تکبر سے مراد نفس کی سر کشی اور خدائے بزرگ وبرتر کی عظمت سے غافل ہو نا اور اپنی ذلت و پستی کو بھول جانا ہے۔ خود پرستی کی یہ حالت خدا پر ستی کی ضد ہے۔ کبرانسان میں خودبینی کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا اوراونچا سمجھتا ہے۔ تکبر ایسا گناہ ہے کہ قرآن مجید میں جس کے لئے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَلَيْسَ فِى جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ(زمر ۔ 60)
کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں؟
اور یہ بھی فرماتا ہے:
قِيلَ ٱدْخُلُوٓا۟ أَبْوَٰبَ جَهَنَّمَ خَـٰلِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى ٱلْمُتَكَبِّرِينَ (زمر ۔ 72)
کہا جائے گا کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے
سورہ مومن میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍۢ جَبَّارٍۢ (مومن ۔ 35)
یوں خدا ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے
شیطان تکبر کرنے کی وجہ سے وہ مردود و ملعون بنا اور ابدی عذاب میں مبتلا ہو گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَبَىٰ وَٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَـٰفِرِينَ (بقرہ ۔ 34)
اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وه کافروں میں ہوگیا
حضرت امیر المومنین ع ایک خطبے میں فرماتے ہیںَ:
اللہ تعالیٰ نے جو کچھ شیطان کے ساتھ کیا اس سے عبرت حاصل کرو, جب اس (خدا) نے اس کے طویل عمل اور بے انتہا کوشش کو ایک ساعت کے تکبر کی وجہ سے ضائع کر دیا, حالانکہ اس نے چھ ہزار سال تک خداوند عالم کی عبادت کی تھی, معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا کے سال تھے یا آخرت کے سال (کہ جس کا ہر دن ہزار سال کے برابر ہے), تو اب ابلیس کے بعد اس جیسا جرم کر کے کون بچ سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جس جرم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک ملک کو جنت سے نکال کہ دیا ہو اس جرم پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دیدے۔ خداوند عالم کا حکم اہل آسمان اور اہل زمین کے لئے یکساں ہے۔ اور خدا کی ان مخلوقات میں سے کسی ایک فرد کے ساتھ دوستی نہیں ہے کہ جو اس سارے جہاں والوں پر حرام کیا ہے, وہ اس کے لئے مباح کردے (یعنی عزت وکبریائی)
اور اس قابیل کی طرح نہ ہو جاو جس نے اپنے بھائی ہابیل کے مقابلے میں تکبر کیا بغیر اس کے کہ خداوند عالم نے اسے کوئی فضیلت دی ہو سوائے اس کے کہ حاسدانہ عداوت کی وجہ سے اس کے دل میں بڑائی کا خیال پیدا ہو گیا اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیض و غضب کی آگ بھڑ کا دی اور شیطان نے اس کے دماغ میں تکبر اور غرور کی ہوا پھونک دی, جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ندامت اس کے پیچھے لگا دی اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہوں کا اسے ذمہ دار(بانی) قرار دیا۔ خلاصہ قابیل اپنے بھائی سے تکبر کی بنا پر ابدی بدبختی اور سخت ترین عذاب میں مبتلا ہو گیا۔
پس تم سے پہلے تکبر کرنے والی امتوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو سختیاں اور عتاب وعقاب و عذاب نازل ہوئے ان سے عبرت لو اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے کی جگہ اور پہلووں کے بل گرنے کے مقامات (قبروں) سے نصیحت حاصل کرو اور جس طرح زمانے کی آنے والی مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو اسی طرح سرکش بنانے والی خصلتوں سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو۔
تکبر وہ چیز ہے جس سے خداوند عالم نے اپنے ان بندوں کو جو ایمان سے سرشار ہیں، نماز، زکوٰة اور مقررہ دنوں میں روزوں کی کوشش کے ذریعے محفوظ رکھا تا کہ ان کے اعضاء جوارح سکون حاصل کریں آنکھوں کو احساس عاجزی سے جھکا دیتا ہے، نفس کو رام کر دیتا ہے، دلوں کو متواضع بنا کر خود پسندی کو ان سے نکال دیتا ہے کیونکہ نماز میں نازک چیزوں کو تواضع و نیاز مندی سے سجدے میں خاک آلود کیا جاتا ہے اور محترم اعضاء خاک پر گر کر اپنی پستی ظاہر کرتے ہیں اور روزہ رکھنے سے اس کی فرمانبرداری میں پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں۔ (نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ 191)
امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:
عزت اور کبریائی کا اظہار اللہ تعالیٰ کے دو مخصوص لباس کی مانند ہے۔ (یعنی جس طرح حاکم کے مخصوص لباس میں کوئی شرکت کا حق نہیں رکھتا اسی طرح کوئی بھی مخلوق ان دو صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکت کا حق نہیں رکھتی) پس جو کوئی بھی ان دو صفات سے متصف ہونے کی جرأت کرے گا تو خداوند عالم اسے سر کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔ (یہ بھی فرمایا کہ) جو کوئی تکبر کرے تو اس نے خداوند عزوجل سے جنگ کی ہے۔ (کافی جلد 2)
انسان اللہ تعالیٰ کی ہر ایک صفت مثلاً عفو در گزر، رحم، سخاوت, احسان، کرم، حلم، علم، محبت، مہربانی سے متصف ہو سکتا ہے, بلکہ قرب کے درجات انہی صفات کی کمی و زیادتی سے ظاہر ہوتے ہیں, لیکن عزت و عظمت اور کبریائی کی صفت صرف خدائے عزوجل سے مختص ہے اور کسی انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ان دو صفات سے متصف کرے۔ قرآن مجید میں خداوند عالم فرماتا ہے:
وَلَهُ ٱلْكِبْرِيَآءُ فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ (جاثیہ ۔ 37)
اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لئے بڑائی ہے
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
کفرکا کمترین درجہ تکبر ہے۔
بلاشبہ تکبر کرنے والے باریک چیونٹیوں کی صورت میں محشور ہوں گے اور خداوند عالم کے مخلوق کے حساب سے فارغ ہونے تک لوگ انہیں پاوں تلے روندیں گے۔
دوزخ میں ایک ایسا درہ ہے جو متکبروں کے لئے مخصوص ہے کہ جسے سقر کہتے ہیں اس نے اپنی گرمی کی شدت کی خداوند عالم سے شکایت کی اور سانس لینے کی اجازت چاہی۔ پس اس نے سانس لیا اور جہنم کو جلادیا۔ (کافی, جلد 2)
تکبر کی تین قسمیں ہیں:
بعض اوقات جاہل اور مغرور انسان پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اس عالم میں وہ اپنے آپ کو مستقل (ہستی) سمجھتا ہے۔ اپنی ہستی اور اپنی تمام حیثیت کو اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھتا ہے اور وہ اس بات کے لئے آمادہ نہیں کہ اپنے آپ کو مخلوق و زیر دست اور تدبیر خدا کا ماتحت و پروردہ خدا سمجھے۔ اپنی زبان و کردار سے اپنی انا کو ظاہر کرتا ہے اور اپنی زبان سے یہ کہتا ہے میں نے یہ کیا اورمیں ایسا کروں گا اور اپنی محدود ظاہری طاقت اور مال و جاہ کی مستی کی بنا پر پیدا کرنے والے کی خدائی و پروردگاری کا اقرار نہیں کرتا اور ظلمت و کفر اس کے قلب پر چھا گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِن فِى صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَـٰلِغِيهِ (مومن ۔ 56)
ان کے دلوں میں بجز نری بڑائی کے اور کچھ نہیں وه اس تک پہنچنے والے ہی نہیں
یعنی نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں بزرگی حاصل کر سکیں گے اور نہ حق پرغالب آسکیں گے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْـَٔاخِرَةِ قُلُوبُهُم مُّنكِرَةٌ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ(نحل ۔ 22)
اور آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل منکر ہیں اور وه خود تکبر سے بھرے ہوئے ہیں
اور کبھی یہ غرور تکبر اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انسان اپنے تمام کاموں کو اپنی طرف نسبت دینے کے علاوہ دوسروں کی ربوبیت اور الوھیت کا دعویٰ بھی کرنے لگتا ہے۔ اور کہتا ہے میں فلاں جماعت کا نظام چلاتا ہوں اور دوسرے میرے ماتحت اور زیر تربیت ہیں۔ جیسا کہ احمق فرعون کہتا تھا۔
أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلْأَعْلَىٰ(النازعات ۔ 24)
میں تم لوگوں کا سب سے بڑا پروردگار ہوں۔
اوراپنے دعوے کی دلیل یہ پیش کرتا تھا۔
أَلَيْسَ لِى مُلْكُ مِصْرَ وَهَـٰذِهِ ٱلْأَنْهَـٰرُ تَجْرِى مِن تَحْتِىٓ(زخرف ۔ 51)
کیا مصر کا ملک میرا نہیں؟ اور میرے محل کے نیچے جاری نہریں کیا میری ملکیت نہیں ؟
اور نمرود بد بخت کی طرح جو موت و حیات کا مالک خود کو سمجھتا تھا اور کہتا تھا۔
أَنَا۠ أُحْىِۦ وَأُمِيتُ (بقرہ ۔ 258)
میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔
دلیل کے طور پر اس کے حکم سے دو مجرموں کو زندان سے لایا گیا ایک کو قتل کر دیا گیا اور دوسرے کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔
دعا نہ کرنا اور عبادت خدا کو ترک کرنا اگر تکبر کی بنا پر ہو یعنی اپنے آپ کو اللہ کا محتاج نہ سمجھتا ہو تو یہ کفر اور ہمیشہ جہنم میں رہنے کا موجب ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَّن يَسْتَنكِفَ ٱلْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًۭا لِّلَّهِ وَلَا ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ ٱلْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِۦ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًۭا ١٧٢ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدُهُم مِّن فَضْلِهِۦ ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ ٱسْتَنكَفُوا۟ وَٱسْتَكْبَرُوا۟ فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا أَلِيمًۭا وَلَا يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّۭا وَلَا نَصِيرًۭا (النساء: 172-173)
مسیح اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ خدا کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے اور جو شخص خدا کا بندہ ہونے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا اپنی طرف جمع کرے گا۔ تو جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے وہ ان کو ان کا پورا بدلا دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی عنایت کرے گا۔ اور جنہوں نے عاروانکار اور تکبر کیا ان کو تکلیف دینے والا عذاب دے گا۔ اور یہ لوگ خدا کے سوا اپنا حامی اور مددگار نہ پائیں گے
سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُ ٱتَّقِ ٱللَّهَ أَخَذَتْهُ ٱلْعِزَّةُ بِٱلْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُۥ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ ٱلْمِهَادُ (بقرہ ۔ 206)
اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا سے خوف کر تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے۔ سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے۔ اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے
اور کبھی انسان جہالت و غرور کی بناء پر خداوند عالم کی بندگی و اطاعت اور اومرونواھی کی نسبت تکبر کرتا ہے, اگرچہ وہ خدائے عزوجل کا منکر نہیں ہے۔ اور اس سے کسی گناہ کا سرزد ہونا تکبر کی بناء پر نہیں بلکہ غفلت، شہوت کے غالب آنے اور خواہش نفسانی کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین ع ابو حمزہ میں عرج کرتے ہیں:
بار الہٰا! جب میں نے تیرا گناہ کیا تو (اس وقت) میں تیری خدائی کا منکر نہیں تھا اور نہ تیرے حکم کو پست اور حقیر سمجھتا تھا۔ اور تیرے عذاب کے وعدے کو حقیر نہیں جانتا تھا اور نہ تیری سزا کی متعلق مجھے کسی قسم کا اعتراض تھا۔ در حقیقت وہ گناہ جو مجھ سے ہوا ہے اسے میرے نفس نے ابھارا اور مجھے فریب دیا اور میری خواہش مجھ پرغالب آئی۔ (دعاء ابو حمزہ ثمالی)
ہر وہ گناہ جو تکبر و سر کشی کی بناء پر ہو وہ قابل بخشش نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کرنے والے کے کفر پر دلالت کرتا ہے اور یہاں سے ہی ابلیس کا کفر ظاہر ہوا جسیا کہ حضرت آدم ع کو سجدہ کرنا حکم خداوندی تھا لیکن اس نے سرکشی کی بناء پر اسے ترک کیا اور کہا:
قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُۥ مِن صَلْصَـٰلٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ(حجر ۔ 33)
کہا میں ایسا تو نہیں ہوں کہ ایک ایسے آدمی کو سجدہ کروں جسے تونے سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
خداوند عالم نے اس کے جواب میں فرمایا:
فَٱهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَٱخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ ٱلصَّـٰغِرِينَ(اعراف ۔ 13)
تو (بہشت سے) نیچے اتر جا کیونکہ تیری یہ مجال نہیں کہ تو یہاں رہ کر غرور کرے تویہان سے نکل جا بیشک تو ذلیل افراد میں سے ہے۔
قرآن مجید میں خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِى سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ(مومن ۔ 60)
اور تمھارا پروردگار فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری(دعا)قبول کروں گا جو لوگ ہماری عبادت سے سر کشی کرتے ہیں وہ عنقریب ہی ذلیل و خوار ہو کر یقینا جہنم واصل ہوں گے۔
کیونکہ عبادت خداوند عالم کے حضور انتہائی ذلت ظاہر کرنا ہے اور اس کی سب سے اعلیٰ قسم اس سے سوال کرنا ہے۔ پس جو کوئی تکبر کی بنا پر دعا کو ترک کرے, یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا محتاج نہ سمجھے اور اسے پرستش کے لائق نہ جانے تو یہ محض کفر اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کا موجب ہے۔ امام زین العابدین ع فرماتے ہیں:
اے بار الہٰا! تیرے حضور سوال کرنے کو تونے عبادت نام رکھا, اور عبادت نہ کرنے کو تو نے تکبر کہا ہے اور اس کے ترک پر جہنم سے ذلیل ہو کر داخل ہونے سے ڈرایا (صحیفہ سجادیہ دعاء 45)
دوسرے مقام پر آپ ع فرماتے ہیں:
تیرے بندگان میں سے پسندیدہ ترین بندہ وہ ہے جو تکبر نہیں کرتے اور گناہ پر اصرار سے اجتناب کرے ہیں اور استغفار کو اپنا شیوہ بناتے ہیں اور میں تیرے سامنے اس بات سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں کہ میں تکبر کروں اور تجھے نہ پکاروں۔ (صحیفہ سجادیہ دعاء ۱۲)
یعنی خدائے عزوجل سے منسوب قابل احترام چیزوں اور امور کے مقابل تکبر۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی اور حرام مہینے خصوصاً ماہ مبارک رمضان اور بیت الحرام اور مشاہد بلکہ عام مساجد بھی (وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ (جن ۔ 18) اور مساجد اللہ ہی کے لئے ہیں) میں سے کسی بھی شئے کے مقابل تکبر کرنا اور اگر بے حرمتی کہلاتا ہو تو قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور درحقیقت خداوند عالم کے ساتھ تکبر ہے۔ سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُحِلُّوا۟ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ (مائدہ ۔ 2)
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے عاجزی و فروتنی کرے گا تو خدواند عالم اسے بلند کرے گا اور جو کوئی تکبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے پست کرے گا۔ (بحار الانوار جلد 16 باب التواضع)
شرح صحیفہ میں عمر بن شیبہ سے نقل کیا گیا ہے کہ اس نے کہا, میں مکہ معظمہ میں صفا ومروہ کے درمیان تھا کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اونٹ پر سوار تھا اور اس کے غلام اس کے ارد گرد سے لوگوں کو دور کررہے تھے اور کسی کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد میں بغداد گیا میں نے ایک نیم جان آدمی کو پابرہنہ اور بکھرے بالوں کے ساتھ دیکھا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ اس نے مجھ سے کہا مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو۔ میں نے کہا میں تم میں اس متکبر شخص کی شباہت پاتا ہوں جو صفا ومروہ کے درمیان متکبرانہ انداز میں سعی کر رہا تھا اور اس نے ایسی ایسی حرکتیں کیں۔ اس نے کہا میں وہی مرد ہوں۔ میں نے کہا کس وجہ سے تم ان برے حالات کا شکار ہو گئے۔ اس نے کہا اس جگہ جہاں سب لوگ فروتنی کرتے ہیں میں نے تکبر کیا پس خداوند عالم نے مجھے اس جگہ (بغداد میں) پست کر دیا جہاں پر تمام لوگ بلندی کی طرف پرواز کرتے ہیں اور میرے ساتھ تکبر سے پیش آتے ہیں۔
پیغمبر اور امام کے مقابل تکبر یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان کے برابر یا ان سے بر تر جانے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے تیار نہ ہو۔ یعنی فرعون کے ماننے والوں کی طرح جو حضرت موسیٰ اور ہارون ع کے سامنے تکبر کرتے تھے اور کہتے تھے:
فَقَالُوٓا۟ أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَـٰبِدُونَ (مومنون ۔ 47)
کہنے لگے کہ کیا ہم ان اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں اور اُن کی قوم کے لوگ ہمارے خدمت گار ہیں
اور حضرت نوح ع کے کلام کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے:
وَإِنِّى كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوٓا۟ أَصَـٰبِعَهُمْ فِىٓ ءَاذَانِهِمْ وَٱسْتَغْشَوْا۟ ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا۟ وَٱسْتَكْبَرُوا۟ ٱسْتِكْبَارًا (نوح ۔ 7)
میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لیے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا
یا مثلاً قریش کا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقابلے میں تکبر کرنا کہ وہ کہتے تھے:
وَقَالُوا۟ لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ ٱلْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (زخرف ۔ 31)
اور کہنے لگے، یہ قرآن ان دونوں بستیوں (مکہ و طائف) میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا
یعنی وہ یتیم نوجوان جو مال وجاہ نہیں رکھتا پیغمبری کے لائق نہیں اور قرآن کی ایسے شخص پرجو ظاہری رعب و دبدبہ رکھتا اس پرکیوں نازل نہیں ہوا تاکہ ہم اس کی پیروی کریں۔ در حقیقت پیغمبر وامام کے ساتھ تکبر کرنا خدا تعالیٰ کے ساتھ تکبر کرنا ہے۔ اور وہ باعمل علماء اور ہدایت یافتہ فقہاء جو کہ اس زمانے میں عمومی نائبین ہیں اور حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے نمائندے ہیں ان کے ساتھ تکبر پیغمبر اور امام کے سامنے تکبر ہے۔ امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
خبردار ! عالم کی تکذیب نہ کرو اور اس کی بات رد نہ کرو اور اس سے دشمنی نہ رکھو اس کو دوست رکھو کیونکہ علماء سے دوستی اخلاص کی علامت ہے۔ اور ان سے دشمنی نفاق ہے۔ آگاہ ہو جاو کہ جو کوئی عالم کی توہین کرے اس نے میری توہین کی اور جس نے میری توہین کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی اسکی جگہ دوزخ میں ہے۔اور یاد رکھو جس نے عالم کو عزت دی اس نے مجھے عزت دی اور جس نے مجھے عزت دی اس نے اللہ کو عزت دی اور جس نے اللہ کو عزت دی تو اس کا ٹھکانہ بہشت ہے۔ (لئالی الاخبار ج 2)
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ آیات جو تکبر کرنے والوں کے ہمیشہ جہنم میں رہنے پر دلالت کر تی ہیں ان سے مراد دو قسم کا تکبر ہے یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر و امام کے ساتھ تکبر کرنا۔ کیونکہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ یہ دونوں تکبر خالق کائنات کے انکار اور اس پر ایمان نہ لانے کا سبب ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی ایمان کے بغیرمرے گا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
وہ شخص ہر گز بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو۔ (قواعد شہید ۔ بحار جدید ج 3)
محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق ع سے روایت کی ہے کہ امام ع نے فرمایا:
جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو تو وہ بہشت میں نہیں جائے گا۔ محمد بن مسلم کہتا ہے میں نے کہا انّٰا للّٰہ وَانّٰاالَیْہ رٰاجعُوْنَ امام ع نے فرمایا تم نے آیت استرجاع کیوں پڑھی؟ میں نے کہا جو آپ سے سنا ہے اس کے لئے۔ امام ع نے فرمایا, جو تم نے سمجھا وہ نہیں ہے جان لو، اس سے میری مراد جحود و انکار ہے۔
یعنی وہ تکبر جو جنت میں داخل ہونے میں رکاوٹ بنے ایسا تکبر ہے جو حق سے انکار اور خدا و رسول وامام سے انکار پر مشتمل ہو۔ لیکن ایمان کے ہوتے ہوئے لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والے کے لئے ایسا نہیں ہے کہ اسے کسی بھی وقت عذاب سے نجات نہ ہو۔
تیسری قسم لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو چھوٹا سمجھے۔ اور ان پر بڑائی ظاہر کرے اور اپنے آپ کو ان سے بر تر قرار دے اور ان کے برابر ہونے کو برا سمجھے، راستہ چلنے میں ان سے آگے چلے۔ مجالس میں سب سے آگے بیٹھنا چاہے، سب سے سلام و انکساری کی امید رکھے۔ اگر کوئی اسے نصیحت کرے تو اس سے نفرت کرے اور قبول نہ کرے۔ اور جب کوئی غلط بات کہے اور اسے ٹوک دیا جائے تو غضبناک ہو جائے۔ اگر کسی کو کوئی بات سکھا دے تو اس کے ساتھ نرمی ومہربانی کے ساتھ پیش نہ آئے اور اس پر بڑا احسان جتائے۔ اس سے خدمت گزاری کی توقع رکھے۔
المختصر اپنے آپ کودوسروں سے بر تر سمجھے اور قرار دے جیسا کہ اپنے آپ کو حیوانات سے اعلٰی و برتر سمجھتا ہے۔ اور اگرمال ومنصب رکھتا ہو تو اس بات کے لئے آمادہ نہیں کہ غریبوں، محتاجوں اور بوڑھوں کے ساتھ نمازجماعت اور دینی اجتماعات میں شرکت کرے، درحقیقت ایسے شخص نے خدائے بزرگ وبرتر کی مخصوص صفت یعنی عظمت و کبریائی میں اپنے آپ کو اس کا شریک قرار دیا ہے۔ تمام افراد بشر خداوند عالم کے بندے ہیں۔ اس بنا پر سب مساوی اور برابر ہیں پس اگر ان میں سے کوئی دوسروں کو اپنے سے پست سمجھے اور ان کے سامنے تکبر کرے تو اس نے خداوند تعالیٰ کے ساتھ اس چیز میں جنگ کی ہے جو صرف خداوند تعالیٰ کے لائق ہے۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ (لقمان ۔ 18)
لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلااور زمین پر اترا کر نہ چلکسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا.
اور سورہ حجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُونُوا۟ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّن نِّسَآءٍ عَسَىٰٓ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا۟ بِٱلْأَلْقَـٰبِ ۖ بِئْسَ ٱلِٱسْمُ ٱلْفُسُوقُ بَعْدَ ٱلْإِيمَـٰنِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ (حجرات ۔ 11)
مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں، اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ﻇالم لوگ ہیں
در حقیقت جو بھی کسی مسلمان کو پستی و حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور اپنے آپ کو اس سے برتر سمجھے تو وہ ابلیس کی مانند ہو گا کہ جس نے حضرت آدم کو حقارت سے دیکھا اور اپنے آپ کو ان سے بر ترجانا اور کہنے لگا:
قَالَ أَنَا۠ خَيْرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِى مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُۥ مِن طِينٍ(ص ۔ 76)
بولا کہ میں اس (آدم) سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا
خداوند عالم نے کہا:
لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ (ص ۔ 85)
کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
تکبر یہ ہے کہ لوگوں کو چھوٹا سمجھو اورذلیل گردانو اور حق کو نادانی جانو۔ (کافی ج 2)
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
سب سے بڑے درجے کا تکبر مخلوق کو ذلیل سمجھنا اور حق کو حقیر جاننا ہے۔ یعنی حق کو نظر انداز کرے اور حق پر ستوں کو طعنہ دے۔ (کافی ج 2)
اپنے مال وجاہ،ثروت ومکنت کی نمائش اور اسے لوگوں پر ظاہر کرنا۔ فخرومباہات کرنا یہ بھی لوگوں کے ساتھ تکبر ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم سورہ قصص میں فرماتا ہے:
إِنَّ قَـٰرُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَءَاتَيْنَـٰهُ مِنَ ٱلْكُنُوزِ مَآ إِنَّ مَفَاتِحَهُۥ لَتَنُوٓأُ بِٱلْعُصْبَةِ أُو۟لِى ٱلْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُۥ قَوْمُهُۥ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْفَرِحِينَ (آیت ۷۶ اور ۸۰ سورہ قصص)
قارون موسٰی کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدّی کرتا تھا۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ اُن کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اُٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی قوم نے کہا کہ اترائیے مت۔ کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
ایک روز ہفتہ کے دن قارون اپنی قوم کے سامنے انتہائی زیب و زینت اور ٹھاٹھ کے ساتھ نکلا۔ وہ سفید گھوڑے پر جس کی زین سنہری تھی, ارغوانی لباس پہن کر بیٹھا اور اسی عالم میں اپنے ساتھ چار ہزار افراد کو ہمراہ لے کر آیا اور اپنی ثروت وجلال کی اپنی قوم کے سامنے نمائش کی۔ حکایت کے آخر تک کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ بحار الانوار میں مروی ہے:
جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غرور و تکبر کے انداز میں چلنے سے منع فرمایا۔ جو کوئی عمدہ لباس پہن کر اس پر ناز کرے تو خداوند عالم اسے جہنم کی آگ کے اس حصے سے نیچے لے جائے گا جہاں اس کو دوزخ میں قارون کا ساتھی بنائے گا کیونکہ وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے غرور وتکبر کیا۔ اسی وجہ سے خداوندعالم نے اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا تھا۔ پس جو کوئی عظمت الہیٰ کے مقابل غرور کرے اس نے خدا سے جنگ کی۔ اور فرمایا جو بھی محتاج کے سامنے ماتھے پر بل ڈالے یا اس پر ظلم کرے یا اسے حقیر سمجھے تو حق تعالیٰ اسے باریک چیونٹوں کی طرح انسانی صورت میں محشور فرمائے گا, اور اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ (بحار الانوار جلد 16 ۔ بحار الانوار جدید ج 76)
ایک روز رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ایک گروہ کے سامنے سے گزر ہوا جو ایک جگہ پر جمع تھے۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے پوچھا تم یہاں کیوں جمع ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا یہاں ایک دیوانہ ہے جو طرح طرح کی حرکتیں کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ مجنوں نہیں بلکہ مرض میں مبتلا ہے۔ اس کے بعد فرمایا, کیا میں تمہیں حقیقی مجنوں بتا دوں؟ اصحاب نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ۔ اس کے بعد فرمایا, دیوانہ تو وہ ہے جو راستہ چلتے ہوئے اترائے اور تکبر کی بنا پر دائیں بائیں دیکھے اور اپنے کاندھوں اور پہلووں کو متکبرانہ انداز میں ہلائے۔ اور خدائے عزوجل سے بہشت کی تمنا کرے۔ حالانکہ وہ معصیت خداوندی میں مشغول ہے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں اور نہ ہی اس سے کوئی بھلائی کی امید رکھتے ہوں تو یہ ہے دیوانہ۔ (بحارالانوار جلد 15۔ باب الکبر جلد 73)
اپنے آپ کو پاک و پاکیزہ، صاحب مقام اور عالی مرتبت سمجھنا اور پاکیزہ ظاہر کرنا بھی تکبر کے موارد میں سے ہے۔ اور کبھی صراحتاً نہیں بلکہ ضمناً اپنی بڑائی ظاہر کرنا مثلاً یہ کہے کہ فلاں آدمی نے مجھ پرظلم کیا اور نتیجتاً مرگیا, یا فلاں مرض میں مبتلا ہو گیا, یا محتاج ہو گیا۔ یعنی اس کا مقصد اپنے آپ میں کرامت ظاہر کرنا ہو۔ یا یہ کہے کہ میں نے خداوند عالم سے فلاں حاجت طلب کی تو فوراً میری حاجت پوری ہوگئی۔ یعنی اس کے کہنے کا مقصد یہ ہو کہ میں مستجاب الدعوت ہوں۔ ارشاد ہے:
فَلَا تُزَكُّوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰٓ (نجم ۔ 32)
پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
اور کبھی علم کے لحاظ سے اپنی بڑائی ظاہر کرنا مثلاً یہ کہے کہ میں بہت سے علوم کا مالک ہوں فلاں استاد و فلاں بزرگ کو میں نے دیکھا ہے۔ فلاں علم کی خا طر میں نے بڑی زحمت اٹھائی ہے۔ اور کبھی عبادت کے لحاظ سے اپنی بڑائی ظاہر کرتا ہے۔ مثلاًیہ کہے کہ میں نے کئی سال راتوں کو جاگ کر عبادت کی اور دن میں روزے رکھے۔ فلاں کے پاس میرے برابر مال ہے لیکن اس نے ابھی تک حج نہیں کیا جبکہ میں کئی دفعہ حج اور زیارات کے لئے جا چکا ہوں اور اسی طرح دوسرے کلمات وغیرہ ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم ۚ بَلِ ٱللَّهُ يُزَكِّى مَن يَشَآءُ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا (نسآء ۔ 49)
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جو اپنی پاکیزگی اور ستائش خود کرتے ہیں؟ بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے پاکیزه کرتا ہے، کسی پر ایک دھاگے کے برابر ﻇلم نہ کیا جائے گا
بعض علمائے ربانی نے فرمایا ہے کہ اپنی عزت کی حفاظت کرنے کیلئے حسد، عقد، غصے، عجب, دکھاوا، جھوٹ، غیبت اور تہمت وغیرہ میں سے ایسی کوئی بد بختی نہیں کہ جسمیں تکبر کرنے والا مبتلا نہ ہو اور اپنی عزت وشان کے کم ہونے کے خوف سے اخلاق حسنہ میں سے کوئی اچھی بات نہیں کہ جس سے متکبر محروم نہ ہو۔ مثلاً تواضع، غصے کو پینا، عفو و درگذر، سچائی، مومنین سے دوستی وغیرہ۔ جو کہ ایسی صفات سے متصف ہونا تکبر کرنے والا اپنی کمزوری اور عیب سمجھتا ہے۔ بہت کم افراد اس مہلک مرض سے محفوظ ہیں اور اکثر افراد اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اس بیماری سے بچے ہوئے ہیں حالانکہ وہ اس میں مبتلا ہیں۔ علمائے اخلاق نے اس کی علامات بیان کی ہیں کہ جو کوئی بھی ان علامات کو اپنے اندر پائے تو وہ جان لے کہ اس شجرہ خبیثہ کی جڑیں اس کے قلب میں موجود ہیں اور اسے چاہئے کہ اپنی اصلاح کی کوئی تدبیر کرے۔
تکبر کے علمی علاج کے موارد میں سے انسان کا ایسی غلطیوں کے بارے میں فکر وتدبر کرنا ہے جو انسان کے غرور تکبر کا سبب بنتی ہے۔ مثلاً علم, عمل، نسب، مال وجاہ، منصب، اتباع، قوت، حسن وغیرہ سے متعلق غوروفکر کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کسی بھی چیز پر غرور وتکبر کرنا خلاف عقل ہے۔ چاہئے کہ انسان اپنی ابتدائے خلقت کے بارے میں فکر کرے کہ وہ ایک بد بو ددار ناچیز نطفے سے پیدا ہو اہے کہ جو تمام افراد کے نزدیک نجس ہے۔ جس میں نہ آنکھ, نہ کان، نہ ہاتھ نہ پیر، نہ زبان, نہ دماغ کچھ بھی تو نہ تھا, اور یہ تمام چیزیں خدائے بزرگ وبرتر نے عاریتاً دی ہیں۔ دوسرے یہ کہ پست ترین مقام سے پیدا ہوا۔ ارشاد ہے:
فَلْيَنظُرِ ٱلْإِنسَـٰنُ مِمَّ خُلِقَ ٥ خُلِقَ مِن مَّآءٍۢ دَافِقٍۢ (طارق: 5-6)
انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وه کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے. وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے
بلاشبہ انسان ہر لحاظ سے کمزور تھا اور خداوند عالم نے اسے تدریجاً قوت عطا کی لیکن اسکی قدرت وقوت اس قدر محدود ہے کہ جس میں ہزار ہا قسم کی کمزوری و ناتوانائی ہے۔ چنانچہ اسے بھوک، پیاس اور نیند میں مبتلا فرمایا۔ یعنی کھائے، پئے اور سوئے بغیر اس کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے اور اسی طرح اسے لباس ومسکن کا محتاج بنایا اور اس کے لئے کئی قسم کے امراض اور آفات وبلیات ہیں کہ جنہیں شمار نہیں کیا جاسکتا اور طب قدیم میں انسانی امراض کی چار ہزار اقسام کا ذکر ہے۔ اور ہر وقت انسان کے پیٹ میں (نجس) پیشاب و پاخانہ موجود رہتا ہے کہ اگر خداوند عالم اسے پوشیدہ نہ رکھتا تو اس کی تیز بد بو سے انسان کے لئے زندگی گزارنا ممکن نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ اسے دن رات میں ہر لمحہ اپنی جسمانی طاقت میں سے کسی قوت کے ختم ہونے اور جن چیزوں کو بہت عزیز رکھتا ہے، ان کے چلے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ مثلاً مال و اولاد وغیرہ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَوٰةً وَلَا نُشُورًا (فرقان ۔ 3)
تو اپنی جان کے نقصان نفع کا بھی اختیارنہیں رکھتے اور نہ موت وحیات کے اور نہ دوباره جی اٹھنے کے وه مالک ہیں
کتاب عدد السنہ میں تحریر ہے کہ جب ایاز, محمود بادشاہ کا سب سے زیادہ مقرب بن گیا تو اس کے حاسد اسے اس مقام سے گرانے کی کوشش کرنے لگے اور ایک دن وزراء میں سے دو آدمی سلطان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایاز نے بے شمار روپے پیسے اور جواہرات چوری کئے ہیں اورا نہیں ایک حجرے میں چھپا کر تالا لگا دیا ہے اور ہر روز صبح سب سے پہلے وہاں جاتا ہے اور کسی کو وہاں جانے نہیں دیتا۔ یہ سن کر سلطان شک میں مبتلا ہو گیا اور کہا کل جب ایاز میرے پاس آئے تو تم لوگ وہاں جاؤ, دروازہ کھولو اور جو بھی روپے پیسے وجواہرات جمع کئے ہیں انہیں لے آؤ۔ دوسرے دن کچھ لوگ بیلچہ، کدال، تھیلے اور قلیوں کو لے کر گئے اور تالا توڑ کر حجرے میں داخل ہوئے۔ لیکن انہوں نے وہاں کچھ نہ پایا سوائے ایک سوتی چادر کے اور ایک چمڑے کی چپل کے۔ تو انہوں نے کہاکہ خزانہ یہاں ضرور دفن ہوگا ورنہ اس پھٹی پرانی چادر اور چپل کے لئے اس تالے اور ہر روز یہاں تنہا آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے زمین کھودی لیکن کوئی چیز نہ ملی انہوں نے بادشاہ کو خبر دی تو بادشاہ نے ایاز سے پوچھا کہ اس حجرے میں سوائے ایک چادر اور ایک چپل کے کچھ بھی نہیں ہے پس اسے تالا ڈالنے اور ہر روز وہاں تنہا جانے کا کیا سبب ہے۔ ایاز نے کہا آپ کاغلام بننے سے پہلے میرا یہی لباس تھا۔ لیکن آپ کا غلام بننے کے بعد مجھے ہر چیز میسر آگئی۔ کیونکہ انسان کے نفس میں سرکشی اورعجب پیدا ہو جاتا ہے اس لئے میں اس حجرے میں اپنا بوسیدہ اور پرانا لباس اور چپل دیکھنے جاتا ہوں تا کہ میں غرور و تکبر میں مبتلا نہ ہو جاوں اور یہ یاد رکھوں کہ جو کچھ بھی میرے پاس ہے سب بادشاہ کے لطف وکرم کی وجہ سے ہے اور عاریتاً ہے۔ اس کے بعد حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔
تکبر ایک ایسی کیفیت ہے جو ہمیشہ اپنے سے پست کو پیش نظر رکھنے اورا پنے سے بلند تر کو غفلت کی بنا پر نظر انداز کر دینے سے نفس میں جنم لیتی ہے۔ ایک شخص کو خداوندعالم سے ایک نسبت ہے کہ یہ مغلوب، مقہور، اس کا تابع اور محکوم ہے۔ تو اگر خداوندعالم سے اپنی نسبت یعنی اپنی کمزوری اور ناتوانائی کو پیش نظر رکھے تو اس میں خضوع و خشوع اور نیازمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو تواضع (یعنی تکبر کے برعکس) ہے۔ اگر چہ ابتداء میں ایک شخص میں یہ کیفیت خداوند عالم کی نسبت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے راسخ ہوتی ہے دوسری موجودات تک پھیل جاتی ہے۔ یعنی جو کوئی خدا کے حضور منکسر ہو وہ اس کی مخلوقات سے بھی انکساری اور تواضع سے پیش آتا ہے۔
اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ خدائے عزوجل کا تکبر کرنا بالکل صحیح ہے کیونکہ وہ کسی کے سامنے بھی مغلوب ومقہور نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بھی اس کے برابر میں غالب وقہار نہیں ہے اور اس کے علاوہ کوئی بھی تکبر کے لائق نہیں چاہیے کوئی بھی ہوخواہ حامل عرش اسرافیل و جبرئیل ہی کیوں نہ ہو۔ بلاشبہ اس کا اللہ تعالیٰ کے مقابل مغلوب و کمزور وناتوان ہونا دوسرے کے مقابل اس کے غالب ہونے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ پس کیا اس کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی اس مغلوبیت سے غافل ہو کر دوسروں پر اپنے غالب وبرتر ہونے کی طرف متوجہ رہے اور تکبر جیسے گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو جائے۔ اور ہونا تو یہ چاہئے کہ خدا کی عظمت آنکھوں کے سامنے اس طرح جلوہ گر ہو کہ انسان اپنی تمام حیثیتوں کو فراموش کر دے۔
انسان دنیوی علم رکھتا ہو تو موت کے وقت وہ ختم ہو جائے گا بلکہ موت سے پہلے بھی مشق نہ کرنے یا بھول جانے کی بناء پر ضائع ہو سکتا ہے اور چونکہ دنیوی علم کا فائدہ صرف دنیا کی چند روزہ زندگی میں ہے تو اس پرغرور کرنا مناسب نہیں ہے اور خاص طور پر جو جانتا ہے اور جو کچھ نہیں جانتا اس نسبت کو جو محدود اورلامحدود کے درمیان ہے, پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اور اگر اخروی و دینی علوم میں سے ہو تو جس چیز کا تعلق معرفت الہیٰ سے ہے۔ اس کا نتیجہ فروتنی و خشوع ہونا چاہیے نہ کہ غرور تکبر، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُا۟ (فاطر ۔ 28)
اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں
اور اگر اس کی حالت اس کے برعکس ہو تو وہ نور کی حقیقت اور علم سے بے بہرہ ہے اور اس نے فقط قوانین یاد کر لئے ہیں اور وہ بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو فخر کا موجب ہو۔ احکام دینی کا علم یعنی فقہ بھی اسی وقت فائدہ مند ہے جب اس کے قوانین پر عمل کیا جائے اور جو کوئی فقہ جان لے لیکن اس پر عمل نہ کرے تو وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے علم طب سیکھا ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتا اور فرمان خدا کے مطابق:
كَمَثَلِ ٱلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًۢا (جمعہ ۔ 5)
ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں ﻻدے ہو
اور بلعم باعور کوجو کہ بے عمل عالم تھا, کتے سے تشبییہ دی ہے۔ اگر عالم غورفکر کرے تویقینا اس پر خدا کی حجت تمام ہو چکی ہے, اور اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یعنی جاہل کے ستر گناہوں کی بخشش ہو چکی ہو گی جب کہ ا س وقت تک عالم کے ایک گناہ کا مواخذہ ہو رہا ہوگا۔ الغرض علم حاصل کرنے کے بعد انکساری وفروتنی میں اضافہ ہونا چاہیے نہ یہ کہ انسان غرور تکبرکا شکار ہوجائے۔
نیک عمل صرف اسی وقت فائدہ مند ہوتا ہے جب وہ خداوندعالم کی بارگاہ میں مقبول ہو, اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کا نیک عمل قبول ہو چکا ہے یا صدق، اخلاص اور تقویٰ کے نہ ہونے کی بناء پر رد ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنین کی صفات کے بارے میں فرماتا ہے جو اپنے پروردگار کے حضور اپنے اعمال کے قبول نہ ہونے کی وجہ سے ڈرتے ہیں, کیونکہ خداوندعالم وہ کچھ جانتا ہے جو ان پر پوشیدہ ہے:
وَٱلَّذِينَ يُؤْتُونَ مَآ ءَاتَوا۟ وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَٰجِعُونَ(مومنون ۔ 60)
اور جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے پروردگار کی لوٹ کر جانا ہے
جان لیجئے کہ مال انسان کی ذات سے ایک الگ شے ہے اور اس کی کمی و زیادتی کا کمال انسانی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ چنانچہ ممکن ہے کے پست ترین افراد ان میں سے مال دار ترین ہوں۔ دوسرے یہ کہ انسان کے مرنے کے بعد مال دوسروں کو منتقل ہو جاتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ کسی بھی لمحے معمولی سے حادثے کی وجہ سے ضائع ہو جائے اور کتنے ہی مالدار متکبر و مغرور افراد کچھ ہی عرصے میں فقیر و محتاج ہو گئے۔ اور اگر دولت مند ایمان و عقل و فہم رکھتا ہو تو وہ اپنے مال کو فتنہ و بلا اور آزمائش کا سبب سمجھے گا اور اپنے آپ سے سخت ذمہ داری محسوس کرے گا کہ جس سے باہر نکلنا بہت مشکل ہے۔ اور اس فہم و دانش کا لازمہ یہ ہونا چاہئے کہ انسان فقراء کے ساتھ انکسار وتواضع سے پیش آئے نہ کہ غرور تکبر کرے۔
اور اگر دولت مند لا پرواہ ہو اور اپنے مال کو خدا کی دی ہوئی رحمت سمجھے اور اپنے آپ کو اس کے لا ئق سمجھے تو اسے یہ آیت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے:
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِۦ مِن مَّالٍۢ وَبَنِينَ ٥٥ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى ٱلْخَيْرَٰتِ ۚ بَل لَّا يَشْعُرُونَ(مومنون: 55-56)
کیا یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں, تو ان کی بھلائی میں جلدی کر رہے ہیں, (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے ہی نہیں
اور یہ جاننے کے لئے کہ یہ مال رحمت وخیر ہے یا آزمائش و غضب الہیٰ ہے۔ روایات میں اس کے لئے دو نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے, ایک انکساری اور دوسرے انفاق کی توفیق ہونا۔ پس اگر بخل اورتکبر زیادہ ہوجائے تو وہ مال آزمائش اور شقاوت و بد بختی کا سبب ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّمَآ أَمْوَٰلُكُمْ وَأَوْلَـٰدُكُمْ فِتْنَةٌ(انفال ۔ 28)
جان لو بیشک تمہارے اموال اور اولاد آزمائش ہیں۔
جاہ ومنصب اورمقام بھی مال ہی کی طرح زوال پذیر اور اس کے علاوہ انسانی ذات سے الگ امور اعتباری میں سے ہیں (یعنی فطری اورذاتی نہیں) اور عقل رکھنے والا کبھی بھی ان کے دھوکے میں نہیں آتا اور نہ ہی ان پر غرور کرتا ہے۔
مال کی طرح مقام و منصب بھی کبھی خیر ونعمت اور کبھی شر و آزمائش ہے۔ جاہ و منصب جسے حاصل ہو تو اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آیا جو وظیفہ الہیٰ اس کے ذمہ ہے وہ اس کو انجام دے رہا ہے یا نہیں؟ اور کبھی اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی مظلوم کی فریاد رسی نہ کرنے، تکبر کرنے اور کسی مومن کی توہین (خاص طور پر اگر سید،عالم یا بوڑھا ہو) کی بناء پر عقوبت اور عذاب الہیٰ کا مستحق ہو جاتا ہے۔
نقل کیا گیا ہے کہ جب عمرو بن لیث اپنے ستر ہزار باصلاحیت جوانوں کے ساتھ امیر اسماعیل ساسانی کے دس ہزار سواروں کے مقابلے میں آیا اور جب جنگ کا شور اور ڈھول و بگل کی آواز بلند ہوئی تو عمروبن لیث کے گھوڑے نے سرکشی کی اور اسے بے اختیار دشمن کی صفون میں پہنچا دیا اور اس طرح امیر اسماعیل بغیر جنگ کے غالب آگیا اوراس نے عمرو کو ایک خیمے میں قید کر دیا۔ اس عمرو کی نظر ایک سابقہ شاگرد پر پڑی عمرو نے اسے بلایا اور بھوک کی شکایت کی، شاگرد اسی وقت اس کے لئے ایک گوشت کا ٹکرا لے کر آیا۔ کیونکہ کوئی بڑا برتن نہ تھا اس لئے اس نے اسے گھوڑے کے برتن میں ڈال دیا اور آگ جلادی اوراپنے کسی کام کے لئے چلا گیا۔ اتفاقاً وہاں ایک کتا آگیا اس نے اپنا سر اس سطل میں ڈالا تو شوربے کی بھاپ کی وجہ سے اس کا منہ جلنے لگا اور جب اس نے تیزی سے منہ باہر نکالنا چاہا تو سطل کا دستہ اس کی گردن میں پھنس گیا اور وہ اسی طرح بھاگ گیا عمرو یہ دیکھ کر ہنسنے لگا۔ ایک محافظ نے پوچھا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ عمرو نے کہا ایک دن میرے سپہ سالار نے مجھ سے شکایت کی تھی کہ آپ کے باورچی خانے کا سامان تین سو گھوڑے بھی مشکل سے اٹھا کر جاتے ہیں اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک کتا اسے آسانی سے لے کر جارہا ہے۔
مروان حمار بنی امیہ کے آخری بادشاہوں میں سے تھا۔ سن 132ھ میں وہ آب زاب کے مقام پر سفاح کے لشکر کے مقابل آیا جب کہ لشکر کی صف بندی ہو چکی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے سے پیشاب کرنے کے لئے اترا تو اس کا گھوڑا بھاگ کر اپنے لشکر کے درمیان پہنچ گیا اور اس کے لشکریوں نے گمان کیا کہ مروان قتل ہو چکا ہے اور اس کا گھوڑا فرار ہو کے آیا ہے اس لئے تمام لشکر والے ڈرکر منتشر ہو گئے۔ یہاں تک کہ مروان کو قتل کر دیا گیا اور کہا گیا کہ "ذَھَبَت الدّوْلَتَہُ ببَوْلہ" اس کی سلطنت پیشاب کرنے کی بناء پر چلی گئی۔
اس کے علاوہ عباسی خلیفہ کا بغداد کی جامع مسجد میں نماز جماعت کی صفوں میں بھیک مانگنا تاریخ میں مشہور ہے۔ جو اندھا ہو کر بھیک مانگتا پھرتا تھا اور کہتا جاتا تھا۔ اے لوگو اس شخص پر رحم کرو جو کل تک تمہارے اوپر حاکم تھا اور آج وہ تمہارے سامنے دست سوال دراز کر رہا ہے۔
جان لیں کہ ہر لحظہ ممکن ہے کہ انسان کسی بھی مرض یا مصیبت میں مبتلا ہو کر کمزور سے کمزور تر ہو جائے اور اسے جان کنی، موت اور قبر کا سامنا کرنا پڑے۔ اور ظاہری حسن وجمال سے متعلق سوچنا چاہئے کہ کھال کے نیچے پیپ، خون اور گندگی ہوتی ہے, تو بس غرور وتکبر اور دوسروں پر برتری ظاہر کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ انسان کا حقیقی حسن صفات کمالیہ سے متصف ہونے میں ہے کہ جس میں سے ایک تواضع ہے۔
ہر وہ خواہش جو انسان کے نفس میں ہے اگر عملاً اس کی پیروی نہ کرے بلکہ اس کے برعکس عمل کرے تو آہستہ آہستہ وہ خواہش ختم ہو جاتی ہے اور چونکہ تکبر کی ضد تواضع و فروتنی ہے تو پس تکبر کے مرض کا واحد عملی علاج گفتار و کردار میں تواضع وفروتنی پیدا کرنا ہے۔ تواضع کی اہمیت کیلئے یہی کافی ہے کہ پروردگار عالم اپنے حبیب، اشرف مخلوقات، باعث تخلیق کائنات کو تواضع کا حکم دے رہا ہے:
وَٱخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ(حجر ۔ 88)
اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رہیں
پیغمبر سید الکونین محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حالات توضع کا نمونہ تھے۔ آپ کی خصوصی صفات میں سے چند ایک یہ ہیں:
خدا نے اپنے مقرب بندوں کی اس صفت کی وجہ سے تعریف کی اور فرمایا:
وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًا (فرقان ۔ 63)
اور رحمان کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں:
روز قیامت تم میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور میرے قریب ترین وہی ہو گا کہ جس کے اخلاق بہترین اور جس کا تواضع سب سے زیادہ ہو اور روز قیامت غرور و تکبر کرنے والے مجھ سے سب سے زیادہ دور ہوں گے۔ (بحار الانوار)
امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
تمہارے لئے ضروری ہے کہ تواضع کو اپنا شیوہ بناو کیونکہ یہ بہت بڑی عبادت میں سے ہے۔
اگر خدا کے شایان شان یہ ہوتا کہ وہ اپنے کسی ایک بندے کو تکبر کی اجازت دے دے تو وہ اپنے مخصوص بندوں انبیاء اور اولیاء کو اس کی اجازت دیتا۔ لیکن ذات خداوند عالم تمام بری صفات سے پاک ہے اس نے ان کے لئے بھی تکبر کو مکروہ قرار دیا اور فروتنی کو پسند فرمایا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سینے زمین سے ملے اور چہرے خاک آلودہ رکھے اور مومنین کے آگے انکسار سے جھکتے رہے اور دنیا میں کمزور حالت میں رہے۔
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
آسمان میں دو فرشتے ہیں کہ جو لوگوں پر موکل ہیں تاکہ جو کوئی تواضع کرے اسے معزز اور اس کے مرتبے کو بلند کریں اور جو کوئی غرور و تکبر کرے اسے ذلیل و خوار کریں۔ (کافی جلد 2 با ب کبر)
پس تواضع نفس میں ایسی کیفیت کا نام ہے جسے فروتنی, نفس کی شکستگی اور اپنے آپ کو پست و حقیر سمجھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلحاظ خلقت و فطرت اور حقیقت امر بھی یہی ہے کہ انسان کی کوئی چیز بھی اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے۔ تواضع اپنے مواقع کے لحاظ سے تین قسم کا ہوتا ہے۔
جب بھی انسان یہ یقین کر لے اور سمجھ جائے کہ اس کا اپنا وجود اور اس سے متعلقہ تمام چیزیں خدا کی طرف سے ہیں اور بغیر کسی حق اور طلب کے خداوندعالم نے اسے بے حد و بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں اور جو کچھ بھی وہ رکھتا ہے سب خدا کی طرف سے ہے تو نفس میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جسے حق کے مقابل پستی وانکساری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ خداوند عالم سے تواضع اور انکساری اس کی نعمتوں, نشانیوں و حرمات الہیٰ کو بزرگ و محترم سمجھنا ہے، کیونکہ وہ اس کے حقیقی محبوب ومنعم کی طرف سے ہے۔
عبادات کے واجب ہونے کا اہم سبب تکبر کے مرض کو ختم کرنا اور تواضع کی فضیلت سے متصف ہونا ہے۔ اس بناء پر تکبر کو ختم کرنے کے اہم ترین عملی معالجہ میں سے عبادات کو صحیح شرائط ومسائل کے ساتھ بجالانے کی کوشش کرنا ہے, تا کہ وہ قبول ہوں۔ نیز یہ کہ عبادت تکبر کے ساتھ ہر گز قبول نہیں ہوتی چونکہ عبادت کے معنی اطاعت وفرمانبرداری اور بندگی کے ہیں نہ کہ اپنے آپ کو بڑا اور آقا ظاہر کرنے کے۔
خداوند عالم کے سامنے فروتنی وعاجزی کی سب سے بڑی علامت پیغمبر اور امام کے سامنے عجز و انکساری ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں اور اس کے نمائندے اور خلفآء ہیں اور ان کے سامنے عجز وانکساری خداوند عالم کے سامنے تواضع و عاجزی ہے۔ مروی ہے کہ امام جعفر صادق ع جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا اسم مبارک لیتے تو اس قدر جھکتے تھے کہ آپ کا چہرہ مبارک زانووں کے قریب ہو جاتا تھا۔
تمام انسان بلحاظ خلقت ایک دوسرے کے برابر ہیں اور سب ہی رب العالمین کی مخلوق اور اس کے زیر نظر ہیں اور اس لحاظ سے سب برابر ہیں۔ چنانچہ اگر ایک غلام دوسرے غلام سے غرور وتکبر سے پیش آتا ہے تو وہ عقلاً قابل مذمت ہے اور بالکل اسی طرح اگر کسی دوسرے سے عاجزی و انکساری کی توقع رکھے تو وہ عقلآء کی نظر میں مذمت وملامت کے لائق ہے چونکہ عام طور سے سب آدم ع کی اولاد ہیں، امیتاز صرف تقویٰ ہے۔
لیکن دوسرے لحاظ سے کچھ افراد بشر خاص فضیلت کے حامل ہو جاتے ہیں اور عقلی و شرعی لحاظ سے وہ قابل تعظیم ہوتے ہیں اور ان کے لئے عزت واحترام کا حکم دیا گیا ہے مثلاً ماں باپ۔ درحقیقت والدین کے ساتھ تواضع خدا کے ساتھ تواضع ہے، چونکہ والدین ربوبیت پروردگار کا ذریعہ ہیں۔ اور مثلاً ایمان و تقویٰ کے لحاظ سے۔ ہر ایماندار اور متقی کے ساتھ تواضع وانکساری سے پیش آنا چاہئے کیوں کہ خدا کے نزدیک وہ محترم ہے۔ امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:
مومن کی حرمت خداوند عالم کے نزدیک کعبہ کی حرمت سے زیادہ ہے۔
اور اسی طرح عالم اور معلم کہ سب لوگوں پر لازم ہے کہ عالم کی برتری و فضیلت کی بناء پر اس کا احترم کریں اور اسی طرح سن رسیدہ، قوم کے بزرگ اور مہمان وغیرہ کی عزت اور ان کے ساتھ فروتنی سے پیش آنے کا خاص طور سے حکم دیا گیا ہے۔
محمد بن مسلم اشراف کوفہ میں سے ایک دولت مند آدمی تھے اور حضرت امام محمد باقر ع اور حضرت امام جعفر صادق ع کے اصحاب میں سے تھے۔ ایک دن امام محمد باقر ع نے ان سے کہا اے محمد فروتنی کرو۔ جب محمد بن مسلم مدینہ سے کوفہ واپس آئے تو کھجور کا برتن اور ترازو اٹھایا اور جامع مسجد کوفہ کے دروازے پر بیٹھ کر صدا لگانے لگے کہ جس کو کھجور چاہئیں آئے اور مجھ سے خرید لے۔ (اس کام کو وہ اپنے نفس کے تکبر کو ختم کرنے کے لئے کررہے تھے) تو ان کے رشتہ دار آئے اور ان سے کہا کہ تم نے اپنے اس کام سے ہمیں رسوا کر دیا۔ انہوں نے جواب دیا میرے مولا نے مجھے اس کا م کا حکم دیا ہے اور میں ان کی مخالفت نہیں کر سکتا اور اس جگہ سے اس وقت تک حرکت نہیں کروں گا جب تک کہ اس برتن کی ساری کھجوریں بک نہیں جاتیں۔ تو ان کے رشتہ داروں نے کہا، اگر تم ہر صورت میں خرید فروخت ہی کرنا ہے تو اس جگہ جاؤ جہاں گندم کو آٹا کرتے ہیں۔ انہوں نے قبول کر لیا اور اونٹ اور چکی کا پتھر خریدا اور گندم کا آٹا بنانے میں مشغول ہو گئے تا کہ اس کام سے نفس کے تکبر کا خاتمہ کریں اور اپنے آپ کو ایک عام انسان کی طرح دیکھیں۔ (سفینہ البحار, کتاب اختصاص)
کافر کے سامنے تواضع و انکساری کسی بھی وقت صحیح نہیں، بلکہ ان کے ساتھ برابری اور برتری کا اظہار کرنا چاہیے, کیونکہ وہ خداوندعالم سے بغض رکھتا ہے اور اس نے اپنے آپ کو درجہ انسانیت سے گرا کر ہر پست شے سے زیادہ پست تر کر لیا ہے۔ اورکافرکل روز قیامت یہ آروز کرے گا:
وَيَقُولُ ٱلْكَافِرُ يَـٰلَيْتَنِى كُنتُ تُرَٰبًۢا (النباء ۔ 40)
اور کافر کہے گا کہ اے کاش میں مٹی ہوتا
پس مومن کے سامنے انکساری اور اپنے آپ کو کمتر سمجھے اور کافر کے سامنے اپنے آپ کو بڑا اورر بلند مرتبہ سمجھے۔ اگر کوئی مومن، کافر کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے تو درحقیقت اس نے اللہ پر اپنے ایمان کو رسوا اور کافر کے کفر کو پسند کیا۔ حقیقت کے برعکس کیا کیونکہ:
وَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِۦ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (منافقوں ۔ 8)
سنو! عزت تو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان داروں کے لیے ہے
اور اس کے علاوہ ایسے شخص کے سامنے کہ جس نے ستم کو اپنے پیشہ بنا رکھا ہو یا کھلم کھلا فسق وفجور کرتا ہو, کے ساتھ انکساری، تواضع سے پیش نہیں آنا چاہئے۔بلکہ خداوندعالم کے لئے اس پر غضبناک ہونا چاہئے۔ اور اس سے ترش روی سے پیش آنا چاہیے چنانچہ امیر المومنین ع فرماتے ہیں:
پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ہمیں حکم دیا ہے کہ گناہگاروں سے ترش روی سے پیش آئیں۔ (وسائل الشیعہ کتاب الامربالمعروف)
بلاشبہ ایسے احمق کے ساتھ تواضع سے پیش نہیں آنا چاہیے جو تکبر کرتا ہو اور دوسروں کو پست و ذلیل سمجھتا ہو۔ کیونکہ اول تومتکبر کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آناخود ایک طرح کی ذلت ہے اور دوسرے یہ کہ متکبر کے ساتھ تواضع وہ انکساری اس کی ناپسندیدہ حرکتوں کو بڑھانے کا سبب بنے گا اور ممکن ہے کہ اگر اس سے قطع تعلق کر لیں یعنی اس کے ساتھ خرید وفروخت نہ کریں اور تواضع سے پیش نہ آئیں تو وہ متنبہ ہو جائے اور غرور تکبر کرنا چھوڑ دے۔ تو بس نہی عن المنکر کی رو سے اس کے ساتھ تواضع سے پیش نہیں آنا چاہئے۔ پیغمبر اکرم ص فرماتے ہیں:
جب میری امت کے منکسر المزاج لوگوں سے ملاقات ہو تو ان سے تواضع سے ملو اور تکبر کرنے والوں کے ساتھ تکبر سے پیش آو۔ کیونکہ تمہارا ان پر تکبر کرنا ان کی ذلت کا سبب ہوگا۔ (جامع السعادت)
کافر،فاسق اور متکبر کے ساتھ تواضع وانکساری صحیح نہیں ہے بلکہ ان کے سامنے بڑائی کا اظہار کرنا چاہیے اور غضبناک ہونا چاہئے کیونکہ وہ خداوند عالم کے غضب کا نشانہ ہیں۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ بالذات اپنے آپ کو ان سے بڑا سمجھے, بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور ان کو عاجز انسان سمجھے اور اہل نجات میں سے ہونا توفیق خدا کی بناء پر ہے اور ہلاکت اپنے ہی عمل کی وجہ سے ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کا فر یا فاسق کو توبہ کی توفیق ہو جائے اور اسکی عاقبت بخیر ہو۔ ہمیں چونکہ یہ حکم دیا گیا ہے اس لئے ان سے سختی سے پیش آتے ہیں, نہ یہ کہ خدا نخواستہ ہم تکبر سے کام لیتے ہیں۔ پس جسے خداوند عالم دشمن رکھتا ہے اسے دشمن رکھے اور اس کے ساتھ انکساری سے پیش نہ آئے۔
غنی وسرمایہ دار لوگوں کے سامنے تواضع اگر ان کی ثروت اور مال دنیا کے لالچ کی وجہ سے ہو تو اس چیز کے لئے قرآن مجید اور روایات میں بہت زیادہ سختی سے منع کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِۦٓ أَزْوَٰجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ (طہٓ ۔ 131)
اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انہیں اس میں آزما لیں
اور در حقیقت سرمایہ دار لوگوں کے سامنے ان کی دولت کی وجہ سے تواضع کرنا مال دنیا سے لگاو ہے۔یعنی وہ اسے موثر سمجھتا ہے اور خداسے غافل ہو گیا ہے اور یہ خدا کے ساتھ شرک ہے۔ حضر ت امیرالمومنین ع فرماتے ہیں:
جو کوئی دولت مند کے پاس جائے پھر اس کے سامنے اس کے مال کی وجہ سے فروتنی کرے تو خدا وند عالم اس کے دو تہائی دین کو ختم کر دیتا ہے۔(بحار الانوار جلد 15)
حضرت امیر المومنین ع فرمائے ہیں:
امیروں کا رضائے خدا کے لئے فقراء سے تواضع کرنا کس قدر نیک عمل ہے۔ (نہج البلاغہ ج 3)
اس سے بہترین عمل غریبوں کا امیروں کے سامنے تکبر کرنا ہے۔ یعنی محتاج کو چاہئے کہ خدائے عزوجل پر توکل کرتے ہوئے فقیرانہ خوشامد اور گری ہوئی حرکتوں سے اجتناب کرے اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے آپ کو ان سے بر تر سمجھتے ہوئے تکبر کرے۔ اگر ثروت مند اپنے مال پر نازوفخر کرے تو فقیر کو بھی چاہیے کہ وہ اس خدائے عزوجل پر توکل کر کے کہ جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اور اپنے آپ کو بے نیاز سمجھے۔
کتاب لئالی الاخبار میں نقل کیا گیا ہے کہ ایک روز ایک امیر آدمی فاخر لباس پہنے ہوئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہو ااور بیٹھ گیا۔ اس کے بعد ایک فقیر آیا کہ جس نے پھٹا پرانا لباس پہنا ہو اتھا وہ اس امیر آدمی کے قریب بیٹھ گیا تو امیر نے اپنا لباس سمیٹ لیا اور اس سے کچھ دور ہو گیا۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کیا تم اس بات سے خوفزدہ ہو کہ اس کی فقیری تم تک پہنچ جائے گی؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف لاحق ہو گیا کہ تمہاری دولت کم ہو جائے گی اور اس فقیر تک پہنچ جائے گی؟ اس امیر نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنا لباس گندہ ہو نے کے خوف سے دورہو گئے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا پس تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا میرا نفس ہر نیک کام کو برا اور ہر برے کام کو میرے سامنے اچھا پیش کرتا ہے, اور اب میں اپنے برے کردار کی تلافی کرتے ہوئے اپنی تمام دولت میں سے نصف اس فقیر کو بخشتا ہوں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس فقیر سے پوچھا کہ آیا تم اس کی دولت کو قبول کروگے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا کیوں؟ اس نے عرض کی میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی اس کی طرح تکبر میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔
ضمناً یہ بات بھی یاد رہے کہ امیر کے سامنے تواضع نہ کرنا صرف اس کے مال کی وجہ سے ہے ورنہ ایمان و تقویٰ کے مقابلے میں تواضع و فروتنی سے پیش آنا چاہئے بلکہ اس بارے میں حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اس کے مال کی طرف مائل نہ ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس کا تواضع کرنا متقی فقیر اور متقی امیر کے سامنے یکساں ہو اور دولت پیش نظر نہ ہو۔
تواضع کی ایک حد ہے، اگر انسان اس سے گزرنے کی کوشش کرے تو کبھی انسان کی ذلت و اہانت اور بے عزتی کا موجب ہوتی ہے, اور مومن کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو اس کی ذلت کا سبب بنے۔ اس بناء پر تواضع کے وقت مکمل طور پر میانہ روی کا خیال رکھنا چاہئے۔ مثلاً والدین اور رشتہ داروں کے سامنے تواضع اجنبی لوگوں سے زیادہ ہونی چاہئے اور باعمل علماء اور سادات کے سامنے دوسروں سے زیادہ تواضع سے پیش آنا چاہئے, اور قوم کے بزرگ کے سامنے قوم سے بڑھ کر تواضع سے پیش آنا چاہئے, کیونکہ وہ تواضع جو والدین، علماء اور سادات کے لئے مناسب ہے مثلاً ان کے ہاتھ وغیرہ چومنا، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کے سامنے یہی چیز انسان کی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ اس بناء پر افراد کے سامنے تواضع سے پیش آنے میں ان کے حالات ومقامات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
سفینة البحار میں امام حسن عسکری ع سے روایت کی گئی ہے کہ جناب امیر المومنین ع کی خدمت میں ایک روز آپ کے اصحاب سے ایک دیندار شخص اور اس کا بیٹا حاضر ہوا۔ آپؑ کھڑے ہو گئے اور بڑی خاطر تواضع سے پیش آئے اور قنبر سے فرمایا کہ ان کے لئے طعام حاضر کرے۔ قنبر کھانا لائے دونوں نے مل کر کھانا کھایا تو قنبر ہاتھ دھونے کے لئے لوٹا، طشت اور ایک رومال ہاتھ صاف کرنے کے لئے لے آئے۔ جناب امیر المومنین ع نے قنبر سے لوٹا لیا اور مہمان باپ کے ہاتھ دھلانا چاہتے تھے کہ مہمان نے دست ادب جوڑ کر عرض کی, مولا! یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ خدمت غلام اپنے آقا سے لے لے۔ آپ نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا تمہارے ہاتھ دھلانے سے اگر میرامولا و آقا مجھ سے راضی و خوشنود ہو جائے تو کیسا ہے؟ تم اسطرح اپنا ہاتھ دھو لو گویا کہ قنبر پانی ڈال رہا ہے۔ یہ کلمات سن کر وہ اپنے ہاتھ دھلانے پر مجبور ہو گیا۔ امیرا لمومنین ع نے اس کے ہاتھ دھلائے اور اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ کو لوٹا دے دیا اور اسے فرمایا کہ, تم اس لڑکے کے ہاتھ دھلاو تا کہ باپ اور بیٹے کا درجہ مساوی نہ رہے۔ اگر اس لڑکے کے والد اس کے ساتھ نہ ہوتے تو پھر میں خود ہی اس کے ہاتھ دھلاتا۔
امام جعفر صادق ع اپنے آبائے طاہرین سے نقل فرماتے ہیں:
تواضع یہ ہے کہ انسان مجلس میں سب سے پیچھے بیٹھنے پر راضی ہو اور جس سے ملاقات کرے اس سے سلام میں ابتداء کرے اور لڑائی جھگڑے کو ترک کرے اگرچہ حق پر ہو اس بات کو پسند نہ کرے کہ اس کی تقویٰ سے تعریف کی جائے۔ (سفینةُ البحار)
سفینة البحار میں مروی ہے کہ موسیٰ بن عمران ع ہر نماز کے بعد خداوند عالم کے سامنے انتہائی عاجزی سے اپنے چہرے کے دائیں بائیں حصے کو زمین پر ملتے تھے اور اسی وجہ سے خداوندعالم نے انہیں اپنا کلیم قرار دیا۔ امام علی رضا ع فرماتے ہیں:
تواضع یہ ہے کہ لوگوں کو وہ دو جو تم پسند کرتے ہو کہ وہ تمہیں دیں۔ (کافی)
مروی ہے کہ حسن بن جہم نے امام علی رضا ع سے پوچھا کہ تواضع کا معیار اور اس کی تعریف کیا ہے؟ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا:
تواضع کے کچھ درجات ہیں ان میں سے ایک درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے مقام وحیثیت کو سمجھے اور ہر کام اپنی حیثیت کے مطابق کرے بلکہ اس مقام سے قلب سلیم کے ساتھ تھوڑا نیچے اتر آئے اور جو کچھ چیز اپنے لئے پسند کرے وہی دوسرے کے لئے پسند کرے۔ اگر کسی سے کوئی برائی دیکھے تو اس کے سامنے نیکی کرے اور اپنے غصے کو پی جائے اور لوگوں سے درگزر کرے۔ بلاشبہ خداوند عالم نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (کافی)
سفینہ البحار میں مروی ہے کہ امام موسیٰ بن جعفر ع کالے اور بد صورت سوڈانی مرد کے پاس سے گزرے تو آپ نے اسے سلام کیا اس کے قریب گئے اور کافی دیر تک اس سے باتیں کیں۔ اس کے بعد فرمایا اگر کوئی کام ہو تو مجھے بتاو میں اسے انجام دوں۔ لوگوں نے آپ سے کہا اے فررزند رسول آپ اس شخص کے پاس جاتے ہیں اور اس کی حاجت پوچھتے ہیں حالانکہ وہ آپ سے زیادہ محتاج تر ہے۔ امام ع نے فرمایا وہ بھی خدا کا ایک بندہ ہے اور ہمارا دینی بھائی ہے اور ہمیں اور اسے بہترین باپ آدم ابو البشر جناب آدم ع اور بہترین دین جو کہ اسلام ہے، ملاتا ہے، شاید وقت ہمیں اس کا محتاج کردے تو پس ہم کس لئے اس پر تکبر کریں۔