومنین اور ان کی اولاد ائمہ آپ کی ذرّیت میں سے ہیں ان کی اطاعت کریں گے۔ جن میں سے حسن و حسین ہیں اور ان کے بعد جن کو اللہ نے یہ منصب دیا ہے اور جن کے بارے میں ہم سے ہمارے دلوں، ہماری جانوں, ہماری زبانوں, ہمارے ضمیروں اور ہمارے ہاتھوں سے عہد و پیمان لے لیا گیا ہے, ہم اسکا کوئی بدل پسند نہیں کریں گے، اور اس میں خدا ہمارے نفسوں میں کوئی تغیر و تبدل نہیں دیکھے گا۔
ہم ان مطالب کو آپ کے قول مبارک کے ذریعہ اپنے قریب اور دور سبھی اولاد اور رشتہ داروں تک پہنچا دیں گے اور ہم اس پر خدا کو گواہ بناتے ھیں, اور ہماری گواھی کے لئے اللہ کافی ہے اور آپ بھی ہمارے گواہ ہیں۔
ایھاالناس! اللہ سے بیعت کرو، علی (ع) امیرالمومنین ہونے اور حسن و حسین اور ان کی نسل سے باقی ائمہ کی امامت کے عنوان سے بیعت کرو۔ جو غداری کرے گا اسے اللہ ہلاک کر دے گا, اور جو وفا کرے گا اس پر رحمت نازل کرے گا, اور جو عہد کو توڑ دے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا, اور جو شخص خداوند عالم سے باندھے ہوئے عہد کو وفا کرے گا خداوند عالم اس کو اجر عظیم عطا کرے گا۔
ایھاالناس! جو میں نے کہا ہے وہ کہو اور علی کو امیرالمومنین کہہ کر سلام کرو، اور یہ کہو کہ پرودگار! ہم نے سنا اور اطاعت کی، پروردگار! ہمیں تیری ہی مغفرت چاہئے اور تیری ہی طرف ہماری بازگشت ہے اور کہو: حمد و شکرھے اس خدا کا جس نے ہمیں اس امر کی ہدایت دی ہے ورنہ اسکی ہدایت کے بغیر ہم راہ ہدایت نہیں پا سکتے تھے۔
ایھاالناس!علی ابن ابیطالب کے فضائل اللہ کی بارگاہ میں اور جو اس نے قرآن میں بیان کئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ میں ایک منزل پر شمار کرا سکوں۔ لہٰذا جو بھی تمہیں خبر دے اور ان فضائل سے آگاہ کرے اسکی تصدیق کرو۔
یاد رکھو جو اللہ، رسول، علی اور ائمہ مذکورین کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی کا مالک هوگا۔
ایہا الناس! جو علی کی بیعت، ان کی محبت اور انہیں امیرالمومنین کہہ کر سلام کرنے میں سبقت کریں گے وہی جنت نعیم میں کامیاب ہوں گے۔
ایھالناس! وہ بات کہو جس سے تمھارا خدا راضی ہو جائے ورنہ تم اور تمام اہل زمین بھی منکر ہو جائیں تو اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتے۔
پرودگار! جو کچھ میں نے ادا کیا ہے اور جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے اس کے لئے مومنین کی مغفرت فرما اور منکرین پر اپنا غضب نازل فرما, اور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔