نہج البلاغہ: خطبہ 111

نہج البلاغہ 08/11/2020 1699

میں تمہیں اس دنیا سے ہوشیار کر رہاہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے۔ آب و دانہ کی منزل نہیں ہے۔ یہ اپنے دھوکہ ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھوکہ دیتی ہے۔ اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں بالکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام خیر کے ساتھ شر زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیا ہے

اور نہ اس نے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کواس سے محروم رکھا ہے۔ اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے۔ اس کاجمع کیا ہوا ختم ہو جانے والا ہے اور اس کاملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کوایک دن خراب ہو جانا ہے۔ بھلا اس گھرمیں کیا خوبی ہے جو کمزور عمارت کی طرح گر جائے اور اس عمر میں کیا بھلائی ہے جو زاد راہ کی طرح ختم ہو جائے اوراس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہو جائے۔

دیکھواپنے مطلوبہ امورمیں فرائض الہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی کے حق کے ادا کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرو۔ اپنے کانوں کو موت کی آواز سنا دو قبل اس کے کہ تمہیں بلا لیا جائے۔ دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیںتوان کا دل روتا رہتا ہے۔ اوروہ ہنستے بھی ہیں توان کا رنج و اندوہ شدید ہوتا ہے۔ وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں۔ افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اورجھوٹی امیدوں نے ان پرقبضہ کرلیا ہے۔ اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپرآخرت سے زیادہ ہے اوروہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے۔ تم دین خدا کے اعتبارسے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔ نہ نصیحت کرتے ہو۔ نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہو اورنہ ایک دوسرے سے واقعاً محبت کرتے ہو۔ آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکرخوش ہو جاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہو کر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔ تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اس کا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہو جاتا ہے اوراس کی علیحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔ تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہار سے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیشآئے گا۔ تم سبنے آخرت کونظر انداز کرنے اوردنیا کی محبت پر اتحاد کرلیا ہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپناعمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعاً خوش کرلیا ہے۔

متعلقہ تحاریر