وَٱلسَّارِقُ وَٱلسَّارِقَةُ فَٱقْطَعُوٓا۟ أَيْدِيَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَـٰلًۭا مِّنَ ٱللَّهِ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ ٣٨ فَمَن تَابَ مِنۢ بَعْدِ ظُلْمِهِۦ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌ (مائدہ: 38, 39)
چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا۔ عذاب، اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ قوت وحکمت واﻻ ہے۔ اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرے اور نیکوکار ہو جائے تو خدا اس کو معاف کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے
اعمش راوی ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ حدیث نبوی نقل فرمائی کہ:
یعنی کوئی شخص مومن ہوتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا اور کوئی شخص مومن ہوتے ہوئے چوری نہیں کرسکتا۔ (وسائل الشیعہ)
اسلام دشمن افراد نے جن موارد پر اسلام کے خلاف ہنگامہ اور معرکہ کھڑا کیا ہے اُن میں سے ایک سزاؤں کا اسلامی قانون ہے۔ دشمن ان سزاؤں کو وحشیانہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ایسی سزائیں شائستہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر دشمنوں نے چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے اور زنا کی سزا میں سنگسار کر دینے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ وہ اپنا فلسفہ بگھارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جرائم ایک طرح کی اخلاقی اور روحانی بیماریاں ہیں پس ان کا علاج سزاؤں سے نہیں بلکہ درس اخلاق دے کر نفسیاتی طریقوں سے ہونا چاہیئے۔
اسلام نے درس و نصیحت کا اور اخلاق و عادات کی اصلاح کا پہلو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ لیکن ہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر درس و نصیحت کے باوجود آدمی سرکشی کرے اور اپنی خواہشات کو بے لگام چھوڑ دے تو ایسے آدمی کی اصلاح سزا کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اسلام پر اعتراض کرنے کے لئے نفسیاتی اور اخلاقی علاج کو کافی قرار دینے والے حضرات کے ممالک میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ مجرموں کو محض درس و نصیحت کر کے پیار سے چھوڑ دیا جائے، بلکہ وہاں بھی ان کو جیل میں بند کر دیا جاتا ہے اور انہیں مختلف سزائیں دی جاتی ہیں۔
اسلام جرم کرنے والے کے عذر کو بھی دیکھتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص معاشی بدحالی سے اور بھوک سے پریشان ہو کر چوری کر بیٹھے تو اس کا ہاتھ کاٹا نہیں جاتا، بلکہ سزا سے آزاد رہتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑی بہت تعزیر اور تنبیہ کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ آئندہ وہ ایسا نہ کرے۔
یہ اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ملک کے ہر فرد کو مناسب روزگار کی راہ پر لگا دے، اگر کوئی شخص اس کے باوجود بے روزگار رہ جاتا ہے تو بیت المال سے اس کو با روزگار ہونے تک وظیفہ ملتا ہے۔ جب ایسا ہے تو اسلامی حکومت میں چوری کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہیئے، اور اس کے باوجود بھی اگر کوئی چوری کرے تو پھر چوری کرنے والے کو واقعی سزا ملنی چاہئیے۔ اسی طرح یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ کسی کے دباؤ میں آکر چوری تو نہیں کر بیٹھا ہے۔ اگر واقعی آدمی کسی طرح مجبور ہو تو اسے سزا نہیں ملتی۔ ویسے بھی ظاہر ہے کہ کسی غیر اسلامی حکومت میں اسلامی قوانین نافذ نہیں ہوتے۔ پس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور اسلامی حکومت کے دور میں بھی تاریخ گواہ ہے کہ چار سو سال میں صرف چھ بار چوری کی سزامیں ہاتھ کاٹا گیا ہے۔
آزادی اور انسان دوستی کا نعرہ لگانے والے لوگ خود اپنے جرائم و مظالم کیوں بھول جاتے ہیں؟ شمالی افریقہ میں چالیس ہزار عوام کو محض اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے کے جرم میں مشین گنوں کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔ الجزائر کے حریت پسند اور مجاہد عوام نے بڑی دلیری سے فرانس کی ظالم حکومت کی غلامی سے نجات پانے کے لئے جدوجہد کی۔ لیکن چھ سال کی اس مدت میں دس ملین (ایک کروڑ) میں سے ایک ملین (دس لاکھ) افراد اپنے بنیادی حقوق کے دفاع کے جرم میں قتل کر دئیے گئے!
دوسری جنگ عظیم میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے جس وحشیانہ انداز میں لڑائی کی ہے اس کے نتیجہ میں 35 ملین (تین کروڑ پچاس لاکھ) افراد قتل ہوئے۔ بیس ملین (دو کروڑ) افراد ہاتھ پاؤں سے محروم ہوگئے۔ سترہ ملین لیٹر (ایک کروڑ ستر لاکھ لیٹر) خالص انسانی خون زمین پر بہہ گیا۔ اور بارہ ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) حمل ضائع ہوگئے!! کیا وہ جنگ انتہائی وحشیانہ نہیں تھی؟ پھر چار سو سال میں اگر صرف چھ بار بے ضمیر چوروں کے ہاتھ کاٹے گئے ہوں تو اسے وحشیانہ کہنے کا کیا جواز ہے؟ جب کہ شیعہ فقہ کے لحاظ سے سیدھے ہاتھ کی چار انگلیاں ہی کاٹنے کا حکم ہے، ہتھیلی اور انگوٹھا پھر بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ پہلے کے لوگوں کا شعور اعلیٰ سطح کا نہیں تھا اور ان کو قابو میں رکھنے کے لئے ایسی سخت سزائیں مناسب تھیں، لیکن اب تو لوگوں کا شعور بڑھ گیا ہے، اب ایسی سزائیں مناسب نہیں ہیں۔ ہم کہیں گے کہ ایسی باتیں سادہ لوح افراد کو دھوکا دینے کے لئے ہیں۔ اگر شعور اعلیٰ درجے کا ہے تو ترقی یافتہ اور مغربی ممالک میں جرائم کی اتنی بہتات کیوں ہے؟ بات یہی ہے کہ سزا سخت نہیں رکھی گئی ہے اس کے علاوہ ہم یہ بھی کہیں گے کہ سخت اسلامی سزا کا تصور خود شعور کی سطح کو بلند کرتا ہے۔ آدمی فساد اور تباہی سے بچا رہتا ہے اور فضیلت کے منازل طے کرتا ہے آدمی کے ذہن میں خود بخود یہ بات راسخ ہوجاتی ہے کہ واقعی مثلاً چوری بہت بُرا کام ہے۔
چور کا ہاتھ کاٹنے سے پہلے مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔
کتاب تہذیب میں یہ روایات ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت علی علیہ السَّلام کی خدمت میں آیا اس نے اپنی چوری کا اقرار کرلیا۔ حضرت نے فرمایا: آیا قرآن میں سے کچھ زبانی سنا سکتے ہو؟ اس نے کہا ’جی ہاں سورہ بقرہ، حضرت نے فرمایا: میں نے تمہارے ہاتھ کو سورہ بقرہ کے طفیل چھوڑدیا۔ اشعث نے کہا: یاعلیؑ! کیا آپ حدود خدا کو نظر انداز کررہے ہیں؟ فرمایا تم کیاجانتے ہو؟ حد جاری کرنا اُس وقت لازمی ہے جب بینہ (دو عادل آدمیوں کی گواہی) سے جرم ثابت ہو۔ اور اگر اقرار سے ثابت ہو تو امام مجرم کو معاف کرسکتا ہے۔
مذکورہ شرائط اگر موجود ہوں تو چور کاہاتھ کاٹنے کا فرض صرف حاکم شرع (قاضی) انجام دے سکتا ہے۔ شرعی قاضی کے علاوہ کسی کو حد جاری کرنے اور سزا دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ قاضی کی ذمہ داری ہے کہ وہ حد جاری کرنے کے علاوہ چوری کا مال چورسے لے کر واپس اس مالک کو دے۔ اگر وہ مال خرچ یا ضائع ہوچکا ہو تواُسی جیسا اور اسی مقدار یا تعداد کا دوسرا مال چور کو دینا پڑتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس مال کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ مال کی واپسی کا یہ حکم دونوں صورتوں میں ہے، خواہ چوری شرعًا ثابت ہوئی ہویا ثابت نہ ہوئی ہو۔ اگر دوسرے کا مال لیا ہے تولوٹانا پڑے گا۔
بعض ایسی صورتیں کہ چوری ثابت تو نہیں ہوتی مگر حاکم شرع دوسرے کا مال اٹھانے والے کو تعزیر کرتا ہے اور اس حد تک ڈانٹتا مارتا ہے کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔ تو تعزیر کی مقدار اور کیفیت خود قاضی کی مرضی اور رائے کے مطابق ہوتی ہے۔ مثلًا مال اگر غیر محفوظ جگہ سے چرایا گیا ہو، یا جعلسازنے جعلی چیک یا جعلی دستخط کی مدد سے دوسرے کا مال ہتھیا لیا ہو۔ ایسی صورتوں میں مال اصل مالک کو لوٹانا واجب ہوتا ہے اور تعزیربھی ہوتی ہے۔ اسی طرح کفن چوری کرنے کی نیت سے اگر آدمی ایسی قبر کھول دے جس میں مردہ موجود ہو لیکن اس نے کفن چرایا نہ ہو، تو اس میں بھی تعزیر کی جاتی ہے اور اگر وہ کفن بھی چُرالے تو اگر کفن کی قیمت چوتھائی مثقال سونے کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ بھی کاٹا جاتا ہے۔
اگرچور نظر آجائے تو وہ محارب یعنی ڈاکو کے حکم میں آجاتاہے۔ آدمی اپنے مال کی حفاظت میں اس کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اگر ایسی صورت میں ڈاکو مارا جائے تو اس کا خون معاف ہے اور کوئی قصاص وغیر ہ بھی نہیں دینا پڑتا اسی طرح جان اور ناموس کا دفاع کرتے ہوئے بھی آدمی حملہ آور شخص کو ہلاک کر سکتا ہے۔ البتہ اصل مقصد دفاع ہونا چاہیئے۔ اگر قتل کے بغیر دفاع ممکن ہو تو قتل کرنا حرام ہے۔ جس حد کی جدوجہد میں دفاع ہوجاتا ہو اُسی حد پر اکتفا کرنا چاہئے۔
حاکم شرع چوری کی شرائط حاصل ہونیکی صورت میں چور کے داہنے ہاتھ کی چار انگلیاں کاٹ دیتا ہے ہاتھ کے انگوٹھے اور ہتھیلی کو چھوڑ دیتاہے۔ اگر چور کی چوری کئی مرتبہ کی ایک ساتھ ثابت ہوگئی ہو اوراس سے پہلے ہاتھ نہیں کاٹا گیا ہو تو بھی یہی حد جاری ہوگی۔ اگر ایک دفعہ چور کی چار انگلیاں کاٹی جاچکی ہوں اور اس کے بعد وہ پھر چوری کر بیٹھے اور چوری تمام شرائط سے ثابت ہوجائے تو چور کے بائیں قدم کوانگلیوں سمیت آدھا کاٹ دیا جاتا ہے۔باقی آدھا ایڑھی والا قدم کا حصہ پیدل چلنے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے۔ اگر چور تیسری مرتبہ بھی چوری کرے اور اس کی چوری ثابت ہوجائے تو اسے عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ اگرقید خانے میں بھی وہ چوری کر بیٹھے تو وہ قتل کردیا جاتا ہے۔
جس ہاتھ کو دعا اور بندگی خدا کے اظہار میں اُٹھانا چاہیئے، جس ہاتھ کو بندگان خدا کی مشکلات دور کرنے کے لئے بڑھانا چاہیئے، یتیموں اور بے کسوں کی مدد کے لئے حرکت کرنی چاہیئے۔ دشمنا ن دین پر حملے کے لئے اٹھانا چاہیئے, اگر وہ مسلمان بھائیوں کا مال چرانے کے لئے بڑھے گا اور اتنی ساری شرائط کے باوجود ثابت ہوجائے گا تو اس کو کاٹ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس طرح معاشرہ کو تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔
اگر ہاتھ بغیر کسی جرم کے کاٹ دیا جائے تو پانچ سو مثقال سونا ہاتھ کاٹنے والے سے لے کر اس کو دے دیا جاتا ہے جس کا ہاتھ کٹا ہے۔ جب کہ ایک چوتھائی مثقال سونا چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کے مال کو امانت نہ سمجھنے والا اور اس میں خیانت کر بیٹھنے والا شخص خدائے تعالیٰ کی نظر میں بغیر کسی جرم کے دوسرے کا ہاتھ کاٹ دینے والے شخص سے کئی گنا زیادہ ذلیل اور گنہگار ہے۔ یہاں سے امانت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔