گناہان کبیرہ میں سے ایک مکر (تدبیر) الٰہی سے لا پرواہی و بے خوفی ہے۔ بعبارت دیگر آدمی کا اپنے پروردگار کے غیبی انتقام اور ناگہانی قہر و غضب سے قطع نظر عیش و عشرت میں منہمک ہونا اور اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب الٰہی میں گرفتار ہونے کا احساس تک نہ کرنا۔ ارشاد ہوتا ہے :
أَفَأَمِنَ أَهْلُ ٱلْقُرَىٰٓ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَـٰتًۭا وَهُمْ نَآئِمُونَ ۹۷ أَوَأَمِنَ أَهْلُ ٱلْقُرَىٰٓ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًۭى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ۹۸ أَفَأَمِنُوا۟ مَكْرَ ٱللَّهِ ۚ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْخَـٰسِرُونَ (الاعراف: 97-99)
کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آ جائے جب کہ وہ سوئے ہوئے ہوں۔ اور کیا ان بستیوں والے اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر دن دھاڑے ہمارا عذاب آپہنچے جبکہ وہ کھیل کود میں مشغول ہوں۔ کیا یہ لوگ تدبیر خدا سے بے خوف و خطر ہو گئے ہیں؟ خدا کے نا گہانی عذاب سے بے خوف نہیں ہوتے مگر گھاٹا اٹھانے والے۔
پروردگار عالم کے عذاب و مجازات سے بے باکی و دلیری خود اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے اور اس کی عظمت و جلالت سے انکار کے مترادف ہے اور اس کے اوامرو نواہی سے رو گردانی کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ ایک بندہ کے گناہ بخشنے کے قابل ہوں یا نہ ہوں, یہ خود گناہگار کی حالت امن اور خوف پر منحصر ہے۔ یعنی جس قدر بندہ کے دل میں خوف خدا زیادہ ہے اسی قدر وہ مغفرت کے قابل ہے اور جتنا عذاب و انتقام خدا سے بے باک ہے اتنا ہی مغفرت و رحمت الٰہی سے دور۔ مکر الٰہی سے مراد یہ بھی ہے کہ گناہگار پر عذاب الٰہی اچانک ہی نازل ہو جاتا ہے۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
أَيَحْسَبُ ٱلْإِنسَـٰنُ أَن يُتْرَكَ سُدًى (القیامة ۔ 36)
کیا انسان گمان کرتا ہے کہ وہ آزاد چھوڑا ہوا ہے؟
مکر الٰہی کی اقسام میں سے ایک املاء ہے۔ املاء اُس مہلت کو کہا جاتا ہے جو اسی دنیا میں دی جاتی ہے۔ بنی نوع انسان کی پیدائش سے یہ سنّت چلی آرہی ہے کہ نا شکرے انسان کے طغیان و عصیان کے مقابل گناہ گار کو کیفر کردار تک پہنچانے میں عجلت سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ مہلت دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوائے معصومین علیہم السلام کے کوئی بندہ بشر ایسا نہیں جس سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو۔ اگر مجرم کو فوری سزا دے دی جائے اور انتقام لے لیا جائے تو روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہیں رہے گا اور سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
وَلَوْ يُؤَاخِذُ ٱللَّهُ ٱلنَّاسَ بِظُلْمِهِم مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِن دَآبَّةٍۢ وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى (النحل ۔ 61)
اور اگر خدا لوگوں کی نافرمانیوں کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر کسی ایک جاندار کو باقی نہ چھوڑتا مگر وہ تو ایک مقرّرہ وقت تک ان سب کو مہلت دیتا ہے۔
دوسرے املاء سے مراد یہ ہے کہ خدائے مہربان اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ گذشتہ گناہوں سے پشیمان ہو کر توبہ کریں اور آئندہ گناہوں سے باز رہنے کا پکّا ارادہ کریں۔ اس قسم کی مہلت صاحبان ایمان اور اہل تقویٰ کو فائدہ پہنچانے کے پیش نظر ہے۔ اس کے برعکس اہل کفر و طغیان کے لیے مہلت کی مدت میں گناہ پر گناہ کا اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ ان کی خواہشات نفسانی کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو اچانک مکر الٰہی یعنی غضب قہار نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ کلام پاک ان کو تنبیہہ کرتا ہے:
وَأُمْلِى لَهُمْ ۚ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ (الاعراف ۔ 183)
اور ان کو مہلت دیتا ہوں بےشک میری تدبیر بڑی مضبوط ہے۔
بعبارت دیگر کافروفاجر کی طویل عمر, کامیاب زندگی اور فراہمی اسباب تعیش اگر چہ بظاہر اس کے لیے خوشی کا باعث ہیں اور وہ اپنے آپ کو بزرگ و برتر تصوّر کرتا ہے لیکن در حقیقت اس قسم کی ڈھیل قہر و غضب اور انتقام الٰہی کی ایک قسم ہے جسے مکر سے تعبیر کی گیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌۭ لِّأَنفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُوٓا۟ إِثْمًۭا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌۭ مُّهِينٌۭ (آل عمران ۔ 178)
کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، یہ مہلت تو اس لئے ہے کہ وه گناہوں میں اور بڑھ جائیں، ان ہی کے لئے ذلیل کرنے واﻻ عذاب ہے.
امام علی زین العابدین ع فرماتے ہیں:
مجھے (ایسی) عمر عطا فرما کہ میری طویل عمر سراسر تیری بندگی اور اطاعت میں صرف ہو جائے اور جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے تو میری روح قبض کر لے اور اپنی طرف لے جا۔ (دعائے مکارم الاخلاق)
امام رضا ع نے ارشاد فرمایا:
قسم بخدا ان کو کسی چیز سے عذاب نہیں کیا گیا جو کہ املآء کی سزا سے زیادہ سخت ہو۔ (سفینة البحار ج 2)
استدراج بھی مکر الٰہی کی ایک قسم ہے۔ استدراج کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص قدم بہ قدم بلندی کی طرف جائے یا نیچے اتر آئے اور علمائے اخلاق کے نزدیک اس کے معنی ایک نعمت کے بعد دوسری نعمت سے مالا مال ہونا ہے۔ یعنی بعض لوگ معصیت اور گستاخی کی وجہ سے قہر الٰہی کے مستحق ہو جاتے ہیں اور جب بھی ان کو موقع ملتا ہے ایک نئے گناہ کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ خدا بھی ان پر گناہ کے بعد ایک تازہ نعمت عطا کرتا ہے۔ پس وہ شرمندگی محسوس کرنے, اپنے گناہوں پر پشیمان ہو کر توبہ کرنے اور شکر خدا ادا کرنے کی بجائے سرے سے گناہ ہی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ بلکہ مزید نافرمانی پر نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے باغی انسانوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:
وَٱلَّذِينَ كَذَّبُوا۟ بِـَٔايَـٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (الاعراف ۔ 182)
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ہم انہیں عنقریب آہستہ آہستہ (جہنم) میں لے جائیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔
امیر المومنین ع سے مروی ہے:
بے شک کسی کی ملکیت و جائیداد کو اللہ وسعت دیتا ہے تو وہ اور کچھ گمان نہ کرے۔ یہ توسعہ اور مہلت درحقیقت استدراج ہے۔ وہ (مکر الٰہی) سے بے خوف نہ رہے۔ (بحار ج 15)
لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو خیر فراہم کرانا چاہتا ہے تو جب وہ گناہ کرتا ہے, خدا اُسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ متنبّہ ہو جائے کہ گرفتاری کا سبب میرا گناہ ہے۔ اس لیے استغفار اور توبہ کرتا ہے۔ امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
کوئی بندہ گناہ کرنے لگتا ہے تو اسے مہلت دیتا ہے اور تازہ نعمت فراہم کرتا ہے۔ پس وہ توبہ و استغفار سے باز رکھتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف کھینچتا ہے جس سے وہ غافل اور بے خبر ہو تا ہے۔ اس حالت کو استدراج اور مکر الٰہی کہتے ہیں۔ (وسائل الشیعة, کتاب جہاد, باب 88)
جو لوگ حق تعالیٰ کی عزت و بزرگی اور بے نیازی زیادہ جانتے ہیں اور اپنی حقارت و ذلت اور نیاز مندی سے زیادہ آگاہ ہیں وہ پروردگار عالم سے بہت ڈرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُا۟ (فاطر ۔ 28)
بندوں میں اہل علم ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔
حضرت رسول اکرم ص نے فرمایا:
حکمت اور دانائی کا محور خوف خدا ہے۔ (وسائل الشیعہ باب 14)
انسان جب بھی گناہ کا ارادہ کرے تو اسے عملی جامہ پہنانے سے ڈرنا چاہیئے, شاید وہ ان افراد میں شامل ہو جائے کہ اس گناہ کے مرتکب ہونے کے بعد کبھی بھی رحمت و مغفرت کے قابل نہ رہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
جس نے گناہ کا قصد کر لیا (تو خواہش نفس کو روک لے) اسے چاہیئے کہ عملاً انجام نہ دے۔ بے شک کبھی بندہ گناہ کرتا ہے تو پروردگار اس سے نفرت کرتا ہے اور فرماتا ہے, میری عزت و بزرگواری کی قسم اس کے بعد تجھے نہیں بخشوں گا۔ (اصول کافی)
اس لیے ممکن ہے ہر وہ گناہ جو انسان سے سر زد ہوتا ہے وہ نا قابل معافی ہو۔ اس لیے ہر چھوٹے یا بڑے گناہ کے اقدام سے ڈرنا چاہئے۔ کیونکہ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گناہ جو مغفرت کے قابل نہیں, وہ غالباً ایسے ہوتے ہیں کہ جرأت کرنے والے کی نظر میں چھوٹے اور نا چیز ہوتے ہیں۔ چنانچہ جناب صادق آل محمد ع یوں تنبیہ فرماتے ہیں:
تمہیں چھوٹے گناہوں سے ڈرنا چاہیئے, پس یقینا وہ بخشے نہیں جاتے۔ (راوی کہتا ہے) میں نے عرض کیا, حقیر چیزوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: بندہ گناہوں میں ملّوث ہوتا ہے اور اسے چھوٹا تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں لائق تحسین ہوں کہ میں نے اتنا بڑا گناہ نہیں کیا جتنا کہ فلاں آدمی نے انجا م دیا۔ (وسائل الشیعه کتاب جهاد باب 42)
اس بات سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور عنایت کے بغیر کسی کو عمل خیر نصیب نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کوئی ایک مرتبہ عمل خیر بجا لائے، مگر وہ شکر خدا نہ کرے تو مزید توفیق خدا سے محروم ہو جائے گا۔ بلکہ اس سے ایسا گناہ صادر ہو سکتا ہے جس کے سبب سے گذشتہ اعمال بھی ضائع ہو جائیں اور وہ دونوں جہاں میں رسوا ہو جائے۔
ہم کو اللہ کے سخت ترین امتحانات سے ڈرنا چاہیئے۔ چونکہ تمام اہل ایمان جن مراتب پر فائز ہیں بغیر استثناء، ہمیشہ خطرے سے دوچار ہیں۔ قرآن متنبّہ کرتا ہے:
أَحَسِبَ ٱلنَّاسُ أَن يُتْرَكُوٓا۟ أَن يَقُولُوٓا۟ ءَامَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت - 2)
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی
جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ ع کو منجنیق میں باندھ کر دہکتی ہوئی آگ کی طرف پھینکنے لگے تو آپ ع نے فرمایا, "حسبی اللہ" یعنی میرے لیے خدا کافی ہے ۔ خلیل اللہ ع نے جب بڑی بات کا دعویٰ کیا تو پروردگار نے اُن کا امتحان لینا چاہا اور جبرائیل ع کو بھیجا۔ اس نے عرض کیا: اے ابراہیم ع اگر کسی قسم کی حاجت ہے تو بتاؤ تا کہ میں اس کو پورا کروں۔ حضرت ابراہیم ع نے فرمایا کہ میری حاجت ضرور ہے مگر تجھ سے نہیں۔ جبرائیل ع نے عرض کیا کہ درست ہے لیکن جس سے چاہیئے اس سے تو طلب کر لیں۔ خلیل اللہ ع نے فرمایا, وہ میری حالت سے بے خبر نہیں, اس لیے بولنے کی ضرورت نہیں۔
جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آدھی رات کو میں نے رسول خدا ص کو دیکھا کہ گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہیں اور دونوں ہاتھ بلند کر کے گریہ و فریاد کر رہے ہیں اور یہ دعائیں پڑھ رہے ہیں:
'اللهم لا تنزع منی صالح ما اعطیتنی ابداً اللهم لا تشمت عدواً و لا حاسداً ابداً اللهم لا ترد لی فی سوء استنقذتنی منه ابداً اللهم و لا تکلنی الی نفسی طرفة عین ابداً (بحارالانوار جلد 6 باب مکارم اخلاق)
خدایا تو نے جو نیکی مجھ کو عطا کی ہے اس کو مجھ سے جدا نہ کرنا, خدایا میرے دشمنوں اور حاسدوں کو کبھی بھی خوش نہ رکھنا, خدایا جن برائیوں سے تو نے مجھ کو نکالا ہے اس میں پھر واپس نہ پلٹا دینا, پالنے والے ایک لمحہ کے لئے بھی مجھ کو میرے نفس کے حوالے کبھی نہ کرنا
جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ مجھے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہ حالت اور دعا کے جملے سن کر بے اختیار گریہ گلوگیر ہوا, تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا کیوں نہ روؤں، جبکہ آپ ص انتہائی بلند مقام پر فائز ہیں اور قدر و منزلت کے حامل ہیں تو آپ کی دعائیں اور کیفیت یہ ہے۔ آپ ص نے فرمایا: میں کیوں نہ ڈروں جبکہ حضرت یونس ع کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمحے کے لیے اپنی حالت پر چھوڑ دیا تو وہی ہوا جو ہونا تھا (یعنی خدا تعالیٰ نے تادیب فرمائی اور وہ ایک مدت تک مچھلی کے پیٹ میں رہے)۔ (بحار الانوار)
پیغمبران خدا اور آئمہ اطہار علیہم السلام کا خوف خدا, خصوصاً امیرالمومنین ع کا اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت یاد کر کے بے ہوش ہو جانا اور امام زین العابدین ع کا بارگاہ خدا وندی میں گریہ و زاری اور راز و نیاز, نیز صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس حد تک اللہ سے ڈرتے تھے۔ اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يُوفُونَ بِٱلنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًۭا كَانَ شَرُّهُۥ مُسْتَطِيرًۭا (انسان ۔ 7)
جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی ہر طرف پھیل جانے والی ہے
قرآن میں انبیاء علیہم السلام کی تعریف یوں فرمائی ہے:
إِنَّهُمْ كَانُوا۟ يُسَـٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٰتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًۭا وَرَهَبًۭا ۖ وَكَانُوا۟ لَنَا خَـٰشِعِينَ (الانبیاء ۔ 90)
بے شک یہ (انبیاء) نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور ہم کو بڑی رغبت اور خوف کے ساتھ پکارا کرتے تھے۔ اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے
مومن کو ہمیشہ خوف و رجأ کے درمیان رہنا چاہیئے, یعنی عذاب الٰہی سے ڈرنے والا اور فضل و رحمت خدا کا امید وار ہونا چاہیئے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران ۔ 175)
پس تم ان سے نہ ڈرو، مجھ ہی سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
اس قسم کا ڈر ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ جس سے باعث وہ گناہوں کا ارتکاب تو درکنار ان کے نزدیک بھی نہ جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے:
قُلْ إِنِّىٓ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّى عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ (الانعام ۔ 15)
آپ کہہ دیجئے کہ میں اگر میں گناہ کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
امام محمد باقر ع نے فرمایا:
کوئی مومن بندہ نہیں مگر اس کے دل میں دو نور ہوتے ہیں, خوف کا نور اور امید کا نور۔ ایک کا وزن دوسرے سے زیادہ نہیں ہوگا, بلکہ برابر ہوں گے۔ (اصول کافی)
ابو عبداللہ امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
مومن اہل ایمان نہیں ہو سکتا جب تک اس کے دل میں خوف و رجأ دونوں موجود نہ ہوں, اور نہ ہی اسے خائف اور امیدوار کہا جا سکتا ہے جب تک جس چیز سے وہ ڈرتا ہے اور جس چیز سے امید رکھتا ہے اسے عمل و کردار سے ظاہر نہ کردے۔
لقمان حکیم نے اپنی وصیت کے ضمن میں اپنے بیٹے سے کہا, بیٹا! تم خدا سے اس قدر ڈرو کہ اگر تمام جن و انس کی عبادت و اعمال کے برابر تمہاری نیکیاں موجود ہوں پھر بھی خیال کرو کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے اس حد تک امیدیں وابستہ رکھنا ہیں کہ اگر چہ تمام جن و انس کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ لے کر اس کی درگاہ میں حاضر ہوا پھر بھی وہ تم پر ضرور رحم کرے گا۔ (کافی)
اگر بندہ گناہ گار کو توبہ نصیب ہو تو پھر بھی خائف رہنا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے اس کی توبہ جامع الشرائط نہ رہی ہو۔ اس وجہ سے قبول درگاہ الٰہی نہ ہوئی ہو, اور شاید توبہ کے دوران گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا جو عہد کیا گیا تھا اس پر وفا نہ کرسکے اور توبہ شکنی ہو جائے۔ اسی لیے آخر عمر تک خوف اور امید کے درمیان زندگی گزارنا چاہیئے۔ مثلاً کوئی عبادت و اطاعت بجا لائے تو فضل و کرم الٰہی سے امید رکھنا چاہیئے کہ قبول ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی ڈرتے بھی رہنا چاہیئے کہ کہیں عدل الٰہی جنبش میں نہ آجائے۔ اگر ایسا نہ کیا ہو تو مسترد کر دیا جائے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ محاسبہ کے دوران حقیقی بندگی اس سے طلب کرے۔ صادق آل محمد امام جعفر صادق ع فرماتے ہیں:
مومن ہمیشہ دو خوف کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک تو گذشتہ گناہوں کا خوف ہوتا ہے (اس لیے) وہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا۔ دوسرا وہ اپنی عمر کے خاتمے سے ڈرتا ہے اور یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون کون سے گناہ اس سے سرزد ہوں گے جس سے وہ ہلاکت میں پڑے گا۔ پس مومن صبح نہیں کرتا مگر وہ خوف کی حالت میں اور اس کے امور کی اصلاح بھی خوف کے بغیر نہیں ہو گی۔ (کافی)
جو کوئی اسباب مغفرت کے حصول میں جدوجہد نہیں کرتا تو معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ رحمت الٰہی کا امیدوارنہیں۔ اور بولنے والا یہ جملے کہتا ہے کہ آخرت کے معاملہ میں خدا کریم ہے۔ درحقیقت شیطان اُسے مغرور بناتا ہے اور یہ جملہ اس کی زبان سے جاری کراتا ہے۔ ورنہ یہ کیوں نہیں کہتا ہے امور دنیا میں خدا کریم ہے اور اسی پر قناعت کیوں نہیں کرتا۔ پروردگار عالم نے انسان کی دنیوی زندگی کی بقا کے لیے رزق فراہم کرنے کی ضمانت لی ہے:
وَمَا مِن دَآبَّةٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِ رِزْقُهَا (ھود ۔ 6)
اور زمین پر چلنے والوں میں کوئی ایسا نہیں جس کی روزی خدا کے ذمہ نہ ہو۔
مگر امور آخرت میں کامیابی بندگان خدا کی سعی و عمل سے مربوط رکھی ہے:
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ٣٩ وَأَنَّ سَعْيَهُۥ سَوْفَ يُرَىٰ (النجم: 39, 40)
انسان کے لیے (آخرت میں) نہیں ہے مگر جو کچھ وہ سعی کرتا ہے۔ اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی .
حضرت امیر المومنین ع نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
جو اپنے گمان میں دعویٰ کرتا ہے اور زبان سے کہتا ہے کہ میں رحمت خدا کا امیدوار ہوں، وہ جھوٹا ہے۔ خدائے بزرگ کی قسم اگر سچ کہتا ہے تو اس کی امید کا اثر اس کے عمل میں کیوں پیدا نہیں ہوتا؟
خوف و رجأ باطنی کیفیت ہے۔ یہ عمل کے ذریعے خارج میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ صادق آل محمد ع نے فرمایا:
خوف کی علامت بھاگنا ہے اور امید کی علامت طلب اور نزدیک ہونا ہے۔
پس جو کوئی گناہ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسے خوف نہیں۔ امام جعفر صادق ع نے فرمایا:
خدا سے اس طرح ڈرنا چاہیئے جیسے تم اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ کیونکہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ اگر تم گمان کرتے ہو کہ وہ تم کو نہیں دیکھتا پس تم کافر ہو گئے۔ اگر تم جانتے ہو کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے پھر اس کے باوجود گناہ و معصیت کرتے رہے تو اُسے حقیر ترین ناظر قرار دینے کے مترادف ہے۔ (اصول کافی)
باوجود اس کے کہ حضرت علی ابن ابی طالب ع کا عمل جن و انس کے عمل سے افضل ہے۔ آپ ع جب بھی عظمت و جلالت خداوندی کی طرف متوجہ ہوئے تو اپنی ذات اور اپنے اعمال کو ایک ذرہ کے برابر بھی خیال نہ کرتے تھے۔ مولائے کائنات اپنے ذاتی کمالات، نیک اعمال اور لاثانی مراتب کو سر چشمہ رحمت الٰہی کا فیضان سمجھتے تھے۔ وہ اپنے نفس میں نقص و عاجزی اور عیب کے سوا کچھ اور نہیں پاتے تھے۔ اس لیے ہر وقت گریہ و فریاد کرتے تھے اور آخر میں غش کھا جاتے تھے۔ چنانچہ ابو درداء کہتے ہیں کہ میں نے مولائے کائنات ع سے نہایت دردناک آواز میں سنا:
اے معبود! اس میں شک نہیں کہ میں نے اپنی عمر کی ایک لمبی مدت تیری نافرمانی میں گزاری۔ اس کے باوجود تیرے سوا کسی اور سے مغفرت کی امید نہیں رکھتا اور نہ تیرے سوا کسی اور کی خوشنودی کا خواہشمند ہوں۔ اے معبود حقیقی جب میں تیرے عفو کے بارے میں سوچتا ہوں تو اپنے گناہوں کے بھاری بوجھ کو ہلکا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ اس کے بعد جب تیری قہاریت کو یاد کرتا ہوں تو پریشانی کے بوجھ تلے دب جاتا ہوں۔
ابو درداء کہتے ہیں کہ ان مناجات کے بعد اچانک آواز خاموش ہوئی تو میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ مولا بے ہوش ہو کر گر پڑے ہیں۔ میں نے بازو پکڑ کر حرکت دی تو دیکھا سوکھی لکڑی کی طرح بے جان ہیں۔ مجھے گمان ہو ا کہ شاید میرے مولا رحلت فرما گئے ہیں۔
اسی طرح زرار بن ضمرہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم, ایک اندھیری رات میں سحر کے نزدیک میں نے مولا کو دیکھا کہ اپنے ہاتھ سے اپنی ریش مبارک پکڑی ہوئی ہے اور مار گزیدہ انسان کی طرح تڑپ رہے ہیں اور فریاد و بُکا کر رہے ہیں:
آہ! افسوس زاد راہ قلیل ہے اور فاصلہ طویل ہے، راستہ وحشت ناک اورمنزل خطرناک ہے۔ (نہج البلاغہ)
دعائے کمیل میں ارشادفرماتے ہیں:
یا اللہ ! میری آزمائش بڑھ گئی اور میری بدحالی حد سے گزر گئی اور میرے نیک اعمال بہت ہی کم ہیں۔
خوف کی طرح آپ ع کی امید بھی مشہور ہے۔ آغاز زندگی سے آخر عمر تک عبادات و طاعات میں مشغول رہے۔ ایک لمحہ بھی فارغ نہیں رہے بلکہ بعض اوقات دن رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ تمام زندگی ماہ شعبان کے روزے بلا ناغہ رکھے۔ کبھی تہجد کی نماز نہیں چھٹی۔ یہاں تک کہ جنگ صفین میں لڑائی کی رات جو کہ لیلة الہریر کہی جاتی ہے، نماز تہجد ترک نہیں کی۔ روزے تین شب متواتر صرف پانی سے افطار کیے۔ اپنے حصے کی روٹی یتیم اور مسکین و اسیر کو دیتے رہے۔ اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے باغ کو فروخت کر کے راہ خدا میں ہدیہ کر دیا۔ امیر المومنین کی وصیت کا کچھ حصہ اس طرح ہے:
اللہ کا بندہ علی ابن ابی طالب ع اس امید سے کہ خداوند عالم اس کار خیر کے سبب مجھے بہشت میں داخل کرے گا اور آتش جہنم اس دن مجھ سے دور کردے گا جس دن بعض لوگوں کے چہرے سفید اور کچھ روسیاہ محشور ہوں گے۔ بے شک اپنی ملکیت و جائیداد کو جو کہ یَنْبُعْ اور اس کے مضافات میں واقع ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر صدقہ (وقف) قرار دیتا ہوں۔
اس قدر نیک اعمال و عبادات کے باوجود جب جنگ سے واپس آئے تو روتے ہوئے فرما رہے تھے کہ راہ خدا میں شہادت سے بڑھ کر کوئی اور عمل سعادت کا باعث نہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس فیض سے محروم نہ ہو جاؤں۔ آخر کار حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ ع کو تسلی اور خوش خبری دی کہ اے علی ع تیری عاقبت شہادت پر خاتمہ پائے گی۔