قرآن کریم کی درج ذیل آیات میں بسم ﷲ کا تذکرہ ہے۔
پہلی آیت میں ہم اس بات کا اعلان و اظہار کرتے ہیں کہ ہم اپنے کام کو رحمان اور رحیم خدا کے نام سے شروع کر رہے ہیں اور اس کے انجام کے لئے بهی اسی سے مدد کے طالب ہیں۔ دوسری آیت میں بعثت پیغمبر اکرمؐ کے آغاز میں جبرائیل کے آنحضرتؐ سے خطاب کی بات ہو رہی ہے جب انہوں نے آنحضرتؐ کو اپنی آغوش میں لے کر دبایا اور کہا "پڑهو اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے کائنات کو خلق فرمایا"۔ یعنی پہلا پروگرام جو آنحضرتؐ کو ملا اسکا آغاز بھی خدا کے نام سے ہے۔ تیسری آئت میں حضرت نوحؑ کی داستان کا تذکرہ ہے جب انہوں نے عذاب الہی کے وقت اپنے مٹھی بھر ساتھیوں جن کی تعداد 80 سے زیادہ نہیں تھی سے فرمایا، " خدا کے نام کے ساتھ اس (کشتی) میں سوار ہو جاؤ، کہ تمہارا چلنا بھی اسی کے نام سے ہے اور تمہارا ٹھہرنا بھی اسی کے نام سے ہے"۔ چوتھی آیت میں حضرت سلیمانؑ کے ملکہ سبا کے نام خط کا تذکرہ ہے جو انہوں ہد ہد سے قوم سبا کی بت پرستی پر مطلع ہونے پر تحریر فرمایا، اور اس کا آغاز بھی بسم ﷲ الرحمن الرحیم سے تھا۔
مندرجہ بالا چاروں آیات سے مجموعی طور پر یہ بات اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ ہر کام کو خدا کے نام سے شروع کیا جانا چاہئے۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
ہر اہم کام جس میں ﷲ کا نام نہ لیا جائے نامکمل اور ادهورا رہ جاتا ہے۔
یہ نکتہ بهی قابل توجہ ہے کہ صرف کہنے پر ہی نہیں بلکہ لکهنے پر بهی تاکید کی گئی ہے کہ ہر تحریر کو ﷲ کے نام سے شروع کیا جائے۔ امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں،
بسم ﷲ کو ترک نہ کرو خواہ ایک شعر ہی کیوں نہ لکهو۔ پهر آپؑ نے فرمایا، قبل از اسلام لوگ اپنے خطوط کا آغاز "بسمک اللهم" کے جملہ سے کرتے تهے، لیکن جب "إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ" کی آیت نازل ہوئی تو تو لوگوں نے اپنے خطوط کو "بسم ﷲ الرحمن الرحیم" کے سرنامہ سے لکهنا شروع کر دیا۔
ﷲ کے نام کو غیر کے نام کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ جیسے وہ طاغوت پرست افراد جو بادشاہوں کے نام کو اس کے نام کے ساتھ ملا کر خدا اور بادشاہوں کے نام کے ساتھ پروگرام کا آغاز کرتے ہیں، یا وہ لوگ جو عوام کے ہمدرد بنتے ہیں اور خدا اور عوام کے نام سے اپنے پروگراموں کا اعلان کرتے ہیں، حتی پیغمبر اکرمؐ کے نام کو بهی اس بارے میں خدا کے نام کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ﷲ اور اس کے رسول کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ تفسیر امام حسن عسکریؑ میں ایک روایت ہے کہ:
ایک دن حضرت رسول خداؐ حضرت علیؑ کے ساتھ بیٹهے ہوئے تهے کہ یہ جملہ آپؐ کے کانوں تک پہنچ گیا، کوئی کہ رہا تها "ماشاءﷲ و شاء محمد، ماشاءﷲ و شاء علی" یعنی جو خدا چاہے اور محمد چاہیں، اور جو خدا چاہے اور علی چاہیں۔ آنحضرتؐ نے یہ سن کر فرمایا، محمدؐ اور علیؑ کے ناموں کو ﷲ کے نام کے ساتھ نہ ملاؤ۔ پهر فرمایا یوں کہا کرو، "ماشاءﷲ ثم شاء محمد، ماشاءﷲ ثم شاء علی" یعنی جو خدا چاہے پهر محمدؐ یا علیؑ چاہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی مشیت اس قدر قاہر و غالب ہے کہ کوئی چیز اس کے برابر مشابہ اور ہم پلہ نہیں ہو سکتی۔ خدا کے دین میں محمدؐ اس قدرت کے سامنے ایک ایسے طائر کی مانند ہیں جو اس وسیع و عریض کائنات میں پرواز کرتا ہے، اسی طرح علیؑ ہیں۔
روایات میں قرآن مجید کی اس آیہ کریمہ یعنی بسم ﷲ الرحمن الرحیم کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اسے اسم اعظم کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادقؑ اور امام علی رضاؑ سے دو مختلف حدیثوں میں کچھ یوں نقل کیا گیا ہے۔
"آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی سے اتنا نزدیک نہیں جتنا بسم ﷲ، اسم اعظم سے نزدیک ہے۔
بسم ﷲ کی اہمیت اس حد تک ہے کہ حضرت رسول خداؐ کی حدیث میں ہم پڑهتے ہیں کہ،
جب استاد بچے سے کہتا ہے کہ کہو بسم ﷲ الرحمن الرحیم تو خدا وند عالم اس بچے کے لئے، اس کے والدین اور استاد کے لئے جہنم سے آزادی کا حکم صادر فرما دیتا ہے۔