تقوی کی حقیقت

گناہان کبیرہ ۔ آیۃ اللہ شھید دستغیب شیرازی 10/03/2022 2921

تقویٰ کا مصدر وقایہٰ ہے، جس کے معنی ہیں حفاظت اور پرہیزگاری۔ شرعی اصطلاح میں خود کو ہر اس چیز سے روکنا جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہو۔  امام جعفر صادق ع سے جب تقویٰ کے معنی دریافت کیے گئے تو آپ نے فرمایا :

جہاں حکم خدا ہے وہاں سر تسلیم خم کر دو اور جہاں نہی خداوندی ہے وہاں سے دُور رہو۔  (سفینة البحار جلد 3 ص 678)

تقویٰ کی دو قسمیں ہیں:

  1. اوّل اطاعت الٰہی حاصل کرنا اور اُس کے احکامات کو بجا لانا یعنی اس طرح کہ کوئی واجب ترک نہ ہو اور جہاں تک ممکن ہو مستحبات (سنت اعمال) کو بھی ترک نہ کرے۔
  2. تقویٰ کی دوسری قسم حرام چیزوں سے بچنا اور کوشش کرنا کہ وہ مکروہات کو بھی ترک کر دے۔ مکروہ بندہ کا وہ عمل ہے جس کے ترک کرنے میں شارع مقدس کی رضا ہے۔ لیکن اس کے کرنے پر عذاب نہیں۔

وہ شخص کہ جو سعادت اور تقویٰ کے بلند مقام کا طالب ہے اُسے چاہیئے کہ تقویٰ کے دوسرے مرتبے کو جو حرام چیزوں اور گناہوں سے پرہیز کرنا ہے زیادہ اہمیت دے۔ کیونکہ بعض گناہان کبیرہ اعمال صالح کو نابود کر دیتے ہیں۔ اور اگر حرام چیزوں سے پرہیز کر لیا تو اس کا عمل کتنا ہی حقیر اور کم ہی کیوں نہ ہو بارگاہ خداوندی میں مقبولیت پاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

انَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ منَ الْمُتَقیْنَ (المائدہ۔  27)
خدا صرف پرہیز گاروں سے (اعمال) قبول کرتا ہے۔

اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے ارشاد فرمایا:

دعا کی استجابت کے لیے پرہیز گار شخص کی مختصر سی دعا اس طرح سے کافی ہے جس طرح کھانے کو خوش ذائقہ بنانے کے لیے تھوڑا سا نمک کافی ہے۔

مختصر یہ کہ گناہ سے پرہیز کرنا اچھے اعمال بجا لانے سے زیادہ اہم ہے۔ امام جعفر صادق ع نے فرمایا :

لقمہ حرام کا نہ کھانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی خوشنودی کے لیے دو ہزار رکعت مستحبی نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔

آپؑ ہی سے روایت ہے:

ایک درہم اس کے مالک کو واپس کر دینا خداوندعالم کے نزدیک ستّر حج مقبول کے برابر ہے۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

اچھے اعمال کو بجا لا نے کی کوشش زیادہ کرو، اگر نیک اعمال نہ بجا لا سکو تو کم از کم نافرمانی نہ کرو، کیونکہ اگر کوئی عمارت کی بنیاد رکھے اور اُسے خراب نہ کرے تو اگرچہ کام کی رفتار کم بھی ہو وہ عمارت یقینا بلند ہوتی ہے اور اگر وہ شخص جو بنیاد رکھ دے اور ساتھ ساتھ خراب بھی کرتا رہے, اس عمارت کی دیوار ہو سکتا ہے کہ کبھی بلند نہ ہو۔

بہشت کے درخت کو جلانے والی آگ

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: اگر کوئی سبّحان اللہ کہے تو خداوند عالم اس کے لیے بہشت میں ایک درخت لگاتا ہے،  یہ سنتے ہی قریش کاایک شخص کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: اگر ایسا ہے تو ہمارے لیے بہشت میں بہت سے درخت ہو نگے، حضرت نے فرمایا؛  ہاں، لیکن اس چیز سے ڈرنا کہ تم یہاں سے اُس کے لیے آگ بھیج کر کہیں سب کو خاکستر نہ کر دو۔
اسی طرح سے فرمایا, حسد ایمان کو کھا کر نابود کر دیتا ہے جیسا کہ آگ لکڑی کو۔

حرام خوری عبادت کو جلا دیتی ہے

آپؐ نے فرمایا: قیامت کے دن ایسی قومیں بھی ہوں گی جن کے نیک اعمال تہامہ کے پہاڑوں کی طرح وزنی ہونے کے باوجود حکم ہو گا کہ انہیں آتش جہنم میں جھونک دیاجائے۔ کسی نے عرض کیا،  یارسول اللہ! کیا یہ لوگ نماز گزار تھے؟ فرمایا، ہاں؛ نماز پڑھتے تھے اور روزہ رکھتے تھے اور رات کا کچھ حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ لیکن جب بھی ان کو دنیا کی کوئی چیزملتی اس پر بے تحاشہ ٹوٹ پڑتے تھے۔ (یعنی حلال و حرام میں فرق نہ رکھتے تھے)۔

حق الناس قبولیت اعمال میں رکاوٹ ہے

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ اپنی قوم کو ڈراؤ اور کہو کہ میرے گھروں (مساجد ) میں سے کسی گھر (مسجد) میں داخل نہ ہو نا اس حالت میں کہ میرے بندوں میں سے کسی بندے کا حق تمہارے ذمے ہو۔ اس حالت میں اگر وہ نماز کے لیے کھڑا ہو گا تو میں اس پر لعنت کرتا رہوں گا جب تک کہ وہ حق اس کے مالک کو واپس نہ کر دے۔

آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات بیت المقدس سے آواز بلند کر تا ہے جو کوئی حرام کھاتا ہے، خدا اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا خواہ واجب ہو یا مستحب۔

صرف پرہیز گاری کے ساتھ عمل قبول ہوتا ہے

اگر تم اس طرح نماز میں کھڑے رہو جیسے زمین میں گڑی ہوئی میخ اور اس قدر روزہ رکھو کہ سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح کمزور ہو جاؤ اور تیر کمان کی طرح جھک جاؤ پھر بھی خدائے تعالیٰ تم سے کوئی عمل قبول نہیں کرتا جب تک تمہارے پاس گناہوں سے باز رکھنے والا زہد و تقویٰ نہ ہو۔

گناہ دعا کی قبولیت میں مانع ہے

حضرت موسیٰ ع کا گزر ایک شخص کی طرف سے ہوا جو ان کے اصحاب میں سے تھا، وہ سجدے کی حالت میں تھا، پھر جب موسیٰؑ ع اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آئے تب بھی اُسے سجدے میں دیکھا تو آ پ نے فرمایا، اگر تمہاری حاجت بر آوری میرے اختیار میں ہوتی تو میں خود تمہاری حاجت پوری کرتا۔

خداوند تعالیٰ نے موسیٰ ع پر وحی نازل کی کہ اگر یہ شخص میرے لئے اتنے سجدے کرے کہ اس کی گردن کٹ جائے پھر بھی میں اس کے اعمال قبول نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ جو چیز مجھے نا پسند ہے اس سے روگردانی نہ کرے اور جو مجھے پسند ہے اُسے بجا لائے (یعنی گناہوں سے پرہیز کرے اور عبادات بجا لائے) ورنہ گناہ دعا کی قبولیت کو روک لیتا ہے۔

گناہ ترک کرنا حقیقی عبادت ہے

حدیث میں ذکر ہوتا ہے۔

گناہوں سے پرہیز کرنا دین کی بنیاد ہے۔ اس لیے گناہ سے اجتناب کرو تاکہ سب سے زیادہ عبادت گزار متقّی ہو جاؤ اور سختی کے ساتھ اپنے آپ کو تقویٰ سے مزیّن کرنے کا اہتمام کرو۔ تقویٰ کے بغیر کوئی عمل بجا نہ لاؤ۔ یقیناوہ عمل مقبول الٰہی ہے، جس کے ساتھ تقویٰ ہو اگرچہ عمل مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا صرف پرہیز گاروں کے (اعمال) قبول کرتا ہے۔

(اور مقبول عمل اس لحاظ سے جب کہ رب العالمین نے اسے شرف قبولیت بخشا ہو کم عمل اور چھوٹا عمل نہیں کہا جا سکتا۔)

نیک اعمال گردوغبار کی طرح پراگندہ ہو سکتے ہیں

سلیمان بن خالد کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق ع سے اس قول خدا کے بارے میں پوچھا، ٌہم نے قصد کیا اُس عمل کا جو خوبصورت شکل میں ہے پھر اس عمل کو ذروں کی طرح ہوا میں بکھیر دیتے ہیں تو حضرت نے فرمایا؛ خدا کی قسم اگرچہ ان کے اعمال مصری کپڑوں کے مانند زیادہ سفید، چمکدار بھی ہوں گے مگر جب ان کے سامنے گناہ اور حرام نمودار ہوتا ہے تو وہ اسے چھوڑتے نہیں ہیں۔ ٌ

علامہ مجلسی علیہ الرحمة والرضوان اس حدیث کی شرح کے ضمن فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ عبادات واطاعات گناہ کی سبب سے فنا ہوتی ہیں۔

بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخلہ:

حضرت صادق آل محمدعلیہ الصٰلوةوالسلام نے فرمایا:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر وحی نازل کی اور فرمایا یقینا میرا بندہ میرے نزدیک نہیں ہو سکتا مگر میری پسندیدہ تین چیزوں کے بغیر۔ حضرت موسیٰ نے عرض کی میرے پالنے والے وہ تین چیزیں کونسی ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛ اے موسیٰ وہ تین چیزیں دنیا میں زہد سے کام اور گناہوں سے پرہیز کرنا اور میرے خوف سے گریہ کرنا ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: پروردگار! جو یہ چیزیں بجا لایا اس کے لیے کیا اجروثواب ہے؟ فرمایا: دنیا میں زہد سے کام لینے والوں کے لیے بہشت ہو گی اور میرے ڈر سے گریہ کرنے والوں کے لیے ایسا بلند مقام ہو گا جہاں ان کے علاوہ اور کسی کو ٹھہرنے کی گنجائش نہیں ہو گی۔ لیکن میری نافرمانی سے پرہیز کرنے والوں کے لیے بے شک تمام مخلوق کے اعمال کی باز پرس ہو گی مگر ان کے اعمال کا حساب و کتاب نہیں ہو گا اور بغیر حساب بہشت میں داخل ہوں گے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
قسم ہے اُس خدا کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کوئی بندہ ایسا نہیں کہ دن میں پانچ مرتبہ واجب نماز بجا لائے، ماہ مبارک رمضان کا روزہ رکھے اور گناہان کبیرہ سے دوری اختیار کرلے مگر یہ کہ بہشت کے دروازے اس کے سامنے کھولے جائیں گے۔ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے گذشتہ آیہ مبارکہ کو تلاوت فرمایا۔
علّامہ مجلسی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تقویٰ کی چار قسمیں ہیں:
  1. ’ ورع تابعین‘، جس سے مراد محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔
  2. ’ ورع صالحین‘، یعنی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا تاکہ حرام سے آلودہ نہ ہو۔
  3. ’ ورع متقین‘، جس سے مقصد مباح چیزوں کو ترک کرنا ہے تاکہ حرام چیزوں میں مبتلا نہ ہوں۔ مثلاً لوگوں کے حالات نہ پوچھنا اس خوف سے کہ مبادا غیبت کے مرتکب ہو جائیں۔
  4. ’ ورع سالکین‘، یعنی غیرخدا سے منہ پھیر لو اس ڈر سے کہ قیمتی عمر بیہودہ کاموں میں صرف ہو جائے۔ اگرچہ حرام کے ارتکاب کا اسے اندیشہ بھی نہ ہو۔

متعلقہ تحاریر