شعائراللہ کی توہین

گناہان کبیرہ ۔ شھید آیۃ اللہ عبدالحسین دستغیب شیرازی 15/12/2022 1219

ان محترم اور مقدس چیزوں کی بے حرمتی اور توہین جن کا احترام دین مقدس اسلام میں لازم اور ضروری ہو حرام ہے۔ شعائر خدا کے احترام کو دلوں کا تقوی قرار دیا گیا ہے:

وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ (الحج - 32)
اور جو شعائرﷲ کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے

حرمات الہی کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَـٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌۭ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِۦ (حج - 30)
اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو یہ اس رب کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔

شعائر خدا کی بے احترامی سے منع فرمایا گیا ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُحِلُّوا۟ شَعَـٰٓئِرَ ٱللَّهِ (مائدہ - 2)
اے ایماندارو خدا کی نشانیوں کی بے حرمتی حلال نہ سمجھو۔

تفسیر المیزان میں لکھا ہے احلال, کسی محترم چیز کو لا پرواہی اور بے توجہی سے مباح سمجھنا اور شعائر کے احترام کو ترک کرنا ہے۔ بعض مفسرین کے مطابق اس آیت شریفہ میں حرمات سے مراد کعبہ معظمہ بیت الحرام ہے اس کے علاوہ مسجد الحرام اور مکہ مکرمہ جو کہ بلد الحرام ہے اور حرام مہینے اور دوسری حرمت والی چیزیں (مثلاً قرآن مجید, مساجد اور چھاردہ معصومین علیہم السلام کے مزارات) مراد ہیں۔ (ضمناً عرض کیا جاتا ہے کہ) اہانت کے سلسلہ میں درج ذیل نکات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

  • اہانت کا تصور خود ذات باری تعالی کے بارے میں ہے اور یا ان چیزوں کے بارے میں ہے کہ جنہیں اللہ تعالی نے کوئی خاص فضیلت بخشی ہو, جیسے انبیاء, قرآن, کعبہ و دیگر۔ پس وہ اشخاص یا چیزیں جنہیں لوگوں نے مقدس قرار دے لیا ہے, ان کے تقدس کو دین کا حصہ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پس اگر اللہ نے کسی کو حکومت عطا کی ہو تو وہ شخص حکمران مقدس شمار ہو گا, لیکن اگر لوگ مل کر کسی حکمران کا انتخاب کر لیں تو وہ شخص تقدس کے اس دائرے میں نہیں آتا کہ جو یہاں موضوع بحث ہے۔ انبیاء اور ائمہ بھی اسی لئے مقدس شمار ہوتے ہیں کہ انہیں یہ مرتبہ اللہ تعالی نے عطا کیا ہے اور لوگوں نے عطا نہیں کیا۔
  • اہانت کی تشخیص کے لئے عرف کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ جیسے سعودی عرب, ایران, عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں قرآن کو زمین پر رکھنا توہین شمار نہیں ہوتا لیکن اگر کسی ملک میں اسے توہین شمار کیا جاتا ہو تو وہاں اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔
  • توہین کرنے والا شخص اگر کہے کہ یہ عمل غصہ کی حالت میں اس سے سرزد ہوا, یا مجبور تھا, اور اس کے متعلق یہ گمان بھی ہو سکتا ہو کہ وہ اپنی فطری حالت میں نہیں رہا ہے, تو اس سے صرف نظر کرنا چاہئے۔

قرآن مجید کی بے احترامی کرنا

قرآن مجید کا احترام مذ ہب کی ضروریات میں سے ایک ہے۔ حضرت رسول اکرم ص نے فرمایا:

میں تمہارے درمیان دوگرانبہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں, ان میں قرآن ثقل اکبر ہے, اور میرا یہ وصی (علی بن ابی طالب ع) اور میرے دو بیٹے (حضرات حسنین ع) اور ان کی اولاد (9 امام علیہم السلام) ثقل اصغر ہیں۔ (سفینہ البحار جلد اول)
میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوں گا۔ میرے ساتھ میرا خاندان اور اس کی کتاب ہو گی۔ اس کے بعد میری امت حاضر ہوگی۔ پھر میں ا پنی امت سے پوچھوں گا کہ تم نے کتاب خدا اور میرے اہل بیت سے کیا سلوک روا رکھا؟  (اصول کافی, فضل القرآن حدیث 4)

حضرت امام محمد باقر ع فرماتے ہیں:

قیامت کے دن قرآن کہے گا پرودگار تیرے کچھ بندوں نے میری حرمت کا مکمل خیال رکھا میری حفاظت کی اور میری کسی چیز کو ضائع ہونے نہ دیا, لیکن کچھ دوسرے بندوں نے مجھے ضائع کیا, میرا حق ادا نہیں کیا اور جھٹلایا۔ اس وقت خداوند عالم فرمائے گا, مجھے میری عزت و بزرگی اور بلند مقام کی قسم آج میں بہترین ثواب تمہارے لئے اور بد ترین اور دردناک عذاب کو تمہاری خاطر مقرر کروں گا۔ (اصول کافی جلد 2)

امام جعفر صادق ع سے مروی هے:

خداوند جبار فرماتا ہے, مجھے میری عزت وجلال اور بلندی مقام کی قسم آج میں اس کا احترام کروں گا جس نے تیرا احترام کیا اور اسے ضرور ذلیل کروں گا جس نے تجھے ذلیل کیا۔ (اصول کافی فضل قرآن ج 2 حدیث 14)

قرآن اور اس کے احکام کی توہین کے معنی

ہر وہ کردار و گفتار جو عرف عام میں قرآن کی تذلیل یا ھتک حرمت سمجھی جائے وہ کردار و گفتار حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ یہ حرام اور گناہ کبیرہ اس صورت میں سمجھا جائے گا اگر ہتک حرمت قرآن اور اس کی تذلیل میں مرتکب شخص کا قصد دین اسلام اور شریعت حضرت سید المرسلین (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی توہین نہ ہو, بصورت دیگر اس کا یہ عمل کفر و ارتداد کا موجب ہو گا۔ کیوں کہ توہین قرآن حرام ہے اور یہ ضروریات دین میں سے ایک ہے۔ لہٰذا اگر کوئی جان بوجھ کر قرآن مجید کو پاؤں تلے کچلے یا اسے نجس چیز میں پھینک دے تو بظاہر اس عمل سے دین کی اہانت اور حرمت قرآن سے انکار لازم آتا ہے۔ اس صورت میں ایسا شخص کافر ہے اور اس کا خون بہانا مباح ہو گا۔ مگر وہ تسلیم کرے کہ یہ عمل غصہ کی حالت میں اس سے سرزد ہوا, یا مجبور تھا, اور اس کے متعلق یہ گمان بھی ہو سکتا ہو کہ وہ اپنی فطری حالت میں نہیں رہا ہے۔ قرآن مجید کے احترام سے متعلق اہم نکات درج ذیل ہیں۔

  • اگر ہتک حرمت قرآن ہو رہی ہو اس صورت میں قرآن مجید کی جلد، غلاف، اس کے اوراق (یعنی وہ مقامات جہاں قرآنی حروف وکلمات نہ ہوں جیسے حواشی) اور حروف وخطوط کی توہین بھی حرام ہے۔ ایسی صورت میں ان کا نجس کرنا بھی حرام ہے اور ان کا پاک کرنا بھی واجب ہو گا۔
  • نجس روشنائی سے قرآن کا لکھنا حرام ہے۔ اگر نجس سیاہی سے لکھا جائے یا لکھنے کے بعد نجس ہو جائے تو اس کا پاک کرنا واجب ہے, اور اگر پاک نہ ہو سکے تو اسے محو کر دینا چاہئے۔
  • کسی کافر کے ہاتھ میں قرآن کا دینا حرام ہے بشرطیکہ اس عمل سے قرآن کی بے حرمتی یا حروف کے چھونے کا موجب بنے۔ لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے ایسی صورت میں کافر کے ہاتھ سے قرآن کا واپس لینا واجب ہے۔
  • اگر قرآن مجید یا اس کا کوئی ورق یا معصوم کی روایت یا کوئی انگشتری جس پر خدا کا نام نقش ہو یا تربت سید الشہداء ع یا اسی قسم کے دوسری اشیاء جو دین و مذہب کی نگاہ میں محترم ہوں ان کی توہین حرام اور احترام واجب ہے۔ اگر خدانخواستہ پاخانے میں گر جائے تو فوراً نکالنا اور پاک کرنا واجب ہے, اگرچہ اس پر کتنا ہی خرچ آئے۔ جب تک اسے باہر نہ نکالا جائے وہاں رفع حاجت کرنا حرام ہے۔ اگر باہرنکالنا ممکن نہ ہو تو اسے بند کر دینا چاہئے تا کہ اس میں مزید رفع حاجت کا امکان باقی نہ رہے۔ دینی قابل احترام چیزوں کا نجاست سے باہر نکالنا پاک کرنا وغیرہ کے واجب ہونے کا تعلق صرف مالک یا نجس کرنے والے ہی سے نہیں بلکہ ہر اس مسلمان پر واجب ہوتا ہے جسے اس کے متعلق علم ہو, لیکن یہ واجب کفائی ہے۔ یعنی اگر کوئی ایک فرد اسے انجام دے دے تو دوسروں پر سے وجوب ساقط ہو جائے گا, اور اگر سب کو معلوم ہو نے کے باوجود کوئی بھی اسے انجام نہ دے تو سب کے سب قابل مواخذہ اور جوابدہ ہوں گے۔
  • فقہاء کی ایک جماعت نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ قرآن مجید کی خرید وفروخت حرام ہے۔ بنا بریں صرف قرآن کی جلد اور اس کے صفحات و اوراق کی قیمت کی نیت سے خریدنا یا فروخت کرنا چاہیے۔ یعنی قرآن کی قیمت قرار نہ دے, اور فروخت کرنے والا ہدیہ کے طور پر خریدنے والے کو پیش کرے۔

یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ جس طرح قرآن عظیم کی اہانت و استخفاف گناہ کبیرہ اور حرام ہے, اسی طرح چہاردہ معصومین (علیہم السلام) سے منقول روایات اور احادیث کا مجموعہ جیسے صحیفہ سجادیہ وغیرہ کی ہتک حرمت بھی حرام ہے۔ مثلاً ان کو لا پراوہی سے زمین پھینک دینا یا ان پر پاؤں رکھنا وغیرہ جو عرف عام میں توہین سمجھا جائے, حرام ہے۔

ہتک حرمت کعبہ

قرآن پاک کے بعد عالم اسلام میں کعبہ معظمہ سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز و شریف اور محترم نہیں۔ بلکہ تمام حرم الہی اور شہر مکہ کا احترام ہر فرد مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ کعبہ کی ھتک حرمت نہ صرف گناہ کبیرہ ہے بلکہ بعض حالتوں میں کفر و ارتداد کا موجب بھی ہے۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ کعبہ معظمہ کا مقام, صفا و مروہ سے بڑھ کر ہے اور اعظم شعائر میں سے ہے, کہ جہاں صفا و مروہ کے بارے میں ارشاد ہے:

إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِ (بقرة - 158)
بے شک صفا اور مروه اللہ ٰ کی نشانیوں میں سے ہیں

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:

بیت الحرام کی توہین اوراس کی بے حرمتی کو جائز و مباح سمجھنا گناہ کبیرہ ہے۔

امام جعفرصادق ع سے روائت ہے:

خداوند عزوجل نے روئے زمین پر کوئی ایسا مکان پیدا نہیں کیا جو اس کے نزدیک کعبہ سے زیادہ پسندیدہ اور اس سے بڑھ کر قابل احترام ہو۔ (من لایحضرہ الفقیہ جلد 2)
خداوند عالم کے نزدیک 3 چیزیں اتنی محترم ہیں کہ ان کے مقابلے پر کوئی اور شئے قابل احترام نہیں,

  1. قرآن مجید جو خدا کی حکمت بالغہ اور اس کا نور ہے
  2. وہ بیت جسے لوگوں کے لئے قبلہ قرار دیا گیا
  3. تمہارے نبی ص کی عترت [یعنی آل محمد علیہم السلام] (خصال, صدوق)

حرم میں الحاد

ہر وہ گناہ اورخلاف شرع عمل جو مکہ معظمہ میں واقع ہو وہ بیت اور بلد حرام (حرم الہٰی کی حد ہر طرف سے 4 فرسخ یا 12 میل ہے) کی اہانت اور ہتک کے ضمن میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں جا کر خلاف قانون الہٰی اقدام کرنا اس کی انتہائی بے ادبی، لاپرواہی اور بے حرمتی ہے۔ چنانچہ بعض روایات کے مطابق حرم خدا میں نیک عمل کے انجام دینے سے دگنا ثواب ملتا ہے, اسی طرح حرم میں واقع ہونے والے عمل بد کا گناہ بھی دوسری جگہوں کی نسبت دو گنا ہے۔

روایات اہل بیت اطہار (علیہم السلام) سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے اگر کوئی حرم میں کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جس کیلئے حد یا سزا مقرر کر دی گئی ہو تو اس مقررہ حد سے زیادہ سزاملنی چاہیے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ حرم خدا میں واقع ہونے والے ہر گناہ کے کبیرہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے, چنانچہ ارشاد فرمایا گیا:

وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍۢ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍۢ (حج - 25)
جو بھی ﻇلم کے ساتھ وہاں الحاد کا اراده کرے ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔

یہ یاد رکھئے مکہ معظمہ کی حدود میں جب گناہ صادر ہوتا ہے تو اس سے حرم الہی اور بلد امن کی توہین بھی لازم آتی ہے۔ اس لیے ہتک حرم کا گناہ اس گناہ کے علاوہ ہے یعنی دو گناہ کبیرہ شمار ہوتے ہیں۔ اما م جعفر صادق ع فرماتے ہیں:

ہر وہ ظلم جو لوگ اپنے آپ پر مکہ مکرمہ میں کرتے ہیں جیسا چوری یا کسی پر ظلم کرے یا قانون الہی کی حدود سے تجاوز کرے وہ میری نگاہ میں الحاد ہے۔

حرم محل امن ہے

جناب امام جعفر صادق ع سے کسی ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو حرم کے باہر کسی کو قتل کرے اور پھر وہی شخص حرم میں داخل ہو جائے؟ آپ ع نے فرمایا جب تک حرم میں ہے اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ایسے شخص کا کھانا پینا بند کر دیا جائے, اس سے کسی قسم کا لین دین نہ کیا جائے, اور ٹھہرنے کے لئے جگہ نہ دے, یہاں تک جب وہ حرم سے باہر نکل جائے, تو پھر اس پر حد جاری کی جا سکتی ہے۔

پھر سوال کیا گیا آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو حرم کے اندر کسی کو قتل کرے یا چوری کا مرتکب ہو؟ امام ع نے فرمایا ایسے شخص پر حرم ہی میں حد جاری کر دی جائے گی کیوں کہ اس شخص کے دل میں حرم خدا کے لئے کوئی حرمت باقی نہیں رہی۔

سماعہ نے امام جعفر صادق ع سے پوچھا میرا مال کسی شخص کے پاس تھا وہ ایک مدت تک اپنے آپ کو مجھ سے چھپاتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن کعبہ کے ارد گرد طواف کرتے دیکھا تو کیا میں اس وقت اس سے اپنے مال کا مطالبہ کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس پر سلام نہ کرو(تاکہ وہ تمہیں پہچان جائے) جب تک وہ حرم سے باہر نہ نکل جائے اسے نہ ڈراو۔ (وافی نقل از کافی)

حیوانات کاذبح کرنا اور نباتات کا اکھاڑنا

حرم خدا میں اونٹ، گائے، بھیڑ اور مرغی کے سوا حرم میں موجود دوسرے جانوروں کو ذبخ کرنا حرام ہے۔ مگر سانپ، بچھو، چوہے، مچھر اور ہر موذی جانور اور حشرات کے شر سے بچنے کے لئے مارنا جائز ہے۔ اسی طرح حرم میں اگنے والے کسی درخت یا نباتات کا توڑنا بھی حرام ہے۔

احرام کے بغیر حرم میں داخل ہونا

مکہ معظمہ بلکہ حرم میں بغیر احرام داخل ہونا جائز نہیں۔ یعنی جب بھی حرم اور مکہ معظمہ جائے تو میقات سے احرام باندھنا اور اسی حالت میں داخل ہونا واجب ہے۔ پھر طواف وسعی اور تقصیر کے بعد احرام سے باہر نکل سکتا ہے۔ مگر جس شخص کا حرم اور میقات سے باہر بار بار آمدورفت کا پیشہ ہو جیسے ڈاکیہ، لکڑہارا, چرواہا، ڈرائیور وغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اسی طرح جس کا سابقہ احرام اور حالیہ احرام کے درمیان ایک ماہ سے کم مدت گزر رہی ہو۔

روبہ قبلہ یا پشت کر کے رفع حاجت کرنا

قبلہ کی طرف رخ یا پشت کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنا حرام ہے۔ اگر قبلہ سے تھوڑا دائیں یا بائیں منحرف ہوجائے اورمکمل طور پر روبہ قبلہ یا پشت نہ ہو تو پھرحرام نہیں۔

ہتک حرمت مساجد

ہر وہ عمارت جو مسجد کے نام سے کسی بھی اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ذریعہ بنائی جائے اس کا احترام واجب ہے اور اس کی اہانت مثلاً خراب کرنا یا نجاست سے آلودہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ قرآن مجید میں مساجد کے خراب کرنے کو ظلم کے مراتب میں سے بڑا ظلم شمار کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَـٰجِدَ ٱللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا ٱسْمُهُۥ وَسَعَىٰ فِى خَرَابِهَآ (بقرة - 114)
اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی خرابی کے درپے ہو۔

مسجد کی اہانت خداوند تبارک و تعالیٰ کی اہانت ہے, کیونکہ یہ پروردگار عالم کی طرف منسوب ہے، جیسے ارشاد ہوا:

وَأَنَّ ٱلْمَسَـٰجِدَ لِلَّهِ (جن – 18)
اور یہ کہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں

ابو بصیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی عبد اللہ جعفر صادق ع سے پوچھا کیا سبب ہے کہ مساجد کے احترام کا حکم صادر ہواہے؟ آپ ع نے فرمایا اس کیوجہ یہ ہے کہ مسجدیں زمین پر اللہ کا گھر ہیں۔  (وسائل, کتاب الصلوة, باب 8 ج 3)

مسجد کا نجس کرنا حرام ہے

مسجد کا نجس کرنا حرام ہے نیز کسی نجس العین چیز کا مسجد میں داخل کرنا بھی جس سے مسجد نجس ہونے کا اندیشہ ہو حرام ہے۔ لیکن مسجد نجس نہ ہو اور ہتک ہو جائے تب بھی حرام ہے۔ مسجد سے نجاست دور کرنا اور فوری طور پاک کرنا واجب ہے تا کہ عرف میں یہ نہ کہا جاسکے کہ مسجد پاک کرنے میں تاخیر وغفلت ہوئی ہے۔ واجب فوری سے مطلب یہ ہے کہ مثلاً اگر نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو پہلے مسجد کو پاک کرنا چاہئے, اور یہ پاک کرنا تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے۔ اگر مال خرچ کرنا لازم ہو تو اس کا خرچ کرنا بھی واجب ہے۔

اسی طرح سے جنب شخص، حائض اور نفساء عورت کا مسجد میں ٹھہرنا بھی حرام ہے۔

ہتک حرمت قبور معصومین (علیہم السلام)

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی قبور کی اہانت اور ہتک حرمت بھی گناہ کبیرہ ہے۔ مثلاً قبور معصومین (علیہم السلام) کومنہدم کرنا اور ان کو نجس کرنا بلکہ احتیاط یہ ہے کہ جب نجس اور نجاست کی حالت میں رکھنے سے ہتک حرمت کا موجب بھی نہ بنے پھر بھی احتیاطاً پاک کرنا چاہئے۔ جناب رسول خدا نے امیر المومنین ع سے مخاطب ہو کر فرمایا:

یاعلی خدا نے تمہاری اور تمہاری اولاد کی قبروں کی بہشت کے قطعوں میں سے ایک قطعہ اور بلند مقامات میں سے ایک مقام قرار دیا ہے۔ اس نے اپنی مخلوق میں سے جن کے دل پاک و صاف ہیں اور بندگان خدا میں سے مخلص و منتخب بندوں کا دل تمہاری طرف مائل کیا ہے۔ جو تمہاری محبت کی راہ میں ہر قسم کی تکلیف اور ذلت گوارا کرتے ہیں۔ یہ لوگ تمہاری قبروں کو آباد کریں گے, اور خداوند عزوجل کی خوشنودی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی محبت میں تمہاری قبروں کی زیارت کرتے رہیں گے۔
یا علی !یہی لوگ میری خصوصی شفاعت کے حقدار ہوں گے۔ روز قیامت میرے حوض پر وارد ہوں گے اور میرے ہمسایہ ہوں گے۔ یا علی جو شخص ان کی قبروں کی تعمیر کروائے اور ان کی زیارت کو آئے گا, گویا اس نے بیت المقدس کی تعمیر میں حضرت سلیمان ع کی مدد کی ہے۔ جو شخص ان قبروں کی زیارت کرے اس کے لئے سات غیر واجب حج کا ثواب ہے۔ اس کے گناہ اس طرح معاف کر دئیے جائیں گے جیسا کہ شکم مادر سے ابھی پیدا ہوا ہو۔
یا علی تمہیں بشارت ہو اور اپنے دوستون کو ان نعمتوں کی بشارت دو جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور جو آج تک کسی انسان کے تصور سے نہیں گزرے۔ لیکن کچھ پست انسان ایسے ہوں گے جو آپ کی زیارت کو آنے والوں کی اس طرح توہین و سرزنش کریں گے جیسے کسی بد کار عورت کی سرزنش کی جاتی ہے۔ یہ لوگ میری امت کے شریر افراد ہو ں گے جنہیں میری شفاعت نصیب نہ ہوگی جو کبھی میرے حوض پر وارد نہ ہو سکیں گے۔ (کتاب وافی ابواب الزیارات باب 171)

متعلقہ تحاریر