خلافت کا قصہ یوں ہوا کہ پہلی خلافت مدینہ میں موجود بعض مہاجرین و انصار کی بیعت سے شروع ہوئی، جس میں باقی علاقوں کے لوگوں کی رائے شامل نہیں تھی، اور قرآن کی اس آیت کا سہارا لیا گیا کہ ”و امرھم شوری بینھم“ (اور وہ اپنے کام باہمی مشورے سے انجام دیتے ہیں)، البتہ اسی آیت کا سہارا لے کر منتخب ہونے والے خلیفہ نے خود اسی اصول کو توڑتے ہوئے دوسرے خلیفہ کو ذاتی طور پر نامزد کیا اور اس میں لوگوں سے مشورہ نہیں لیا۔ پھر دوسرے خلیفہ نے وفات سے قبل 6 رکنی شوری قائم کر دی کہ جس کے ذمہ تیسرے خلیفہ کا انتخاب تھا۔ البتہ چند مسلح افراد کو مامور کیا کہ اگر یہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں تو تم ان 6 کے 6 افراد کو قتل کر دو (اب یہ نہیں معلوم کہ یہ قتل کون سے حکم الہی کے تحت انجام پاتا؟ اور ان کا خون کیسے مباح ہو گیا تھا؟ جب کہ اس شوری میں صف اول کے صحابہ شامل تھے جن میں حضرت علیؑ سر فہرست تھے۔) اور پھر یہ بھی نہیں معلوم کہ اگر یہ 6 افراد قتل کر دئیے جاتے تو خلافت کا کیا ہوتا۔
چھے آدمیوں کی یہ کمیٹی Democratic یا جہوری نہیں تھی، بلکہ Aristocratic یا اشرافیہ تھی۔ یعنی اس کے اراکین کو لوگوں نے نہیں چنا تھا بلکہ دوسرے خلیفہ کی طرف سے نامزد کیا گیا تھا۔ پھر انتخاب کے عمومی اصول کے تحت اس کی تعداد طاق نہیں تھی بلکہ حفت تھی۔ یعنی اس طرح کی کمیٹی کے ارکان کی تعداد کو Odd یا طاق رکھا جاتا ہے تاکہ دونوں طرف برابر لوگ نہ ہوں اور کسی فیصلہ تک پہنچا جا سکے۔ البتہ یہ طے کر دیا گیا کہ اگر 3 افراد ایک طرف ہوں اور 3 دوسری طرف تو جس طرف حضرت عثمان ہوں وہ جماعت جیتنے والی ہو گی۔ گویا مکمل طور پر امر کو شوری کے حوالے نہیں کیا اور اس کے اصول خود طے کئے۔
پھر یہ شوری اس طرح تشکیل پائی تھی کہ جس میں خلافت حضرت علی تک نہیں پہنچ سکتی تھی کیونکہ طلحہ کا تعلق "تیم" خاندان سے تھااور حضرت ابوبکر کا بھتیجا تھا اوریہ خاندان حضرت علی کی طرف مائل نہیں تھا۔ سعد بن ابی وقاص کی ماں بھی بنی امیہ سے تھی اور اس کے ماموں اور دوسرے رشتہ دار اسلام اور کفر کی جنگ میں حضرت علی کے ہاتھوں سے قتل ہوچکے تھے اور اسی وجہ سے اس نے حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں بھی آپ کی بیعت نہیں کی تھی اور عمربن سعد جس نے کربلا اور عاشور کے واقعہ میں امام حسین کو شہید کیا وہ اسی کا بیٹا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف، ام کلثوم، حضرت عثمان کی بہن کا شوہر تھا۔
حضرت علی نے خطلبہ شقشقیہ(نہج البلاغہ کاتیسرا خطبہ) میں اس واقعہ کو خلاصہ کے طورپر بیان کیا ہے، آپ نے فرمایا: فصغا رجل منھم لضغنہ ومال لآخر لصہرہ مع ھن وھن۔ان میں سے ایک شخص تو کینہ و دشمنی کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا دامادی اور بعض نا گفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر (حضرت عثمان کی طرف) جھک گیا۔
اس کے علاوہ حضرت عمر نے وضاحت کے ساتھ طلحہ، سعدبن ابی وقاص اور عبدالرحمن کے عیب گنوادییے تھے جو اس بات پرگواہ تھے کہ یہ لوگ خلافت کے مستحق نہیں۔ طلحہ کے متعلق کہا: رسول خدا آیه حجاب کے واقعہ کی وجہ سے اس سے ناراض تھے۔ سعدبن ابی وقاص سے کہا: تم جنگجو ہو لہذا خلافت اورلوگوں کے کام تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ عبدالرحمن بن عوف سے کہا : تم ضعیف مرد ہو اور تمہارے جیسا ضعیف آدمی اس منصب کے لایق نہیں ہے وہ ان باتوں کے ذریعہ فقط حضرت علی اور حضرت عثمان کو ووٹ دے رہے تھے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قبول کرنا لیکن اس میں بھی عثمان کو زیادہ خلافت کا مستحق بتایا ۔
بعید نہیں کہ حضرت عمرنے ایسی کمیٹی منظم کی جس میں ہرحال میں خلیفہ حضرت عثمان ہی کو بننا تھا کیونکہ حضرت عثمان نے (حضرت ابوبکر کے بعد) حضرت عمر کے خلیفہ ہونے کے لئے بہت کام کیا تھا ۔
شاید اسی وجہ سے سیاسی لوگ پیش بینی کررہے تھے کہ حکومت علی کو نہیں ملے گی اور حضرت علی کو کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کرنے سے روک رہے تھے۔ طبری کے بقول ابن عباس نے حضرت علی سے کہا: اس کمیٹی میں نہ جائیں، حضرت علی نے جواب دیا: میں نہیں چاہتاکہ میری طرف سے کوئی مخالفت ظاہر ہو۔ ابن عباس نے کہا: اذاتری ماتکرہ۔ ایسی صورت میں جو آپکے لیے بہتر نہیں ہے اس کو دیکھیں گے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے آپ کو اس خلافت وامامت کے منصب کے لائق دیکھ رہے تھے اس لیے آپ نے جلسہ میں شرکت کی اور دلائل کے ذریعہ آپ نے اپنے حق کو ثابت کیا۔ اس کے علاوہ حضرت علی نہیں چاہتے تھے کہ آپ کو مخالفت سے متہم کیا جایے اور لوگ نہ کہیں کہ اگر حضرت علی اس کمیٹی میں شرکت کرتے تو ان کو ان کاحق مل جاتا اس وجہ سے آپ نے مصلحت اسی میں دیکھی کہ جلسہ میں شرکت کی جائے ۔
شوری کی کاروائی شروع ہوئی اور زبیر نے کہا کہ میں نے اپنی رائے حضرت علیؑ کو دی اور طلحہ نے کہا کہ میں نے اپنی رائے حضرت عثمان کو دی۔ سعد ایک طرف ہٹ گیا، اور بات عبدالرحمن بن عوف کے ہاتھ میں آ گئی۔ وہ جس کو رائے دیتے وہی خطیفہ منتخب ہوا چاہتا تھا۔ عبدالرحمن پہلے حضرت علیؑ کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ میری بیعت لینے کے لئے تیار ہیں اس شرط پرکہ کتاب خدا، سنت پیغمبر اور سیرت شیخین پر عمل کریں۔ حضرت علیؑ نے جواب دیا کہ میں یہ بات ماننے کو تیار ہوں کہ میں کتاب خدا اور سنت رسول اور اس طریقے پر جو میں نے خود منتخب کیا ہے (ذاتی اجتہاد) پرعمل کروں۔ البتہ حضرت عثمان نے اس بات کو قبول کیا اور خلیفہ منتخب ہو گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ کے پاس اچھا موقع تھا، صرف اتنا کہ دیتے کہ میں کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل کروں گا تو بھی عبدالرحمن بن عوف انکار نہ کر سکتے اور بیعت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ لیکن آپؑ نے جب دیکھا کہ کتاب خدا اور سنت رسول کے ساتھ تیسری چیز کا اضافہ کر دیا گیا ہے، تو لازمی جانا کہ اس کے مقابل اپنی حیثیت کا اظہار کریں اور سیرت شیخین کے مقابلے میں اپنی سیرت پر بیعت کی دعوت دی۔ خلافت مولا علیؑ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی اور آپ نے خود ایسا موقف اختیار کیا کہ جانتے تھے کہ اس موقف کے بعد خلافت کا ملنا ممکن نہیں ہو گا، لیکن رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لئے سیرت شیخین اور سیرت علیؑ میں فرق واضح کر گئے۔
آج خلافت کو اسلام کا نظام کہنے والوں کو پہلے یہ طے کرنا چاہئے کہ خلافت کے کونسے ماڈل کو فالو کریں گے۔ کیوں کہ چوتھے خلیفہ کے انتخاب کے وقت سارے ماڈل ناکام ہو گئے۔ پس تسلیم کر لینا چاہئے کہ امامت ہی اسلام کا نظام ہے اور امام مہدیؑ کے ہاتھوں ہی دنیا میں اسلام کی عالمی حکومت قائم ہو گی۔ اور امام مہدیؑ کی امامت کا اعلان خود رسول اکرمؐ نے کیا ہے اور اسے لوگوں پر نہیں چھوڑا۔