خدا کے دوستوں (یعنی مسلمانوں) سے جنگ پر دنیا میں شرعی سزا (حد) بھی مقرر کی گئی ہے اور آخرت کے عذاب کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا جَزَٰٓؤُا۟ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوٓا۟ آؤ يُصَلَّبُوٓا۟ آؤ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَـٰفٍ آؤ يُنفَوْا۟ مِنَ ٱلْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْىٌۭ فِى ٱلدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ٣٣ إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُوا۟ مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا۟ عَلَيْهِمْ ۖ فَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ (مائدہ: 33-34)
جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔ ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو میں آ جائیں توبہ کر لی تو جان رکھو کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے
منہج میں لکھا ہے ہجرت کے چھٹے سال عونیہ اور عکل سے ایک گروہ حضرت رسالت مآب (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام سے مشرف ہونے کے بعد وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ رہنے لگے۔ لیکن جب مدینہ کی آب وہوا ان کے لئے سازگار نہ ہوئی تو وہ مریض ہو گئے۔ ان کی اس حالت کے بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اطلاع دی گئی توآپ نے انہیں مدینہ سے باہر دودھ دینے والے اونٹوں کے درمیان جو کہ جبل العیر کے نزدیک تھا رہنے کی اجازت دی تا کہ وہاں کچھ روز رہیں اور اونٹوں کا پیشاب اور دودھ پیئں, تا کہ انہیں مرض سے نجات حاصل ہو اور وہ صحت یا ب ہو جائیں۔ وہ لوگ اس علاقے میں چلے گئے اور کچھ عرصے وہاں رہ کر صحت یاب ہوگئے۔ ایک صبح انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور رسول اکرام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مخصوص پندرہ اونٹ چوری کر لئے اور مرتد ہو گئے اور اپنے قبیلے کی طرف چلے گئے۔ جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو یسار نے جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے غلام تھے، کچھ آدمیوں کے ساتھ ان کا پیچھا کا اور ان تک پہنچ گئے۔ آپس میں جنگ وجدل ہوئی۔ آخر کار انہوں نے یسار کو گرفتار کر لیا اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے اور ان کی آنکھوں اور زبان میں کانٹے گھونپ دیئے حتی کہ وہ شہید ہو گئے۔ جب رسول خدا کو اس واقع کی اطلاع ملی تو آپ نے کربز بن جابر کو ان کے پیچھے بھیجا۔ انہوں نے ان تمام کو گرفتار کر لیا اور ہاتھ پاؤں باندھ کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ کر سولی پر لٹکا دیں۔
فقہاء کے نزدیک محارب (جنگ کرنے والا) وہ ہے جو اسلحہ مثلاً تلوار، نیزہ، چاقو، بندوق، لکڑی، پتھر وغیرہ اپنے پاس رکھے تا کہ مسلمانوں کو خوفزدہ کر کے ان کا مال اور ناموس لوٹ لے یا ان کا خون بہائے، خواہ خواہ کمزور ہو یا طاقتور, تنہا ہو یا اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہوں، چاہے اس کا مقصد حاصل ہو یا نہ ہو (یعنی لوگ خوفزدہ ہوں یا نہ ہوں, ان کا مال لے جائے یا نہ لے جائے، انہیں قتل کرے یا نہ کرے), بلکہ فقط اس مقصد کیلئے اسلحہ لے کر پھرے تو محارب ہے۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دریا میں ہے یا خشکی پر, شہرو آبادی میں ہو یا صحرا و بیابان میں (مثلاً رہزنوں کی طرح)۔ یہاں تک کہ اگر اسلحہ لے کر دن یا رات کے وقت کسی مسلمان کے گھر گھس جائے اور اہل خانہ پر حملہ کرے تو وہ محارب ہے۔
کتاب کافی میں مروی ہے کہ سورہ بن کلیب نے امام جعفر صادق ع سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے گھر سے مسجد یا دوسری کسی جگہ جانے کے لئے نکلے تو ایسے میں کوئی آدمی اسے پیچھے سے پکڑ لے اور اسے مارے اور اسکا لباس چھین لے تو امام ع نے فرمایا ایسا شخص محارب ہے اور پرآیت (إِنَّمَا جَزَٰٓؤُا۟ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ) کا انطباق ہوتا ہے۔
اور اس سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ محارب مسلمان ہو یا غیر مسلمان، مرد ہو یا عورت، اسلامی شہروں میں ہو یا غیر اسلامی میں اور اس جملے "وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًا " کہ جو اس آیت میں موجود ہے, اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ محارب سے مراد نہ صرف جنگ اور مسلمانوں سے لڑنا بھڑنا ہے بلکہ زمین میں کسی بھی قسم کا فساد اور عام لوگوں کے امن وسکون میں خلل ڈالنا ہے۔ اور معمولاً خوف و ہراس کا پھیلانا، اسلحہ کے استعمال اور قتل کی دھمکی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ المختصر محارب وہ ہے جو اسلحہ سے لیس ہو کر مسلمانوں کی جان ومال و ناموس اور امن و سکون کو سلب کرنے کے لیے حملہ کرے۔
آیہ شریفہ میں جو مسلمانوں سے جنگ کرنے کو خدا و پیغمبر سے جنگ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے اس کا سبب مسلمانوں کی تعظیم و عزت ہے۔ یعنی جو بھی معاملہ ان کے ساتھ ہو, اسی طرح ہے کہ جیسے خداو پیغمبر کے ساتھ ہوا ہو۔ چونکہ وہ (مسلمان) خداو پیغمبر کے ساتھ وابستہ ہیں, یا اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا و رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مسلمانوں کو اذیت دینے اور ان کے مال یا ناموس یا خون کی طرف دست درازی کرنے کو حرام قرار دیا ہے اور جو کوئی اس حکم کی مخالفت کرے وہ محارب (یعنی خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرنے والا) ہے۔
امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
خدائے عزوجل فرماتا ہے کہ, وہ شخص مجھ سے جنگ کا اعلان کرتا ہے جو میرے مومن بندے کو اذیت دے, اور وہ میرے غضب سے امان میں رہے گا جس نے میرے مومن بندے کا احترام کیا۔ (کافی ج 2)
کافی کی ایک روایت میں عمروبن عثمان مدائنی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام علی رضا ع سے اس آیت (إِنَّمَا جَزَٰٓؤُا۟ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ) کے بارے میں پوچھا گیا کہ کونسا کام ان چار حدود میں سے کسی ایک کا موجب بنتا ہے؟ امام ع نے فرمایا کہ جب خدا اور رسول کے ساتھ جنگ کرے اور زمین میں فساد پھیلائے اور کسی کو قتل کر کے اس کا مال لے جائے تو قتل کیا جائے گا اور سولی پر لٹکایا جائے گا, اور اگر لوگوں کا مال لے لیکن کسی کو قتل نہ کرے تو اس کا دایاں ہاتھ بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر کاٹے جائیں گے, اور اگر تلوار اٹھائے اور خدا اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرے اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرے لیکن کسی کو قتل نہ کرے اور نہ ہی مال لے جائے تو تبعید (شہر بدر) کیا جائے گا۔ پوچھا گیا کس طرح تبعید کیا جائے گا؟ امام ع نے فرمایا, جس شہر میں جرم کا ارتکاب کیا ہے دوسرے شہرمیں تبعید کیا جائے گا اور اس شہر کے رہنے والوں کو لکھا جائے گا کہ یہ تبعیدی ہے اسکے ساتھ میل جول نہ رکھیں اور نہ ہی کوئی معاملہ کریں اور نہ کھائیں پیئں, یہاں تک کہ ایک سال تک اس کے ساتھ یہ سلوک رکھیں۔
روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شارع اسلام نے محارب کو سزا دینے میں اس کی سزا گناہ کے لحاظ سے رکھی ہے اور گناہ گار کیلئے یہ خود ایک مہربانی ہے۔ بلکہ اسلام نے اس حد تک مہربانی پر اکتفا نہیں کیا اور واضح کر دیا کہ جب بھی محارب پکڑنے جانے سے پہلے اپنے کردار پر پشیمان ہو اور توبہ کر لے تو ذکر شدہ حد اس پر سے ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مال لے کرگیا ہووہ مال اس سے لے کر اس کے مالک کو دیا جائے گا اور اگر قتل کیا ہو تو قصاص ہوگا۔ سوائے اس کے کہ صاحب حق اسے بخش دے۔
اس آیت میں ان عقل مند افراد کو جو اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہیں اور زندگی کی قدر وقیمت کو جانتے ہیں، مخاطب کیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانوں کی زندگی اور معاشرہ انسانی قصاص سے وابستہ ہے, کیونکہ اگر کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ قتل کرنے پر قتل کیا جائے گا اور قصاس کی خوفناک شکل وصورت قاتل کی کمین گاہ میں ہے, تو وہ اپنا ارادہ بدل دیتا ہے اور نتیجتاً اپنی جان کو قصاص سے اور دوسرے کی جان کو ہلاکت سے بچا لیتا ہے۔ ان حقائق کی طرف توجہ دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامی نے ان جیسے گناہوں مثلاً عمداً قتل، زنا کی تہمت، زنا، چوری، لڑائی جھگڑا, شراب پینا اور مرتد یعنی دین سے پھر جانے کی سزا کا واضح نصوص میں تعین کیا ہے اور, جب کہ دوسرے موارد میں کوئی خاص سزا مقرر نہیں کی ہے, اور سزا کی قسم اور مقدار کا حاکم شرع پر چھوڑ دیا ہے تا کہ وہ جرم کے زمان ومکان کے تقاضوں اور مجرم کے حالات کے مطابق سزا دے, کیونکہ اس طرح کے گناہوں کا ارتکاب معاشرے اور قوموں کی بد بختی و پریشانی اور تزلزل کا باعث ہوتاہے۔
وہ چور جو اسلحہ سے لیس ہو کر مال لے جانے کے لئے حملہ کرے وہ محارب ہے اور اگر مال کا مالک مقابلہ کر سکتا ہو تو اپنا دفاع کرنا جائز ہے اور اگر اس حال میں چور قتل ہو جائے تو اس کے خون کی کوئی اہمیت نہیں اور اس کی کوئی ضمانت نہیں۔ اور اگر مال کی حفاظت کرنا واجب ہو یا چور اس کی ناموس پر حملہ کرنا چاہے تو قادر ہونے کی صورت میں دفاع کرنا واجب ہے سوائے اس کے کہ جان کا احتمال ہو۔ اور اگرچہ چور صاحب مال کو قتل کرنے کا اراداہ رکھتا ہو تو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر دفاع اور مقابلہ کرنا واجب ہے ورنہ فرار ہو جائے۔یا چھپ جائے یا اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرے جس سے اس کی جان کی حفاظت ہو سکے اور اگر چور بغیر اسلحہ کے ہوتب بھی وہ محارب کے حکم میں ہے۔ یعنی جو کچھ مسلح چور کے بارے میں ہے وہی اس کے لئے بھی ہے سوائے اس کے کہ محارب کی حد اس پر جاری نہیں ہوگی۔ پس ایسی صورت میں کہ اگر چوروں کی تمام شرائط اس میں موجود ہیں تو چور کی حد جاری کی جائے گی اور اگر تمام شرائط نہ پائی جائیں تو صرف تعزیر و تادیب کی جائے گی۔ ایسا چور یا مستلب ہے یا مختلس۔ مستلب (لٹیرا) وہ ہے جو کھلم کھلا لوگوں کا مال چوری کرے اور فرار ہو جائے اور مختلس وہ ہے جو چھپ کر لوٹے اور فرار کر جائے۔ ان ہر دو صورتوں میں حاکم شرع جو سزا بھی اس جرم کے ترک کرنے کیلئے مناسب سمجھے دے۔ مثلاً جتنا مناسب سمجھے مارے یا قید میں رکھے۔
ایک شخص کسی لڑکی کے کان سے گوشوارہ اتار کر لے اڑا تھا اسے امیر المومنین ع کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے فرمایا اس کی چوری اور لوٹ مار چونکہ ظاہر ہے اور پوشیدہ نہیں ہے, اس لئے چوری کی حد جو کہ ہاتھ کاٹنا ہے اس پر جاری نہیں ہو گی, بلکہ تعزیر ہو گی۔ پس اسے مارا اور قید کر دیا۔
اور تیسری قسم مختال ہے یعنی جو دھوکے باز ہو, اور حیلے بہانے سے کسی کا مال لے اڑے۔ مثلاً جعلی سند بنائے اور اس ذریعے سے دوسروں کا مال ہتھیا لے لازمی طور پر اسے تعزیر کی جائے۔