آیة اللہ السیّد محمد کاظم طباطبائی یزدی نے گناہ کبیرہ کے تعیّن کے چار طریقے اس طرح بتائے ہیں:
- کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جو قرآن و حدیث میں صریحاً کبیرہ قرار دیا گیا ہو۔ اس قسم کے گناہوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔
- کبیرہ ہر وہ گناہ ہے کہ قرآن مجید اور سنّت معتبرہ میں جس کے مرتکب شخص کے لیے جہنم کی وعید دی گئی ہو۔ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام نے فرمایا:
گناہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے کہ جس پر خدائے تعالیٰ نے جہنم کا وعدہ کیا ہے۔
- ہر وہ گناہ جو مسلمہ طور پر گناہ کبیرہ ہو۔ اگر اس کے مقابل کوئی دوسرا گناہ اس سے زیادہ بڑا شمار کیا گیا ہو تو وہ بھی گناہ کبیرہ ہے۔ مثلاً قتل نفس گناہان کبیرہ میں سے ہے, اور فتنہ انگیزی کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ربّانی ہے:
وَٱلْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ ٱلْقَتْلِ (بقرہ: 217)
فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے
اس سے ہمیں یقین پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ بھی گناہان کبیرہ میں محسوب ہوتا ہے۔
- کبیرہ وہ گناہ ہے جو د ین دار اور شریعت پسند افراد کے نزدیک بڑا گناہ ہو۔ اس طرح کہ یہ یقین حاصل ہو جائے کہ مثلاً فلاں گناہ زمانہ معصوم ع سے لے کر اس وقت تک سارے متدینیین مسلسل گناہ کبیرہ شمار کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ عقلاً اور مسئلہ جانتے ہوئے خانہ خدا کی بے حرمتی کے قصد سے مسجد نجس کرنا یا نعوذباللہ قرآن مجید دور پھینک دینا وغیرہ وغیرہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتے ہیں۔
کبیرہ سے اجتناب صغیرہ سے درگزر کا سبب بنتا ھے
اگر کوئی گناہان کبیرہ سے پرہیز کرے تو اس کے چھوٹے گناہوں کی باز پرس نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اُسے بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
انْ تجتَنبُوْا کَبَائرَ مَاتُنْهَوْنَ عَنْهُ نُکَفرّ عَنْکُمْ سَیئاتکُمْ وَنُدْخلَکُمْ مُّدْ خَلاً کَریْماً (النساء۔ 30)
اگر ان میں سے تم گناہان کبیرہ سے بچتے رہو تو ہم تمہارے (صغیرہ) گناہوں سے بھی درگزر کریں گے اور تم کو بہت اچھی عزت کی جگہ پہنچا د یں گے۔
یعنی تمہارا بڑے گناہوں سے اجتناب کرنا چھوٹے گناہوں کا کفّارہ قرار دیاجائے گا۔
گناہان کبیرہ سے متّعلق روایات:
صدوق نے عیون الأخبار میں سید عبدالعظیم حسنی کے حوالے سے یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے ابو جعفر ثانی (امام محمد تقیؑ) سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام رضا ع سے سنا اور انہوں نے کہا کہ میں حضرت امام موسیٰ کاظم ع سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ ایک دن عمروبن عبید حضرت ابی عبداللہ جعفر صادق ع کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب وہ سلام کر کے بیٹھ گئے تو عمرو بن عبید نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :
ٱلَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَـٰٓئِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَٰحِشَ (نجم ۔ 32)
وہ لوگ جو گناہان کبیرہ اور بے حیائیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
اس کے بعد تھوڑی دیر خاموش رہے تو امام جعفر صادق ع نے فرمایا: آپ خاموش کیوں ہو گئے؟ عرض کیا میں کتاب خدا سے گناہان کبیرہ جاننا اور اخذ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے عمرو تمام گناہان کبیرہ میں سے
-
بزرگ ترین گناہ اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینا ہے۔ جیسا کہ خود فرمایا ہے،
مَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ ٱلْجَنَّةَ وَمَأْوَىٰهُ ٱلنَّارُ (مائدہ ۔ 72)
جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے
-
اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہونا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ خود فرماتا ہے
لَا يَا۟يْـَٔسُ مِن رَّوْحِ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ (یوسف ۔ 87)
رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں
-
اللہ تعالیٰ کے مکر (یعنی ناگہانی انتقام و قہر) سے نہ ڈرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے :
فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ (اعراف ۔ 99)
سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا
-
گناہان کبیرہ میں سے ایک عاق والدین ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا :
وَبَرًّۢا بِوَٰلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا (مریم ۔ 14)
اور اپنے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے والے تھے وه سرکش اور گناه گار نہ تھے.
-
کسی مومن کو نا حق قتل کرنا (گناہ کبیرہ) حرام ہے۔ کیونکہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُۥ جَهَنَّمُ خَـٰلِدًا فِيهَا وَغَضِبَ ٱللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُۥ وَأَعَدَّ لَهُۥ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء ۔ 93)
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
-
کسی پاکدامن مرد یا عورت کو زنا یا لواطہ کی طرف نسبت دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَرْمُونَ ٱلْمُحْصَنَـٰتِ ٱلْغَـٰفِلَـٰتِ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِ لُعِنُوا۟ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (نور ۔ 23)
جو لوگ پاک دامن بے خبر باایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وه دنیا وآخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے.
-
اور مال یتیم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَٰلَ ٱلْيَتَـٰمَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِى بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (نساء ۔ 10)
جو لوگ ناحق ﻇلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وه اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وه دوزخ میں جائیں گے۔
-
جہاد میں پیش قدمی کرنے کی بجائے بھاگ جانا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُۥٓ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَمَأْوَىٰهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ (انفال ۔ 16)
اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا جو (اپنی) جماعت کی طرف پناه لینے آتا ہو وه مستثنیٰ ہے۔ باقی اور جو ایسا کرے گا وه اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہی بری جگہ ہے۔
-
گناہان کبیرہ میں سے ایک سود خوری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ٱلَّذِينَ يَأْكُلُونَ ٱلرِّبَوٰا۟ لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ ٱلَّذِى يَتَخَبَّطُهُ ٱلشَّيْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْبَيْعُ مِثْلُ ٱلرِّبَوٰا۟ ۗ وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟ (بقرہ ۔ 275)
سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام
-
اور سحر (جادو) گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَقَدْ عَلِمُوا۟ لَمَنِ ٱشْتَرَىٰهُ مَا لَهُۥ فِى ٱلْاخِرَةِ مِنْ خَلَـٰقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا۟ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ (بقرہ ۔ 102)
اور وه بالیقین جانتے ہیں کہ اس کے لینے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور وه بدترین چیز ہے جس کے بدلے وه اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے۔
-
گناہان کبیرہ میں سے ایک ’زنا‘ ہے۔ چونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ۚ يُضَـٰعَفْ لَهُ ٱلْعَذَابُ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِۦ مُهَانًا (فرقان ۔ 68, 69)
اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گا۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا.
-
گناہان کبیرہ میں ایک یمین غموس (جھوٹی قسم) ہے۔ جس کے بارے میں خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ ٱللَّهِ وَأَيْمَـٰنِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُو۟لَـٰٓئِكَ لَا خَلَـٰقَ لَهُمْ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (آل عمران ۔ 77)
بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
-
جن گناہوں کے بارے میں نصوص صریحہ موجود ہیں، ان میں سے ایک، غلول (خیانت) ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ (آل عمران ۔ 161)
ہر خیانت کرنے واﻻ خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا
-
واجب زکوٰة کو روکنا گناہ کبیرہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَٱلَّذِينَ يَكْنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (توبہ ۔ 34)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے جاتے ہیں اور اس کو اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔
-
اور جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاجْتَنبُوا قَوْلَ الزُّوْر (حج ۔ 30)
تم جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔
-
اور گواہی چھپانا کہ ﷲ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَـٰدَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌ قَلْبُهُۥ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ (بقرہ ۔ 283)
تم گواہی کو نہ چھپاؤ۔ اور جو چھپائے گا تو بے شک اس کا دل گناہ گار ہے اور تم لوگ جو کرتے ہو خدا اس کو خوب جانتا ہے۔
-
اور شراب خوری گناہ کبیرہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ بت پرستی سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
۞ يَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا (بقرہ ۔ 219)
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے ان دونوں میں بہت بڑا گناه ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائده بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناه ان کے نفع سے بہت زیاده ہے
-
اور جان بوجھ کر نماز ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ یا بعض ضروریات دین جو کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دی ہیں عمداً ترک کرنا گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ چونکہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا
جو کوئی جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے تو یقینا خداوند عالم اور اس کے رسول کی امان سے خارج ہے۔
-
نقض عہد یعنی عہد شکنی گناہ کبیرہ میں شمار ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ (بقرہ ۔ 27)
اور وہ لوگ جو خدا سے عہد و پیمان کو پکا کرنے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں۔
-
اور رشتہ داروں سے تعلقات قطع کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے:
وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۙ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمُ ٱللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوٓءُ ٱلدَّارِ (رعد ۔ 25)
اور جن (باہمی تعلقات) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے انہیں قطع کرتے ہیں اور روئے زمین میں فساد پھیلاتے پھرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور ایسے ہی لوگوں کو واسطے بُرا گھر (جہنم) ہے۔
جب حضرت ابی عبداللہ جعفر صادق ع نے گناہان کبیرہ بیان کر کے اپنے کلام اختتام تک پہنچایا تو راوی عمرو بن عبید فریاد اور بکا کے ساتھ یہ کہتا ہوا باہر نکل گیا: یقینا ہلاکت میں پڑ گیا وہ شخص جو اپنے رائے سے کچھ کہے اور آپ حضرات کے علم و فضل سے انکار کرے۔
د وسری روا یت
کتاب عیون الأخبار میں معتبر اسناد کا حوالہ دیتے ہوئے فضل بن شاذان نے حضرت امام رضا ع کے اس خط کا ذکر کیا ہے جس میں گناہان کبیرہ سے پرہیز کے بارے میں مامون کو لکھا تھا۔ آنحضرت ع کے خط کی مختصر عبارت یہ ہے:
-
جن لوگوں کے جان سے مارنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے انہیں قتل کرنا۔
-
زنا کرنا
-
چوری کرنا
-
شراب پینا
-
عاق والدین ہونا
-
محاذ جنگ سے بھاگنا
-
ظلم و زیادتی سے مال یتیم کھانا
-
بغیر مجبوری کے مردار، خون، سور کا گوشت کھانا اور اس ذبیحہ کا گوشت کھانا جس پر غیر خدا کا نام لیا گیا ہو
-
واضح اور ثابت ہو نے کے بعد سود کھانا۔
-
مال حرام کھانا
-
جوا کھیلنا
-
ناپ تول میں کمی کرنا
-
پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا
-
لواطت یعنی مرد کا مرد کے ساتھ فعل بد کرنا
-
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا
-
اللہ تعالیٰ کے مکر (ناگہانی انتقام اور قہر) سے نہ ڈرنا
-
رحمت خدا سے بد گمان ہونا
-
ظالموں سے تعاون کرنا
-
ظالموں سے میل جول رکھنا
-
جھوٹی قسم کھانا
-
کسی سختی و مجبوری کے بغیر کسی کا حق روکے رکھنا
-
جھوٹ بولنا
-
تکبّر کرنا
-
اسراف یعنی حد سے زیادہ خرچ کرنا
-
غیر اطاعت خدا میں مال خرچ کرنا
-
خیانت یعنی دھوکہ دینا
-
حج بیت اللہ کو اہمیت نہ دینا
-
اللہ کے دوستوں کے ساتھ لڑنا
-
لہو و لعب میں مشغول رہنا
-
گناہوں پر اصرار کرنا۔
مزید روایات
نبی اکرم اور ان کے اہلبیت علیہم السلام سے مروی روایات میں درج ذیل گناہوں کو بھی کبیرہ شمار کیا گیا ہے:
-
ہم اہل بیت (علیہم السلام) کے حقوق سے انکار ۔
-
اللہ تعالیٰ, رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اوصیائے کرام پر جھوٹ باندھنا۔
-
وصیّت میں کسی پر ظلم کر کے ارث سے محروم کرنا
-
خانہ خدا (جس کو اللہ تعالیٰ نے جائے امن قرار دیا ہے) میں بدامنی کو حلال جاننا۔
-
ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ جاہلیت کی طرف پلٹنا۔
-
چھوٹے گناہوں کو کمتر سمجھنا کبیرہ بننے کا موجب ہوتا ہے۔