حضرت عبد العظیم نے امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے اس گناہ کے کبیرہ ہونے پر قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال فرمایا:
وَٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۙ أُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمُ ٱللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوٓءُ ٱلدَّارِ (رعد ۔ 25)
اور جو لوگ خدا سے عہد وپیمان کو پکا کرنے کے بعد توڑڈالتے ہیں اور جن (تعلقات باہمی ) کے قائم رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے انہیں قطع کرتے ہیں اور روئے زمین پر فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لئے لعنت ہے۔ اور ایسے لوگوں کے واسطے برا گھر (جہنّم ) ہے۔
قرآن مجید میں چند مقامات پر وعدے کی پاسداری کو واجب قراردیا گیا ہے اور اس پر تاکید فرماگئی ہے۔ مثلاً ارشاد ہے کہ:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَوْفُوا۟ بِٱلْعُقُودِ (مائدہ ۔ 1)
اے ایمان والو! عہد و پیماں پورے کرو
وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی مذمت میں ارشاد ہوا:
بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ وَٱتَّقَىٰ فَإِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ ٧٦ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ ٱللَّهِ وَأَيْمَـٰنِهِمْ ثَمَنًۭا قَلِيلًا أُو۟لَـٰٓئِكَ لَا خَلَـٰقَ لَهُمْ فِى ٱلْـَٔاخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ ٱللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۭ (آل عمران: 76, 77)
ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے پرہیزگاری کرے تو بے شک خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
ایک اورجگہ ارشاد ہے:
إِنَّ شَرَّ ٱلدَّوَآبِّ عِندَ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ٥٥ ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِى كُلِّ مَرَّةٍۢ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ (انفال: 55, 56)
تمام جانداروں سے بدتر، اللہ کے نزدیک وه ہیں جو کفر کریں، پھر وه ایمان نہ ﻻئیں۔ جن سے آپ نے عہد وپیمان کر لیا پھر بھی وه اپنے عہد و پیمان کو ہر مرتبہ توڑ دیتے ہیں اور بالکل پرہیز نہیں کرتے۔
یہ آیت شریفہ بنی قریظہ کے اُن یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے عہد کیا تھا کہ وہ دشمنان اسلام کا ساتھ نہیں دیں گے۔ لیکن جنگ بدر میں انھوں نے مشرکین کو اسلحہ کی کمک دے کر یہ عہد و پیمان توڑدیا تھا بعد میں رسول سے کہا تھا کہ ہم یہ عہدوپیمان بُھول گئے تھے۔ دوبارہ انہوں نے رسول خدا سے ایسا ہی عہد کیا تھا لیکن جنگ خندق میں ایک بار پھر انھوں نے اسے توڑدیا اور پیغمبراسلام کے خلاف جنگ کرنے کے لئے ابوسفیان سے مل گئے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:مومن کا اپنے مومن بھائی سے وعدہ ایک ایسی نذر ہے جس کا کوئی کفارہ تو نہیں ہے, لیکن جو شخص وعدہ خلافی کرتا ہے وہ خدا کی مخالفت اور دشمنی کا آغاز کردیتا ہے, اور خدا کے غضب کو چھیڑ بیٹھتا ہے! (وسائل الشیعہ، کتاب حج)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السَّلام مالک اشتر سے ان کے عہدے کا حلف لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وعدہ خلافی خدا کے غضب کا باعث بن جاتی ہے۔ (نہج البلاغہ)
حضرت امام محمد باقر علیہ السَّلام فرماتے ہیں, چا ر قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر جلد عذاب نازل ہوتا ہے,
امام زین العابدین علیہ السَّلام سے ابو مالک نے کہا: مجھے آپ دین اسلام کی تمام شرعی باتوں کا خلاصہ بتا دیجئے۔ آپؑ نے فرمایا,
عالم ذر (عالم اروا ح) میں دنیا میں انسانوں کو بھیجنے سے پہلے خدا نے تمام روحوں سے عہدوپیمان کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ دنیا میں ثابت قدم رہیں گئے، کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دیں گے، اپنے پیغمبر کے احکام سے روگردانی نہیں کریں گے اور شیطان کی پیروی نہیں کریں گے تو خدا اس وعدہ وفائی کے صلے میں ان کی کی مدد کرے گا، اپنی رحمت کا سایہ ہر وقت ان پر رکھے گا۔ اور جنّت میں انہیں جگہ دے گا۔ ارشاد ہے کہ :
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَـٰبَنِىٓ ءَادَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا۟ ٱلشَّيْطَـٰنَ (یٰسین ۔ 60)
اے آدم علیہ السَّلام کی اولاد کیا میں نے تم سے یہ وعدہ نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی پرستش نہ کرنا ؟
خدا نے بندوں سے جو وعدے کیئے ہیں ان میں سے ایک دعا قبول کرنے کا وعدہ بھی ہے، لیکن اس وعدے کو پورا کرنے کی ایک شرط بھی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام سے جمیل روایت کرتے ہیں:
جب بندہ خدا سے سچّی نیّت اور خلوص بھرے دل کے ساتھ دُعا مانگتا ہے تو اس کی دُعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب وہ خدائے عزّوجل سے کئے ہوئے اپنے وعدے کو پورا کرلیتا ہے۔ لیکن جب بندہ خدا سے سچّی نیت اورخلوص کے بغیر دُعا کرتا ہے تو اس کی دُعا قبول نہیں ہوتی۔ کیا خدائے تعالیٰ نہیں فرماتا "مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرو تو میں تم سے کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا" (بقرة ۔ 40), پس جو وعدہ وفا کرتا ہے اسی کے ساتھ وفا کی جاتی ہے۔ (سفینہ البحار, جلد اوّل)
عالَم ارواح میں پروردگارعالم نے بندوں کی روحوں سے جو وعدے لئے تھے ان میں امیرالمومنین اور اَئمہ طاہرین کی ولایت کے بارے میں بھی وعدے شامل تھے۔ ہماری روایات کے علاوہ تمام آسمانی کتابوں تک میں اس کا ذکر ہے اور تمام انبیاء کے ذریعے بھی چہاردہ معصومین کی ولایت و محبت کا پیغام پہنچایا گیا ہے۔
پس بندوں کو چاہیئے کہ اپنے پروردگار سے کئے گئے تمام وعدوں کی وفا کریں تا کہ خدا بھی اس کے صلے میں اپنے تمام وعدے وفا کرے۔ ارشاد ہے:
أَوْفُوا۟ بِعَهْدِىٓ أُوفِ بِعَهْدِكُمْ (بقرة ۔ 40)
میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا
دوسری قسم کا وعدہ وہ ہے جو بندہ خود ہی خدائے تعالیٰ سے کرتا ہے مثلاً نذر کرلیتا ہے یا قسم کھا لیتا ہے۔ قسم، عہد یا نذر کا محض دل ودماغ میں عزم کرلینا اور سوچ لینا کافی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ اس کا جملہ زبان سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ مثلًا کہے کہ اگر میں صحت یاب ہو گیا، یا سفر سے صحیح و سالم واپس آگیا تو اتنی رقم خدا کے لے خیرات کروں گا۔ ایسا جملہ منہ سے کہنے سے اس کی پابندی واجب ہوتی ہے، اور محض دل میں سوچ لینے سے واجب نہیں ہوتی۔
عہد کو توڑنے کا کفّارہ دینا واجب ہے۔ اس کا کفّارہ وہی ہے جو رمضان کا روزہ نہ رکھنے اور توڑنے کا ہے۔ یعنی ساٹھ غریبوں کو کھانا کھلانا، یا ساٹھ روزے رکھنا، یا ایک غلام کو آزاد کرنا۔
اور اگر نذر توڑ دی جائے تو اس کا کفّارہ قسم توڑنے کے کفّارے کے برابر ہے۔ یعنی دس غریبوں کو کھانا کھلانا، یا دس لباس سے محروم لوگوں کو لباس دینا۔ یا ایک غلام آزاد کرنا۔ نذر اور قسم کے کفّاروں میں یہ بات بھی ہے کہ اگر آدمی ان تینوں میں سے کوئی سا بھی کفّارہ نہ دے سکتا ہو تو اسے تین مسلسل روزے رکھنا واجب ہوتے ہیں۔
درحقیقت نذر اور قسم بھی خداوند تعالیٰ سے عہد ہے۔ اس لحاظ سے عہد کل تین قسموں کا ہوتا ہے۔ بس یہ لطف خدا وند ہے کہ اگر کوئی آدمی خدا سے عہد کرتے ہوئے ڈرے اور اتنے بڑے کفّارے (یعنی سا ٹھ غریبوں کو کھانا کھلانے یا ساٹھ روزے رکھنے) سے بچنا چاہے تو وہ چھوٹے قسم کے عہد کرسکتا ہے۔ یعنی نذر کرسکتا ہے یا شرعی قسم کھا سکتا ہے۔
وعدے کی تیسری قسم یہ ہے کہ آدمی ایک دوسرے سے عہد و پیمان کرے۔ آیتوں اور بہت سی روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کا وعدہ بھی وفا کرنا واجب ہے اور اسے توڑنا بھی حرام ہے۔ مثلاً سورئہ بنی اسرائیل میں حکم ہے کہ:
وَأَوْفُوا۟ بِٱلْعَهْدِ ۖ إِنَّ ٱلْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔولًا (بنی اسرائیل / اسراء ۔ 34)
اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی
اور سچّے اور متقی لوگوں کی تعریف میں ارشاد ہے:
وَٱلْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَـٰهَدُوا۟ (بقرہ ۔ 177)
جب وعده کرے تب اسے پورا کرے
اسی طرح دوزخ سے نجات پانے والوں اور جنت میں داخل ہونے والوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد ہے کہ :
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِأَمَـٰنَـٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَٰعُونَ (مومنون ۔ 8)
اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام ہیں : اور اپنے مومن بھائی سے کیا ہوا وعدہ پورا کرنا نذر کی طرح واجب ہے، اگرچہ کہ اس وعدے کی خلاف ورزی پر کوئی کفّارہ نہیں ہے۔
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں :
جو شخص خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ جب بھی وہ وعدہ کرے وفا کرے۔ (اصول کافی )
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السَّلام نے فرمایا :
جو شخص لوگوں کے ساتھ معاملہ کرے تو ان پر ظلم نہ کرتا ہو، جب اسے کوئی بات کرے تو جھوٹ نہ بولتا ہو، اور جب ان سے کوئی وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو, تو وہ ایسے لوگوں میں ہوتا ہے کہ جنکا اخلاق کامل ہے، جن کی غیبت حرام ہے، جن کا عادل ہونا ظاہر ہے اور جن سے بھائی چارہ کرنا واجب ہے۔ (اصول کافی )
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مَروی ہے کہ: تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں بھی ہوں گی، وہ منافق ہوگا۔ اگرچہ وہ نماز روزے کا پابند ہو اور خواہ خود کو سچّامسلمان سمجھتا ہو!
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السَّلام وعدہ وفائی اور عہد شکنی کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
بے شک وعدہ وفائی اور سچائی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ میں نے وعدہ وفائی سے بہتر کوئی اور ڈھال نہیں دیکھی جو عذاب سے بچانے والی ہو۔ جس شخص کا روز جزاء پر اعتقاد ہو وہ اپنے وعدے کو نہیں توڑے گا اور عذر خواہی نہیں کرے گا۔ ہم اس زمانے میں زندگی گذاررہے ہیں جس میں لوگ وعدہ خلافی اور دھوکہ بازی کو سیاست اور ہوشیاری سمجھتے ہیں! اور جاہل افراد بہترین بہانہ بازی کو ہنر سمجھتے ہیں ان کو کیا ہو گیا ہے؟ خدا ان کو ہلاک کرے, انہی دھوکہ بازی کے حیلوں میں ایک وعدہ خلافی بھی شامل ہے۔ حیلے کی کوئی بھی وجہ ہوخدا کا حکم اور اسکی نہی مانع ہے کہ میں اس پر عمل کروں۔ پس اپنی آنکھوں کے سامنے بندہ خدا حیلہ کو دیکھ کر بھی اور حیلہ پر قدرت رکھتے ہوئے اسے چھوڑدیتا ہے۔ لیکن جس شخص کو دین کا درد نہیں ہوتا وہ حیلہ کی فرصت کو غنیمت سمجھتا ہے اور چال بازی یا وعدہ خلافی کر بیٹھتا ہے۔ (نہج البلاغہ, خطبہ 41)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السَّلام یہ بھی فرماتے ہیں :
خداکی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ ذہین نہیں ہے۔ لیکن وہ عہد توڑ دیتا ہے اور حق سے منحرف ہوجاتا ہے۔ اگر وعدہ خلافی ناپسندیدہ نہ ہوتی تو میں سب سے زیادہ ہوشیار انسان ظاہر ہوتا۔ لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ کفر (حکم الہی کی نافرمانی) ہے۔ ہر وعدہ خلاف شخص کا ایک پرچم ہوگا جس کے ذریعے وہ قیامت کے دن پہچانا جائے گا۔ (نہج البلاغہ, خطبہ 198)
وعدہ خلافی چونکہ ایک بڑا گناہ کبیر ہ ہے، اس لئے اس خطبہ میں ہر وعدہ خلاف شخص کو ایک طرح کا کافر کہاگیا ہے۔
اسی طرح چھٹے امام علیہ السَّلام کا یہ بھی ارشا د ہے کہ: تین فرائض ایسے ہیں جن کے سلسلے میں خدائے تعالیٰ نے کسی کو ذرا سی بھی چھوٹ نہیں دی۔
حضرت امیر المومنین علیہ السَّلام کا ارشاد ہے کہ:
جو شخص اپنی بیوی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وہ بھی وفا کرنا چاہیئے۔ اس لئے کہ مسلمان اپنے وعدوں کا ہردم لحاظ رکھتے ہیں۔ ہاں البتّہ اگر کسی وعدے کی وجہ سے کوئی حلال چیز حرام ہورہی ہوتو یا کوئی حرام چیز حلا ل ہورہی ہو تو وہ ایسے وعدوں کا لحاظ نہیں رکھتے۔ (کتاب تہذیب)
وعدہ خلافی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے باعث دل میں نفاق اور منافقت کا بیج اُگ جاتا ہے، مرتے وقت آدمی کافرکی موت مرتا ہے، اور قیامت میں وہ منافقین ہی کے ساتھ محشور ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
وَمِنْهُم مَّنْ عَـٰهَدَ ٱللَّهَ لَئِنْ ءَاتَىٰنَا مِن فَضْلِهِۦ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ ٧٥ فَلَمَّآ ءَاتَىٰهُم مِّن فَضْلِهِۦ بَخِلُوا۟ بِهِۦ وَتَوَلَّوا۟ وَّهُم مُّعْرِضُونَ ٧٦ فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًۭا فِى قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُۥ بِمَآ أَخْلَفُوا۟ ٱللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا۟ يَكْذِبُونَ (توبہ: 75-77)
اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیک کاروں میں ہو جائیں گے۔ لیکن جب خدا نے ان کو اپنے فضل سے دیا تو اس میں بخل کرنے لگے اور (اپنے عہد سے) روگردانی کرکے پھر بیٹھے۔ تو خدا نے اس کا انجام یہ کیا کہ اس روز تک کے لیے جس میں وہ خدا کے روبرو حاضر ہوں گے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اس لیے کہ انہوں نے خدا سے جو وعدہ کیا تھا اس کے خلاف کیا اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے
اس آیت شریفہ سے یہ ثابت ہوا کہ عہد شکنی اور جھوٹ ایسے گناہ ہیں جو ایسے نفاق کا سبب بنتے ہیں جو مرتے دم تک آدمی کے دل میں باقی رہتا ہے۔ ان آیات شریفہ کی شان نزول کے بارے میں تفسیر منہجُ الصّادقین میں لکھا ہے کہ:
ثعُلبہ ابن خاطب ایک ایسا عیسائی تھا جو اپنے مذہب میں عبادت اور زہد کے لحاظ سے مشہور تھا۔ ایک دن وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آیا اور اپنی تنگدستی کارونا رویا۔ اس نے آنحضرت سے التماس کی کہ وہ خدا سے اس کی کشادہ حالی کے لئے دُعا فرمائیں۔ آنحضرت نے اسے نصیحت فرمائی کہ: اس حاجت سے دل نہ لگاو اور اپنی غربت پر صبرکرلو۔ رزق کی فراوانی تمہارے لئے خطرناک ہے! تھوڑے پر اگر تم شکر کروگے تو یہ اس بہت سے رزق سے بہتر ہے جس کا تم شکر بجا نہ لاسکو۔ آنحضرت نے فرمایا: خدا کی قسم اگر میں دُعا کروں کہ پہاڑ سونے چاندی کے ہوجائیں اور میرے ساتھ ساتھ حرکت کریں تو حق تعالیٰ ایسا کردے گا۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ غربت کی عاقبت خیر ہے، اور کشادہ حالی کی عاقبت زیادہ تر شر ہوتی ہے! پس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اطاعت کرو اور بات کو مان لو!
ثعلبہ نصرانی نے آنحضرت کی نصیحت قبول نہیں کی اگلے دن وہ پھر آنحضرت کے پاس وہی التماس لے کر آگیا وہ کہنے لگا یا رسول الله! میں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ اگر خدا مجھے فراوانی کے ساتھ مال دے گا تو میں مستحق افراد کے حقوق ادا کروں گا اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کروں گا۔ جب اس نے بہت اصرار کیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خدا وند تعالیٰ سے اس کی غربت دور کرنے کی دُعا کردی۔
خدا وند تعالیٰ نے اس کی بھیڑ بکریوں میں اسے بہت برکت دی ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ مسلمان ہونے کے بعد وہ اپنی بھیڑبکریوں کی حفاظت میں پیغمبر خدا کے ساتھ نماز باجماعت پڑھنا چھوڑ بیٹھا۔ وہ صرف صبح اور شام کی نماز پرا کتفاء کرنے لگا۔ پھر اس کا کام اتنا بڑھ گیا کہ مدینے کے اطراف میں اس کی بھیڑ بکریوں کے لئے جگہ کم پڑگئی۔
وہ اپنی بھیڑ بکریوں کو لے کر صحرا ہی میں بس گیا۔ اب وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز باجماعت پڑھنے سے محروم ہو گیا تھا۔ البتہّ اب بھی وہ نماز جمعہ کے لئے مدینہ آجاتا تھا! پھر بھیڑ بکریوں کے سلسلے میں اس کا دائرہ کا رمدینے کے اطراف کی وادیوں سے بھی آگے پھیل گیا اب وہ نماز جمعہ سے بھی محروم ہوگیا!
ایک دن پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اصحاب سے پوچھا کہ کیا ہوا ثعلبہ ہماری نماز میں حاضر نہیں ہوتا؟
لوگوں نے کہا: اُس کے پاس اتنی زیادہ بھیڑ بکریاں ہیں کہ کسی وادی میں پوری طرح نہیں سماتیں ! اب وہ فلاں وادی میں گیا ہے۔ اور وہیں کا ہوگیا ہے۔ آنحضرت نے یہ سن کر تین بار فرمایا ثعلبہ پر وائے ہو ! ثعلبہ پر وائے ! ثعلبہ پر وائے ہو!
پھر جب زکوٰة واجب ہوئی اور اس کی آیت نازل ہوئی تو آنحضرت نے ایک صحابی کو وہ آیت تحریری صورت میں دی اور قبیلہ بنی سلیم کے ایک آدمی کو اس صحابی کے ساتھ کردیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حکم دیا کہ جب ثعلبہ سے زکوٰة لے لینا تو فلاں بھلے آدمی سے بھی زکوٰة لیتے آنا۔ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس گئے۔ زکوٰة کی آیت دکھائی اور آنحضرت کا خط بھی اُسے دیا جس میں زکوٰة کی شرائط درج تھیں۔ ثعلبہ اتنا مال کی محبت میں مبتلا ہوگیا تھا کہ اس نے کہا: محمد ہم سے جزیہ (ٹیکس) طلب کررہے ہیں! کہیں اور جا کر طلب کرو! جب تک میں اس بارے میں غور کروں گا !
وہ دونوں اُس بَھلے آدمی کے پاس گئے (جوقبیلہ بنی سلیم سے تعلق رکھتا تھا ) اُس نے آیت قرآن اور پیغمبرکا خط دیکھ کر کہا: حکم خدا اور حکم رسول کو سُنتے ہوئے اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے حاضر ہوں!
وہ اپنے اونٹوں کے درمیان گیا۔ اُس نے چھانٹ کرزکٰوة کے لئے بہترین اونٹ نکالے اور کہا یہ پیغمبر اکرم کے پاس لے جائیے دونوں نے کہا بہترین دینا واجب نہیں ہے! اُس نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں خدا و رسول کو بہترین نہ دوں!
و ہ دونوں ثعلبہ کے پاس واپس گئے۔ اُس بدبخت نے وہی پہلی سی بات کی اور زکوٰة دینے سے انکار کردیا!
یہ واقعہ سُن کر آنحضرت نے ایک بار پھر فرمایا : ثعلبہ پروائے ہو! آنحضرت نے اُس دوسرے بُھلے آدمی کے لئے دُعا ئے خیر فرمائی جس نے بہترین طریقے سے زکوٰة دے دی تھی۔
صحابہ کرام تعجب کررہے تھے کہ واقعی ثعلبہ کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بات پہلے ہی مان لینی چاہیئے تھی تا کہ اس حال پر نہ پہنچتا اور ایمان کھو کر مُرتد نہ ہوجاتا! (زکوٰ ة ضروریات دین میں سے ہے اور جو شخص کہے کہ زکوٰة واجب نہیں ہے وہ مُرتد ہوجاتا ہے اور مسلمان نہیں رہتا) سورہ توبہ کی مذکورہ آیتیں ثعلبہ کی مذّمت میں نازل ہوئی ہیں۔
خداوند تعالیٰ نے مشرکوں اور کافروں سے بھی کئے ہوئے معاہدے اور وعدے کو توڑنے کی اجازت نہیں دی ہے، اور اس کی وفا بھی واجب قرار دے دی ہے۔ جب اسلام کی شان وشوکت عروج پر تھی تو سورئہ برائت کی ایک آیت نازل ہوئی جس میں مشرکوں سے جہاد کا حکم دیا گیا تھا۔ مکّہ معظمہ کو شرک اوربُت پرستی سے پاک کردینے کا حکم ملا تھا۔ لیکن ان مشرکوں سے معاہدہ نہ توڑنے کا حکم بھی آیا تھا جو معاہد ہ توڑنے میں پہل نہیں کررہے تھے۔ وہ آیت شریفہ یہ ہے۔
إِلَّا ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّم مِّنَ ٱلْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْـًۭٔا وَلَمْ يُظَـٰهِرُوا۟ عَلَيْكُمْ أَحَدًۭا فَأَتِمُّوٓا۟ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ (توبہ - 4)ابو رافع کہتے ہیں: قریش نے مجھے پیغمبر اسلام کے پاس روانہ کیا کہ جب میں نے آنحضرت کی زیارت کی اور اُن کے نورانی چہرے پر نگاہ کی تو میرے دل میں اسلام کا نور پیدا ہوگیا۔ میں نے آنحضرت سے کہا: یارسول الله ! اب میں قریش کی طرف لوٹ کرواپس نہیں جاوں گا! آپ نے جواب میں فرمایا میں عھد و پیمان کی خلاف ورزی نہیں کروں گا اور قریش کی طرف سے پیغام لانے والے کو اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔ اے ابورافع تم اپنے قبیلے کی طرف لوٹ جاو اس کے بعد اگر تمہارا دل چاہے تو اسلام قبول کرکے ہمارے پاس آجانا۔
بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہده ہو چکا ہے اور انہوں نے کچھ تم سے (وفا عہد میں ) کمی نہیں کی نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
حذیفہ یمانی کہتے ہیں کہ صرف ایک چیز مجھے جنگ بدر میں شریک ہونے سے روکتی رہی تھی، اور وہ یہ تھی کہ میں اور ابو الْحُسَیَلْ باہر جارہے تھے کہ قریش سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ انھوں نے ہم سے کہا : تم محمد کوچاہتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں ہم مدینے کو چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ جب مدینے پہنچ جائیں گے تو ہم پیغمبر اکرم کا جنگ میں ساتھ نہ دیں گے۔ جب ہم پیغمبر اکرم کا جنگ میں ساتھ نہ دیں گے۔ جب ہم پیغمبر اکرم کی خدمت میں پہنچے اور یہ واقعہ سُنا تو آنحضرت نے فرمایا : جنگ میں جانے کا خیال اپنے اس عہد اور وعدے کی وجہ سے چھوڑدو! ہم خدا سے مدد طلب کرلیں گے!
صلح حُدیبیہ کے سلسلے میں سہیل ابن عمر کافروں کی جانب سے رسول خدا کے ساتھ مذاکرات کررہا تھا۔ جب عہد نامہ اورصُلح نامہ لکھنے کا وقت تھا اور ابھی دستخط باقی تھے کہ سہیل کا بیٹا جندل, جس کو اسلام کی طرف مائل دیکھ کر کفّار قریش نے اسکے پیروں میں زنجیر باندھ دی تھی۔ وہ پیروں میں بندھی زنجیر سمیت ہی فرارہو گیا تھا اور مسلمانو ں کے درمیان آکر خود کو مسلمان ظاہر کررہاتھا۔ صلح حدیبیہ تیار کرنیوالے کا فر باپ نے جب یہ حال دیکھا تواپنے بیٹے کے پاس آیا اور ایک طمانچہ رسید کیا۔ پھر اس نے رسول اسلام سے کہا یا محمد! یہ (صلح نامہ) وہ پہلی چیز ہے جو ہمارے درمیان صلح کی راہ استوارکررہی ہے اور اسی کے تحت آپ کو بھی چاہیئے کہ میرابیٹا مجھے واپس دے دیں! صُلح حدیبیہ کے مطابق آنحضرت نے اس کی بات قبول کرلی اور جندل کو اس کے کافر باپ کے حوالے کردیا۔ مگر پہلے یہ شرط لگا دی کہ وہ اسے حفاظت سے رکھے گا اور اذّیت نہیں دے گا۔ اس نے یہ شرط منظور کرلی لیکن جب جندل کو کافروں کے حوالے کرنے کا وقت آیا تو جندل کو کافروں کے حوالے کرنے کا وقت آیا تو جندل کہنے لگا: اے مسلمانوں! میں تو مسلمان ہوگیا ہوں میں اب کس طرح مشرکوں کے درمیان جاوں گا؟ رسول خدا نے اس سے فرمایا: جاو صبر کرو۔ خدا اسی طرح تمہارے لئے آسانی پیداکرے گا۔ ہم نے جو معاہدہ کرلیا ہے، ہم اس کی مخالفت نہیں کرسکتے۔سہیل نے اپنے مسلمان بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور لے گیا۔ لیکن اس نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا اوراپنے بیٹے کو سخت اذّیت دی۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وعدے کی کتنی اہمیت ہے۔
بحارالانوار میں یہ روایت موجود ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے ایک شخص سے وعدہ فرما لیا تھا کہ وہ ایک طے شدہ جگہ پر ایک پتھر کے پاس اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک کہ وہ جا کر واپس آ جائے۔ آنحضرت وہاں رُک گئے لیکن وہ شخص وہاں نہیں آ یا۔ یہاں تک کہ صبح سے دوپہر ہوگئی۔ انتہائی سخت دھوپ آنحضرتؐ کے بدن پر پڑرہی تھی۔ بعض اصحاب نے آنحضرتؐ کو دھوپ برداشت کرتے دیکھ کر کہا: یہاں سے جائیے! فرمایا: میں کسی اور جگہ اس وقت تک نہیں جاسکتا جب تک وہ شخص نہ آجائے۔ آخرکار وہ شخص آگیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ اگر یہ شخص نہ آتا تو میں اپنی موت کے وقت تک یہاں سے نہیں ہٹتا!
حضرت اسماعیل پیغمبرؑ کو قرآن مجید صَادقُ الْوَعْد کے لقب سے یاد کرتا ہے۔ ارشاد ہے کہ:
وَٱذْكُرْ فِى ٱلْكِتَـٰبِ إِسْمَـٰعِيلَ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ صَادِقَ ٱلْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًۭا نَّبِيًّۭا (مریم - 54)
اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے
جب حضرت اسماعیل علیہ السَّلام نے کسی شخص سے وعدہ کرلیا تھا کہ میں اس جگہ اس وقت تک رہوں گا جب تک کہ تم نہ آجاو۔ پھر وہ کم از کم تین شب وروز وہاں رہے لیکن اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ اور مشہور بھی یہی ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السَّلام نے ایک سال تک اس شخص کا انتظار کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سخت تکلیفیں اُٹھائیں، یہاں تک کہ بعض اوقات انہیں درختوں کے چھلکے تک کھانے پڑے!
اگر مجتہدین کے فتووں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تجارت کے یاکسی اور معاملے کے ضمن میں کوئی شرط عائدکی گئی ہو، عہد یا وعدہ لیا گیا ہو، تو اس کی پابندی واجب ہے۔ مثلاًخریدتے وقت اگر آدمی شرط لگادے کہ اگر مال میں کئی عیب نکلا تو وہ اسے دومہینے تک لوٹا سکے گااور دُکاندار مثلًاشرط لگادے کہ اگر مال کو لوٹانا ہو تو اس میں خریدار کا پیدا کیا ہوا کوئی نقص نہ ہو۔ توایسی شرطوں کی پابندی واجب ہے۔ اسی طرح مثلاًاگر مالک مکان کرائے دار پر یہ شرط عائد کردے کہ وہ کسی مہمان کو نہیں رکھے گا تو ایسی شرطوں کی بھی پابندی واجب ہوجاتی ہے۔ معاملے میں دونوں فریقوں میں سے ہر ایک کو دوسرے پرشرط لگانے کا حق حاصل ہوتا ہے۔
یا مثلاً اگر ملازم یہ شرط لگا دے کہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو اس کی تنخواہ ملنی چاہیئے، تو نہ صرف یہ کہ وہ پہلی تاریخ کو مطالبہ کرسکتا ہے، بلکہ زبردستی یا مالک کی لاعلمی میں بھی اپنا حق لے سکتا ہے۔ لیکن اگر معاملے کے درمیان شرط کولازمی کی سی حیثیت نہ دی گئی ہواور شرط کی پابندی کو محض بہتر سمجھا گیا ہو تو نہ تو پابندی واجب ہے اور نہ ہی کسی کا حق بنتا ہے۔
آیات وروایات میں وعدہ وفائی کی اتنی تاکید موجودہے کہ انسان کو ہر قسم کے وعدے کی وفا میں شدید احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔ لیکن اگر آدمی وعدہ نہ کرنا چاہتا ہو، اور وعدہ کرنے پر مجبور ہو تو حرام اور وعدہ خلافی سے بچنے کے لئے وہ لفظ شاید اگر یا انشاء الله وغیرہ استعمال کرسکتا ہے۔ جیسے انشاء الله کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا نے چاہا تومیں ایسا کروں گا۔
ہر وہ عہد، نذر یا وعدہ جس میں انشاء الله کہاگیا ہو، یا کسی بھی زبان میں خدا کی مرضی پر ڈال دیا گیا ہو تو اس کی وفا واجب نہیں رہتی۔ البتّہ اگر شرط یا وعدہ وغیرہ کسی واجب کام کو کرنے یا حرام کام کو ترک کرنے کے سلسلے میں ہو تو اسی صورت میں اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔
یہ بات مد نظر رکھنی چاہیئے کہ عہد، قسم یا نذر بے کار یا شرعی طور پر نا پسندیدہ کام نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں کام حرام یا مکروہ نہیں ہونا چاہیئے۔ مثلًا اگر آدمی قسم کھائے اور عہد کرے کہ وہ فلاں حرام یا مکروہ کام کرے گا تو یہ باطل اور غلط ہے۔ اسی طرح اگر وہ نذر کرے کہ اگر اس کا فلاں کام ہوگیا تو وہ فلاں حرام یا مگروہ کام کرے گا۔ تو یہ بھی غلط ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کام ترک کرنے کی نذر، عہد یا قسم ہوتو وہ کام واجب یا مستحب نہیں ہونا چاہیئے۔
اگرآدمی یہ عہد کرے کہ اگر اس کی بیوی یا اس کے بیٹے نے فلاں بُرا کام انجام دیا تو وہ فلاں سختی کرے گا۔ ایسے عہد پر عمل نہ کرنا اور معاف کردینا بہترہے۔ ارشاد ہے
وَلْيَعْفُوا۟ وَلْيَصْفَحُوٓا۟ ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ ٱللَّهُ لَكُمْ (نور - 22)
بلکہ معاف کردینا اور درگزر کرلینا چاہیئے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟
اگر سختی کرنے یا سزادینے کا عہد یا وعدہ بہت تاکید کے ساتھ ہو تو بہتر یہ ہے کہ کچھ اس قسم کی علامتی سزادے دی جائے کہ نہ تو وہ باقاعدہ سزا ہو اور نہ ہی عہد کی خلاف ورزی شمار ہو۔ مثلًا حضرت ایوب پیغمبرؑ نے جب اپنی بیوی کو ان کی مرضی کے خلاف ایک کام کرتے دیکھا تو انہوں نے قسم کھائی کہ صحت یاب ہونے کے بعد وہ اسے سو تازیانے ماریں گے۔ جب حضرت ایوب علیہ السَّلام صحت یاب ہوئے تو حُکم خدا ہوا کہ:
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًۭا فَٱضْرِب بِّهِۦ وَلَا تَحْنَثْ (صٓ ۔ 44)
اور اپنے ہاتھ میں سینکوں کا مُٹھّا لو (جھاڑو جس میں سوبالیاں ہوں) لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔