امام علی نقیؑ 15 ذی الحجہ 212ھ کو مدینہ سے قریب سریا نامی جگہ پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد امام محمد تقیؑ تھے اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ تھا۔ کنیت ابوالحسن اور القاب نقی, ہادی, عالم, فقیہ, امین, موتمن, طیب, متوکل, عسکری اور نجیب تھے۔ آپ کو ابوالحسن ثالث بھی کہا جاتا ہے۔ بعض اقوال کی بناء پر 3 رجب 254ھ کو سامرہ میں شہید ہوئے اور وہیں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ آپؑ نے 8 سال اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کی اور 33 سال خود منصب امامت پر فائز رہے۔
ہارون ابن فضل کا بیان ہے کہ میں نے ابوالحسن امام علی نقیؑ سے اس روز ملاقات کی جس دن آپ کے والد ابو جعفر امام محمد تقیؑ کی شہادت ہوئی۔ آپؑ نے فرمایا: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ میرے والد ابو جعفرؑ کی شہادت ہو گئی ہے۔ آپؑ سے پوچھا گیا آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ کے والد کی شہادت ہو گئی ہے؟ فرمایا: خداوندعالم کے سلسلہ میں میرے اندر ایسا خضوع پیدا ہو گیا جو پہلے نہیں تھا۔
اصفہان میں عبدالرحمن نامی ایک شخص تھا جو شیعہ تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم نے تمام لوگوں میں امام علی نقیؑ کی امامت کو ہی کیوں قبول کیا تو اس نے کہا: میں ایک غریب آدمی تھا البتہ گفتگو کرنے میں جری تھا۔ اصفہان والوں نے مجھے ایک سال انصاف طلب کرنے کے لئے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ متوکل کے پاس بھیجا۔ ایک دن میں متوکل کے گھر میں تھا کہ اس نے حکم دیا کہ علی ابن محمد ابن رضاؑ کوبلایا جائے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ متوکل انہیں قتل کرنا چاہتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ ایک علوی ہیں اور رافضی انہیں امام مانتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں امام علی نقیؑ گھوڑے پر سوار وہاں تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔ میں نے جیسے ہی ان کو آتا ہوا دیکھا میرے دل میں ان کی محبت نے جگہ بنا لی اور میں نے دعا کی کہ خدا متوکل کا شر آپ سے دور رکھے۔ جب آپ میرے پاس پہنچے تو مجھ سے فرمایا کہ تیری دعا قبول ہو گئی, تیری عمر طولانی ہو گئی اور تجھے کثیر مال و اولاد عطا ہو گا۔ اس غیر متوقع خبر سے میرا بدن کانپ گیا لیکن میں نے ساتھیوں سے کچھ نہ کہا۔ اس کے بعد میں اصفہان واپس آیا۔ میرے پاس بہت زیادہ مال و دولت آ گیا۔ خدا وند عالم نے مجھے 10 بیٹے عطا کئے۔ اب میری عمر 70 برس سے کچھ زیادہ ہے۔ میں ان کو اپنا امام سمجھتا ہوں جن کو میرے مستقبل کا حال معلوم تھا اور ان کی دعا میرے بارے میں مستجاب ہوئی تھی۔
ابو موسی کا بیان ہے کہ میں نے امام علی نقیؑ سے عرض کیا کہ مجھے کوئی مخصوص دعا تعلیم فرمائیں جسے میں اپنی مشکلات کے حل کے لئے پڑھ لیا کروں۔ آپؑ نے فرمایا: میں اکثر اس دعا کو پڑھتا ہوں اور میں نے خدا سے دعا کی ہے کہ دعا کرنے والے کو اپنی بارگاہ سے مایوس واپس نہ کرے۔
يا عدتي عند العدد ويا رجائي والمعتمد ويا كهفي والسند ، ويا واحد يا أحد ، يا قل هو اللـه احد ، وأسألك اللـهم بحق من خلقته من خلقك ، ولم تجعل في خلقك مثلهم أحداً أن تصلي عليهم (اور اپنی حاجت طلب کرے ۔ ۔ ۔ )
متوکل سے کہا گیا کہ آپؑ کے گھر میں اسلحہ اکٹھا ہے اور آپ خلافت پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس نے چند لوگوں کو حکم دیا کہ رات میں آپ کے گھر پر حملہ کریں۔ جب وہ آپ کے گھر داخل ہوئے تو آپ کو اس حالت میں پایا کہ جسم مبارک پے بالوں سے بنا پیراھن تھا, اور ایک اونی لباس سر پر اوڑھے ریتلی اور سنگریزوں والی زمین پر بغیر قالین کے روبقبلہ بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے, اور آپؑ کے لب ہائے مبارک پر وعدہ و وعید سے متعلق آیات تھیں۔ متوکل کے سپاہی اسی حال میں آپ کو متوکل کے پاس لے گئے۔ جب اس نے امامؑ کو اس حال میں دیکھا تو آپ کا احترام کیا اور اپنے پہلو میں بیٹھایا۔ امامؑ نے اس سے گفتگو کی۔ متوکل آپ کی باتیں سن کر رونے لگا اور عرض کیا: ایک ابوالحسنؑ کیا آپ کے اوپر قرضہ ہے؟ آپؑ نے فرمایا: میں چار ہزار دینار کا مقروض ہوں۔ متوکل نے حکم دیا چار ہزار دینار آپؑ کو دئیے جائیں اور اس کے بعد انتہائی احترام کے ساتھ آپ کو رخصت کر دیا گیا۔
آپؑ نے اپنی امامت کی ابتداء میں تقریباً 20 سال مدینہ میں زندگی گزاری۔ بغداد کے حکمران مدینہ میں اپنے حکام کے ذریعہ آپ کو نگرانی اور پابندیوں میں رکھتے تھے, لہذا آپ کے عقیدت مندوں کو تعلیمات کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مدینہ کے حکام کی شکائت پر آپ کو بغداد بلوا لیا گیا اور وہاں سے سامرہ کے محلہ عسکر جہاں فوجیوں کی رہائش گاہ تھی منتقل کر دیا گیا۔ 243ھ سے آپ کو خفیہ اور فوجی افراد کی شدید نگرانی میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ سے نقل ہونے والی احادیث کی مقدار زیادہ نہیں ہے۔