شرک کے بعد کوئی گناہ ناامیدی کی نسبت بڑا گناہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ممکن ہے کہ کسی گناہ کا مرتکب انسان توبہ و استغفار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے۔ لیکن مایوس شخص مغفرت کے قابل اس لیے نہیں کہ وہ مغفرت اور بخشش پر بھروسہ نہیں رکھتا، چہ جائیکہ وہ توبہ کرے اور قرب خداوندی کا طلب گار ہو جائے۔ مایوس جب اس سے آگے بڑھتا ہے تو سارے گناہوں میں لاپرواہی سے ملّوث ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ میں گناہ گار اور جہنمی ہوں اور دنیا میں اپنی خواہشات پوری کروں گا۔ مایوسی کفر کے ناپاک آثار کا لازمہ اور رب العزت کی عظمت و شان سے انکار کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نا امیدی گناہ کبیرہ ہے۔
ناامیدی دو طرح کی ہے, یعنی یاس اور قنوط۔
یاس یعنی رحمت خداوندی سے ناامیدی ہے۔ جو لوگ پروردگار عالم کی قدرت، فضل و کرم اور رحمت لامتناہی پر اعتقاد نہیں رکھتے تو اس سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ پس مایوسی باطنی کفر ہے یا پھر اپنے پروردگار کی عظمت و قدرت سے بے خبری اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ نا امیدی کی حالت میں دعا ترک کرنا یاس ہے۔ مایوس انسان کو امید نہیں ہوتی کہ دعا سے منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ قرآن پاک میں اسے کافروں کی صفت قرار دیا گیا:
إِنَّهُۥ لَا يَا۟يْـَٔسُ مِن رَّوْحِ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلْقَوْمُ ٱلْكَـٰفِرُونَ (یوسف ۔ 87)
بے شک رحمت خدا سے نا امید نہیں ہوتا ہے مگر گروہ کفّار۔
رحمت الٰہی کے بارے میں دل نا امیدی راسخ کرنے اور اس کی قباحت محسوس نہ کرنے کو قنوط کہتے ہیں۔ قنوط کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے بدگمانی کرے کہ خدا اس پر رحم نہیں کرتا اور نہ ہی توبہ قبول کرتا ہے۔ جن مصیبتوں میں وہ مبتلا ہے وہ گمان کرتا ہے کہ اپنے بُرے اعمال کی سزا پا رہا ہے۔ پروردگار عالم سے سوء ظن بلا شک گناہ کبیرہ اور مشرکین و منافقین کی صفات میں سے ہے:
وَيُعَذِّبَ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ وَٱلْمُنَـٰفِقَـٰتِ وَٱلْمُشْرِكِينَ وَٱلْمُشْرِكَـٰتِ ٱلظَّآنِّينَ بِٱللَّهِ ظَنَّ ٱلسَّوْءِ (الفتح ۔ 6)
اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں
صحیفہ سجادیہ کی انتالیسویں دعا میں امام زین العابدین ع فرماتے ہیں:
میں تیری نجات سے مایوس نہیں ہوں نہ تجھ سے بدگمان ہوں بلکہ نا امیدی اس لیے چھائی ہوئی ہے کہ میرے نیک اعمال کم اور بُرے اعمال زیادہ ہیں۔ ورنہ تیری ذات اقدس اس سے بلند و برتر ہے کہ کوئی گناہ گار تیری بارگاہ سے مایوس و محروم لوٹے۔
یاس اور قنوط کے درمیان فرق کے بارے میں علماء اخلاق فرماتے ہیں کہ یاس عام موارد میں استعمال ہوتی ہے اور قنوط خاص موارد میں۔ یعنی یاس صرف دل کی نا امیدی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب اس قسم کی باطنی نا امیدی شدت اختیار کر لے اور اس کا اثر خارج میں ظاہر ہو جائے اور عقلاء اس کے کلمات سے درک کر لیں کہ وہ مایوس ہے تو اس حالت کو قنوط کہتے ہیں۔ اور جس کی باتوں سے نا امیدی کے آثار ظاہر ہو جائیں، وہ قانط ہے۔ بعض علماء اخلاق یاس اور قنوط کے درمیان فرق یوں بیان فرماتے ہیں کہ, قنوط دنیوی رحمتوں سے نا امیدی سے تعلق رکھتا ہے, جیسے ارشاد ہوا:
وَهُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ ٱلْغَيْثَ مِنۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوا۟ وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُۥ ۚ وَهُوَ ٱلْوَلِىُّ ٱلْحَمِيدُ (الشعراء ۔ 28)
وہ وہی تو ہے جو بندوں کے نا امید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے اور وہی کارساز اور حمد و ثنا ء کے لائق ہے۔
اور یوں یاس کے بارے میں بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اخروی رحمتوں سے تعلق رکھتی ہے, جیسا کہ ارشاد ہے:
قَدْ يَئِسُوا۟ مِنَ ٱلْـَٔاخِرَةِ (الممتحنه - 13)
در حقیقت آخرت سے مایوس ہو گئے ہیں۔
رحمت الٰہیہ سے قنوط (بدگمانی) اس بات کی علامت ہے کہ بندہ سعادت ابدی سے محروم ہو جائے جبکہ قنوط کی بنا پر عبد و معبود کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے دل میں آغاز پیدائش کا نور جو اس کے بدن خاکی میں چمک رہا تھا وہ بجھ گیا ہے۔ اگر وہ موجود ہوتا تو اس کے دل میں امید بھی باقی رہ جاتی۔ اگر چہ وہ افراط و تفریط کا مرتکب کیوں نہ ہوا ہو، جب حالت ایسی ہے تو وہ رحمت خدا سے دور جہالت کے اندھیرے میں مبتلا ہے۔
لیکن یاس اس بات کی دلیل ہے کہ عبد و معبود کے درمیان گناہ کا پردہ حائل ہے اور فطرت اولیہ کا نور ابھی باقی ہے۔ اپنے پروردگار سے رشتہ امید باندھے ہوئے ہے۔ اس صورت میں حجاب دور ہو سکتا ہے۔ لہٰذا یاس قابل مغفرت ہے اور قنوط عفو و درگزر کے سزاوار نہیں۔ اس لیے قنوط شرک کے عنوان میں داخل ہو تا ہے۔ لہٰذا قنوط انسان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے۔
پروردگار سے حسن ظن رکھنے کا معنی یہ ہے کہ بندہ پوری امید رکھے کہ اگر گناہ سے توبہ کر لے تو اللہ اُسے بخش دے گا اور دعا کرے تو حاجت روائی کرے گا, اور اگر کوئی نیک عمل بجا لائے تو امید رکھنی چاہیئے کہ اللہ قبول کرے گا اور ثواب عنایت فرمائے گا۔ البتہ اچھے اعمال کی طرف اقدام کیے بغیر ثواب کی امید کرنا سراسر جہالت اور گھمنڈ ہے۔ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بالائے منبر سے فرمایا:
قسم اس خدا کی جس کا کوئی شریک نہیں, ہر گز کسی مومن کو دنیا و آخرت کے خیر سے مشرف نہیں فرمایا مگر اپنے پروردگار کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو۔ اس کی ذات سے امید وابستہ رکھتا ہو اور وہ اچھے اخلاق کا مالک ہو اور اپنے آپ کو غیبت مومنین سے باز رکھے۔
قسم ہے اس خدا کی جو وحدہ لا شریک ہے، کسی مومن کو توبہ و استغفار کے بعد عذاب نہیں دیتا مگر جو اللہ سے بدگمان ہو اور اس سے امید باندھنے میں کوتاہی کرے، بد اخلاقی کرے اور مومنین کی غیبت کرے۔
قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی اورمعبود نہیں, اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی مومن کا حسن ظن خدا کو بھی اس کے نیک خیالات کے ساتھ کر دیتا ہے کیونکہ خدا وند عالم کریم ہے۔ اسے حیا مانع ہوتی ہے کہ کوئی بندہ مومن اس سے حسن ظن اور اس کے گمان و امید کے خلاف سلوک کرے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اچھے خیالات رکھا کرو اور اس کی طرف راغب ہو جاؤ۔ (اصول کافی)
جس نے اللہ تعالیٰ کو اس کی قدرت کاملہ، فضل و کرم اور علم و رزاقیّت سے پہچان لیا اور جانتا ہے کہ وہ سارے عوالم امکان کا پیدا کرنے والا اور تمام عوالم وجود کو تربیت دینے والا ہے۔ اس کی قدرت لا محدود، اس کی حکمت و رحمت لا متناہی ہے۔ چنانچہ انسان کو کبھی بھی نا امید نہیں ہونا چاہیئے اور یہ تصوّر بھی نہیں کرنا چاہیئے کہ انسانیت کے اعلیٰ مراتب کیونکر طے کر سکتا ہے؟ اگر چہ اس قسم کی نا امیدی حرام یا گناہ کبیرہ تو نہیں ہے پھر بھی مومن کے لیے یہ گمان زیب نہیں دیتا کہ روحانی درجات کی پیش رفت کے لیے ظاہری اسباب کو موثر سمجھے، مثلاً جوانی کی طاقت، سوچ و سمجھ اور کام کرنے کی صلاحیت اور جذبہ محنت وغیرہ۔ جیسے فضیل بن عیاض، عمران صابی، برہم نصرانی اور صاحب ریاض وغیرہ, یہ لوگ اس وقت خواب غفلت سے بیدار ہوئے جبکہ بڑھاپے سے ضعیف ہو گئے تھے اور عمل و محنت کی طاقت ان سے ختم ہو چکی تھی, مگر جب فضل رحمت خدا موجزن ہوئی تو بلند ترین مقامات پر پہنچ چکے تھے۔
حضرت آسیہ جو کہ فرعون کی بیوی تھیں، نہایت عیش و عشرت سے زندگی گذار رہی تھیں، دنیاوی نعمت و دولت سے مالا مال تھیں، لیکن اچانک ان کا دل نور ایمان سے منوّر ہوا اور اس حد تک آپ کا دل مطمئن و قوی ہو گیا کہ فرعون کی مسلسل اذیتوں اور گوناگوں مصائب کے باوجود آپ کے پائے ثبات میں قطعاً کوئی لغزش نہ آئی اور نہایت پامردی سے آپ اپنے نظریہ پر قائم رہیں۔ اور آپ نے نہایت دلیری کے ساتھ پروردگار عالم اور اس کے رسول حضرت موسیٰ ع پر ایمان لانے کا اعلان کردیا۔ جس وقت آپ کو شہید کیا جا رہا تھا اور آپ آخری سانس لے رہی تھیں تو آپ نے اپنے خالق سے یہ دعا مانگی:
وَضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱمْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ٱبْنِ لِى عِندَكَ بَيْتًۭا فِى ٱلْجَنَّةِ وَنَجِّنِى مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِۦ وَنَجِّنِى مِنَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ (تحریم ۔ 11)
اور اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ﻇالم لوگوں سے خلاصی دے.
جادوگر حضرت موسیٰ ع جیسے جلیل القدر پیغمبر کے مقابلے کے لیے کھڑے ہو گئے تو اچانک لطف و مہربانی پروردگار عالم ان کے شامل حال ہوئی اور حقیقت مجسم ہو کر ان کے سامنے آگئی۔ فوراً ان کی حالت و طبیعت پلٹ گئی۔ یہاں تک کہ فرعون کی سخت دھمکیوں سے بھی ذرہ برابر مرعوب نہیں ہوئے:
لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُم مِّنْ خِلَـٰفٍۢ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ ٤٩ قَالُوا۟ لَا ضَيْرَ ۖ إِنَّآ إِلَىٰ رَبِّنَا مُنقَلِبُونَ (شعراء ۔ 49, 50 )
میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں اطراف مخالف سے کٹوا دوں گا اور تم سب کو سولی پر چڑھوا دوں گا۔ انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں، ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ہی.
ان خوش نصیب لوگوں میں ایک ’مخریق‘ یہودی ہے۔ اُحُد کی جنگ میں اپنے قبیلے والوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں محمد ص ہی سچا اور موعود پیغمبر ہے؟ کہنے لگے: کیوں نہیں۔ تو کہا پھر اس کی نصرت کیوں نہیں کرتے؟ قبیلے والوں نے جواب دیا: آج ہفتہ ہے (یعنی چھٹی کا دن ہے)۔ اس یہودی نے کہا: ہفتہ کی تعطیل دین موسیٰ ع کی رسم تھی۔ وہ اسے منسوخ سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ قبول نہیں۔ جب قوم و قبیلہ سے انکاری جواب ملا تو مخریق تنہا آنحضرت ص کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایمان لے آیا۔ وہ بہت مال دار تھا۔ اس نے اپنی ساری دولت آنحضرت ص کے حوالے کر دی اور خود میدان جنگ میں کفار سے لڑتے لڑتے شہداء سے ملحق ہو گیا۔ کہا جاتا ہے حضور اکرم ص کے اکثر صدقات اس شہید سعید کے مال و دولت سے تھے۔
حر بن یزید ریاحی جس نے سید الشہداء ع کا راستہ بند کر کے واپس جانے سے بھی روک دیا اور کربلا میں ٹھہرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے لیے اتنے بڑے گناہ اور ظلم میں ملوّث ہونے کے بعد بظاہر نجات کی امید نظر نہ آتی تھی لیکن آخر میں منقلب ہو گیا۔ فضل و رحمت الٰہی شامل حال ہو گئی۔ اس نے توبہ کی اور اپنے کیے پر نادم ہوا۔ نتیجتاً شہدائے کربلا کے گروہ میں شرف شمولیت حاصل کر لی۔ اور اس طرح ابدی خوش بختی سے فیض یاب ہوا۔ چنانچہ جب آخری لمحات میں حضرت امام حسین ع اس کے پاس پہنچے تو اُسے بشارت دی:
تو حر (آزاد) ہے جیسے کہ تیری ماں نے تیرا نام رکھا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے دنیا اور آخرت کے صوری و معنوی امور کے لیے علّت و اسباب کو ضروری قرار دیا ہے۔ صوری امور میں اسباب و علل کی مثال یہ ہے کہ جیسے پیٹ بھرنے کے لیے اشیائے خوردنی کا استعمال، پیاس بجھانے کے لیے مشروبات لینا، بیماری کے لیے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا، ناداری و فقیری کے لیے کسب معیشت وغیرہ ۔ اسی طرح معنوی امور میں سبب و علت ضروری ہے جیسا کہ گناہ گار شخص کے عذاب الٰہی سے نجات پانے کے لیے توبہ و ندامت اور ایمان ہیں۔ مقام یقین پر فائز ہونے کے لیے معصوم کی پیروی اور تقوی کے مراتب طے کرنا اور اخروی درجات حاصل کرنے کے لیے عمل میں اخلاص پیدا کرنا وغیرہ لازم ہیں۔
خالق حقیقی تمام اسباب کے بے اثر کرنے پر قادر ہے۔ لہذا صاحبان ایمان کو کبھی بھی اپنی ذات پر بھروسہ و تکیہ نہیں کرنا چاہیئے اور ہر لحظہ بُری حالت میں عمر کے تمام ہونے سے خائف رہنا چاہئے۔ بلعم باعور کمالات اور بلند درجات کی انتہاؤں پر فائز تھا, مستجاب الدعوات تھا۔ لیکن بادشاہ وقت کی خواہش پوری کرنے کی خاطر اپنے زمانہ کے پیغمبر خدا کی مخالفت پر اُتر آیا۔ وہ نفسانی خواہشات کے جال میں پھنس گیا تھا اور جہنم کے ساتویں طبقے (اسفل السافلین) میں ہمیشہ کے لیے گرفتار ہو گیا۔ قرآن مجید میں اسے کتے سے تشبیہہ دی گئی ہے:
فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ ٱلْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ آؤ تَتْرُكْهُ يَلْهَث (اعراف ۔ 176)
تو اس کی مثال اس کتے کی سی ہے جس کو اگر دھتکارو تو بھی زبان نکالے رہے اور اگر چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رہے۔
اسباب اپنے آپ مستقل طور پر اثر انداز ہونے کے قابل نہیں جب تک کہ مسبب الاسباب اس میں تاثیر پیدا نہ کرے۔ خداوند متعال مصلحت کی بنأ پر کبھی موجود اسباب و علل کو بے کار اور بے اثر بنا دیتا ہے تاکہ مومنین اسباب کو مستقل طور پر موثر نہ سمجھ لیں۔ دوسرا یہ کہ کبھی کبھار جہاں کہیں سرے سے اسباب معدوم ہوں اپنی قدرت سے سبب پیدا کرتا ہے تاکہ اہل ایمان کسی حالت میں دل برداشتہ و غمگین نہ ہو جائیں۔ اس مطلب کی وضاحت کے لیے چند مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔
حضرت ابراہیم ع کو جلانے کے لیے بھڑکائی ہوئی آتش نمرود کی حرارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تین میل دور کے فاصلے پر اُڑنے والے پرندے فضا میں اُڑ نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت ع کو منجنیق کے ذریعے دور سے آگ میں پھینکا گیا۔ باوجود اس کے کہ آگ جلانے کی خاصیت رکھتی ہے, قادر مطلق نے جلنے کا اثر اس سے چھین لیا اور آگ سے خطاب کرنے ہوئے فرمایا:
قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ (اانبیاء ۔ 69 )
ہم نے فرمایا اے آگ سرد ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لئے
اسی طرح تیز چھری کا کام کاٹنا ہوتا ہے مگر جب حضرت ابراہیم ع نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ع کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا تو پروردگار عالم نے کاٹنے کے اثر کو ناکارہ بنا دیا۔ اس وقت آپ ع نے چھری کو دور پھینک دیا۔
مشیّت ایزدی کے سامنے اسباب مادّی و معنوی معنی نہیں رکھتے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ ع کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنے کی کوشش کی۔ باوجود قدرت و توانائی کے اللہ تعالیٰ نے اس کے منصوبے کو کیسا خاک میں ملایا کہ حضرت موسیٰ ع نے خود فرعون کے گھر میں اوراس کی گود میں پرورش پائی:
وَقَالَتِ ٱمْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍۢ لِّى وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰٓ أَن يَنفَعَنَآ آؤ نَتَّخِذَهُۥ وَلَدًۭا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (القصص ۔ 9 )
اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائده پہنچائے یا ہم اسے اپنا ہی بیٹا بنا لیں اور یہ لوگ شعور ہی نہ رکھتے تھے.
عام الفیل یعنی جس سال حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پیدا ہوئے، ابرہہ نامی شخص کی سرکردگی میں ہاتھی سوار فوجیوں اور بھاری جمعیت کا لشکر ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر خانہ خدا کو تباہ کرنے کے قصد سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ مگر جہاں سبب کے خالق نے چاہا، وہیں انسان و حیوان سب رُک گئے۔ مسجد حرام جانے کے لیے بہت زور لگایا مگر ہاتھیوں نے ایک قدم آگے نہ بڑھایا۔ دوسری طرف اچانک بے شمار ابابیل نامی پرندے ہر ایک تین عدد کنکریاں (چونچ اور پنجوں میں) پکڑے فضا میں نمودار ہو گئے۔ وہ اصحاب فیل کے اوپر فضا میں چھانے کے بعد ایک کنکری ایک فوجی کے سر پر مارنے لگے۔ ہر ایک کنکری قد کی لمبائی سے گزر کر زمین کے اندر داخل ہوگئی۔ آخر الامر، سب ہلاک ہو گئے۔ ایک فوجی زندہ بچا جس نے شاہ کے دربار میں پہنچ کر مفصّل سرگزشت بیان کی۔
خالق حقیقی ماں کے رحم میں بچے کی نگہداری سے غافل نہیں رہتا وہ غذائی مواد کو حیران کن ترکیب و طریقے سے فراہم کرتا ہے۔ بچہ جب شکم مادر سے باہر آتا ہے تو اس کا معدہ نہایت نازک ہوتا ہے۔ اس لئے وہ نئے عالم کی مختلف اشیاء سے مرکب غذا ہضم کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس بناء پر بچہ کی کیفیّت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس دنیا کی مختلف غذائیں شیر مادر کے ذریعے اسے بہم پہنچاتا ہے۔ جب غذا ہضم کرنے کی طاقت اس کے بدن میں پیدا ہوتی ہے تو اسے کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت مرحمت فرماتا ہے اور اسی طرح دوسری ظاہری وباطنی قوتیں بتدریج پیدا کرتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ اور اس کی مہربانی کو دیکھئے کہ ابتداء پیدائش میں بچہ ضعیف و نا تواں ہوتا ہے اور اپنی نگہداری اور پرورش کے لئے محتاج ہوتا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اللہ ماں کے دل میں شوق محبت بھر دیتا ہے کہ اس طرح کہ ایک آن بھی اس سے جدا ہونا گوارا نہیں ہوتا۔ وہ رات کا آرام دن کا چین اور تمام امکانات اس پر قربان کر دیتی ہے اسی لئے معصوم اپنے دعائیہ جملوں میں ارشاد فرماتے ہیں:
اے پر وردگار تو میرے ماں باپ سے زیادہ شفیق و مہربان ہے۔
سوچنا چاہییے کہ اس کی اور تمام مخلوقات کی حاجت پروردگار عالم کی لامتناہی قدرت کے سامنے ناچیز اور ہیچ ہے۔ اُس قادر مطلق جس نے اس وسیع و عریض کرّہ زمین کو اور ساتوں آسمان جن کی عظمت و آثار سوائے خدا کے کسی اور کو معلوم نہیں، نہایت منظم اور معین نظم و نسق کے ساتھ گردش میں رکھا ہوا ہے، اُس کے حکم کے بغیر سوئی کی نوک کے برابر بھی ایک لمحہ کے لیے پس و پیش کی مجال نہیں۔ عقول بشری اس کی عظمت و قدرت کے احاطہ سے عاجز و حیران ہیں۔ ایسا عظیم و حکیم پروردگار, کیا ایک بندے کی حاجت روائی سے عاجز ہے؟ ہر گز نہیں۔ جب ایسا ہے تو قطع امید کیوں؟
احساس کرنا چاہیئے کہ خداوند عالم نے ماضی میں کن کن ظاہری و باطنی نعمتوں و رحمتوں سے نوازا ہے۔ قادر مطلق نے ظلمات ثلاث (تین تاریکیوں ) یعنی بچہ دانی، رحم اور شکم مادر سے بتدریج سلامتی سے گذار کر عالم وجود میں لایا اور ایک لمحہ بھی اس سے غافل نہیں رہا۔ ہر وقت، ہر مرحلے میں جو کچھ ضروریات تھیں، مانگے بغیر انہیں عطا کیا۔ نہایت خطرناک حالتوں سے نجات عطا کی۔ مختلف امراض سے شفا دی، پریشانیوں اور مشکلات کو آسان فرمایا۔ کتنی ہی نعمتوں سے نوازا۔ باوجود ان سب کے نا امیدی کس لیے؟ کیا وہ ہماری حاجت روائی سے عاجز ہے یا بخیل ہے ؟ یا ہماری حالت سے یکسر بے خبر رہ چکا ہے۔ استغفر اللّٰہ العظیم۔
اللہ تعالیٰ دنیوی و مادّی امور کو ظاہری اسباب موجود نہ ہوتے ہوئے بھی اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کرتا ہے جیسے حضرت ابوالبشر آدم ع کہ وہ ماں اور باپ کے بغیر عدم سے عالم وجود میں آئے اور حضرت مریم ع سے کسی انسان کے چھوئے بغیر حضرت عیسیٰ مسیح ع کا حمل ہوا۔ اگر کوئی شخص لمبی مدت والی کسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس علاج نہیں ہو رہا ہے اور بظاہر نا امید ہے تو یہ بھی دو باتوں سے خالی نہیں۔ پہلی یہ کہ بمطابق احادیث, بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گی۔ دوسری یہ کہ مرض طولانی ہونے کے بعد مایوسی کے عالم میں دعا و مناجات اور صدقہ سے شفا حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح نجات حاصل کرنے کی سعی ہو جاتی ہے۔
حضرت ابراہیم ع ایک سو بارہ دوسری روایت کے مطابق ایک سو بیس سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ نوّے یا ننانوے سال کی ہو گئی تھیں لیکن کوئی اولاد نہ تھی۔ آخرکار رحمت خداوندی حضرت ابراہیم ع و حضرت سارہ کے شامل حال ہوئی اور ان کے یہاں حضرت اسحٰق پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیج کر ان کو بشارت دی کہ آپ کو بیٹا عنایت ہو گا:
قَالَتْ يَـٰوَيْلَتَىٰٓ ءَأَلِدُ وَأَنَا۠ عَجُوزٌۭ وَهَـٰذَا بَعْلِى شَيْخًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَىْءٌ عَجِيبٌۭ ٧٢ قَالُوٓا۟ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِ ۖ رَحْمَتُ ٱللَّهِ وَبَرَكَـٰتُهُۥ عَلَيْكُمْ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ ۚ إِنَّهُۥ حَمِيدٌۭ مَّجِيدٌۭ (ھود ۔ 72, 73)
وہ کہنے لگیں، ہائیں، میں اب بچہ جنوں گی ؟ میں تو بڑھیا ہوں اور میرے میاں بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ انہوں نے کہا کیا تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو؟ اے اہل بیت تم پر خدا کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔ وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے
حضرت زکریا کی عمر شریف ننانوے سال اور ان کی بیوی کی اٹھانوے سال تھی۔ اس قدر ضعیفی کے باوجود آپ رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوئے اور پروردگار عالم سے راز و نیاز کرتے رہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے زکریا ع کی دعا قبول فرمائی اور حضرت یحییٰ متولد ہوئے:
قَالَ رَبِّ إِنِّى وَهَنَ ٱلْعَظْمُ مِنِّى وَٱشْتَعَلَ ٱلرَّأْسُ شَيْبًۭا وَلَمْ أَكُنۢ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّۭا ٤ وَإِنِّى خِفْتُ ٱلْمَوَٰلِىَ مِن وَرَآءِى وَكَانَتِ ٱمْرَأَتِى عَاقِرًۭا فَهَبْ لِى مِن لَّدُنكَ وَلِيًّۭا ٥ يَرِثُنِى وَيَرِثُ مِنْ ءَالِ يَعْقُوبَ ۖ وَٱجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّۭا ٦ يَـٰزَكَرِيَّآ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَـٰمٍ ٱسْمُهُۥ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَل لَّهُۥ مِن قَبْلُ سَمِيًّۭا ٧ قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِى غُلَـٰمٌۭ وَكَانَتِ ٱمْرَأَتِى عَاقِرًۭا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ ٱلْكِبَرِ عِتِيًّۭا ٨ قَالَ كَذَٰلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌۭ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْـًۭٔا (مریم: 4- 9 )
کہ اے میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے (سفید ہو گیا ہے)، لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا. مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت والوں کا ڈر ہے، میری بیوی بھی بانجھ ہے پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما. جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔ اور میرے رب! تو اسے مقبول بنده بنا لے. اے زکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحيٰ ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا. انہوں نے کہا پروردگار میرے ہاں کس طرح لڑکا ہوگا۔ جس حال میں میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں۔ حکم ہوا کہ اسی طرح (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے یہ آسان ہے اور میں پہلے تم کو بھی تو پیدا کرچکا ہوں اور تم کچھ چیز نہ تھے
انسان کو ندامت اور بصیرت حاصل کرنے کے لیے حضرت ایوب ع کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ سات سال یا بنا بر روایت دیگر اٹھارہ سال شدید مرض وتکلیف میں مبتلا ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، بیماری سے شفا عطا فرمائی اور مال و دولت واپس دے دیا:
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُۥٓ أَنِّى مَسَّنِىَ ٱلضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ ٱلرَّٰحِمِينَ (انبیاء ۔ 83)
اور ایوب کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
مایوسی تمام گزشتہ گناہوں سے بدتر ہے۔ چونکہ مایوسی اس بات کی دلیل ہے کہ عبد و معبود کا رشتہ منقطع ہو گیا, ورنہ جب تک ذرہ برابر ایمان کسی کے دل میں موجود رہتا ہے تو اس کا پالنے والے سے لاتعلق ہونا محال ہے۔ یہ سمجھنا چاہئے کہ تنگ دستی و پریشانی میں بھی بسا اوقات حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اگرکوئی زمانے کے حادثات میں مبتلاہوجائے توسمجھنا چاہئے کہ دنیا کی زندگی میں کوئی بھی ان آزمائش اورحادثات سے بچ نہیں سکتا, اور دوسرے یہ کہ ان لوگوں کی پریشانیوں اور برے حالات پرنظررکھنا چاہئیے, جن کی حالت اس سے بدتر ہے۔ اسطرح کے تقابل سے غمزدہ دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ حضرت رسول اکرم ص سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ سارے ہموم وغموم اور سختیاں دور ہونے کیلئے یہ تلاوت کی جائے:
لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ اَللّٰهُ رَبیْ لَا اُشْرکَ به شَیْئًا
تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں ﻇالموں میں ہو گیا . ﷲ میرا رب ہے اور میں کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہراتا۔
مدینہ کا ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نعمت ودولت سے مالا مال تھا, اچانک فقروناداری میں مبتلا ہوگیا۔ چنانچہ امام جعفرصادق ع کی خدمت میں باریاب ہو کر اپنی پریشانی عرض کی۔ آپ نے میری حالت دیکھ کر بہت ترس کھایا اور اظہار ہمدردی کیا۔ نیز یہ اشعار میری تسلّی کیلئے ارشاد فرمائے:
اگرکچھ دن سختی میں رہو تو بے صبری نہ کرنا۔ چونکہ تم نے طویل مدّت آرام و آسائش میں بسر کی ہے۔
پس بے شک ہر سختی کے بعد آسانی ہے۔ اوراللہ کاقول ہرقول سے سچا ہے۔
تومایوس نہ ہونا, بیشک ناامیدی کفر ہے۔ شاید اللہ قلیل مدّت میں تجھے بے نیاز کردے۔
پھراسکے بعد اپنے رب سے بدگمان نہ ہو جانا۔ یقینااللہ اچھے پیرائے میں اپنا وعدہ پوراکریگا۔
اگرلوگوں کی عقلیں رزق پیدا کرنے کاسبب ہوتیں تودنیا کامال ودولت صرف عقلاء کے ہاتھوں میں ہوتا۔
خبردار اگر سختی کے جال میں پھنسو توناامیّد نہ ہونا چونکہ پس پردہ قدرت کے عجیب وغریب کرشمے پوشیدہ ہیں
راوی کہتا ہے جب میں نے امام ع سے یہ اشعارسنے تو اسقدر خوشی اور اطمینان خاطر ہوگیا کہ ناامیدیاں امید میں تبدیل ہوگئیں رحمت کے دروازے میرے سامنے کھلنے لگے اور بہت جلد اللہ تعالیٰ نے غم وفکر سے آزاد کردیا۔
قرآن مجید اورمتواتر احادیث اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ بغیر استثناء و تخصیص کے عمومی طور پر تمام گناہ جو انسان سے سر زد ہوتے ہیں ندامت و توبہ کے بعد قابل بخشش ہیں۔ اور یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں گناہ توبہ و انابہ کے بعد بھی بخشنے کے قابل نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَهُوَ ٱلَّذِى يَقْبَلُ ٱلتَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِۦ وَيَعْفُوا۟ عَنِ ٱلسَّيِّـَٔاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (شعراء ۔ 25)
اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کے) قصور معاف فرماتا ہے اور جو تم کرتے ہو (سب) جانتا ہے
اللہ نے اپنا نام تَوَّابٌ (توبہ قبول کرنے والا), غَفَّارٌ (بخشش کرنے والا), غَفُوْرٌ (زیادہ مغفرت کرنے والا), غَافرُ الذَّنْب (گناہوں سے در گزر کرنے والا), قَابلُ التَّوْب (توبہ قبول کرنے والا) رکھا ہے۔ آیت رحمت میں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَفُوا۟ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا۟ مِن رَّحْمَةِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ (زمر ۔ 53)
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے.
اس آیہ شریفہ میں چند نکات قابل ملاحظہ ہیں:
جابربن عبداللہ انصاری رض سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا ایک عورت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی اگر کوئی عورت اپنے ہاتھ سے اپنے بچے کو قتل کرے تو کیا اس کے لیے توبہ ہے ؟ آپ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جان ہے اگر اس عورت نے 70 پیمغبروں کو بھی قتل کیا ہو اور وہ نادم ہو کر توبہ کرے اور خدا ئے تعالیٰ اس کی سچائی اور خلوص کو جانتا ہو، بایں معنی کہ دوبارہ معصیت نہیں کرے گی اس صورت میں ضرور اس توبہ قبول کر لی جائے گی اور اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے بے شک توبہ کا دروازہ مشرق سے مغرب تک کھلا ہے اور یقینا گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے سرے سے گناہ کیا ہی نہ ہو۔
اگر کوئی شخص شرعی حاجت یا اخروی مطالب کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے لیکن وہ دعا قبولیت حاصل نہ کر سکے اور سائل مایوس ہو جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اَوَّلاً جاننا چاہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس سے وعدہ خلافی ہر گز نہیں ہوتی کیونکہ وہ عمومی طور پر دعا کا حکم فرماتا ہے اور قبولیت کا وعدہ بھی کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (بقرة ۔ 186)
اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے :
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ (مومن ۔ 60)
اورتمہارا پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ خداوند علیم و حکیم کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر دعا کی قبولیت میں تاخیر بھی کر سکتا ہے۔ اس لئے نا امید نہ ہونا چاہیئے۔
کبھی گناہوں کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی اور کبھی دعاء کے قبول درگاہ ہونے میں اس لئے تاخیر ہوتی ہے کہ دعاء بزرگ ترین عبادت ہے۔ اور خدا وند عالم اپنا لطف و کرم بندے کے شامل کرنا چاہتا ہے اور بار بار توفیق دعا دے کر بندے کی آواز بار بار سننا چاہتا ہے اور اسے اپنے مطالب میں کامیاب کرنا چاہتا ہے۔ اور تاخیر کی مدت میں مسلسل توفیق دعاء دینا اپنی جگہ ایک بزرگ نعمت الٰہی ہے۔
علامہ مجلسی حیات القلوب میں حضرت امام محمد باقر ع سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ع آبادیوں اور صحراوں میں اس لئے پھرتے تھے کہ مخلوقات پروردگار سے عبرت حاصل کریں۔ انھوں نے ایک دن کسی میدان میں ایک شخص کونمازپڑھتے ہوئے دیکھا اس کے کپڑے بالوں سے بنائے ہوئے ہیں اورفضا اس کی آواز سے گونج رہی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو اس حالت سے تعجب ہوا اور اس کے نزدیک جاکربیٹھ گئے یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا۔
حضرت ابراہیمؑ نے فرمایاکہ مجھے تمھاری یہ روش پسند آئی۔ چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ دوستی کروں بتاؤ تمھارا گھر کہاں ہے تاکہ جب چاہوں تم سے ملاقات کر سکوں۔ اس نے عرض کی جہاں سے میں گزرتا ہوں وہاں سے تو عبور نہیں کر سکتا۔ فرمایا کیوں ؟ اس نے کہا میں پانی کہ اوپر چلتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا وہ خدا جس نے تم کو پانی کے اوپر چلنے کی قدرت دی ہے وہی خدا میرے لئے بھی پانی کو مسخّر کر سکتا ہے۔ اٹھو! ہم دونوں ایک ساتھ چلیں گے اورآج رات میں تمھارے گھر ٹھہروں گا۔
جب دریا کہ نزدیک پہنچے تواس شخص نے بسم اللہ کہہ کر دریا کوپار کر لیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے بھی بسم اللہ پڑھ کر دریاعبورکرلیا۔ اس شخص کو حیرت ہوئی۔ اس کے بعد دونوں گھرمیں داخل ہوگئے۔ حضرت ابراہیم نے اس شخص سے دریافت کیا کہ کونسا دن تمام دنوں سے زیادہ سخت ہے۔ عابد نے کہا وہ دن سخت ترین ہوگا جب اللہ اپنے بندوں کو اعمال کی جزاء دے گا۔ حضرت ابراہیم نے کہا آؤ ہم دونوں مل کر دعاء کریں کہ خدا ہم کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے فرمایا آؤ ہم دونوں ملکر گنہگارمومنین کیلئے دعاء کریں۔
عابد نے کہا میں دعاء نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ایک حاجت کیلئے تیس سال سے مسلسل دعاء کررہا ہوں، مگر وہ اب تک پوری نہیں ہوئی تو دوسری حاجت کی گنجائش کہاں، لہٰذا میں اس سے مطالبہ ہی نہیں کروں گا۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا :اے عابد جب بھی اللہ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کی دعاء روک لیتا ہے تاکہ وہ بندہ اپنے معبود سے بار بار رازونیازکرے اور طلب کرے۔ اور جب اللہ کسی بندہ سے دشمنی رکھتا ہے تو اسکی دعاء فوراً مستجاب ہو جاتی ہے یا اس کے دل میں مایو سی ڈال دیتا ہے تاکہ وہ دعاء نہ کرے۔
آپؑ نے عابد سے پوچھا بتاؤ تمھاری کیا حاجت تھی جو قبول نہیں ہوئی۔ عرض کیا: ایک دن اسی جگہ جہاں میں نماز پڑھ رہا تھا ایک ایسے بچے کو دیکھا جس کے حسن و جمال سے نورانی چہرہ چمک رہا تھا۔ وہ گائے بھیڑ اور بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ سب کس کے جانور ہیں؟ جواب دیا کہ یہ سب میری ملکیت ہے۔ میں نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں خلیل خدا ابراہیم ع کا بیٹا ہوں اسماعیل۔ اس وقت سے میں دعا کر رہا ہوں کہ: اپنے دوست ابراہیم ع کی زیارت کروا دے اور اسے پہچنوا دے۔
حضرت ابراہیم ع نے فرمایا: اب تیری دعا قبول ہوئی۔ وہ ابراہیم میں ہی ہوں۔ پس عابد خوش ہو گیا۔ حضرت ابراہیم ع کو گلے سے لگایا۔ سر، آنکھوں اور ہاتھوں کو چومنے لگا اور شکر خدا بجا لایا۔ اس کے بعد دونوں نے مل کر مومنین و مومنات کے حق میں دعا کی۔