حضرت ابوطالبؑ

آفتاب حیدر نقوی 09/12/2015 2727

مکہ میں حضرت محمدؐ کی حفاطت کے لئے ابوطالب کے انتظامات بہت گہرے تھے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ رسول اکرم کے انتہائی محبوب اور قابل قدر صحابی تھے۔ رسول اکرمؐ نے ان کے بارے فرمایا کہ ابوذر سے زیادہ سچے شخص کا بوجھ زمین نے نہیں اٹھایا۔ آپؓ مکہ سے باہر کسی گاؤں میں رہتے تھے۔ جب سنا کہ مکہ میں کوئی نبی آیا ہے تو تشریف لائے۔ آپؐ سے ملاقات کے لئے پہلے جناب ابوطالبؑ سے ملنا پڑا۔ آپ نے جناب حمزہ سے ملنے کا کہا۔ جناب حمزہؓ نے جناب جعفرؓ سے اور جناب جعفرؓ نے حضرت علیؑ سے ملنے کا کہا۔ جب ان تمام لوگوں سے مل چکے اور ان لوگوں نے اطمینان کر لیا کہ یہ اجنبی حضرت محمدؐ کو کوئی نقصان تو نہیں پہچائے گا، تو حضرت علیؑ نے آپ کو نبی اکرمؐ سے ملوایا۔ یہ انتظام تھا جو حضرت ابوطالبؑ نے ہمارے نبیؐ کی حفاطت کے لئے کیا تھا، کہ کوئی اجنبی شخص اتنی تحقیق کے بغیر حضور اکرمؐ تک براہ رسائی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔

آپ رات کو حضرت محمدؐ کو اٹھا کر اپنے بیٹوں کے بستر پر سلا دیتے تھے اور اپنے بیٹوں کو حضور اکرمؐ کے بستر پر، کہ اگر کہیں سے جاسوسی ہو جائے اور دشمن رات کو حملہ کرے تو پہلے ہلے میں میرا اپنا کوئی بیٹا قتل ہو جائے اور محمدؐ بچ جائیں۔ جب رسول ۖ بستر پر آرام فرماتے تھے تو ابو طالب آرام نہیں فرماتے تھے اور ان کا قلب ایمان سے سرشار رہتا تھا۔

مزید یہ کہ جب ابوسفیان اور دیگر کفار مکہ نے آپؐ کا سماجی اور معاشی مقاطعہ کیا تو حضرت ابو طالبؑ کے پاس مکہ سے باہر کچھ زمین تھی۔ آپؑ نے اپنے تمام اہل خانہ کو ساتھ لیا اور سب نے وہاں ایک لمبا عرصہ پتے کھا کے گذارا کیا۔ اس گھاٹی کا نام شعب ابی طالب پڑ گیا۔

ایک دن محمد ۖ اپنے چچا کے پاس آئے جبکہ فرحت ان کے درخشاں چہرہ سے عیاں تھی۔ اور فرمایا: چچاخدا نے قریش کے عہد نامہ پر دیمک کو مسلط کردیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ سارا عہد نامہ چاٹ لیاہے۔

ابوطالب نے خوشی سے کہا: کیا تمہارے رب نے تمہیں اس کی خبر دی ہے؟ نبی اکرمؐ نے ہاں میں جواب دیا۔

ابوطالب فورا اٹھے ،ان کا قلب ایمان سے معمور تھا ۔خانہ کعبہ کے پاس گئے ،وہاں دار الندوہ میں قریش کے سردار جمع تھے۔ابوطالب نے ان لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: اے گروہ قریش !

وہ سب بارعب شیخ کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے اور منتظر رہے کہ دیکھئے کیا کہتے ہیں شاید یہ اعلان کریں گے کہ میں محاصرہ سے عاجز آگیاہوں اور اپنا موقف بدل دیاہے لیکن شیخ البطحاء نے کہا: اے گروہ قریش ! میرے بھتیجے محمد ۖ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے عہد نامہ پر خدا نے دیمک کو مسلط کردیاہے اور اس نے خدا کے نام کے سوا ساری عبارت کو چاٹ لیاہے ۔ اگر محمد ۖ سچے ہیں تو ہمارے بائیکاٹ اور محاصرہ سے دست بردار ہوجائو۔

ابوجہل نے کہا: اگر وہ جھوٹے ہیں؟ (معاذ اللہ)۔ ابوطالب نے وثوق وایمان کے ساتھ کہا: میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کردونگا۔ قریش کے سرداوں نے کہا: اس بات پر ہم راضی ہیں ،ہمارا تم سے عہد ومیثاق ہے۔

دیمک کو دیکھنے کے لئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا ۔دیکھا کہ اس نے خدا کے نام کے سوا سارا عہد نامہ کھالیا ہے۔

سارے محاصرین شعب ابوطالب سے نکل آئے ۔محمد ۖ اور ان کے ساتھ ان لوگوں نے جو کہ ایمان لے آئے تھے۔ حج بیت اللہ کی زیارت کے لئے آنے والے وفود کو نور اسلام کو دعوت دینا شروع کردی۔

اب پتہ نہیں کیسے جناب ابوطالب تو کافر رہ گئے اور ابو سفیان مسلمان بن گیا ؟

متعلقہ تحاریر