یعنی اگر کوئی آدمی کسی آدمی پر کوئی حق رکھتا ہو اور وہ اپنے حق کی ادائیگی کا مطالبہ کرے لیکن وہ شخص کہ جس پر حق ادا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ حق ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے حق ادا نہ کرے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔ چنانچہ اعمش نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور فضل بن شاذان نے امام علی رضا علیہ السلام سے جو روایت نقل کی ہے اس میں امام علی رضا علیہ السلام نے بغیر کسی تکلیف کے حقوق کے ادا نہ کرنے کو بھی گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
جوکوئی کسی مومن کا حق ادا نہ کرے (اور اس کے ذمے جو چیز ہے اس تک نہ پہنچائے) تو خداوند عا لم قیامت کے دن اسے پانچ سو سال تک اس طرح کھڑا رکھے گا کہ اس سے پسینہ یا خون بہنا شروع ہوجائے گا اور ایک منادی خداوند عالم کی طرف سے ندا دے گا کہ یہ وہ ستمگر ہے جس نے خدا کا حق ادا نہ کیا پس چالیس دن تک وہ تنبیہ کرنے کے بعد حکم دیا جائے گا کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائےاور فرمایا۔
روز قیامت منادی ندا کرے گا کہ الله کے دوستوں کو اذیت دینے والے کہاں ہیں۔ پس کچھ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جن کے چہروں پر گوشت نہیں ہوگا۔ پس کہا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جو مومنین کو اذیت دیتے ان سے دشمنی رکھتے اور ان سے دین کے بارے میں سختی سے پیش آتے تھے اس لئے حکم دیا جائے گا کہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے۔ اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے خداوند ذوالجلال کی قسم کھاکر فرمایا کہ وہ لوگ مومنین ہی کے عقیدے کے حامل تھے لیکن ان کے حقوق ادا نہیں کرتے تھے اور ان کے راز فاش کرتے تھے۔اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔
ہر وہ مومن کہ جس کے مال کی کسی دوسرے مومن کو احتیاج ہو اور وہ مومن اس کی ضرورت کو پورا نہ کرے تو وہ جنت کی غذا کا ذائقہ بھی نہ چکھ سکے گا اور رحیق مختوم (جو کہ بہشت کے مشروبات میں سے ایک مشروب ہے) سے محروم رہے گا۔
حضرت سید سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
قیامت کے دن ایک شخص کے ہاتھ کو پکڑ کر اہل محشر کو دکھایا جائے گا اور کہا جائے گا جو کوئی اس شخص پر کوئی حق رکھتا ہے اور اس سے اپنا حق لے لے۔ قیامت کے دن اہل محشر کے لئے سب سے زیادہ دشوار یہی بات ہوگی کہ جب وہ کسی اپنے جاننے والے کو دیکھیں گے تو ان پر اس بات کا خوف طاری ہوجائے گا کہ کہیں یہ بھی اپنے کسی حق کا دعوی نہ کردے۔
اور شاید اسی بات کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
يَوْمَ يَفِرُّ ٱلْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ٣٤ وَأُمِّهِۦ وَأَبِيهِ ٣٥ وَصَـٰحِبَتِهِۦ وَبَنِيهِ (عبس: 34-36)
اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا, اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے, اور اپنی بیوی اور اپنی اوﻻد سے بھاگے گا.
حضرت رسول خدا نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟اصحا ب نے کہا ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم نہ جائیداد نہ سرمایہ ہو آنحضرت نے فرمایا میری امت میں کوئی مفلس نہیں سوائے اس شخص کے جس نے نماز پڑھی ہو، روزے رکھے ہوں،زکوة دی ہو، حج ادا کئے ہوں مگر قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جسے اس نے گالی دی ہو ایک اورآئے گا جس کا اس نے مال کھایا ہو ایک اور آئے گا جس کا اس نے خون بہایا ہو ایک اور آئے گا جس کی اس نے پٹائی کی ہو، پس اس شخص کی نیکیاں ہر صاحب حق کو اس کے حق کے مطابق دی جائیں گی۔ اگر صاحبان حق کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس شخص کی نیکیاں ختم ہوجائیں تو صاحبان حق کے گناہ اس شخص کے گناہوں میں شامل کردئیے جائیں گے تو پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
قرض کی ادائیگی میں سستی غفلت برتنا ہر حال میں حرام، اور حق کا ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ قرض میں بطور کلی ہر وہ چیز شامل ہے جو کسی شخص کے ذمے کسی سبب سے ثابت ہو۔ مثلاً قرض، فرخت شدہ یا ادھار یا کرائے پر لی گئی چیز, شوہر پر عورت کا مہر اور دائمی نان ونفقہ, اور ضمانت کی مختلف اقسام وغیرہ۔ ضمناً یہ بات جاننا چاہیئے کہ خمس و زکوة کا ادا نہ کرنا یا ان کی ادائیگی میں غفلت برتنا بھی حقوق کے ادا نہ کرنے میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ زکوة کا ادا نہ کرنا بھی گناہ کبیرہ میں سے ہے۔
حضرت امام جعفر صادق -فرماتے ہیں:
روز قیامت انسان کے لئے سخت ترین وہ وقت ہوگا جب خمس و زکوة کے مستحقین اٹھ کر اس سے چمٹ جائیں گے اور کہیں گے پروردگار اس شخص نے خمس و زکوة کا ہمار حق مارا اور ہمیں کچھ نہ دیا۔ پس خداوندعالم ان لوگوں کی نیکیاں ان مستحقین کو دے دے گا اس کے علاوہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن قرض خواہ اپنے مقروض کی شکایت کرے گا پس اگر مقروض کی نیکیاں ہوں گی تو وہ قرض خواہ کے لئے لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں تو قرض خواہ کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں شامل کردئیے جائیں گے۔
نبی اکرمؐ نے ایک روز نماز کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا کہ:
فلاں شخص جو شہید ہوچکا ہے۔ ابھی تک بہشت کے باہر کھڑا ہے۔ اور اندر داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ فلاں یہودی کا تین درہم کا مقروض ہے۔امام محمد باقر - فرماتے ہیں:
ظلم کی تین قسمیں ہیں۔ایسی صورت میں جبکہ قرض معینہ مدت کے لئے نہ ہو یا اس کی مدت ختم ہوچکی ہو اور قرض خواہ مطالبہ کرے تو واجب ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو فوراً اپنا قرض ادا کرے۔ خواہ وہ اشیاء جو اس کی ضرورت سے زائد ہوں انہیں بیچنا ہی کیوں نہ پڑے۔ اور اگر ایسی چیزیں نہ رکھتا ہوکہ اسے بیچ کر قرض ادا کرے تو وہ کام کاج کر کے اپنا قرض ادا کرے۔
- وہ ظلم کہ جسے خدا نہیں بخشے گا وہ شرک ہے۔
- وہ ظلم کہ جسے خدا بخش دے گا وہ کسی شخص کا ان باتوں کے بارے میں جو خدااور اس کے درمیان ہے اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔
- اور وہ ظلم کہ جس کا خدا مواخذہ کرے گا اس سے مراد وہ ظلم ہے جو مقروض اپنے قرض خواہوں کا قرض ادا نہ کر کے ان پرکرتا ہے۔
مروی ہے کہ جناب محمد بن ابی عمیر جو کہ امام موسیٰ بن جعفر امام علی رضا اور امام محمد تقی علیہم السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور کپڑا بیچنے کا کام کیا کرتے تھے ان کا تمام مال ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا اور وہ فقیر ہوگئے کسی آدمی پر ان کا دس ہزار درہم قرض تھا پس اس مقروض شخص نے اپنے گھر کو فوخت کردیا اور دس ہزار درہم محمد بن ابی عمیر کے گھر لے کر آیا اور کہا یہ آپ کا قرض ہے۔ اسے لے لیجئے آپ نے فرمایا آیا یہ مال تمہیں ورثے میں ملا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے پوچھا کسی نے تمہیں بخشا ہے؟ کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی ملکیت تھی جسے تم نے بیچا؟کہا نہیں بلکہ وہ مکان جس میں، میں رہتاتھا اسے بیچ دیا تاکہ اپناقرض ادا کرسکوں۔ اس وقت محمد ابن ابی عمیر نے امام جعفر صاد ق علیہ السلام کی ایک روایت نقل کی کہ:
قرض واپس لینے کے لئے مقرض کو اس کے گھر سے بے گھر نہیں کرچاہئےاور اس کے بعد آپ نے فرمایا اس رقم کو واپس لے جاو خدا کی قسم اس وقت میں ایک ایک درہم کا محتاج ہوں اس کے باوجود میں اس میں سے ایک درہم لیکر خرچ نہیں کروں گا۔ ان کی غربت کا سبب (حالانکہ پانچ لاکھ درہم کے مالک تھے) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے وہ قربت و وابستگی تھی جس کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے بے انتہا تازیانے مارے اور چار سال تک قید خانہ میں رکھا۔ اور جو کچھ مال واسباب تھا چھین لیا خدا وند عالم کی بے پناہ رحمتیں ہوں ان کی روح پر اگر کوئی بھی شخص صاحب حق تک اس کا حق پہنچانے میں غفلت سے کام لے اور تاخیر کرے حالانکہ وہ استطاعت رکھتا ہو تو ہر گذرنے والے دن میں گناہ اعشاری کا مرتکب ہوتا ہے (اعشارہ وہ ہے جو ظالم کے حکم پر لوگوں سے دسواں حصہ لے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
راہ خدا میں شہید ہونے والاہر گناہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ سوائے قرض کے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ قرض ادا کیا جائے یا پھر قرض خواہ اسے بخش دےاس بات کی اہمیت کا اندازہ صرف اسی واقعے سے لگایا جاسکتاہے کہ انصار میں ایک شخص کا انتقال ہو جاتا ہے۔ جو دو دینار کا مقروض تھا پس حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس وقت تک اس کی نماز جناز نہیں پڑھائی جب تک کہ ان کے کچھ رشتہ داروں نے قرض کی ادائیگی کی ضمانت نہیں دی اس کے بعد آنحضرت نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے۔
وہ مسلمان جو استطاعت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام لے تو اس نے تمام مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیا۔دوسرے مسلمانوں پر اس لئے ظلم ہے کہ لوگ دوسروں کو اس خوف کی بناء پر قرض نہیں دیں گے کہ کہیں یہ بھی قرض کی ادائیگی میں سستی سے کام نہ لے اور اس طرح ہمارا مال ضائع ہو جائے۔ اس طرح صاحب استطاعت ہوتے ہوئے بھی قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام لینے والا نیکی کے دروازے کو بند کر دیتا ہے۔
قرض دینا بہت بڑی نیکی ہے اور قرض نہ دینے والوں کے لئے شدید عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مواقع پر قرض کا دینا واجب اور نہ دینا حرام ہے۔ اور بعض جگہوں پر قرض دینا مستجب اور نہ دینا مکروہ ہے۔ لیکن اس وقت جب قرض کی ضرورت نہ ہو قرض کا لینا مکروہ ہے۔ اور اگر کسی شخص کو معلوم ہے کہ قرض ادا نہ کر سکے گا تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قرض نہ لے مگر یہ کہ وہ ضرورت مند ہو۔ اور بعض مواقع پر قرض لینا واجب ہو جاتا ہے مثلاً جان اور ناموس کی حفاظت اگر قرض لینے پر موقوف ہو جائے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
وہ گناہان کبیرہ کہ جن سے خدا نے منع کیا ہے۔ ان گناہوں کے بعد کوئی اور گناہ اس قدر بڑا نہیں جتنا کہ کسی شخص کا اس حالت میں مرنا کہ وہ لوگوں کا مقروض ہو اور اس کے پاس کوئی چیز بھی نہ ہو کہ جس سے اس کا قرض ادا کیا جا سکے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص کسی مومن کو قرض دے اور اسے استطاعت پیدا ہونے تک کی مہلت دے تو وہ قرض میں دیا ہوا مال اس کے لئے زکوة کی مانند ہوگا اور ملائکہ اس مال کے واپس ملنے تک اس کے حق میں دعا اور طلب رحمت کرتے رہیں گے
اس کے علاوہ آنحضرت نے فرمایا:
اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو قرض دے تو وہ خود اس کے اپنے لئے ہے۔ ہر وہ درہم جو وہ قرض میں دیتا ہے۔ اس کے عوض کوہ احد اور طور سینا کے برابر نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور قرض کا مطالبہ کرنے میں مقروض سے نرمی کا برتاؤ کرے تو وہ بغیر حساب و عذاب کے ایک لپکتی ہوئی بجلی کی مانند پل صراط پر سے گذر جائے گا اور اگر کسی شخص کے سامنے اس کا مسلمان بھائی اپنی پریشانی اور دکھ درد بیان کرے اور وہ اسے قرض نہ دے تو خداوند عالم بہشت اس پر حرام کر دے گا اس روز جبکہ نیک لوگوں کو ان کی جزا دی جائے گی۔
وہ مقروض جو قرض لوٹانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی صاحب استطاعت ہوگا سب سے پہلے قرض ادا کرے گا اور قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام نہیں لے گا بلکہ قرض لیتے وقت بھی یہی نیت ہونی چاہیئے اگر قرض لیتے وقت اس کی نیت ادا نہ کرنے کی ہو تو اس مال میں تصرف حرام ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:چوروں کے تین گروہ ہیں ایک وہ ہے جو اپنے مال کی زکوة نہ دے۔ دوسرا وہ ہے جو اپنی بیوی کے مہر کو قرض واجب نہ سمجھے اور تیسرا وہ جو قرض لیکر اس کی ادائیگی کا ارادہ نہ رکھتا ہو
اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ:
اگر مقروض قرض ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خداوند عالم اس کے قرض کی ادائیگی تک اس کی مدد کے لئے فرشتوں کو مقرر کرتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے ارادے سے غفلت برتتا ہے تو اسی مقدار سے وہ رحمت خداوندی سے محروم ہو جاتا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا۟ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ۔ 280)
اگر کوئی تنگ دست ہو تو اسے خوش حالی تک کی مہلت دو اور اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں یہ زیادہ بہتر ہے کہ بخش دو۔
حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
تمہارے مقروض کے لئے جائز نہیں کہ وہ قدرت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لے اور اسی طرح تمہارے لئے بھی جائز نہیں کہ تم اسے تنگ دستی کی حالت میں مجبور کرو جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ قرض دینے سے معذور ہے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:
کسی مسلمان کا کسی مسلمان کو تنگ کرنا جائز نہیں اور اگر کوئی قرض خواہ مقروض کو مہلت دے تو الله تعالیٰ اسے اس روز اپنے سایہ میں پناہ دے گا کہ جب خدا کے سائے کے سوا دوسرا سایہ نہ ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قیامت کے دین ایک ایسی جماعت عرش کے سائے میں ہوگی کہ ان کے چہروں، لباس اور جن کرسیوں پر وہ جلوہ افروز ہوں گے ان سے نور ساطع ہو رہا ہوگا پس ایسے عالم میں منادی ندا دے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں مومنین پر مہربان تھے اور تنگدست مقروض کی ادائیگی کے لئے مستطیع ہونے تک مہلت دیتے تھے۔
کلینی امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا اور ابنیاء پر درود بھیجنے کے بعد آپ نے فرمایا جو موجود ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو موجود نہیں ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ:
اگر کوئی شخص اپنے پریشان حال مقروض کو مہلت دے تو جب تک اس کا مال واپس نہ مل جائے اس کے نامہ اعمال میں صدقہ دینے کے برابر ثواب کا ذمہ دار الله تعالیٰ ہے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وسلم فرماتے ہیں :
جو کوئی اپنے قرض خواہوں کو راضی کرے لازمی طور پر وہ بہشت میں داخل ہوگا اور حساب میں تاخیر کے بغیرجنت میں جناب اسماعیل بن ابراہیم کا ساتھی ہوگا۔
اس کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وسلم نے فرمایا:
وہ قرض جو مقروض اپنے قرض خواہ کو واپس کرتا ہے ایک ہزار سال کی عباد ت اور ایک ہزار غلاموں کو آزاد کرنے اور ایک ہزار مرتبہ حج وعمرہ بجالانے سے بہتر ہے۔
اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وسلم نے فرمایا:
اگر کوئی ایک درہم بھی صاحب حق کو لوٹائے خداوند عالم اسے آتش جہنم سے نجات دے گا اور ہر دانق ( ۶ /۱ درہم) اگر واپس کرے تو اس کے عوض ایک پیغمبر کے برابر ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا اورہر درہم جو اس نے واپس کیا اس کے بدلے بہشت میں اسے سرخ موتیوں کا شہر مرحمت فرمائے گا۔
اور آپ نے فرمایا:
صاحب حق کو اس کا ایک درہم واپس کرنا بہترہے اس روزے سے جو دن میں رکھا جائے اور اس نماز سے جو رات میں پڑھی جائے۔ اگر کوئی قرض کو واپس کرتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک فرشتہ یہ ندا دیتا ہے۔ اے بندے تیرے عمل کے آغاز ہی سے خدا نے تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے۔