امانت میں خیانت

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 04/05/2022 1622

خیانت ایک عربی لفظ ہے اور دوسرا لفظ جو ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہ غُلُولً ہے۔ اگر دوسروں کی امانت کسی کے پاس ہو تو اس میں خیانت کرنا حرام اور گناہان کبیرہ ہے۔ خیانت تین گناہوں کامجموعہ ہے,

  1. دوسروں پر ظلم،
  2. تفریط یعنی ایک واجب کے سلسلے میں لاپرواہی۔
  3. اور دوسروں کے مال میں ناجائز تصرف

قرآن مجید میں خیانت کار کاعذاب

ارشاد رب العزت ہے:

وَمَا كَانَ لِنَبِىٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ١٦١ أَفَمَنِ ٱتَّبَعَ رِضْوَٰنَ ٱللَّهِ كَمَنۢ بَآءَ بِسَخَطٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَمَأْوَىٰهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ (آل عمران: 161, 162)
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے ہر خیانت کرنے واﻻ خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وه ﻇلم نہ کئے جائیں گے. کیا پس وه شخص جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے درپے ہے، اس شخص جیسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لے کر لوٹتا ہے؟ اور جس کی جگہ جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے.

سورہ تحریم میں ارشاد ہے :

فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًۭٔا وَقِيلَ ٱدْخُلَا ٱلنَّارَ مَعَ ٱلدَّٰخِلِينَ (تحریم ۔ 10)
پھر انہوں نے خیانت کی پس وه دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ.

ارشاد ہے:

إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْخَآئِنِينَ (انفال ۔ 58)
بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

اسی طرح ارشاد ہے کہ:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَخُونُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ وَتَخُونُوٓا۟ أَمَـٰنَـٰتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ  (انفال ۔ 8)
اے ایمان لانے والو! جانتے ہوئے نہ تو خدا اور رسول کے ساتھ خیانت کرو، اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو

اسی طرح ارشاد ہے کہ:

فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًۭا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥ  (بقرہ ۔ 283)
اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور خدا سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔

مزید ارشاد ہے کہ:

إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا۟ ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا (نساء ۔ 58)
بے شک خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو امانت والوں تک ضرور لوٹا دو۔  

روایات میں خیانت کی مذّمت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :

جو شخص دنیا میں اپنے پاس رکھی ہوئی امانت میں خیانت کرے گا اور اسے اس کے مالک تک نہیں لوٹائے گا اور اسے موت آجائے گئی تو وہ میری ملت میں رہتے ہوئے نہیں مرے گا۔ ایسا شخص جب خدا سے ملاقات کرے گا تو خدا اس پر غضب ناک ہوگا! اور جو شخص خیانت کا مال خریدے اور وہ یہ جانتا ہو کہ یہ خیانت کا مال ہے تو وہ بھی خیانت کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ اور اس کو جہنم میں ڈال دینے کا حکم دیا جائیگا پھر وہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے گہرے گڑھے میں پڑا رہے گا! (وسائل الشیعہ, کتاب امانت)
  (مثلاً جب معلوم ہو کہ کسی بازار میں چوری کی گاڑیوں کے پرزہ جات ملتے  ہیں تو اس بازار سے خریداری حرام ہے)

آنحضرتؐ کا یہ بھی ارشاد ہے:

اگر کوئی شخص مسلمان ہے تو اسے نہ تو مکر سے کام لینا چاہیئے اور نہ ہی کسی کو دھوکا دینا چاہیئے! میں نے جبرئیل سے سنا ہے کہ مکر اور فریب جہنم کی چیزیں ہیں۔ پھر فرمایا, ہم میں سے نہیں ہے جو کسی مسلمان کو فریب دے اور ہم میں سے نہیں ہے جو خدا پر ایمان لانے والے کسی شخص کے ساتھ خیانت کرے! (وسائل الشیعہ، کتاب امانت)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کی یہ حدیث وسائل الشیعہ میں موجود ہے کہ:

کسی شخص کے لمبے لمبے رکوع وسجود کو نہ دیکھو چونکہ ممکن ہے یہ اس کی عادت ہو, اور ایسی عادت ترک کرنا اس کے لیے سخت مشکل ہو, لیکن سچ اور امانت داری کو دیکھو۔

اصول کافی میں یہ حدیث ہے کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جو آدمی کے نفاق کی علامت ہیں اگرچہ وہ نماز روزے کا پابند ہو اور خود کو سچا مسلمان سمجھتا ہو,

  • جھوٹ،
  • وعدہ خلافی
  • اور امانت میں خیانت۔

خیانت باعث فقر و فاقہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ہے کہ:

امانت کا لحاظ دولتمندی اور مالی پریشانی سے بے نیازی کا موجب ہے جبکہ خیانت مالی پریشانی اور فقر کا سبب ہے! (وسائل الشیعہ، کتاب امانت)

راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفرصادق کی خدمت میں عرض کیا: مدینہ میں ایک خاتو ن ہیں جن کے پاس لوگ تربیت کے لئے اپنی بچیاں چھوڑدیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اس جیسی بے نیاز خاتون نہیں دیکھی گئی جو تھوڑی سی روزی میں بھی بڑے آرام سے گزار لیتی ہے۔ اسے کبھی بھی مالی اعتبار سے پر یشان نہیں دیکھا گیا !  امام نے فرمایا: اس لئے کہ وہ خاتون سچ بولتی ہے امانت کا لحاظ کرتی ہے یہ ایسے کام ہیں جو روزی اور کشادہ حالی کا باعث بنتے ہیں۔  (وسائل الشیعہ، کتاب امانت)

امیر المئومنین حضرت علی علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک بھی اگر کسی کے گھر میں داخل ہوجائے تو وہ مالی اعتبار سے تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی برکت کے ساتھ وہ گھر آباد نہیں رہتا,
  1. خیانت،
  2. چوری (چوری کرنے والے کے گھر سے برکت اٹھتی ہے، نہ یہ کہ جہاں چوری کی جائے)
  3. شراب خوری
  4. اور زنا

امانت خواہ کسی کی بھی ہو

امانت کی حفاظت واجب ہے خواہ مسلمان کی ہو یا کافر کی ۔  یہاں تک کہ ناصبی لوگوں یعنی اہل بیت (علیہم السلام) سے کھلّم کھلا دشمنی کا اظہار کرنے والوں کی امانت کا بھی خیا ل رکھنا بھی واجب ہے۔ حالانکہ ناصبی لوگ بدترین قسم کے کافر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں:

خدا سے ڈرو ! اور جس شخص نے بھی تمہارے پاس امانت رکھوائی  ہے اس کی امانت برقت لوٹا دو!۔ اگر علیؑ کا قاتل بھی مجھے امین سمجھے کر میرے پاس کوئی امانت رکھتا تو میں ضرور اسے بروقت لوٹاتا! اسی حدیث میں ہے کہ, پس خدا سے ڈرو اور گورے کالے سب کی امانتوں کاخیال رکھو اگرچہ امانت رکھنے والا شخص خوارج میں سے ہو اور یا وہ شخص شام کا رہنے والا ہو (دونوں حضرت علیؑ کے دشمن تھے اور ان سے جنگ کی تھی)  (وسائل الشیعہ)

چھٹے امام یہ بھی فرماتے ہیں کہ:

خدائے تعالٰی نے کوئی بھی نبی مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ سچ بولنے اور نیک و بد ہر قسم کے لوگوں کی امانت کا لحاظ رکھنے کے حکم کے ساتھ مبعوث فرمایاہے۔ (وسائل الشیعہ)

حضرت امام زین العابدین علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

تمہارا فرض ہے کہ تم امانت کو بروقت اداکرو اُس ذات کی قسم جس نے محمد کو برحق نبی کے طور پر معبوث کیا، اگر میرے بابا حسین ابن علیؑ کا قاتل بھی میرے پاس وہ تلوار امانت کے طور پر رکھوا دے جس سے اس نے اُن کو قتل کیا تھا تو میں ضرور اسے برو قت واپس کرتا۔  (وسائل الشیعہ، کتاب امانت)

شیطان بہکاتاہے

ہر وہ کام جو شرعی لحاظ سے اہم ہوتاہے، جتنا زیادہ اہم ہوتاہے۔ شیطان اس بارے میں اتنا ہی زیادہ بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔  حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

جس شخص کے پاس امانت رکھوائی  گئی ہوا ور وہ اسے بروقت ادا کردے تو وہ جہنم سے بندھی ہوئی اپنی ایک ہزار گرہوں کو کھول لیتا ہے! پس امانت کی ادائیگی کے سلسلے میں سُستی نہ کرو۔ بے شک جس شخص کے پاس امانت رکھوائی  جاتی ہے ابلیس اپنے سو سرکش اور مددگار شیطانوں کو اس کے پیچھے لگا دیتا ہے تاکہ وہ اسے گمراہ کریں اور اس کے دل میں خیانت کرنے کا وسوسہ پیدا کریں! وہ اس وقت تک اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اسے ہلاکت میں نہیں ڈال دیتے۔ بس وہی ان کے شر سے بچا رہتا ہے جس کو خدا بچائے۔

رسول اکرمؐ اور امانت

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت کے سلسلے میں سب نے نقل کیا ہے کہ اسلام آنے سے قبل کفار قریش آنحضرت کو امین کے لقب سے پکارتے تھے۔ آپ کی امانتداری پر مشرکوں تک کو اتنا بھروسہ تھا کہ وہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوایا کرتے تھے۔ یہ صرف قبیلہ قریش کا حال نہیں تھا، بلکہ عرب کے تمام قبیلوں اور علاقوں کے لوگوں کو بھی آنحضرت کی امانتداری پر اعتماد تھا۔ جب وہ حج کے زمانے میں مکہ آتے تھے تو اپنی امانتیں آنحضرت کے سپرد کر جاتے تھے۔ اسلام کے آجانے کے بعد بھی یہی حال رہا۔ ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب آنحضرت کو مدینے کی جانب ہجرت کرنی تھی تو انہوں نے حضرت علی علیہ السَّلام کو وہ تمام امانتیں سپرد کر دی تھی اور فرمایا تھا: ہر روز صبح اور شام مکہ میں ندا کریں کہ جس شخص نے بھی محمد کے پاس کوئی امانت رکھوائی  تھی، آئے تا کہ میں اسے لوٹا دوں!
ہجرب کے بعد ایک دن مسجد نبوی میں ایک غریب آدمی آیا اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے اپنی غربت کا ذکر کرنے لگا۔ آنحضرت نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، خدا قادر ہے۔ اسی طرح ایک اور فقیر آیا، آنحضرت نے اُس سے بھی یہی فرمایا پھر ایک تیسرا غریب آدمی آیا۔ آنحضرت نے اُسے بھی بٹھا دیا۔ پھر ایک اور شخص آیا۔ اُس نے چار صاع (تقریباً بارہ سیر) گندم زکوٰة کے طور پر پیش کیا۔ آنحضرت نے ایک ایک صاع (تقریباً تین تین سیر) گندم تینوں میں سے ہر ایک غریب آدمی کو دیا۔ ایک صاع یعنی تقریباً تین سیر گندم بچ گیا۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد آنحضرت نے خود اعلان فرمایا کہ ایک صاع گندم موجود ہے، جو شخص بھی مستحق ہو آکر لے لے۔ لیکن کوئی نہیں آیا۔ مجبوراً آنحضرت زکوٰة کی وہ امانت اپنے گھر لے گئے۔ حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ اس رات آنحضرت فکر مند نظر آرہے تھے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں آج مرجاؤں اور یہ امانت مستحق تک نہ پہنچے بلکہ میرے پاس رہ جائے!
نیز مروی ہے کہ جب آنحضرت پر مرض الموت طاری تھا تو آپ کے پاس غریبوں کو دینے کے لئے چھ یا سات دینار کا مال رکھا ہوا تھا۔ آنحضرت نے اُسے طلب فرمایا۔ اور اس کو گن کر کہا: ہو سکتا ہے کہ محمد خدا کے حضور پہنچ جائے اور یہ دینار اُس کے ذمے پڑے رہ جائیں! پھر آنحضرت نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السَّلام کو یہ دینار فقیروں تک پہنچانے کے لئے دیئے اور فرمایا اب مجھے اطمینان ہو گیا! (ناسخ التواریخ, حالات رسول خدا)

خیانت کی قسمیں

خیانت کی تین قسمیں ہیں, خدا کے ساتھ خیانت, رسول کے ساتھ خیانت, اور لوگوں کے ساتھ خیانت۔

امانت خدا

سورئہ احزاب میں ارشاد ہے کہ:

إِنَّا عَرَضْنَا ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا ٱلْإِنسَـٰنُ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (احزاب ۔ 72)
ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا

امیرالمئومنین حضرت علی علیہ السَّلام جب نماز کا وقت ہوتا تو بے چین ہو جاتے تھے، لرزنے لگتے تھے، اور ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہونے لگتا تھا! لوگ ان سے کہتے تھے: امیر المئومنین یہ آپ کا کیا حال ہو رہا ہے؟ تو حضرت علی فرماتے تھے۔ نماز کا وقت آگیا! اس امانت کی ادائیگی کا وقت آگیا جسے خدا نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تھا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کیا تھا اور اس سے خوف محسوس کیا تھا!  (تفسیر صافی)

خداوند تعالیٰ نے واجبات اور محرمات کو جو احکام اپنے پیغمبر کے توسط سے بندوں تک پہنچائے ہیں۔ وہ خدا کی امانت ہیں، اور ان کی پابندی ہی امانت کی حفاظت ہے۔ امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں:

خدا اور رسول کے ساتھ خیانت ان کی نافرمانی ہے اور جہاں تک امانت میں خیانت کا تعلق ہے، ہر انسان خدائے تعالیٰ کے دئیے ہوئے فرائض کا امانتدار ہے۔  (تفسیر صافی)

پس چاہئے کہ خود احکام دین حاصل کریں، اور دوسروں تک پہنچائیں۔ خود بھی عمل کے سلسلے میں لاپرواہی نہ کریں اور دوسروں کو بھی عمل کی تاکید کریں۔
عقل بھی خدا کی ایک بڑی امانت ہے اور اس کی امانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی ہر وقت عقل ہی کا لحاظ کرے، کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے جو عقل کے حکم یا اذن کے بغیر ہو۔ اگر آدمی عقل کو مغلوب کر کے رکھے اور شہوت یا غضب جیسی قوتوں کی پیروی کرے تو وہ خدا کی اس اہم امانت میں خیانت کر بیٹھے گا۔

اما نت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)

شیعہ اور سنی دونوں کے پاس یہ حدیث مسلم ہے کہ رسول اکرم نے اپنی وفات سے قبل فرمایا تھا:

میں تم لوگوں کے درمیان دوگراں چیز یں چھوڑے جا رہا ہوں،ایک توکتاب خدا ہے اور ایک میری عترت (اہلبیت) ہیں۔ اس کے بعد کاجملہ تاریخ میں یہ ہے کہ میں قیامت کے دن تم سے سوال کروں گا کہ تم نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ (بحارالانوار)

قرآن قیامت کے دن رسول اکرم کی شکائت کو ایسے بیان کرتا ہے:

وَقَالَ ٱلرَّسُولُ يَـٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى ٱتَّخَذُوا۟ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ مَهْجُورًا (فرقان ۔ 30)
اور رسول کہیں گے کہ اے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا

اہل بیت رسول خود رسول خدا کی ایک امانت ہیں جو آنحضرت ہمارے لیے چھوڑگئے ہیں۔ اس امانت کالحاظ یہ ہے کہ دل میں ان سے محبت ومودت رکھی جائے۔ ارشاد رب العزت ہے:

قُل لَّآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ (شوری ۔ 23)
کہہ دیجئے! کہ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا مگر میرے قرابت داروں کی محبت

اہل بیت علہیم السَّلام خود نہ صرف احکام خدا اور احکام رسول کے امانت دار اور امین ہیں, بلکہ وہ ہمارے حق میں رسول کی ایک گراں امانت بھی ہیں۔

لوگوں کی امانت

امانت کی دو قسمیں ہیں, ایک امانت ملکی، اورایک امانت شرعی۔

امانت ملکی

امانت ملکی یہ ہے کہ آدمی اپنا مال یا ملکیت کی چیزکسی دوسرے شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھائے۔ امانت ملکی کی چند قسمیں ہیں۔ کبھی کوئی چیز محض محفوظ کرنے کی غرض سے رکھوائی  جاتی ہے کبھی کوئی چیز استعمال کی نیت سے دی جاتی ہے تاکہ وہ بعد میں لوٹائی جا سکے۔  اس کوعاریہ یا مستعار بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی امانت کی ایک قسم ہے۔ کبھی کوئی چیز دی جاتی ہے لیکن اس کا کرایہ لیا جاتاہے جیسے کرائے پر مکان دے دیا جاتا ہے یہ بھی ایک قسم کی امانت ملکی ہے کبھی کوئی چیز رہن یا گروی رکھوائی  جاتی ہے اور اس کی ضمانت پر کچھ مال حاصل کیا جاتا ہے۔ رہن میں رکھی ہوئی چیز بھی ایک امانت ہے۔ اگر اس کی ضمانت پر لیا جانے والا مال لوٹایا نہ جاسکے تو رہن میں رکھی ہوئی چیز کو بیچ کر نقصان پوراکیا جاتا ہے۔ اسی طرح مضاربہ کا مال یعنی سرمایہ کاری کا مال بھی ایک امانت ہوتا ہے۔  جو دوسرے کو تجارت کی غرض سے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح قرض بھی ایک امانت ہوتاہے ایسی تمام چیزیں امانت ملکی ہیں۔

امانت کا معاملہ اسی وقت صحیح ہے جبکہ امانت رکھوانے والا اور رکھنے والا، دونوں عاقل اور بالغ ہوں۔ پس کسی دیوانے یا کسی نابالغ بچے کو نہ تو امانت رکھوانے کا حق حاصل ہے اور نہ ان کے پاس امانت رکھنا صحیح ہے۔ ہاں اگر دیوانے شخص یا نابالغ بچے کا سرپرست اجازت دے دے تو ایسوں کی امانت رکھنا جائز ہے۔ اور یہ امانت دیوانے یا نابالغ بچے کے سر پرست کو ہی لوٹائی جائے گی۔

شرعی امانتیں

امانت شرعی یہ ہے کہ شرعی حکم سے کسی شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس امانت شمار ہو،خود مالک نے وہ مال امانت کے طورپر نہ رکھوایا ہو مثلاً ہوا چلی اور ہمسائے کے گھر میں لٹکا ہوا لباس اڑ کر برابر والے گھر میں گر گیا یا کسی کا گمشدہ پالتو جانور کسی دوسرے کے گھر میں پہنچ گیا یا خریدارنے ایک بند پیکٹ خریدا جس کے اندر دوکاندار اپنا کچھ مال رکھ کر بھول گیا تھا، یا خریدار بھولے سے دوکاندار کو کچھ زیادہ رقم دے کر چلاگیا ہو، یا ایک خطیر رقم آدمی کو راستے میں پڑی مل گئی ہو یا چوری اور غضب وغیرہ کا مال ہاتھ آ گیا ہو تو ایسی تمام چیزیں شرعی طور پر امانت شمار ہوتی ہیں۔ اور ان کے مالک تک پہنچانا واجب ہوتا ہے اور خود استعمال کا حق نہیں ہوتا۔ امانت شرعی کی ایک اورمثال یہ ہے کہ کسی کا خط کسی کو مل گیا ہو۔ اب جسے ملا ہے اس پر فرض ہوتا ہے کہ جس کے نام وہ خط ہے اس تک پہنچانے کا انتظام کرے۔ دوسروں کا خط (ای میل, میسج) کھولنا اور اسے پڑھنا حرام ہے۔

دوسروں کے مال میں بغیر اجازت تصرف

دوسروں کے مال میں ان کی اجازت کے بغیر تصرّف کرنا اور اسے استعمال کرنا ظلم ہے۔ اگرآدمی کسی دوسرے کی مرضی کے بغیراس کا مال اٹھالے، خواہ دوسرے کے علم میں ہو یا نہ ہو، اگر چہ قرض کے طور پر اٹھائے اور واپس دینے کا ارادہ ہو، لیکن چونکہ مالک راضی نہیں ہے اس لیے یہ بھی خیانت اور حرام ہے۔ دوسرے کی چیز اسکی مرضی کے بغیر ایک لمحہ بھی استعمال کرنا حرام ہے۔ بلکہ دوسرے کی چیز اس کی مرضی کے بغیر ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ کوئی عذر شرعی نہ ہونے کی صورت میں رکھ دینا بھی حرام ہے۔ البتہ اگر بالْفَحْویٰ (یعنی اجازت حاصل کئے بغیرمعلوم ہو) کہ مالک راضی ہوگا تو اس کے مال میں تصرف جائز ہے۔ لیکن جب تصّرف جائز ہوتو اگر ستعمال کے دوران وہ مال ضائع ہوگیا یا اس میں کوئی نقص پیدا ہوگیا تو استعمال کرنے والا شخص ضامن ہے (یعنی اس کا عوض مالک کو دینا ہوگا)۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر امانت دار شخص نے اپنی حد تک امانت کی حفاظت کی ہو، اور اس کے باوجود امانت کی چیز میں نقص پیدا ہوگیا ہو یا وہ ضائع ہوگئی ہو تو امانت دار شخص ضامن نہیں, یعنی اس کو اس کا عوض نہیں دینا پڑے گا۔ ارشاد ہے:

مَا عَلَى ٱلْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ (توبہ ۔ 91)
نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے

لیکن امانتدار شخص نے لا پرواہی کی ہو تو وہ اس کی تلافی کا ضامن ہوگا۔ اسی طرح مالک کی مرضی کے بغیر اس کے مال میں تصّرف کرنے والا بھی نقصان کی صورت میں ضامن ہوگا، بلکہ اسے تو مال فوراً لوٹا دینا چاہیئے یا اجازت لے لینا چاہئے۔  

اگر مالک کی اجازت کے بغیر امانت دار شخص نے امانت کسی اور کے پاس منتقل کر دی اور وہ دوسرے شخص کے پاس ضائع ہو گئی تو پہلا امانتدار شخص ضامن ہوگا۔  پس اگرچہ اصل امانتدار شخص کسی کو اپنی طرح یا اپنے سے بہتر امین سمجھتا ہو تب بھی امانت کے مالک کی اجازت ضروری ہے۔ اس طرح امانتدار شخص مالک کی اجازت کے بغیر امانت کو اپنے ہمراہ سفر پر نہیں لے جا سکتا سوائے اس کے مثلاً اگر سفر امانت کی حفاظت سے زیادہ ضروری ہو تو۔

امانت ایک ایسا جائز معاملہ ہے جسے طرفین (امانتدار اور مالک) میں سے کوئی بھی جب چاہے ختم کرسکتا ہے۔ یعنی مالک جب چاہے امانتدار سے اپنا مال لے سکتا ہے۔  اسی طرح امانتدار شخص جب چاہے مالک کو مال لوٹا سکتا ہے۔ البّتہ جب مالک اپنی چیز مانگے توامانت دار پر واجب ہے کہ وہ اسے لوٹادے اسی طرح جب بھی امانت دار شخص امانت لوٹانا چاہے تو مالک کو حق نہیں ہے کہ وہ امانت دار کے پاس امانت باقی رکھنے پر زور دے۔

امانت کے لوٹانے میں سستی

اگرچہ امانت رکھوانے والا شخص کا فر حربی ہو، اور عام حالات میں اسکے مال پر قبضہ جائز ہو، تب بھی اگر وہ کچھ مال امانتًا رکھائے تو اس امانت پر قبضہ کرناجائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک چور چوری کا مال امانت کے طور پر رکھائے یاکوئی غاصب اور ظالم شخص غصبی مال امانتاً رکھائے تو واجب ہے کہ وہ مال لے لیا جائے لیکن اس کے اصل مالک یا مالکوں کو دے دیا جائے۔

جس طرح کہ بیان ہوا کہ امانت کا مال اس کے مالک ہی کو لوٹا نا چاہیئے اگر وہ نہ ملے تو اس کے وکیل کو مثلاً اس کے گھر کے کسی ذمہ دار فرد کو دے دینا چاہیئے۔ اگر وہ بھی نہ ملے تو حاکم شرع یعنی مجتہد یا اس کے وکیل کے پاس رکھوادینی چاہیئے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو پھر کسی بھی دوسرے قابل اعتماد شخص کو امانتدار بنا دینا چاہئیے۔ خاص طور پر جب آدمی مرنے کی علامتیں اپنے اندر پائیں تو اس پر واجب ہے کہ وہ امانت لوٹانے کی فکر کرے۔ اگر اوپر والی ترتیب کے لحاظ سے کوئی نہ مل رہا ہو، حتٰی کہ کوئی قابل اعتماد اور امین شخص بھی نہ مل رہا ہو، تو اس پرواجب ہے کہ وہ وصیت کر جائے اور امانت کے مالک کا نام پتہ لکھوا دے۔

اسی طرح اگر امانت کے مالک کو اطلاع ملے کہ امانتدار شخص مر گیا ہے تو اس پر بھی واجب ہے کہ وہ جاکر اپنی امانت واپس لے لے۔ اگر مرحوم کے وارث اسے نہ پہچانتے ہوں تو وہ امانت کی نشانیاں بتا کر لے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر امانت کا مالک مر جائے تو امانتدار شخص پر واجب ہے کہ وہ امانت کا مال اس کے وارثوں کو پہنچا دے۔

کرائے پر، عاریت، رہن اور مضاربہ

جیسا کہ بیان ہوا، کرائے پر لیا ہوا مال عاریتاً لیا ہوا مال ( یعنی کچھ عرصہ استعمال کی خاطر لیا ہوا مال)، رہن میں رکھوایا ہوا مال، اور سرمایہ کاری کی نیت سے لیا گیا مال، ان میں سے ہر ایک امانت ہے۔ جب بھی مال کا مالک مطالبہ کرے تو فوراً واپس لوٹا نا واجب ہے، ہاں البتہ اگر ایسی امانتوں میں کوئی مدت طے پاگئی ہو تو اس مدت کے اندر مالک اپنے مال کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً مالک مکان اس وقت تک کرائے دار سے اپنا مکان نہیں لے سکتا جب تک کہ طے ہو جانے والی کرائے کی مدت ختم نہ ہوجائے۔ اسی طرح رہن اس وقت تک واپس نہیں لیا جا سکتا جب تک کہ اس کی ضمانت میں لیا گیا مال نہ لوٹا دیا جائے۔ اسی طرح سرمایہ کاری کے لئے دیا ہوا مال بھی ہے۔ جو مدت مقرر ہوئی ہے، اس سے پہلے مالک نہیں مانگ سکتا۔ ہاں البتہ جب مدت گزر جائے اور معاملہ ختم ہونے لگے تو ایسی امانتوں کے امانتدار شخص پر امانت لوٹا دینا واجب ہے، اگرچہ کہ مالک طلب نہ کرے۔ ہاں اگر مالک خود مہلت دے دے یا اس کے پاس مزید رکھوانا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

البتہ عاریہ ایک ایسی چیز ہے کہ مالک طے شدہ مدت سے پہلے ہی مال کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے دوسرے سے ایک ہفتے کے لئے کتاب پڑھنے کو لی۔ لیکن کتاب کے مالک نے دو ہی دن میں کتاب مانگ لی تو اس پر واجب ہے کہ وہ کتاب لوٹا دے۔  یہ بالکل امانت کی طرح سے ہے عام طور پر جسے امانت کہا جاتا ہے، اگرچہ مالک نے کوئی مدت مقرر کی ہو، تب بھی وہ اس مدت سے پہلے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے۔

مالک کی تلاش اور اس کی طرف سے صدقہ

یہ تو بات ہوئی امانت ملکی کی۔ اور اگر امانت شرعی کسی کے پاس ہو تو اس کے مالک کو واپس لوٹا دے۔ اگر مالک معلوم نہ ہو تو واجب ہے کہ ایک سال تک اسے تلاش کرے، مثلاً اعلان کروائے۔ ایک سال کے بعد بھی اگر وہ نہ ملے تو اس کی جانب سے وہ پورا مال صدقہ کردے۔

قرآن میں اہل کتاب امانتداروں کی مدح

ارشاد ہوتا ہے:

وَمِنْ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍۢ يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍۢ لَّا يُؤَدِّهِۦٓ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآئِمًۭا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا۟ لَيْسَ عَلَيْنَا فِى ٱلْأُمِّيِّـۧنَ سَبِيلٌۭ وَيَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران ۔ 75) 
بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں تو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وه تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں۔ ہاں یہ اوربات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے، یہ اس لئے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں (غیر یہودی) کے حق کا کوئی گناه نہیں، یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کہتے ہیں۔

اس آیئہ شریفہ میں خداوند تعالیٰ ان عیسائیوں کی تعریف کر رہا ہے جو غیر عیسائی لوگوں کی امانت میں بھی خیانت کو جائز نہیں سمجھتے جبکہ خدا ان یہودیوں کی مذمت فرمارہا ہے جو غیر یہودی لوگوں میں تھوڑے سے مال میں بھی خیانت کو روا رکھتے ہیں اور خدا پر تہمت لگاتے ہیں کہ خدا نے اس کی ان کو اجازت دے رکھی ہے۔ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جب یہ آیہ شریفہ پڑھی تو فرمایا:

خدا کے دشمن جھوٹ بولتے ہیں! میں نے اسلام سے پہلے کے زمانہ جاہلیت کی ہر چیز اور اس کے ہر طریقے کی اصلاح کر دی ہے۔ ہاں بس امانت اپنی جگہ باقی ہے۔ امانت خواہ نیک آدمی کی ہو یا فاسق و فاجر کی، بہر حال اسے لوٹانا ہے۔  (تفسیر مجمع البیان)

معاملے کی خلاف ورزی

راوی نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے کہا!  ایک شخص نے دوسرے شخص کو یہ کہہ کر بھیجا کہ میرے لئے فلاں کپڑا خرید لاؤ۔ پس اس دوسرے شخص نے بازار میں وہ کپڑا تلاش کیا تو اس نے دیکھا کہ جو کپڑا پہلے شخص کو مطلوب ہے وہ اس کے پاس پڑا ہوا ہے۔ پس وہ دوسرا شخص کچھ بتائے بغیر اپنا کپڑا اسے دے کر اس کے عوض میں بازار سے خریدے ہوئے مال اپنے پاس رکھ سکتا ہے؟ امام نے فرمایا: اُس کو ایسی حرکت کا سوچنا بھی نہیں چاہیئے اور اس طرح اپنے نفس کو آلودہ نہیں کرلیناچاہیئے۔ پھرامام نے سورہ احزاب کی آیت 72 تلاوت فرمائی (ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا) اورپھر ارشاد فرمایا, اگر چہ کہ اس کے پاس برابر والی چیز سے بہتر ہو تب بھی وہ اپنی طرف سے (یعنی پہلے شخص کوکچھ بتائے بغیر) نہ دے۔   (تفسیر صافی نقل از تہذیب)

اس لئے کہ اصل معاملہ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا شخص پہلے شخص کی رقم لے کر بازار سے ایک مخصوص کپڑا لے آئے۔  پس اس معاملے کی ذرا سی بھی خلاف ورزی خیانت ہوگی۔

خیانت کا بوجھ اور روز قیامت

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :

خبردار! کوئی شخص ایک اونٹ کی بھی خیانت کا مرتکب ہرگز نہ ہو, ورنہ وہ قیامت کے دن اُسی اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کرآئے گا اور اونٹ کی طرح بلبلا رہا ہوگا ! خبردار ! کوئی شخص ایک گھوڑے کی بھی خیانت کا ہرگز مرتکب نہ ہو! ورنہ وہ قیامت کے دن اسی گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر آئے گا اور ہنہنا رہا ہوگا! ایسا خیانت کار شخص مجھے مدد کے لئے پکارے گا:یَا مُحَمَّد ! یَا مُحَمَّد! آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ:  میں اس سے کہوں گا کہ میں نے تمہیں تبلیغ کر دی تھی۔ اب تمہارے متعلق خدا کے حضورمیری کوئی ذمہ داری نہیں ہے!  (کتاب کافی)

علامہ مجلسی پیغمبر اکرم کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ: یعنی حتٰی دھاگہ اور سوئی تک واپس لوٹا دیا کرو۔ اس لئے کہ خیانت قیامت کے دن بہت ننگ و عار اور رسوائی کا باعث ہوگی۔ (کتاب شرح کافی)

ایک شخص آنحضرت کی خدمت میں آیا۔  وہ ایک سُوا (بڑی سوئی) بغیر اجازت لے گیا تھا۔ اس نے آنحضرت سے کہا: میں یہ سُوا لے گیا تھا تا کہ اس سے اپنے لئے پالان شتر تیار کر سکوں۔ آنحضرت نے فرمایا: اگر اس سوئے میں میرا حق ہے تو میں نے اسے معاف کیا۔ اور اگر دوسرے مسلمانوں کا حق ہے تو اس کی قیمت تم دے دو تاکہ وہ بیت المال میں شامل ہو اور سب کے درمیان عدل سے تقسیم ہو! اس عرب شخص نے کہا: میں نہیں جانتا تھا کہ یہ اتنا سخت مسئلہ ہے۔ اگر ایسا ہے تومیں سوا اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے وہ سوا آنحضرت کو دیا اور چلا گیا۔

راز کی امانت

سورہ تحریم میں پروردگار عالم ازواج پیغمبرؐ میں سے بعض کو سر زنش کر رہا ہے کہ انہوں نے آنحضرتؐ کے ساتھ خیانت کی تھی اور آپ کا راز فاش کر دیا تھا۔ خدا ان دونوں کو توبہ کرنے کی ہدایت دے رہا ہے اور فرمارہا ہے کہ:

إِن تَتُوبَآ إِلَى ٱللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا  (تحریم ۔ 4) 
(اے نبی کی دونوں بیویو!) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل کج ہوگئے ہیں

اسی سورت میں حضرت نوح اور حضرت لوط پیغمبروں کی بیویوں کا بھی کچھ یوں ذکر ہے:

فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًۭٔا وَقِيلَ ٱدْخُلَا ٱلنَّارَ مَعَ ٱلدَّٰخِلِينَ (تحریم ۔ 10)
پھر انہوں نے خیانت کی (گھر کے راز فاش کردئیے)  پس وه دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ.

نبی کریم سے حضرت ابوذرؓ نقل کرتے ہیں:

اے ابوذر! ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال کرنا چاہیئے۔ اگر تم اپنے مومن بھائی کا راز فاش کردو گے تو خیانت کر بیٹھو گے۔ پس ایسے کام سے بچو۔ (وسائل الشیعہ)

راز کی بات خواہ دوست کی ہو یا دشمن کی، خواہ اچھے آدمی کی ہو یا بُرے آدمی کی، جب وہ امانت کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اُسے فاش کرنا حرام ہے۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کوئی راز کی بات آدمی کو خود بخود معلوم ہوجائے یعنی جس شخص کے متعلق وہ بات ہے، خود اس نے نہ بتائی ہو، لیکن اندازہ ہو کہ وہ شخص پسند نہیں کرے گا کہ وہ بات پھیل جائے۔ ایسی بات بھی شرعی لحاظ سے امانت ہے۔ حضرت امیرالمومنین کا قول ہے کہ:

راز کی جو بات تمہیں راز رکھنے کے لئے سنائی گئی ہو، اُسے فاش کردینا خیانت اور غداری ہے! (غرر الحکم)

امام یہ بھی فرماتے ہیں : جو شخص کسی مومن کی میت کو غسل دے اور اس کے سلسلے میں امانت کا خیال رکھے تو اس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ  کوئی شخص میت کے سلسلے میں امانت کا خیال کس طرح رکھ سکتا ہے؟ امام نے جواب دیا وہ میت کے بدن میں جوعیب دیکھے، دوسروں کو نہ بتائے۔ (کتاب امالی)

البتہ بعض چیزیں ایسی ہیں جنہیں راز رکھنا ضروری نہیں بلکہ بعض اوقات ان کا افشاء کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ روایت میں ہے کہ:

ایک ساتھ بیٹھنے والے شخص کو امانت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ہاں البتہ تین قسم کی بیٹھکوں میں ہونے والی بات فاش کرنا حرام نہیں ہے۔ ایک وہ جگہ جہاں حرام طریقے سے کسی کی جان لینے کی بات ہورہی ہو۔ ایک وہ جگہ جہاں زنا کا پروگرام طے پارہا ہو۔ اور ایک وہ جگہ جہاں ناحق حرام مال کھانے کی بات ہو رہی ہو۔  (بحار الانوار جلد ۱۶ نقل از امالی مفید)

یعنی ایسی جگہوں پر ہونے والی باتیں کسی کا حق ثابت کرنے کے موقع پر قاضی کے سامنے گواہ بن کر پیش کی جاسکتی ہیں۔ بلکہ بعض موقعوں پر بات کی اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ راز فاش نہ کرنا حرام ہوتا ہے۔

راز کی امانت کے کچھ درجے ہوتے ہیں اور اس کی کچھ قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض میں خیانت کو چغل خوری یا چغلی کہتے ہیں، اور بعض میں خیانت کو غیبت کہا جاتا ہے۔

مسلمانوں کے جنگی راز کفار تک پہنچانا

خدا، پیغمبر اور تمام مسلمانوں سے خیانت کا اپنا اپنا مرتبہ ہوتا ہے ایک قسم کی خیانت یہ بھی ہوتی ہے کہ آدمی خود اپنے ساتھ خیانت کر بیٹھتا ہے ان تمام خیانتوں کا مجموعہ مسلمانوں کے سیاسی رازوں اور فوج کے پوشیدہ امور کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والے کافروں سے بیان کر دینا ہے۔ آدمی اس طرح نہ صرف خدا، پیغمبر اور تمام مسلمانوں سے خیانت کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھ بھی خیانت کرتا ہے۔ دشمن کی تقویت اور مسلمانوں کی شکست کا سبب بنتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَخُونُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ وَتَخُونُوٓا۟ أَمَـٰنَـٰتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (انفال ۔ 27)
اے ایمان لانے والو، نہ تو خدا اور رسول سے خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو حالانکہ تم سمجھتے بوجھتے ہو۔

اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں جابر ابن عبدالله سے منقول ہے کہ ایک دن جبرئیل نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو خبر دی کہ ابوسفیان فلاں جگہ مشرکوں کے ایک لشکر کے ساتھ پڑاؤ کئے ہوئے ہے۔ آپ اس سے جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ اور اس خبر کو پوشیدہ رکھیں تاکہ اچانک ان پر حملہ کر سکیں۔ منافقین میں سے ایک شخص نے یہ خبر لکھی اور ابوسفیان کو مسلمانوں کے اچانک حملہ کرنے والے پروگرام سے آگاہ کردیا۔ اس کے علاوہ اسی آیت کے ذیل میں ابو لبابہ نامی شخص کی خیانت اور اس کی توبہ کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔

متعلقہ تحاریر