انتہائی عجیب اور غیر منطقی طرز تفکر ہے اگر کہا جائے کہ کسی شخص کی فضیلت کا معیار اس کے پہلے یا بعد میں آنے سے ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ حضرت آدمؑ چونکہ پہلے انسان تھے لہذا تمام کائنات سے افضل ہیں ؟بلکہ اصلاً خلیفہ ہونا فضیلت کا معیار کیسے ٹھہرا؟ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص خلیفہ نہ ہو لیکن فضائل کے اعتبار سے خلیفہ سے بڑھ کے ہو، مثلاً حضرت ابو ذر غفاری ؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ۔ ان کے بارے میں رسول اکرمؐ کی طرف سے جو فضائل ذکر ہوئے ہیں وہ بہت کم صحابہ کرامؓ کے بارے میں ذکر ہوئے ہیں۔
آج کل انجمن سپاہ صحابہ کے پروپیگنڈا کے زیر اثر کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ نبی اکرمؐ کے صحابہ کرام میں خلفائے راشدین سب سے افضل ہیں اور وہ اپنی ترتیب کے لحاظ سے افضل ہیں۔ یعنی سب سے زیادہ فضیلت حضرت ابوبکر کو حاصل ہے اور سب سے کم حضرت علی کو۔ آئیں ذرا اس مسئلے کو صحیح طور سے جاننے کی کوشش کریں۔
منطقی طرز تفکر یہ ہے کہ کسی شخص کی فضیلت کا معیار اس کا ایمان اور کردار ہے۔ اسکی معرفت اور تقوی ہے۔ حکومت کا ہاتھ میں آنا یا نہ آنا اس سے کسی شخص کی حیثیت لوگوں کے نزدیک تو بڑی ہو جاتی ہے لیکن خدا کے نزدیک وہ تبھی بڑا ہوتا ہے جب بندگی میں بڑا ہو۔
میں ﷲ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ حضرت علیؑ تمام صحابہ کرام میں افضل تھے اور اس کی وجہ ان کا خلیفہ ہونا نہیں۔ وہ خلیفہ ہیں تو بھی افضل ہیں اور اگر خلیفہ نہ ہوتے تب بھی (بعد از رسولؐ) تمام کائنات سے افضل تھے۔ اور اس بات کے لئے نبی اکرمؐ کا صرف یہی ایک فرمان ہی کافی ہے کہ "جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علیؑ مولا ہیں"
اور خدا کا دستور یہ ہے کہ افضل چیز کو آخر میں رکھتا ہے۔ جیسے افضل ترین پیغمبر آخری پیغمبر ہیں اور افضل ترین کتاب آخری کتاب (قرآن مجید) ہے۔ تو پھر اس قانون کے تحت آخری خلیفہ کو افضل ہونا چاہئے۔