قتل

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 15/04/2022 1433
گناہ کبیرہ میں پانچواں بڑا گناہ اس شخص کا قتل ہے جس کو خداوند عالم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان سے مارنے کا حکم نہ دیا ہو۔ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ قاتل نفس محرّمہ کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًۭا مُّتَعَمِّدًۭا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ خَـٰلِدًۭا فِيهَا وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُۥ وَأَعَدَّ لَهُۥ عَذَابًا عَظِيمًۭا (النساء ۔ 93 )
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔
اس آیہ شریفہ میں قتل نفس کے لیے پانچ سزائیں قرار دی گئی ہیں۔
  1. پہلی جہنم،
  2. دوسری جہنم میں ہمیشگی،
  3. تیسری غضب خدا میں گرفتاری،
  4. چوتھی لعن خدا میں مبتلا ہونا
  5. پانچویں عذاب عظیم۔

ایک قتل تمام انسانیت کے قتل کے برابر ہے

ارشاد خداوندی ہے:

أَنَّهُۥ مَن قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعًۭا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحْيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعًۭا (المائدہ ۔ 32)
جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے واﻻ (جیسے لٹیرا، زانی محصنہ، شوہردار عورت کے ساتھ بد فعلی کرنے والا وغیرہ) ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی ایک کو زندہ کیا، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا

چونکہ حقیقت میں تمام مومنین آدم کے بیٹے اور ایک ہی نفس کا حکم رکھتے ہیں۔  قاتل نے لوگوں کے درمیان قتل جیسی بُری چیز کی تعلیم دی ہے اور سب کو قتل پر اُکسایا ہے۔

اسی طرح کسی نفس محترم کی حمایت و حفاظت بھی سب سے بڑی عبادت ہے۔ چنانچہ اگر کوئی کسی نفس محترم کی بقا کا سبب بنے جیسے کہ عفو کرے یا قصاص چھوڑ دے یا انتقام سے اپنے آپ کو باز رکھے یا کسی کو ہلاکت سے نجات دے یا دلائے تو یہ سب لوگوں کو نجات دینے کے برابر ہے اور وہ شخص اسی قدر ثواب کا مستحق بھی قرار پائے گا۔

خود کشی بھی قتل کے برابر ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَا تَقْتُلُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًۭا ٢٩ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ عُدْوَٰنًۭا وَظُلْمًۭا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًۭا ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرًا (النساء: 29, 30 )
اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔ اور جو شخص یہ سرکشی اور ﻇلم سے کرے گا تو عنقریب ہم اس کو آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ پرآسان ہے۔

قاتل مسلمانی کی حالت میں نہیں مرتا

حجة الوداع کے موقع پر حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

لوگو! مسلمانوں کا خون بہانا حلال نہیں ہے۔ اسی طرح ان کی مرضی کے بغیر مال پر تصرف جائز نہیں۔ پس اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا اور میری موت کے بعد دوبارہ کفر کی طرف نہ پلٹنا۔

حضرت امام جعفر صادق ع نے کسی مرد مومن کے قاتل کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ

قاتل کے مرتے وقت اس سے کہا جاتا ہے کہ جس حالت میں مرنا چاہو، مر جانا۔ اگر تم چاہو یہودی بن کر یا مسیحی کی موت مرو، یا مجوسی کی موت مرو۔ (کافی)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

مومن اپنے دین کی وسیع فضا میں آزاد ہوتا ہے جب تک کسی کے حرام خون سے اپنے ہاتھوں کونہ رنگا ہو۔

مزید فرمایا:

جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرنے والے کو توبہ و انابہ نصیب نہیں ہوتی۔

قتل کے شرکاء بھی قاتل ہیں

امام جعفر صادق ع سے منقول ہے کہ:

جناب رسول خدا سے عرض کیا گیا کہ ایک شخص مسلمان مارا گیا ہے اور اس کی لاش گلی میں پڑی ہوئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اصحاب وہاں پہنچے تو سوال کیا : اس کا قاتل کون ہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمیں معلوم نہیں۔ آپ نے تعجب کے ساتھ فرمایا : کوئی مقتول مسلمانوں کے درمیان پڑا ہو اور اس کے قاتل کا کسی کو پتہ نہ ہو۔ اس خدا کی قسم جس نے مجھے پیغمبری کے لیے منتخب فرمایا، اگر تمام آسمان اور زمین میں رہنے والے ایک مسلمان کے خون میں شریک ہو جائیں اور اس سے سب خوش ہوں تو ضرور اللہ تعالیٰ ان سے کو بلا تفریق عذاب میں مبتلا کرے گا اور جہنم میں ڈال دے گا۔

اس حدیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قاتل اور شرکاء قتل کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر ع نے فرمایا کہ:

قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں کسی کو پیش کریں گے۔  اس کے ساتھ تھوڑا ساخون ہو گا۔ وہ شخص کہے گا خدا کی قسم میں نے کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے قتل میں شریک ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا درست ہے لیکن کسی ایک دن تم نے میرے مومن بندے کا ذکر کیا اور یہی ذکر اُس کے قتل کا سبب بنا اس لیے اس کا خون تمہارے ذمے ہے۔

حضرت امام رضا ع سے روایت ہے:

اگر کوئی مشرق میں مارا جائے اور مغرب میں رہنے والا اس قتل پر راضی ہو جائے تو گویا وہ اس قتل میں شریک ہے۔

حمل گرانا بھی حرام ہے

جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اس کو کسی طریقہ سے ضائع کرنا یا مارنا حرام ہے۔ ایسی صورت میں مثل قاتل دیہ (خون بہا) ادا کرنا پڑتا ہے۔ قاتل اگرچہ ماں باپ ہی ہوں (جیسے ماں ایسی دوائی استعمال کرے جو حمل ساقط ہونے کا سبب بن جائے) پھر بھی اس دیہ سے ارث نہیں ملتی بلکہ ان کے سوا دوسرے ورثاء اس دیہ کے حق دار ہوں گے۔ دیہ کی تفصیل یوں ہے:

اگر نطفہ ضائع کیا گیا ہے تو ساٹھ مثقال سونا،اگر ہڈی پید اہو گئی تھی تو اسی مثقال سونا، اگر جنین (رحم مادر میں نا تمام بچہ) کے گوشت و اعضاء نمودار ہو گئے تھے لیکن روح داخل نہیں ہوئی تو سو مثقال سونا، اگر روح داخل ہوگئی تھی اور وہ لڑکا تھا تو ہزار مثقال سونا، اور لڑکی تھی تو پانچ سو مثقال سونا۔

اگر حاملہ عورت مر جائے تو اس کا پیٹ چاک (آپریشن) کر کے بچے کا نکالناواجب اور غفلت برتنا حرام ہے۔ اگر تاخیر کی بنا پر بچہ ضائع ہو جائے تو جس کی غفلت سے بچہ ضائع ہوا، اس پر دیہ واجب ہے۔

قتل کی توبہ

اگر کوئی جان بوجھ کر کسی نفس کو قتل کرے اور اس کے بعد توبہ کرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے آپ کو مقتول کے ولی کے حوالے کرے۔ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ قاتل سے قصاص لیں یا دیہ لے لیں یا معاف کر دیں۔

معاف کرنے کی صورت میں یعنی اسے قتل نہ کریں تو قاتل پرتین چیزیں واجب ہوتی ہیں:
  1. ایک بندہ راہ خدا میں آزاد کرے
  2. ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کے کھانا کھلائے
  3. ساٹھ روزے متواتر رکھے۔

اگر بندہ آزاد کرنا دسترس میں نہ ہو تو باقی دو کفارے ساقط نہیں ہوتے۔

اتفاقی اور خطائی قتل

غلطی سے کسی کو قتل کرنے کی صورت میں بھی مقتول کے سرپرستوں کو دیہ ادا کرنا واجب ہے لیکن اس صورت میں جبکہ مقتول کے ولی اسے معاف کردیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ طریقے پر بندہ آزاد کرنا، فقیروں کو کھانا کھلانا اور ساٹھ روزے رکھنا بالترتیب واجب ہے۔

اسی طرح کسی کے اعضائے بدن کو کاٹنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔

متعلقہ تحاریر