ناپ تول میں کمی کرنا

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 14/05/2022 1691

بیچنے والا مقررہ مقدار سے کم چیز دے, یا دین (قرض یا کوئی اور مالی ذمہ داری) ادا کرنے والا شخص مقررہ مقدار ظاہر کر کے کم مقدار دے, یا کم گن کردے, یہ سب حرام ہیں۔ وہ چیز جو ناپ کر بیچی جاتی ہیں جیسے کپڑا اور زمین وغیرہ اگر ایک سینٹی میڑ بھی اس میں کمی کی گئی تو یہ بھی گناہ اور حرام ہے۔ بالکل اسی طرح وہ چیزیں جنہیں گن کربیچا جاتا ہے جیسے انڈا اور بعض پھل وغیرہ اگر اسے کم کر دیا گیا اور لینے والا نہ سمجھ سکا تو ایسا کرنے والے کو بھی ناپ تول میں کمی کرنے والا کہا جائے گا۔ قرآن مجید میں شدید ترین بیان کے ساتھ ناپ تول میں کمی کرنے کا سخت عذاب مذکور ہوا ہے۔ قرآن مجید کاایک سورہ پورا اسی موضوع سے مخصوص ہے۔ اس میں ارشاد ہے کہ:

وَيْلٌۭ لِّلْمُطَفِّفِينَ ١ ٱلَّذِينَ إِذَا ٱكْتَالُوا۟ عَلَى ٱلنَّاسِ يَسْتَوْفُونَ ٢ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ ٣ أَلَا يَظُنُّ أُو۟لَـٰٓئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ ٤ لِيَوْمٍ عَظِيمٍۢ ٥ يَوْمَ يَقُومُ ٱلنَّاسُ لِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ۶ كَلَّآ إِنَّ كِتَـٰبَ ٱلْفُجَّارِ لَفِى سِجِّينٍۢ ٧ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا سِجِّينٌۭ ٨ كِتَـٰبٌۭ مَّرْقُومٌۭ (مطففین: 1 ۔ 9)
ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے, کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں. اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں. کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے, اس عظیم دن کے لئے. جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے. یقیناً بدکاروں کا نامہٴ اعمال سِجِّينٌ میں ہے. تجھے کیا معلوم سِجِّينٌ کیا ہے؟ لکھی ہوئی کتاب ہے.

حضرت شعیب علیہ السَّلام نے اپنی قوم کو کچھ یوں ہدایت فرمائی تھی:

وَلَا تَنقُصُوا۟ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَ ۚ إِنِّىٓ أَرَىٰكُم بِخَيْرٍۢ وَإِنِّىٓ أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍۢ مُّحِيطٍۢ ٨٤ وَيَـٰقَوْمِ أَوْفُوا۟ ٱلْمِكْيَالَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا۟ ٱلنَّاسَ أَشْيَآءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ  (ہود: 84-85)
اور تم ناپ تول میں کمی نہ کرو میں تو تمہیں آسوده حال دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم پر گھیرنے والے دن کے عذاب کا خوف ہے. اور قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں خرابی کرتے نہ پھرو

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں کہ:

جو شخص ناپنے تولنے میں خیانت کرے گا اس کو دوزخ کے نچلے طبقہ میں ڈال دیا جائے گا جہاں اس کی جگہ آگ کے دو پہاڑوں کے درمیان ہوگی۔ اس سے کہا جائے گا کہ ان پہاڑوں کا وزن کرو! وہ ہمیشہ اس عمل میں مشغول رہے گا۔

پانچ گناہ اور پانچ مصیبتیں

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ پانچ گناہوں کے نتیجے میں پانچ قسم کی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔  

  1. کسی قوم کے لوگ وعدہ خلافی اور عہد شکنی کرتے ہیں تو خدا ضرور ان پر ان کے دشمنو ں کومسلط کر دیتا ہے۔
  2. لوگ جب خدا کے نازل کئے حکم کے برخلاف حکم دیتے ہیں تو ضرور ان میں غربت عام ہوجاتی ہے۔
  3. فحاشی جب کھلے عام ہوجاتی ہے تو ضرور شرح الموت بڑھ جاتی ہے۔
  4. لوگ جب ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ضرور نباتات اور زراعت میں کمی ہوجاتی ہے اور رزق کی فراوانی رُک جاتی ہے۔
  5. اور لوگ جب ناپ تول میں کمی کردیتے ہیں تو بارش نہیں ہوتی۔  

کاروبا رکرنے والوں کو امیر المومنین ع کی نصیحت

امیر المومنین حضر ت علی علیہ السَّلام جب حکومت کے کاموں سے فاغ ہوتے تھے تو بازار کوفہ میں جا کرفرماتے تھے:

اے لوگو! خدا سے ڈرو۔  پورا پورا انصاف کے ساتھ ناپا تولا کرو۔  لوگوں کوان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاو۔

ایک دن حضرت علی ع نے بازار کوفہ میں ایک شخص کو دیکھا جو زعفران بیچ رہا تھا وہ یہ چالاکی کر رہا تھا کہ اپنا ہاتھ تیل سے چکنا کر کے ترازو کے اس پلڑے پر لگاتا رہتا تھا جس میں زعفران رکھی جاتی تھی۔ حضرت علی علیہ اسَّلام نے یہ دیکھا کہ اس کا ترازو درست نہیں ہے تو ترازو میں سے زعفران کو اٹھا لیا۔ پھر فرمایا:۔ پہلے ترازو کو برابر کر کے ٹھیک کرو، پھر اگر چاہو تو اس کے بعد کچھ زیاد ہ دے دیا کرو۔

کم بیچنے والا خریدار کا مقروض ہے

جتنے مال کی بییچنے والے نے کمی کی ہو اتنا مال اس کے ذمّے باقی رہتا ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اتنا مال بھی خریدار کودے دے, اور اگر خریدار مرچکا ہو تو خریدار کے وارثوں کو دے, اور اگر خریدار کو وہ پہچانتا نہ ہو تو (حاکم شرع سے احتیا طًا اجازت لے کر) اس مال کے اصل حقدار (خریدار) کی جانب سے اتنا مال صدقہ دیدے۔

اگر یہ معلوم نہ ہو کہ مال میں کتنی کمی ہوئی ہے تو بیچنے والے کو چاہئے کہ خریدنے والے سے مصالحت کرلے اور اسے کچھ مال دے کر یا ایسے ہی راضی کرلے۔ اگر خریدار فوت ہوچکا ہو تو اس کے وارثوں کو راضی کرلے۔  اور اگر خریدار کا پتہ نہ ہو تو حاکم شرع کو راضی کر لے۔

دھوکہ بازی بھی کم فروشی ہے

کم بیچنے کی حقیقت یہ ہے کہ جتنے مال کا معاملہ ہوا ہے آدمی وہ پورا مال خریدار کو نہ دے، بلکہ کم دے۔ اسی طرح دھوکہ بازی کرنا بھی ہے جب آدمی کم دیتا ہے تو بھی خریدار کومعلوم نہیں ہوتا کہ اسے کم دیا گیا ہے۔  جب آدمی کم دیتا ہے تو بھی خریدار کو معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کم دیا گیا ہے اسی طرح جب آدمی اچھی چیز کے ساتھ کچھ بُری چیز ملا کر دھوکے سے بیچ دیتا ہے تو بھی خریدارکو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے دھوکہ بازی میں اگرچہ وزن برابر ہو، لیکن چونکہ دھوکہ کیا گیا ہے اس لئے حرام ہے۔  مثلاً دوکاند ار نے 100 کلو گندم بیچنے کا معاہدہ کیا, لیکن اس نے 5 کلو مٹی ملا کر کل 100 کلو تول دیا۔ اس طرح اس نے گویا 95 کلو بیچا اور پانچ کلو گندم کم دی۔ اس طرح اس دوکاندار نے ایک من دودھ میں پانچ سیر پانی ملا دیا تو یہ بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح گوشت والے نے معمول سے زیادہ ہڈی شامل کردی (یا گوشت میں پانی بھر دیا) تو یہ بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح سبزی وغیرہ میں وزن بڑھانے کے لئے کافی پانی ملا دینا بھی دھوکہ بازی ہے۔ ایسے تما م کام کم بیچنے کے زُمرے میں آتے ہیں۔  اور گناہ کبیرہ ہیں! اگرچہ دوکاندار نے برابرتولا ہو۔

ملاوٹ حرام ہے

اسی طرح بڑھیا مال کی جگہ گھٹیا مال دھوکے سے بیچ دینا حرام ہے۔  پس اعلیٰ گندم کی جگہ درمیانی درجے کی گندم دے دینا یا اعلٰی گندم میں دوسری قسم کی گندم ملاکر دے دینا بھی دھوکہ بازی ہے۔ اسی طرح خالص گھی کی تہہ میں عام گھی ڈال کردے دینا بھی حرام ہے۔

رسول ﷲؐ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ:

جو شخص بیچنے یا خریدنے میں کسی مسلمان کو ملاوٹ کا مال دے گا وہ ہم میں سے نہیں ہوگا۔ وہ قیامت کے دن یہودیوں کے ساتھ ہو گا۔ اس لئے کہ جو شخص لوگوں کو کم ملاوٹ کرکے مال دیتا ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔

آنحضرتؐ نے فرمایا:

جو شخص ملاوٹ کر کے مال دے تو وہ ہم میں سے نہیں ہوگا! آنحضرت نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔  پھر فرمایا: اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ملاوٹ کا معاملہ کرے گا خدا تعالیٰ اس کے رزق سے برکت ہٹا لے گا، اس کی معاشی حالت تباہ کردے گا، اور اس کو اس کے حال پرچھوڑ دے گا! (عقاب الاعمال)

حضر ت امام محمّد باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:

ایک دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مدینہ منورہ کے بازار سے گز رہے تھے۔ ایک گندم فروش سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا : تمہاری گندم اچھی ہے۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے گندم کے اندر ہاتھ ڈالا تو اندر سے خراب قسم کی گندم نمودار ہوگئی۔ یہ دیکھ کر آنحضر ت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: میں تو یہی دیکھ رہا ہوں کہ تم نے خیانت اورملاوٹ کا سامان کرلیا ہے! (عقاب الاعمال)

ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق ع سے کہا: ایک شخص کے پاس دو قسم کا مال ہے، ایک مہنگا اور اچھا، جبکہ دوسرا گھٹیا اور سستا۔ اگر وہ ان دونوں کو مخلوط کرلے اور ایک خاص قیمت مقرر کر کے بیچے تو کیسا ہے؟ حضرت ع نے فرمایا, اُس کے لئے صحیح نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو ملاوٹ والا مال بیچے۔  ہاں اگر وہ بتا دے کہ اس میں ملاوٹ ہے، تو صحیح ہے۔  (عقاب الاعمال)

داود ابن سرجان نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا : میرے پاس دو قسم کی مشک تھی۔ ایک گیلی اور دوسری خشک، میں نے گیلی اور تازہ مُشک بیچ دی ہے لیکن لوگ سوکھی مُشک اسی قیمت پرنہیں خریدتے ہیں۔  آیا جائز ہے کہ میں اس کو تر کروں تاکہ وہ بک جائے؟ امام نے فرمایا : جائز نہیں ہے, ہاں اگر تم خریدارکو بتا دو کہ تم نے ترکیا ہے تو اور بات ہے۔

خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حق میں کمی

آدمی کو چاہیئے کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ اور ملاوٹ یا ناپ تول میں کمی نہ کرے، بلکہ خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، اَئمہ اور تمام مخلوق خدا کے حقوق کا پورا خیال کرے اور کسی قسم کے فرض میں کمی اور کوتاہی نہ کرے۔

خدائے تعالیٰ نے اپنے ذمّے بندے کا جو حق لیا ہے اس میں وہ کوتاہی نہیں کررہا ہے۔ مثلًا خدا بندے کو روزی دے رہا۔ بے شمار قسم کی نعمتیں اسے عطا کرہا ہے۔ اُس کی فریاد کو سُن رہا ہے اور بندے ہی کی مصلحت دیکھ کر اس کی دعا قبول کر رہا ہے، تو بندے کو بھی چاہیے۔کہ وہ خدا کا حق ادا کرے۔  اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائے, اس کی نافرمانی نہ کرے اور تمام فرائض بخوبی انجام دے۔  پس شیطان کا اور نفسانی خواہشات کوخدا کا شریک قرار دینے والا اور خدا کی نافرمانی سے منہ نہ موڑنے والا شخص خدا کا حق ادا نہیں کررہا ہے۔ ایسی صورت میں توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ یاالله  کہے گا تو فوراً خدا لبیک  کہے گا۔ جب دعا قبول ہونے میں تاخیر ہونے لگتی ہے تو بعض لوگ خدا سے ناراض ہونے لگتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ خود خدا کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرہے ہیں جبکہ خداوند تعالیٰ بندوں سے فرماتا ہے:

وَأَوْفُوا۟ بِعَهْدِىٓ أُوفِ بِعَهْدِكُمْ  (بقرہ ۔ 40)
تم لوگ مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا ! 

اگر اس کے باوجود خدا عطا کرے تو یہ اس کا فضل ہے۔ دعائے ابوحمزہ ثمالی میں حضر ت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

تمام تعریف ے اُس خدا کی جس کو میں پکارتا ہوں تو و ہ مجھے جواب د یتا ہے، ا گرچہ جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دینے میں سُستی کرتا ہوں۔ تمام تعریف ہے اُس خدا کی جس سے میں مانگتا ہوں تو وہ مجھے عطا کردیتا ہے اگر وہ مجھ سے قرض مانگتا ہے تو میں کنجوسی کرتا ہوں۔ (تمام فرائض قرض ہیں، اور اس قرض کی ادائیگی خدا آخرت میں کرے گا۔) اور تمام تعریف ہے اس خد اکی جو میرے گناہ دیکھ کر بھی حلم اوربردباری سے کام لیتا ہے ( اسی وقت عذاب نازل نہیں فرماتا)۔  اتنے حلم سے کام لیتا ہے جیسے کوئی گناہ ہی نہیں ہوا۔

عدل وانصاف سب سے بہتر ہے

حضرت امام جعفر صادق کاا رشاد ہے کہ: بہترین کام تین ہیں۔  

  1. تمہاری طرف سے لوگوں کوپورا انصف ملنا چاہیے۔  یہاں تک کہ اپنے لئے جو کچھ تم پسند کرنتے ہو وہی تم دوسروں کے لئے بھی پسند کرو۔
  2. تمہیں اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ مالی تعاون کرناچاہیے۔
  3. اور ہر حال میں تمہیں خدا کا ذکر کرتے رہنا چاہیئے۔  وہ زکر فقط سُبْحَانَ اللّٰہ اوراَلْحَمْدُللّٰہ نہیں ہے بلکہ (ذکر سے مراد خدا کو ہرحال میں یاد رکھنا ہے) جب تمہارے سامنے کوئی ایسا کام آجائے جس کا خدا نے حکم دیا ہے تو تمہیں وہ کام کر لینا چاہیئے اور جب تمہارے سامنے کوئی ایسا کام آجائے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے تو تمہیں وہ کام ترک کردینا چاہیئے۔  (کتاب کافی )

انصا ف کا ترازو

امیرالمومنین حضر ت علی علیہ السَّلام اپنے فرزند حضر ت حسن مجتبی علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

اے میرے بیٹے اپنی ذات کو اپنے اور دوسرے کے درمیان انصاف کرنے کے لئے ترازو قرار دے دو, پس دوسروں کے لئے وہی پسند کرو جو تم اپنی ذات کے لئے پسند کرتے ہو, دوسروں پر ظلم مت کرو جس طرح کہ تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر ظلم کیا جائے۔ دوسروں کے ساتھ ایسا ہی نیک سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا جائے دوسروں کے حق میں اپنے اس کام کو براسمجھو جس کو تم دوسروں کی جانب سے اپنے حق میں برا سمجھتے ہو۔  اور لوگوں کی ہر ایسی بات پر راضی رہو جیسی بات تم اپنی جانب سے دوسروں کے ساتھ کر کے راضی رہتے ہو۔ (نہج البلاغہ)

سعدی شیرازی کہتے ہیں کہ: تم مسلمانوں کے مال ہتھیا لیتے ہو، مگر جب تمہارا مال ہتھیا لیا جاتا ہے تو واو یلا اور فریا د کرنے لگتے ہو کہ کوئی مسلمان ہی نہیں ہے!

آدمی جب یہ پسند نہیں کرتا ہے کہ اس کے ساتھ خیاانت، دھوکہ بازی اور ملاوٹ یا ناپ تول میں کمی سے کام نہ لیاجائے تو اُسے بھی چاہئے کہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ ایسی حرکتیں کرنے کو پسند نہ کرے۔

علی ع میزان اعمال ہیں

سورئہ حدید میں ارشاد ہے:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِٱلْبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا ٱلْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌۭ شَدِيدٌۭ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ ٱللَّهُ مَن يَنصُرُهُۥ وَرُسُلَهُۥ بِٱلْغَيْبِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ قَوِىٌّ عَزِيزٌۭ (حدید ۔ 25)
یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔ اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت وقوت ہے اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے، بیشک اللہ قوت واﻻ اور زبردست ہے.

عدل وانصاف کو خدا وند تعالٰی نے ترازوکہا ہے۔ خداوند تعالی نے یہ ترازو یا پیمانہ ہر چیز کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ انسان کے اعتقادات اور حق و باطل کو بھی اسی کے ذریعے پر رکھا جاتا ہے۔  اچھے اور بُرے اخلاق، بھلی بُری صفات اور اچھے یا برے کاموں کے درمیان تمیز بھی انصاف کے پیمانہ سے دی جاتی ہے۔ قول وفعل اور اعتقاد وعمل کے ہر سلسلے میں اگر آدمی انصاف سے کام لے تو عدل حقیقی حاصل ہوجاتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام کی ایک زیارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ:

اعمال کے میزان اور ترازو پر سلام ہو! (مفاتیح الجنان)

حق اور باطل کے درمیان تمیز دینے خیر اور شر کے درمیان فرق کرنے اور اچھے اور بُرے اخلاق اور کاموں کے پہچاننے کا وسیلہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ آنحضرت کے بعد قرآن و عترت طاہرین علیہم السّلام، خصوصاً حضرت علی علیہ السّلام اس تمیز اور پہچان کا وسیلہ ہیں۔ اہل بیت کے قول و فعل اور اخلاق و کردار کو دیکھ کر ہم بھلے اور بُرے میں تمیز کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے عقائد و اعمال ان کے مطابق ہیں تو درست ہیں، اور اگر ان کے مطابق نہیں ہیں تو غلط ہیں۔

متعلقہ تحاریر